پیر، 7 اپریل، 2014

دانائے راز --3



ارشادات ، واقعات ، تعلیمات  اور  طرز فکر 



     حضور قلندر بابا اولیاؒء  کے  مزاج میں شگفتگی اور بذلہ سنجی  کی کمی نہ  تھی ، بعض دفعہ ایسے اشعار بھی بےتکلف سنا  جاتے تھے کہ حاضرین محفل ادب و احترام میں رہتے ہوئے ان کی داد بھی  دیتے تھے اور جواباً بابا صاحب زیر لب مسکراتے تھے ..جیسے

                 جام ہے توبہ شکن توبہ میری جام شکن
                 سامنے ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا 

               اس نے دیوانہ سمجھ کرنہ کیا مجھ سے حجاب                                               چاک    ہو کر   تو   بڑے   کام    گریباں   آیا  
          

                      یہ کالی کالی بوتلیں ہیں جو شراب کی
                      راتیں انہی میں  بند ہیں عہد شباب کی 


نامساعد حالات میں پیش آنے والی مشکلات اور پابندیوں کو صبر اور خوشی سے برداشت کرنے اور ان سے کامیابی سے گزرنے کے لئے دلکش پیرایہ میں اظہار خیال کرتے ہیں

جس کا مفہوم یہ ہے  کہ کم ہمتی اور بے عقلی کے دباؤ میں آکر پیش آنے والی پابندیوں سے فرار ڈھونڈنا دھرے نقصان کا سبب بنتا ہے یعنی ناکامی بھی ہوتی ہے اور نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے -

قلندر بابا اولیاؒء   فرماتے ہیں  ..."     اگر  کوئی پابندی اس نے ( جو حالات کا شکار ہے ) رضاکارانہ برداشت کی تو اس کا فائدہ اس کو ملتا ہے اور وہ فائدہ اس کا انعام ہے -لیکن اگر کوئی مجبوراً پابندی برداشت کرتا  ہے ( کیونکہ اس سے مفر نہیں ) تو اس کے لئے وہی پابندی سزا ہے -

غور طلب یہ ہیکہ وہ انعام سے تو انکار کرتا ہے اور سزا کے لئے ہر وقت آمادہ رہتا ہے اور سزا برداشت کرتا ہے -اس لئے کہ سزا برداشت کرنے کے لئے مجبور ہے -

اگر وہ طرز فکر میں تبدیلی کردے اور رضاکارانہ پابندی برداشت کرلے تو وہ سزا نہیں رہتی بلکہ انعام بن جاتی ہے - یہ وہ بدعقلی ہے جو انسان کو ہمیشہ پریشان  رکھتی ہے -  "...



تحریر ... شیخ فقیر محمّد عظیمی    روحانی ڈائجسٹ  جنوری 1991ء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں