ارشادات ، واقعات ، تعلیمات اور طرز فکر
22 مئی 1963ء کی مجلس میں بابا صاحبؒ کے فرمودات ...
✦..." موجودہ سائنس دان MATTER کو ENERGY اور انرجی کو میٹر کی شکل و صورت میں تبدیل کرنے کا مشاہدہ کرچکے ہیں - قدرت نے انسان کو عجیب و غریب صلاحیتیں بخشی ہیں - اگر وہ ان کو استعمال کرنا چاہے تو قدرت ہمیشہ اس کی اعانت کرتی ہے - اس مقام پر اندازہ ہوتا ہے کہ قدرت کو اپنے رازوں کے متلاشی گروہ سے کس قدر دلچسپی ہے ...
بعض اوقات خواب کا ایک سیکنڈ برس ہا برس کی مدت پر محیط ہوتا ہے - نوع انسانی موجودہ دور تک خواب و خیال کو وہ مقام دینے کے لئے تیار نہیں - خواب کا تجزیہ کئے بغیر ہم بڑی آسانی سے خواب کو رد کرسکتے ہیں لیکن سنجیدگی اس کی اجازت نہیں دیتی ...
نوع انسانی میں شاید ہی کوئی فرد ایسا پیدا ہوا ہو جو خواب کی کیفیات سے روشناس نہیں ہوا - یہ کیسے ممکن ہے کہ نوع انسانی کی نیچر میں یہ کیفیت موجود ہو اور اس کے کوئی نتائج نہ ہوں ...
علم الاسماء تمام کائنات کے مظاہر کی تفصیل ہے اور پھر شے کی تفصیل یہ ہوئی کہ قدرت کے راز شے کے پس پردہ عمل کر رہے ہیں ...
علم الاسماء کی روشنی میں یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ دیکھنے والا کائنات کو اپنے ذہن کے اندر نامعلوم اسکرین پر دیکھتا ہے - اگر دماغ کی سرجری کرکے اس نامعلوم اسکرین کا پتہ چلانے کی کوشش کی جائے تو یہ انسان کے بس کی بات نہیں ...
علم کیا ہے ؟ علم کی حقیقت بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں معلوم ہوگی کہ علم کے پس پردہ ایک خیال یا تصور کام کر رہا ہے اور پوری کائنات اسی ایک خیال کی شکل و صورت کا نام ہے - وہی خیال ذہن کے اندر حرکت میں رہتا ہے اور وہی خیال مشاہدہ میں آکر کائنات کا کوئی نہ کوئی نقش بن جاتا ہے ...
اگر کوئی ہستی لفظ یا خیال پر نزول کر سکتی ہے تو وہی ہستی پوری کائنات پر بھی نزول کر سکتی ہے ...
الله تعالیٰ نے سورہ یٰسین میں فرمایا " ھو " اور وہ ہوجاتا ہے - "ارادہ" اور " ھو " دراصل مرکزیت ارادہ کو حاصل ہے اور ارادہ ہی تخلیق کرتا ہے ...
تخلیق غیر مشروط نہیں ہے -
وقفہ ، وسائل اور MATERIAL سے بالکل آزاد ہے -
ارادہ کے ساتھ ہی ارادہ کی تعمیل ہوتی ہے -
تعمیل کے لئے جو لفظ استعمال کیا جائے وہ لفظ ارادہ کا قائم مقام ہوتا ہے اور اسی طرح ہر شرط سے آزاد ہے جس طرح ارادہ ...
ارادہ خیال یا تصور کو مظاہر کی صورت میں تبدیل کرتا ہے - ارادہ میں زندگی عطا کرنے کی صلاحیت ہے - اگر ارادہ میں صلاحیت موجود نہ ہو تو پھر اس کو ارادہ نہیں کہہ سکتے ...
روحانیت میں کسی ایسی چیز کو ارادہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا جو خیال کو زندگی نہ دے سکتا ہو - ارادہ کے ساتھ عمل ہونا ارادہ کی اولین شرط ہے - رہا لفظ کا معاملہ وہ ہو بہو ارادہ کی تصویر ہوتا ہے جو شرائط ارادہ کی ہیں وہی لفظ کی ہیں - وہ نہ ایک دوسرے سے الگ ہیں نہ الگ کئے جاسکتے ہیں ...
ابتدائے آفرینش سے انسان آواز کا زیر و بم استعمال کرتا ہے اور زیر و بم کے کچھ نہ کچھ معنی متعین کرتا ہے - اس طرز سے استعمال کا مطلب اپنے خیالات کی اشاعت ہوتا ہے ...
جب خیالات بے پایاں وسعت کی سطح سے تخلیق پائیں گے تو پھر ان کا کوئی گوشہ محدود نہیں ہوتا ...
ہم اپنے افکار کو جتنا محدود کرتے چلے جائیں گے اتنا ہی کائنات کے رازوں سے لاتعلق ہوجائیں گے - نوع انسانی کی یہ روش کتنی حیرت ناک ہے کہ وہ اپنے ہاتھ ہی اپنی تباہی کے درپے رہتی ہے اور وہ اعلیٰ اوصاف جو اسے قدرت کے نقش قدم پر چلنے کی دعوت دیتے ہیں کھو بیٹھتی ہے ...
ایک طرف پا بہ گل ہوکر خود کو ناکام اور مجبور پاتی ہے اور دوسری طرف آئندہ نسلوں کے لئے زندگی کو رائیگاں کرنے والا ورثہ چھوڑ جاتی ہے ...
کتنی اندوہناک طرز ہے کہ انسان اپنی صحیح زندگی بیان کرنے کی جرأت نہیں رکھتا - یہ نوع انسانی کی موروثی زندگی کا معمول ہے ...
ہر فرد جس داستان کو آپ بیتی کہہ کر سناتا ہے ، واقعات سے وہ دور پرے کا بھی تعلق نہیں رکھتی - اس حقیقت سے ان الفاظ کی قیمت آشکارہ ہوجاتی ہے جن کو نوع انسانی نے چند لاکھ سال کی زندگی میں بار بار دہرایا ہے - اتنا دہرایا ہے کہ وہ مبالغوں کا بہت بڑا لٹریچر بن گیا ہے "...✦
تحریر ... یوسف علی خان روحانی ڈائجسٹ جنوری 1997 ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں