ہفتہ، 31 مئی، 2014

مشک کی خوشبو



                         کشف   و   کرامات 

  کبھی کبھی بابا صاحبؒ کے سینے میں سے خوشبو کی لپٹیں اٹھتی تھیں اور یہ خوشبو مشک کی ہوتی تھی - جب ایسا ہوتا تو میں بابا صاحبؒ  کے مقدس سینے پر سر رکھ کر اس خوشبو کو سونگھتا تھا اور میرے اوپر مستی اور بے خودی کی ایک کیفیت طاری ہوجاتی تھی -

 کتاب ... تذکرہ قلندر بابا اولیاؒء ... مصنف ---  خواجہ شمس الدین عظیمی  

جمعہ، 30 مئی، 2014

فرشتے


                         کشف   و   کرامات 

میں اکثر رات کو  قلندر باباؒ کی کمر دباتے وقت یہ دیکھتا تھا کہ چھت اور دیواروں میں سے دودھیا رنگ کی روشنی پھوٹ رہی ہے - اندھیرے کمرے میں یہ روشنی اچانک نمودار ہوتی تو میں بعض اوقات سخت خوف زدہ ہوجاتا تھا -

ایک رات میں اتنا خوف زدہ ہوا کہ جسم پر لرزہ طاری ہوگیا -  بابا جیؒ نے میری پیشانی پر ہاتھ رکھا اور فرمایا ...

 " ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے - یہ مردان غیب ہیں -"

پھر یہ بات تقریباً روزانہ کا مشاہدہ بن گئی کہ حضور بابا صاحبؒ لیٹے ہوئے ہیں ، میں کمر دبا رہا ہوں اور کوئی صاحب  حضور بابا صاحبؒ  کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے ہیں -  
میں نے اکثر یہ بھی دیکھا کہ یکایک چکا چوند روشنی ہوگئی اور کوئی فرشتہ بابا صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوا -  بابا صاحبؒ نے کچھ ہدایات دیں اور وہ چلا گیا - 

کتاب ... تذکرہ قلندر بابا اولیاؒء ... مصنف ---  خواجہ شمس الدین عظیمی   

جمعرات، 29 مئی، 2014

مہر کی رقم


                        کشف   و   کرامات

 میرا نکاح ڈھاکہ ، سابق مشرقی پاکستان میں ہوا تھا ، نکاح کے وقت مہر کے مسئلے  پر اختلاف ہوگیا - سسرال والوں کا کہنا یہ تھا کہ مہر کی رقم زیادہ ہونی چاہیئے - میں اس بات پر بضد تھا کہ مہر کی رقم اتنی ہونی چاہیئے جو میں ادا کرسکوں -
جب فریقین کسی نتیجے پر پہنچنے کے لئے تیار نہیں ہوئے تو میں نے دیکھا کہ قلندر باباؒ میرے پاس بیٹھے ہوئے ہیں - حالانکہ وہ اس وقت کراچی میں تھے -

فرمایا ، " لڑکی والے جو مہر باندھ رہے ہیں اسے قبول کرلو -"    

میں نے عرض کیا ، " مجھ میں اتنی استطاعت نہیں ہے -"

بابا جیؒ نے ذرا لہجہ بدل کر فرمایا ، " ہم جو کہہ رہے ہیں اس کی تعمیل کرو -"
 چنانچہ راضی خوشی نکاح کی تقریب پوری ہوگئی - 

کتاب ... تذکرہ قلندر بابا اولیاؒء ... مصنف ---  خواجہ شمس الدین عظیمی   

بدھ، 28 مئی، 2014

میں نے ٹوکری اٹھائی



 کشف   و   کرامات 

  ایک رات تقریباً ساڑھے گیارہ بجے کا وقت تھا کہ

 بابا صاحبؒ نے ارشاد فرمایا ... " مچھلی مل جائے گی ؟ "

میں نے عرض کیا ..." حضور! ساڑھے گیارہ بجے ہیں - میں کوشش کرتا ہوں کسی ہوٹل میں ضرور ملے گی -"  

بابا صاحبؒ نے فرمایا ..." نہیں ہوٹل کی پکی ہوئی مچھلی میں نہیں کھاتا - گھر میں پکی ہوئی مچھلی کو دل چاہ رہا ہے -" 

میں شش و پنج میں پڑ گیا کہ اس وقت کچی مچھلی کہاں سے ملے گی - اس زمانے میں ناظم آباد کی آبادی بہت کم تھی - بہرحال ، میں نے اپنے دل میں یہ سوچ لیا کہ مچھلی ضرور تلاش کرنی چاہیئے -

یہ سوچ کر میں نے ٹوکری اٹھائی تو  بابا صاحبؒ نے فرمایا ، 

" اب رہنے دو ، صبح دیکھا جائے گا -"

ایک گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا کہ کسی نے دروازے پر دستک دی - باہر جا کر دیکھا تو ایک صاحب ہاتھ میں رہو مچھلی لئے کھڑے ہیں -

انہوں نے کہا " میں ٹھٹھہ سے آرہا ہوں اور یہ مچھلی بابا قلندرؒ کی نذر ہے -"   

یہ کہتے ہی وہ رخصت ہوگئے -

کتاب ... تذکرہ قلندر بابا اولیاؒء ... مصنف ---  خواجہ شمس الدین عظیمی   

منگل، 27 مئی، 2014

موسلا دھار بارش



                          کشف   و   کرامات  


  حضور قلندر بابا اولیاؒء کا معمول تھا کہ ہفتے کے روز شام کے وقت وہ اپنےگھر جاتے تھے اور اتوار کی شام واپس تشریف لے آتے تھے -

ایک مرتبہ اتوار کے روز مغرب سے کچھ پہلے بارش شروع ہوگئی ، شدید اور موسلا دھار بارش - میں نے یہ سوچ کر کہ بارش بہت تیز ہے اور حضور بابا جیؒ تشریف نہیں لائیں گے ، گھر کے دروازے بند کر دیئے اور سونے کے لئے لیٹ گیا - 


کچھ دیر بعد میری آنکھ کھلی تو دیکھا کہ حضور بابا جیؒ تخت پر بیٹھے ہوئے ہیں - میں نے سمجھا کہ انتظار کرتے کرتے میں سوگیا تھا ، اس لئے  شاید خواب دیکھ رہا ہوں - لیکن جب میں چارپائی پر اٹھ کر بیٹھا تو بابا جیؒ نے مجھے آواز دی -    
میں حیرت زدہ  ہوکر نہایت تیزی کے ساتھ اور گھبراہٹ کے عالم میں چارپائی سے اٹھا اور بابا صاحبؒ کے قریب جاکر پوچھا -


" اتنی تیز بارش میں آپ کیسے تشریف لائے ؟ "

 بابا جیؒ مسکرائے اور فرمایا  " بس ، میں آگیا -"

میں نے بابا صاحبؒ کی شیروانی اٹھائی تا کہ اس کو کھونٹی پر لٹکا دوں تو یہ دیکھ کر مزید حیران ہوا کہ شیروانی کے اوپر پانی کی ایک بوند بھی نہیں تھی -
میں نے پھرعرض کیا ، " آپ اس طوفانی بارش میں لارنس روڈ سے ناظم آباد تشریف لے آئے اور آپ کی شیروانی بھیگی تک نہیں ؟ "  


بابا صاحبؒ نے تبسم فرمایا اور کہا ، " خواجہ صاحب ! ٹائم اسپیس محض مفروضہ ہے - یہ بات ابھی آپ کی سمجھ میں نہیں آئے گی - "

کتاب ... تذکرہ قلندر بابا اولیاؒء ... مصنف ---  خواجہ شمس الدین عظیمی   

پیر، 26 مئی، 2014

گونگی بہری لڑکی



        کشف   و   کرامات                         



    حضور بابا صاحبؒ  کی خدمت میں ایک لڑکی کو پیش کیا گیا جو پیدائشی طور پر گونگی اور بہری تھی - جن لوگوں نے حضور قلندر بابا اولیاؒء  کو قریب سے دیکھا ہے وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے مزاج میں احتیاط بہت تھی اور وہ کرامات سے طبعاً گریز فرماتے تھے -

اس دن نہ معلوم کون سا وقت تھا کہ حضور بابا جیؒ نے لڑکی کو مخاطب کرکے فرمایا - " تیرا نام کیا ہے ؟ "  

 ظاہر ہے گونگی بہری لڑکی کیا جواب دیتی - خاموش رہی ، دوسری دفعہ آپ نے پھر فرمایا ، " بتا تیرا نام کیا ہے ؟ "

 لڑکی پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتی رہی - تیسری بار انہیں جلال آگیا - سخت غصّہ کے عالم میں مارنے کے سے انداز میں ہاتھ اٹھایا اور فرمایا ، " بتا تیرا نام کیا ہے ؟ "

 اور لڑکی نے بولنا شروع کر دیا - میرا اندازہ ہے کہ اس وقت اس لڑکی کا سن سولہ ،سترہ سال کا ہوگا - 

کتاب ...  تذکرہ قلندر بابا اولیاؒء ... مصنف ---  خواجہ شمس الدین عظیمی   

اتوار، 25 مئی، 2014

کبوتر زندہ ہوگیا




 کشف   و   کرامات 

   مجھے (  خواجہ شمس الدین عظیمی  ) کبوتر پالنے کا شوق تھا - ایک مرتبہ ایک فاختہ آکر کبوتروں کے ساتھ دانہ چگنے لگی - ایک کبوتر کے ساتھ اس کا جوڑ ملا دیا گیا - اس کے انڈوں سے جو دو بچے نکلے وہ اپنی خوبصورتی میں یکتا اور منفرد تھے - پروں کا رنگ گہرا سیاہ اور باقی جسم سفید تھا -

ان کے اندر اس قدر کشش تھی کہ جو دیکھتا تعریف کئے بغیر نہ رہتا - شامت اعمال ، ایک روز صبح سویرے بلی نے ایک کبوتر کو پکڑا اور چھت پر لے گئی - میں نے جب بلی کے منہ میں یہ کبوتر دیکھا تو میں اس کے پیچھے دوڑا -

اوپر پہنچ کر میں نے دیکھا کہ بلی نے کبوتر کے بال و پر الگ کردئیے ہیں اور بیٹھی اسے کھا رہی ہے - غصّہ تو بہت آیا مگر پھر سوچا کہ کبوتر تو اب مر ہی چکا ہے ، بلی کو ہی پیٹ بھرنے دیا جائے اور جب یہ کبوتر کھا چکے گی تو اسے سزا دوں گا -

یہ خیال آتے ہی میں نیچے چلا گیا - لیکن مجھے اتنا شدید صدمہ تھا کہ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے - حضور بابا صاحب قبلہؒ پہلی منزل کے کمرے میں تخت پر تشریف فرما تھے -
میں نے حضرت سے احتجاجاً عرض کیا کہ بلی نے میرا کبوتر مار دیا ہے - حضور بابا صاحبؒ نے فرمایا ایسا ہی ہوتا ہے میں نے جواباً عرض کیا کہ آپ کے ہوتے ہوئے بلی میرا کبوتر لے جائے ، یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی - 

یہ کہنے کے بعد میں دل برداشتہ باورچی خانے میں جا کر ناشتہ تیار کرنے لگا - میرے حضور بابا جیؒ نے مجھے آواز دی لیکن غصے نے مجھے گستاخی پر مجبور کردیا اور میں نے کوئی جواب نہیں دیا - دوبارہ آواز دی - وہ بھی میں نے ان سنی کردی -

یہ اس زمانہ کا واقعہ ہے جب بھائی محسن صاحب بھی میرے ساتھ رہتے تھے -  حضور بابا صاحبؒ نے بھائی محسن کو آواز دی اور میرے بارے میں دریافت کیا - انہوں نے کہا کہ خواجہ صاحب کو کبوتر کے مرنے کا بہت صدمہ ہے اور وہ باورچی خانے میں بیٹھے رو رہے ہیں -

حضور بابا صاحبؒ ان کی اس بات سے متاثر ہوئے اور فرمایا ...  
          
  " خواجہ صاحب کو بلاؤ اور ان سے کہو کہ ان کا کبوتر آگیا ہے -" 

بھائی محسن صحن میں آئے تو دیکھا کہ وہ کبوتر دوسرے کبوتروں کے ساتھ موجود تھا - بھائی محسن نے یہ بات مجھے بتائی تو میں نے اس کو مذاق پر محمول کیا اور سمجھا کہ یہ بات میری دل جوئی کے لئے کہہ رہے ہیں - لیکن جب انہوں نے سنجیدگی سے کہا کہ آپ باہر جا کر دیکھیں تو سہی تو میں بے یقینی کے عالم میں اٹھ کر صحن میں آیا -

دیکھا تو کبوتر موجود تھا - کبوتر کو دیکھتے ہی میں دوبارہ دوڑا ہوا چھت پر گیا اور تخت کے نیچے دیکھا تو وہاں خون کے دھبے اور کچھ پر پڑے ہوئے تھے - یہ دیکھ کر مجھے ندامت اور شرمندگی ہوئی - میں نے نیچے آکر حضور بابا صاحبؒ  کے پیر پکڑ لئے اور اپنی گستاخی کی معافی چاہی - شام ہونے سے پہلے پہلے سارے کبوتر تقسیم کر دیئے -




کتاب ... تذکرہ قلندر بابا اولیاؒء ... مصنف ... خواجہ شمس الدین عظیمی   

ہفتہ، 24 مئی، 2014

کشف و کرامات تعارف



 کشف   و   کرامات 

 تعارف
  
  حضور قلندر بابا اولیاؒء  کے کشف و کرامات بیان کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ کشف و کرامت کا علمی انداز سے جائزہ لیا جائے کہ اس کی حقیقت کیا ہے -
عربی میں " خرق " کے معنی " پھاڑنا " یا " توڑ دینا " کے ہیں جبکہ            " عادت " عام قوانین قدرت کو کہا جاتا ہے -

خرق عادت کی نوعیت بیان کرنے کے لئے چند اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں مثلاً معجزہ ، کرامت ، استدراج وغیرہ -
اردو لغت کے مطابق معجزہ کی تعریف یہ ہے کہ ... " وہ حیرت انگیز بات جو صرف نبی سے ظاہر ہو ، ایسی خرق عادت جو نبی سے صادر ہو  ، وہ کام جو طاقت بشری سے باہر یا عاجز کردینے والا ہو معجزہ کہلاتا ہے - 

معجزہ صرف انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعے ہی ظاہر ہوتا تھا ، چونکہ نبوت ختم ہوچکی ہے لہٰذا معجزات کا سلسلہ خاتم النبیین محمّد رسول الله صلّ الله علیہ وسلّم  پر ختم ہوچکا ہے - 

صوفیاء کرام سے ظاہر ہونے والے خرق عادت کو کرامت کہا جاتا ہے - انبیاء کرام علیہم السلام اور صوفیاء کرام کے علاوہ اگر کسی شخص سے کسی منفی نیت سے خرق عادت کا صدور ہو تو اسے استدراج کہتے ہیں - استدراج کے معنی  شیطانی طاقت سے مافوق الفطرت (Super natural ) کام ہونا ، یہ شعبدہ بازی یا جادوگری ہے - 

علامہ یوسف نبہانی نے کشف و کرامات کی  دلیل میں ایک  ضخیم کتاب      " جامع کرامات اولیاء " تحریر کی ہے - اس کتاب میں ایک جگہ تحریر کرتے ہیں
             " ہم عرف میں یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ بادشاہ جسے خدمت خاصہ کے لئے متعین کرتے ہیں اور جسے محبت کی محفل میں آنے کی اجازت دیتے ہیں اسے ایسے اختیارات بھی دیتے ہیں جو دوسروں کو نہیں ملا کرتے بلکہ عقل سلیم کا فتویٰ تو یہ ہے کہ جب یہ قرب و وصال کی دولت ملتی ہے تو یہ مناصب خود بخود آجاتے ہیں یعنی قرب اصل ہوتا ہے اور عہدہ اس کے تابع ...

اب فرمائیے کہ الله کریم سب سے بڑا بادشاہ ہے کہ نہیں ؟ تو جسے یہ شہنشاہ اپنی خدمت کی دہلیز پر کرامت کے درجے عطا فرما کر متعین کرتا ہے ، اسرار معرفت اسے عطا کرتا ہے ، دوری و فراق کے پردے ہٹا کر اسے اپنے قرب کے قالین پر بٹھاتا ہے تو کیا پھر اسے اس جہان میں کچھ کرامات کے اظہار سے روک سکتا ہے

حالانکہ یہ سارا جہاں روحانی سعادتوں اور خداوندی معرفتوں کے مقابلے میں عدم محض اور فنائے صرف ہے تو جب وہ سب کچھ عطا فرما دیا ہے تو یہ حقیر چیز کسے عطا نہ ہوگی - "

علامہ نبہانی مزید تحریر فرماتے ہیں... " جب بندۂ خدا طاعات کے راستے پر چلتا ہوا اس مقام رفیع تک پہنچتا ہے تو الله کریم فرما دیتے ہیں " میں اس کے کان اور آنکھ بن جاتا ہوں "

 جب جلال الہی کا نور اس کے کان بنتا ہے تو وہ بندۂ خدا قریب و دور سے سننے لگ جاتا ہے اور جب یہی نور اس کی نگاہ کو تاباں کرتا ہے تو وہ قریب و دور کو دیکھنے لگ جاتا ہے اور جب یہی نور جلال ولی کا ہاتھ بن جاتا ہے تو اسے آسان و مشکل اور قریب و بعید میں تصرف عطا کردیتا ہے - "

کشف و کرامت کے ضمن میں ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاؒء فرماتے ہیں ...

... علم نبوت کے زیر اثر جب کوئی خرق عادت نبی سے صادر ہوتی تھی اس کو معجزہ کہتے تھے اور جب کوئی خرق عادت ولی سے صادر ہوتی ہے تو اس کو کرامت کہتے ہیں لیکن یہ بھی علم نبوت کے زیر اثر ہوتی ہے - معجزہ اور کرامت کا تصرف مستقل ہوتا ہے ...

مستقل سے مراد یہ ہے کہ جب تک صاحب تصرف اس چیز کو خود نہ ہٹائے وہ نہیں ہٹے گی لیکن استدراج کے زیر اثر جو کچھ ہوتا ہے وہ مستقل نہیں ہوتا اور اس کا اثر فضا کے تاثرات بدلنے سے خود بخود ضائع  ہوجاتا ہے - استدراج کے زیر اثر جو کچھ ہوتا ہے اس کو جادو کہتے ہیں ... 

خرق عادت یا کرامت کا ظہور کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے ، جب کسی بندہ کا شعوری نظام لاشعوری نظام سے خود اختیاری طور پر مغلوب ہوجاتا ہے تو اس سے ایسی باتیں سرزد ہونے لگتی ہیں جو عام طور سے نہیں ہوتیں اور لوگ انہیں کرامت کے نام سے یاد کرنے لگتے ہیں جو سب بھان متی ہے ...
 روحانی علوم اور روحانیت بالکل الگ ہے -  اعمال و حرکات میں خرق عادت اور کرامت خود اپنے اختیار سے بھی ظاہر کی جاتی ہے اور کبھی کبھی غیر اختیاری طور پر بھی سرزد ہوجاتی ہے - خرق عادت آدمی کے اندر ایک ایسا وصف ہے جو مشق کے ذریعے متحرک کیا جا سکتا ہے  "...✦ 

سیدنا حضورعلیہ الصلوٰة والسلام کے وارث اور الله کے دوست حضور قلندر بابا اولیاؒء کی ذات با برکات سے جو کرامات وقتاً فوقتاً صادر ہوتی رہی ہیں ، قارئین کی خدمت میں پیش ہیں -

حضور بابا صاحبؒ  کی اکثر و بیشتر  کرامات خانوادہ سلسلہ عظیمیہ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنی تصنیف " تذکرہ قلندر بابا اولیاؒء " میں تحریر فرمائی ہیں - 

  کتاب ... تذکرہ  قلندر بابا اولیاؒء ... کا پہلا ایڈیشن  1982ء  میں شائع ہوا - 

عظمت



ارشادات ، واقعات ، تعلیمات  اور  طرز فکر 



 ایک مرتبہ لیٹر پیڈ ( Letter - Pad ) پر نام چھپوانے کے لئے حضور بابا صاحبؒ سے اجازت طلب کی - حسن اخریٰ سید محمّد عظیم برخیا لکھ کر خدمت میں پیش کیا گیا - 

 حضور بابا صاحبؒ نے لفظ "سید" پر دائرہ بنا دیا اور فرمایا کہ ..." نام کے ساتھ نہ لکھا جائے - "

عرض کیا گیا کہ آپ نجیب الطرفین سید ہیں - اس لئے درخواست ہے کہ "سید" لکھنے کی اجازت مرحمت فرمادی جائے -  

 حضور بابا صاحبؒ  نے فرمایا کہ ..."  "سید" لکھنا اس شخص کو زیب دیتا ہے جس کے اندر سیدنا حضورعلیہ الصلوٰة والسلام کے کچھ تو اوصاف موجود ہوں - "

اور یہ کہہ کر زار و قطار رونے لگے - اتنا روئے کہ ہچکیاں بندھ گئیں - روتے روتے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ارشاد کیا ..." میں خود کو اس کا اہل نہیں سمجھتا کہ اپنے نام کے ساتھ "سید" لکھوں - "

      تذکرہ قلندر بابا اولیاؒء ...  مصنف ...  خواجہ شمس الدین عظیمی    

جمعہ، 23 مئی، 2014

صدائے جرس



ارشادات ، واقعات ، تعلیمات  اور  طرز فکر 


   تاریخ بتاتی ہے کہ قلندری سلسلہ حضرت عبدالعزیز مکیؓ سے  جاری ہوا - یہ بزرگ حضرت صالح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں -
انہیں جب رسول الله صلّ الله علیہ وسلّم کے ظہور کی نوید ملی تو انہوں نے الله تعالیٰ سے التجا کی کہ  مجھے  اتنی  طویل    عمر  عطا  فرما  کہ  میں
خاتم النبیین صلّ الله علیہ وسلّم کے دست حق پرست پر بیعت ہوسکوں ...
 الله تعالیٰ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی - 

" مناقب قلندریہ " میں لکھا ہے کہ مسجد نبویؐ کے قریب صفّہ  ایک چبوترہ تھا - وہاں پر اصحاب صفّہ قیام کرتے تھے - حضرت عبدالعزیز مکی قلندرؓ بھی ان میں سے ایک تھے - اصحاب صفّہ کی تعداد سو سے زیادہ بتائی جاتی ہے -

 قلندر کی تعریف یہ ہے کہ وہ عبادت و ریاضت ، خلوص و ایثار اور عجز و انکساری سے ایسے مقام پر فائز ہوجائے جہاں انسانی ذہن غیر جانبدار ہوجاتا ہے - قلندر پر تسخیر کائنات کے راز کھل جاتے ہیں -
الله کی مخلوق ان کی خدمت میں جب گزارش کرتی ہے تو الله کے دیئے ہوئے علوم اور اختیارات سے وہ ان گزارشات کو سنتے بھی ہیں اور اس کا تدارک بھی کرتے ہیں -

یہی وہ پاکیزہ اور قدسی نفس بندے ہیں جن کے بارے میں الله تعالیٰ فرماتا ہے :

 "  میں اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہوں اور ان کے
   کان ، آنکھ اور زبان بن جاتا ہوں - پھر وہ میرے
    ذریعے سنتے ہیں ، میرے ذریعے بولتے ہیں اور
    میرے  ذریعے   ہی  چیزیں    پکڑتے     ہیں - "  

حضرت سید محمّد عظیم برخیا المعروف قلندر بابا اولیاؒء بھی قلندری سلسلہ کے نصف النہار سورج ہیں - آپؒ کا خاندانی سلسلہ حضرت امام حسن عسکریؒ سے قائم ہے - 

حضور قلندر بابا اولیاؒء  اپنے نانا  تاج الدین بابا اولیاءؒ کے پاس 9 سال تک مقیم رہے - 9 سال کے عرصے میں بابا تاج الدین ناگپوریؒ نے ان کی روحانی تربیت فرمائی -

تقسیم ہند کے بعد حضور قلندر بابا اولیاؒء اپنے اہل و عیال کے ساتھ کراچی تشریف لے آئے -حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ  کی روح پر فتوح نے حضور قلندر بابا اولیاؒء کی روح کو تعلیم دی - سیدنا حضورعلیہ الصلوٰة والسلام نے براہ راست علم لدنی عطا فرمایا - 

حضور قلندر بابا اولیاؒء کے حلقہ ارادت میں تقریباً ہر شعبہ کے لوگ شامل تھے - انجینئر ، ڈاکٹر ، ٹیچر ، پروفیسر ، صنعت کار ، سوداگر ،  اعلیٰ عہدوں پر فائز اور ماتحت سرکاری افسران ... سب ہی لوگ حاضر ہوتے تھے ...

حضور قلندر باباؒ کے کمرے میں ایک تخت بچھا ہوا تھا ... تخت کے اوپر ایک چٹائی اور دو تکیے رکھے رہتے تھے ... تخت کے سامنے ایک کرسی اور ایک تپائی ( بینچ ) پڑی ہوئی تھی -
ایک چھوٹی اٹیچی تھی جس میں ایک یا دو جوڑے کپڑے رکھتے تھے لوگ جب حاضر ہوتے اور ایک کرسی اور بینچ پر بیٹھ جاتے تو گفتگو کا سلسلہ کبھی  قلندر باباؒ شروع کرتے تھے اور کبھی حاضرین میں سے کوئی ایک سوال کرتا تھا -

سوال و جواب کی یہ محفل گھنٹوں جاری رہتی تھی - ہر علم کے بارے میں سوال کرنے کی عام اجازت تھی - لیکن روحانی ، تحقیقی اور سائنسی علوم کے بارے میں  سوال کرنے کو پسند فرماتے تھے - شب بیداری  قلندر بابا اولیاؒء  کا محبوب مشغلہ تھا -اس دوران بھی سوال و جواب کی محفل جم جاتی تھی -
حضور قلندر بابا اولیاؒء کا طریقہ تعلیم یہ تھا کہ وہ خود ہی کوئی بات بیان کرکے سننے والے سے پوچھتے تھے کہ اس کا کیا مطلب ہوا ؟ ... یا کوئی طالب علم سوال کرتا تھا تو اس کا تشفی بخش جواب دینا  قلندر بابا اولیاؒء اپنا فرض جانتے تھے - 

ایک صاحب تشریف لائے جو پارسی تھے اور پیشہ کے لحاظ سے ویونگ اور ڈائنگ ماسٹر تھے - انہوں نے رنگ کے بارے میں سوال کیا ... جب وہ کمرے سے باہر آئے تو انہوں نے کہا .." رنگ کے بارے میں ایسی تشریح میں نے نہ سنی ہے اور نہ کہیں پڑھی ہے - " 

 آسمانی رنگ کے بارے میں قلندر باباؒ کا انکشاف ہے کہ آسمانی رنگ کوئی رنگ نہیں ہے ... جب ہم خلاء میں دیکھتے ہیں تو خلاء میں جس جگہ سے ہماری نظر ٹکرا کر واپس آتی ہے ، نظر اور ٹارگٹ کے درمیان جو فاصلہ ہے ... شعور انسانی اسے آسمانی دیکھتا ہے ... آسمان پر ماہ و انجم کا جو نظام ہے اور قندیلیں روشن ہیں ، یہ قندیلیں دراصل آسمان کی خوبصورتی کا  تعین کرتی ہیں - 

ایک صاحب نے عرض کیا .." جب میں آپ کا تصور کرتا ہوں تو آپ اور پورا مکان میرے سامنے ہوتا ہے .. مگر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ میں مکان میں ہوں اور آپ کے پاس ہوں یا مکان اور آپؒ میرے پاس آگئے ہیں -"

قلندر باباؒ نے فرمایا ... 

..."   قرآن ان لوگوں کو روشنی دکھاتا ہے جو اپنے اندر الله کے بارے میں ذوق رکھتے ہیں - غیب سے مراد وہ تمام حقائق ہیں جو ابھی انسان کے مشاہدے میں نہیں آئے ..
ایمان سے مراد ذوق ہے  ذوق وہ عادت ہے جو تلاش میں سرگرداں رہتی ہے .. اس لئے نہیں کہ اسے کوئی معاوضہ ملے گا بلکہ صرف اس لئے کہ ذوق طبیعت کا تقاضہ ہے ..   

متقی سے وہ انسان مراد ہے جو سمجھنے میں بڑی احتیاط سے کام لیتا ہے ، ساتھ ہی بدگمانی کو راہ نہیں دیتا .. وہ الله کے معاملے میں اتنا محتاط ہوتا ہے کہ کائنات کا کوئی روپ اسے دھوکہ نہیں دے سکتا - وہ الله کو بالکل الگ سے پہچانتا ہے اور الله کے کاموں کو بالکل الگ سے جانتا ہے -

 صحیح طور سے پہچاننے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر ذوق موجود ہے .. ہر انسان کے اندر یہ ذوق موجود ہے اور یہی ذوق لائف اسٹریم ہے .. انسان اس کو استعمال کرے یا نہ کرے یہ اس کی اپنی مرضی اور مصلحت ہے .. انسان کے اندر اگر ذوق نہ ہو تو انسان خلا  ہے -

قرآن پاک میں الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے ...

 " میں نے انسان کو بجنی مٹی سے بنایا ہے - "

بجنی مٹی سے مراد خلا ہے .. ذوق میں نہ وزن ہوتا ہے ، نہ ذوق کے لئے فاصلہ کوئی معنی رکھتا ہے .. نہ نہ ذوق زمین آسمان کی حدود کا پابند ہے .. نہ اسے وقت پابند بنا سکتا ہے .. انسان بغیر ذوق کے خلا ہے .. اور خلا چلتا پھرتا نہیں ہے .. خلا میں ذوق چلتا پھرتا ہے ..

 انسان ذوق سے اس وقت تک متعارف نہیں ہوتا جب تک اس کا تعارف حاصل کرنے کی جدوجہد نہ کرے اور جب ذوق کا تعارف حاصل ہوجاتا ہے تو انسان اس بات سے باخبر ہوجاتا ہے کہ دراصل ذوق ہی انسان ہے جو فرشتوں کا سربراہ ہے .. الله کی بہترین صفت ہے

اور کائنات میں الله کا نائب ہے .. نہ وہ پیروں سے چلنے اور ہاتھوں سے پکڑنے کا پابند ہے نہ وہ آنکھوں سے دیکھنے اور کانوں سے سننے کا محتاج ہے .. یہ ساری خرافات انسان نے آپ ہی تخلیق کی ہیں   "...

ایک شاگرد نے سوال کیا .. فرشتے ، جنّات اور انسان کی تخلیق کس طرح ہوئی ؟

 جواب میں فرمایا ...

..."   دماغ کے ہر خلیئے میں ایک نقطہ ہے .. اور یہ نقطہ ہر خلیئے میں روح کے قائم مقام ہے .. یہ نقطہ 48 دائروں سے بنا ہوا ہے .. ان دائروں کو ہم کروموسوم بھی قیاس کرسکتے ہیں ...

کروموسوم کی تین قسمیں ہیں ... ایک وہ جس سے فرشتے تخلیق ہوتے ہیں اس کروموسوم میں جنسی خواہش نہیں ہوتی .. اور وہ روح کے ساتھ ازل میں پیدا ہوا اور روح کے ساتھ ابد تک  رہے گا .. یہ کروموسوم عام آدمی کو نظر نہیں آتا جس طرح عام آدمی کو روح نظر نہیں آتی ..

دوسرا کروموسوم جنّات کا ہے اس میں جنسی خواہش اور تناسل دونوں ہوتے ہیں .. جنّات بھی عام آدمی کو نظر نہیں آتے - اس کروموسوم کی زندگی بھی محدود ہوتی ہے ..

تیسرا کروموسوم انسان کا ہے .. اس میں بھی جنسی خواہش اور تناسل دونوں ہیں .. اس کی زندگی بھی محدود ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ وہ نظر بھی آتے ہیں مگر روح نکل جانے کے بعد مٹی میں مل جاتے ہیں ..

حقیقت تو یہ ہے کہ کروموسوم کو بھی نظر کا دھوکہ کہنا چاہئے .. اس لئے کہ کروموسوم میں روح چھپی ہوتی ہے .. روح کے بغیر کروموسوم کی کوئی حیثیت نہیں   "...

فرشتوں کے کروموسوم کو  قلندر بابا اولیاؒء نے نسمہ مطلق کا نام دیا ہے .. جنّات کے کروموسوم کو نسمہ مفرد ..اور  انسان کے کروموسوم کو نسمہ مرکب کہا ہے .. یعنی فرشتے نسمہ مطلق کی تخلیق ہیں ، جنّات نسمہ مفرد کی تخلیق ہیں اور انسان نسمہ مرکب کی تخلیق ہے -

نسمہ سے مراد یہ ہے کہ ہر تخلیق کے جسم کے اوپر روشنیوں کا بنا ہوا ایک اور جسم ہے - یہ جسم لہروں سے بنا ہوا ہے - انسان کی تخلیق نسمہ مرکب سے ہوئی اس کا مطلب یہ ہے کہ روشنیوں کے تانے بانے پر انسانی تقش و نگار بنے ہوئے ہیں ..
اس کی مثال قالین کے اوپر شیر کی تصویر ہے .. جب ہم قالین کے اوپر شیر کی تصویر دیکھتے ہیں تو ہم یہ نہیں کہتے کہ قالین پر شیر بیٹھا ہے .. ہم کہتے ہیں کہ یہ شیر ہے -

انسان کے اوپر اگر نسمہ کی حقیقت منکشف ہوجائے تو وہ فرشتے، جنّات اور انسان کی روح کو دیکھ سکتا ہے - نا صرف دیکھ سکتا ہے بلکہ تصرف بھی کر سکتا ہے -

شاگرد نے پوچھا ..." ہر انسان صحت مند رہنا چاہتا ہے .. لیکن شاید ہی کوئی آدمی ہو جو  بیمار نہ ہوتا ہو .. ہر انسان خوش رہنا چاہتا ہے لیکن شاید ہی کوئی آدمی ہو جو غمگین نہ ہوتا ہو .. بلکہ مشاہدہ یہ ہے کہ ہزار  میں سے نوسو ننانوے لوگ ناخوش رہتے ہیں  اور ایک آدمی خوش رہتا ہے لیکن خوش رہنے والا بھی اس بات سے نا واقف ہے کہ خوشی کیا ہے ؟ "

حضور قلندر باباؒ نے فرمایا ...

..."   انسان کے دماغ میں ایک خاص دروازہ Main Gate   ہے ... اور اس کے اطراف میں اور بہت سارے دروازے ہیں .. مین گیٹ بند ہوجانے سے دوسرے گیٹ بھی بند ہوجاتے ہیں ..

جیسے ہی دروازے بند ہوتے ہیں .. حواس سکڑنے لگتے ہیں .. حواس کا سکڑنا ہی دراصل بیماری ہے دماغ مسلسل انفارمیشن قبول کرنے کا ایک آلہ ہے .. دماغ انفارمیشن قبول کرکے خلیوں میں تقسیم کرتا رہتا ہے اور ہر خلیہ مختلف حسیات کو بیلنس کرتا رہتا ہے ...

لیکن اگر انفارمیشن میں رکاوٹ آجائے چاہے وہ کسی حادثے کی وجہ سے ہو یا انسان کے اپنے ارادے سے ہو .. تو گیٹ بند ہونے لگتے ہیں .. اور جیسے ہی گیٹ غیر ضروری طور پر بند ہوتے ہیں سکڑتے سکڑتے اتنے سکڑ جاتے ہیں کہ دماغ کے اوپر فالج گر جاتا ہے ..

اگر کوئی فرد ضدی ہے .. اور وہ چاہتا ہے کہ جو بات اس کے خیال میں ہے وہی پوری ہو اور وہ دوسرے کی بات نہیں سنتا تب انفارمیشن کے بہاؤ میں فرق پڑ جاتا ہے .. اور اس فرق سے حواس سکڑنے لگتے ہیں   "...


ہمیں کیسے پتہ چلے کہ حواس کا سکڑنا کیا ہے  ؟  

..."   ایسے شخص کے منہ کا ذائقہ خراب ہوجاتا ہے .. اچھی چیزیں بھی آنکھوں کو بری لگتی ہیں .. سریلی آواز بھی دماغ پر بوجھ بنتی ہے .. چہرہ کبھی پھیکا پڑ جاتا ہے .. کبھی تمتماتا ہے .. چہرہ پر جو چمک دمک ہونی چاہئیے وہ چمک دمک نہیں رہتی ، چاہے چہرہ کسی بھی رنگ کا ہو ..

اس کا علاج یہ ہے کہ شہادت کی انگلی پر ان الله علیٰ کل شئ قدیر   تین دفعہ پڑھ کر دم کریں اور انگلی کو تیس سیکنڈ تک تالو پر پھیریں - آنکھیں بند کرکے یہ تصور کریں کہ دماغ کا مین گیٹ کھل گیا ہے .. ذہن میں یہ ارادہ ہونا چاہیئے کہ بیماری ختم ہوگئی ..


ہر انسان کے دماغ میں دو کھرب خلئے ہیں .. ان دو کھرب خلیوں میں ایک خاص گیٹ کے اطراف پانچ اورگیٹ Gates ہوتے ہیں اس طرح بارہ کھرب خلئے ہوئے .. خاص گیٹ وہ ہے جس میں وہم پرورش پاتا ہے ..

اس کے ساتھ ایک اور گیٹ کھلتا ہے جہاں خیال بنتا ہے .. اس کے ساتھ تیسرے گیٹ میں حواس بنتے ہیں .. چوتھا گیٹ کھلتا ہے تو حرکت واقع ہوتی ہے .. پانچواں گیٹ کھلتا ہے تو عمل وقوع پزیر ہوتا ہے .. اور چھٹا گیٹ کھلتا ہے تو نتیجہ برآمد ہوتا ہے   "...


 قلندر بابا اولیاؒء ایک شاگرد کے استفسار پر " یومنون بالغیب "   کی تشریح میں فرماتے ہیں  ..."  

 " جو ایمان لائے ہیں غیب پر  "


الله تعالیٰ کے لئے تو کچھ بھی غیب نہیں ہے - یہ غیب بندوں کے لئے ہے .. بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جنہیں الله تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور انسانوں کے دلوں میں ان چیزوں کے لئے رغبت پیدا کردی ہے ..

یہ رغبت ہی ہے جو انسانوں کو ایجاد کی طرف مائل کرتی ہے .. ایجاد کا ایک اعجاز یہ ہے کہ ایجاد کرنے میں کتنی ہی محنت کرنی پڑے اور کتنا ہی وقت صرف ہوجائے .. کتنی ہی مشکلات پیش آئیں موجد جب تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچتا کوشش جاری رکھتا ہے -

اور دوسروں کے لئے جدوجہد اور کوشش کا راستہ متعین کرجاتا ہے کہ وہ بھی اسی طرح تحقیق و تلاش میں مصروف رہے اور ان چیزوں کو پردۂ غیب سے باہر نکالے جو انسانوں کے خیالات میں آتی رہتی ہیں .. ایجاد کتنی ہی خوش نما ہو .. خوفناک ہو .. موجد اس کی پرواہ کے بغیر اپنی تلاش جاری رکھتا ہے ..

الله تعالیٰ تحقیق و تلاش کرنے والے لوگوں کو ایک خاص عقل عطا کرتا ہے جو غیب سے ظاہر ہونے والی اس چیز کی طرف ان کا دھیان کھینچتی رہتی ہے جس کا دنیا میں  مظاہرہ ہونا ہے .. اور یہ سب اس  لئے ہوتا ہے کہ الله تعالیٰ چاہتے ہیں کہ نئی نئی چیزیں نوع انسانی پر منکشف ہوں ..

الله تعالیٰ قرآن پاک میں  فرماتے ہیں  


جس  نے  آپ  کے  لئے  زمین  کو
 بستر  اور  آسمان  کو  عمارت  بنا  دیا-  

 یعنی آسمان کو عمارت کی شکل بنا دیا جو ظاہری طور پر نظر نہیں آتا مگر یہ بہت بڑی تعمیر ہے جس میں ستارے اور سیارے اپنی بیلٹ پر چل رہے ہیں ... یہاں عمارت کے معنی بہت وسیع ہیں ..
عمارت سے مراد انسان بھی ہیں اور دریا اور پہاڑ بھی ہیں - اڑنے والے پرندے بھی ہیں .. ان کی جبلت ، ضروریات ، خواص ، کیفیات وغیرہ سب لفظ عمارت میں آجاتا ہے - الله نے اتنی مخلوق بنا دی ہے کہ جن کی ہم گنتی نہیں کرسکتے اور یہ سب مخلوق اس کی تعمیر ہے ..

مخلوق کے لئے الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے مخلوق کے لئے زمین کو بستر بنایا اور آسمان کو عمارت بنا دیا ہے  

الله تعالیٰ فرماتا ہے ...

 نافرمان لوگ ان چیزوں کو توڑتے ہیں جن کو جوڑنے
کا  میں  نے  حکم  دیا  ہے  اور  فساد  کرتے  ہیں ..

کبھی وہ لوگ یہ سوچتے نہیں کہ یہ انہی کا نقصان ہے وہ میرا کچھ نقصان نہیں کرتے .. حقیقت میں کوئی چیز بگڑتی نہیں ہے بلکہ اسی حالت میں رہتی ہے جس حالت میں اسے رکھا گیا ہے ..

الله تعالیٰ فرماتا ہے :

      " میں نے آدم کو سب نام سکھائے اور تاکہ وہ بتائے 
فرشتوں کو .. کہا بتاؤ وہ نام اگر سچے ہو .."

فرشتوں نے کہا

             " تو برتر ہے ہمیں معلوم نہیں مگر وہ جو تو نے ہمیں
سکھایا ہے - بے شک تو جاننے والا ہے -"


الله تعالیٰ فرماتا ہے...

         کہا اے آدم ! بتادے نام ان کو پھر جب اس نے نام بتادیئے
         تو کہا کیا میں نہ کہتا تھا کہ مجھے زمین و آسمان  کی خبر            ہے اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اس کی بھی خبر ہے -

 سورہ بقرہ میں ارشاد ہے ..

الم - یہ کتاب .. نہیں ہے شک اس میں .. ہدایت ہے متقی لوگوں کے لئے اور متقی لوگ وہ ہیں جو غیب پر یقین رکھتے ہیں - اور قائم کرتے ہیں  صلوٰة  
( یعنی نماز میں الله سے ان کا تعلق قائم ہوجاتا ہے ) اور الله کے دیئے ہوئے رزق میں سے خرچ کرتے ہیں - 


قرآن فرماتا ہے : اس کتاب سے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے ہدایت پانے کے لئے متقی ہونا ضروری ہے .. اور متقی کی تعریف یہ ہے کہ اس کا غیب پر ایمان ہوتا ہے .. ایمان کی تکمیل یقین ہے اور یقین مشاہدے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا ..
 نمازی کی تعریف یہ ہے کہ اس کا الله تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم ہوتا ہے - وہ دیکھتا ہے کہ میں الله کے سامنے رکوع و سجود میں ہوں .. یا وہ یہ دیکھتا ہے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے .. اور جو کچھ وہ خرچ کرتا ہے اس کے یقین میں یہ بات موجود ہوتی ہے کہ سب کچھ الله کا دیا ہوا ہے .. میری ذاتی ملکیت کچھ نہیں   "...




خواجہ شمس الدین عظیمی  

( مرکزی مراقبہ ہال - سرجانی ٹاؤن ، کراچی )

صدائے جرس ...  روحانی ڈائجسٹ  ...  جنوری ٢٠٠٣ء  

الله کے سپرد



ارشادات ، واقعات ، تعلیمات  اور  طرز فکر 



   خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب ،  حضور قلندر بابا اولیاؒء سے بیعت ہونے کے بعد کے ابتدائی دنوں کا احوال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ...

 پیر و مرشد نے ایک دن اپنے سامنے بٹھا کر فرمایا ...

" زندگی گزارنے کے دو طریقے ہیں اور وہ دو طریقے یہ ہیں کہ انسان کے اندر اتنی صلاحیت ہو کہ دوسروں سے اپنی بات منوا سکے -  انسان کے اندر اتنی صلاحیت ہو کہ وہ دوسروں کو اپنا ہم ذہن بنا سکے ...

انسان کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ صدیوں پرانی روایات کو سینے سے لگاتے ہوئے ان روایات کا تحفظ کرسکے - ان روایات کے جاری و ساری رکھنے کے لئے ساری دنیا سے مقابلہ کرسکے ...

اس طریقے کو دنیا والے خودمختار زندگی کہتے ہیں یعنی جو آپ چاہتے ہیں وہ دوسروں سے منوالیں - دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی نفی کردیں یعنی خود مختار زندگی کو داغ مفارقت دے دیں ...

یاد رکھئے انسان کی ساخت اور تخلیق کا قانون یہ ہے کہ الله تعالیٰ نے انسان کو جس فطرت پر پیدا کیا ہے وہ فطرت خود مختار نہیں ہے ...

انسان کی ساخت ہی اس بنیاد پر کی گئی ہے کہ یہ پابند ہوکر زندگی گزارے لہٰذا ضروری ہے کہ خود مختار زندگی سے آپ کنارہ کش ہوجائیں اور اپنے آپ کو الله کے سپرد کردیں - آپ کے اندر یہ صلاحیت نہیں ہے کہ آپ کسی کو اپنا بنالیں - آپ کے اندر یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے کہ آپ دوسرے کے بن جائیں -"

بدھ، 21 مئی، 2014

تعمیل حکم




           ارشادات ، واقعات ، تعلیمات  اور  طرز فکر 

خواجہ شمس الدین عظیمی  صاحب بیان کرتے ہیں ... " مجھے اس بات کا بہت شوق تھا کہ جو کام حضور قلندر بابا اولیاؒء کرتے ہیں ، میں بھی کروں - حضور قلندر بابا اولیاؒء جیسا لباس پہنتے ہیں ، میں بھی پہنوں -
 حضور قلندر بابا اولیاؒء نے اس انداز میں ٹوپی پہنی ہے تو میں بھی اسی طرح پہنوں اس شوق کو دیکھتے ہوئے ایک روز حضور قلندر بابا اولیاؒء نے فرمایا ...

" گرو جو کہے ..  وہ کرو .. گرو جو کرتا ہے .. اس کی نقل نہ کرو .. گرو جو کہے .. گرو کے ذہن سے سمجھو .. اپنا ذہن استعمال نہ کرو ...
 کبھی بھی شیخ کی نقل نہ کرنا .. تمہیں نہیں پتا وہ کہاں ہے - تم یہاں دیکھ رہے ہو اور وہ کہاں سے یہاں کیا کر رہا ہے - اس کے بارے میں تمہیں کچھ علم نہیں ہے .. تمہارا کام ہے تعمیل حکم .. جو وہ کہہ دے وہ کرو - " 

منگل، 20 مئی، 2014

تصرف کا وقت



ارشادات ، واقعات ، تعلیمات  اور  طرز فکر 


  خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں ...   

 حضور قلندر بابا اولیاؒء نے مجھے نصیحت فرمائی ...

" خواجہ صاحب ! مراقبہ میں ناغہ نہ کیا کریں ، ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا - ایک منٹ کے تصرف کے لئے بعض اوقات چھ چھ مہینے انتظار کرنا پڑتا ہے لیکن جب ہمیں یہ ایک منٹ ملتا ہے اور ہم سالک کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو سالک سورہا ہوتا ہے یا کھیل کود میں مشغول ہوتا ہے -
چھ مہینے کے بعد اسے جو دولت نصیب ہونے  والی تھی اس نے وقت کی پابندی سے اسباق اور مراقبہ نہ کرکے اس نعمت کو ضائع کردیا - اب نہ جانے کب تصرف کا وقت آئے - "

پیر، 19 مئی، 2014

بارش



ارشادات ، واقعات ، تعلیمات  اور  طرز فکر 



حضور قلندر بابا اولیاؒء  نے فرمایا ...

 ..."   ریگستان میں اگر بے شمار بانس کھڑے کردیئے جائیں اور ان بانسوں کو مختلف رنگوں سے رنگ دیا جائے تو قانون یہ ہے کہ ریگستان میں بارش برسے گی اور جب تک یہ بانس لگے رہیں گے تب تک بارش برستی رہے گی تا آنکہ ریگستان نخلستان اور جنگل میں تبدیل ہوجائے -  "...✦ 

اتوار، 18 مئی، 2014

الله سے دوستی



ارشادات ، واقعات ، تعلیمات  اور  طرز فکر 


خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب بیان کرتے ہیں ...

   حضور قلندر بابا اولیاؒء نے اس ہئیت کذائی میں کہ میں زمین پر تھا اور مرشد کریم بذات خود تکوین کے تخت شاہی پر براجمان تھے -

فرمایا ... " دوستی کی تعریف بیان کرو -"

میں نے عرض کیا .. " دوستی ایثار ہے - کسی کو کچھ دینے کے لئے .. کچھ بنانے کے لئے .. سنوارنے کے لئے اپنا بہت کچھ کھونا پڑتا ہے - "

 فرمایا ... " بات صحیح ہے لیکن عام فہم نہیں ہے - "    

میں نے عرض کیا ... " آپ کا فرمان حق ہے - میری ذہنی سکت ، سوجھ بوجھ آپ کے سامنے ہے - میرے پیارے ، دل میں مکین ، آنکھوں کی روشنی ، میرے پاک مرشد .. بندہ سراپا عجز و نیاز ہے - ارشاد فرمائیں کہ میرا دامن مراد بھر جائے اور مجھے محرومی کا احساس نہ رہے -

فرمایا ... " دوستی کا تقاضہ ہے کہ آدمی دوست کی طرز فکر میں خود کو نیست کردے - اگر تم کسی نمازی سے دوستی  چاہتے ہو تو نمازی بن جاؤ - شرابی کی دوستی اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کے ساتھ مے نوشی کی جائے - وسیع دسترخوان سخی کی دوستی ہے -

پھر فرمایا .."  خواجہ صاحب ! الله سے دوستی کرنی ہے - "

 میں نے عرض کیا .. " جی ہاں "

 فرمایا .. " ایسی دوستی کرنی ہے کہ الله میاں پیار کریں - "

عرض کیا .. " بالکل ایسی دوستی کرنی ہے - "

 یہ جواب سن کر انہوں نے سوال کیا کہ

  " خواجہ صاحب ! بتائیے الله کیا کرتا ہے - "

میری سمجھ میں اس کا جواب نہیں آیا -

حضور قلندر بابا اولیاؒء نے فرمایا .. " خواجہ صاحب ! الله یہ کام کرتا ہے کہ وہ اپنی مخلوق کی خدمت کرتا ہے - اگر آپ کو الله سے تعلق قائم کرنا ہے اور اس سے پکی دوستی کرنی ہے تو آپ بھی یہی کیجئے یعنی بےغرض ہو کر الله کی مخلوق کی خدمت کیجۓ - "

ہفتہ، 17 مئی، 2014

صاحب تکوین



ارشادات ، واقعات ، تعلیمات  اور  طرز فکر 


 خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب بیان کرتے ہیں ...  

  ایک روز مغرب کی نماز کے بعد میں حضور قلندر بابا اولیاؒء  کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ میرے دماغ میں جھماکہ ہوا اور اندر کی آنکھ کھل گئی ،
دیکھا کہ حضور قلندر بابا اولیاؒء  کے اندر گھڑی کے فز کے طرح بےشمار دائرے ہیں اور آپ کے دماغ میں سے آنکھیں خیرہ کرنے والی روشنی کی لہریں نکل رہی ہیں اور ان دائروں کو حرکت دے رہی ہیں ...


ہر دائرے سے تار بندھا ہوا ہے اور ہر تار کے ساتھ ایک مخلوق متحرک ہے - ہر دائرے میں عالم اور کئی دائروں میں عالمین بھی نظر آئے میں نے یہ مشاہدہ بھی کیا کہ اوپر سے فلیش لائٹ کی طرح لہریں آرہی ہیں - چار نورانی آبشاریں حضور قلندر بابا اولیاؒء کے اندر اس طرح جذب ہوگئیں جیسے گلاس کے اندر ڈراپر سے قطرے ڈالے جاتے ہیں -


حضور قلندر بابا اولیاؒء سے اس امر کی تشریح چاہی کہ میں نے یہ کیا دیکھا -
انہوں نے مسکراتے ہوئے فرمایا ..." خواجہ صاحب !   ایک کھرب نظام شمسی میں تیرہ کھرب Planets  ہیں اور یہ تیرہ کھرب  Planets  نور کی ڈوری میں بندھے ہوئے ہیں -
صاحب تکوین بندہ جب تکوینی کام کرتا ہے تو اس کی یہی صورت ہوتی ہے جو آپ نے دیکھی ہے -


حیرانگی کے دریا میں غرق میں نے عرض کیا ..." عالمین میں تو فرشتے بھی ہیں " 

فرمایا ... " صاحب تکوین روٹین کے کام میں 25 سے  35 فرشتوں کی بیک وقت آواز سن کر ان کو احکامات دیتا ہے -

میں نے سوال کیا ..." حضور ! اتنے بڑے کائناتی سسٹم میں آپ کس طرح کام کرتے ہیں ..."

 فرمایا ..." آپ یہ سمجھیں کائناتی سسٹم میں بھی فائل ورک ہوتا ہے - اور کائناتی نظام کے لئے ممثل کی کارکردگی ایک گھنٹہ میں ایک کروڑ فائل ہے - ایک گھنٹہ میں ایک کروڑ فائل پڑھ کر اور دستخط کرکے پھینک دیتا ہے - "

کتاب ... تذکرہ خواجہ شمس الدین عظیمی    تالیف .. شہزاد احمد عظیمی 

جمعہ، 16 مئی، 2014

چینی قوم



ارشادات ، واقعات ، تعلیمات  اور  طرز فکر 


حضور قلندر بابا اولیاؒء  نے فرمایا...

..."    چینی قوم کے لئے فرشتے ایک لاکھ ترغیبی پروگرام انسپائر کرتے ہیں - یہ ایک ایسی محب الوطن قوم ہے کہ ایک پروگرام کو بھی رد نہیں کرتی سارے پروگرام قبول کرلیتی ہے -   "...

جمعرات، 15 مئی، 2014

سخت بات


ارشادات ، واقعات ، تعلیمات  اور  طرز فکر 



خواجہ صاحب ایک واقعہ سناتے ہوئے فرماتے ہیں ...

ایک بار بھائی شمشاد احمد صاحب ( بابا صاحب کے بڑے صاحبزادے ) نے حضور قلندر بابا اولیاؒء سے کوئی ایسی بات کہی جس کا آپ کے اوپر بہت سخت اثر ہوا - جب تین دن گزر گئے تو بھائی نثار صاحب اور میں نے کہا حضور چھوڑئیے بھی ، کوئی ایسی بات بھی نہیں ہوئی اور آپ دل پر لے بیٹھے ہیں - 

تو حضور قلندر بابا اولیاؒء نے جو جواب مرحمت فرمایا وہ ہم سب کو اپنے اپنے اندر جھانکنے کی دعوت دیتا ہے -

فرمایا ..." یہ بات نہیں ہے بلکہ گزشتہ تین روز سے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ میں نے اپنی زندگی میں ایسی کوئی حرکت کی تھی کہ آج میری اولاد نے جس کی رگوں میں  میرا خون دوڑ رہا ہے ایسی بات کی - میں گزشتہ تین روز سے اسی بات کی تلاش میں ہوں لیکن مجھے یاد نہیں آرہی ہے اس وجہ سے میں پریشان ہوں - "


        روحانی ڈائجسٹ  ...  جنوری ١٩٩٢ء

بدھ، 14 مئی، 2014

سلطانہ ڈاکو



ارشادات ، واقعات ، تعلیمات  اور  طرز فکر 



 خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں ...  

مرشد کریم  حضور قلندر بابا اولیاؒء  نے ایک بار فرمایا  تھا کہ ..

 "  سلطانہ ڈاکو کو جب پھانسی ہوئی تو اس سے اس کی آخری خواہش پوچھی گئی - اس نے کہا  میں مرنے سے پہلے اپنی ماں سے ملنا چاہتا ہوں - جب پھانسی کے تختے پر ماں سے ملاقات ہوئی تو ماں دیکھ کر رونے لگی ...
سلطانہ ڈاکو نے کہا .. ماں .. مجھے پھانسی تیری وجہ سے لگی ، تو اس روز جب میں چھٹ پنے میں پڑوس میں  سے انڈا چرا کر  لایا تھا اور تو نے وہ انڈا مجھے پکا کر کھلا دیا تھا - اگر تو مجھے تنبیہہ کرتی اور انڈا واپس کرا دیتی .. آج میں سولی پر نہیں لٹکتا - "


      روحانی ڈائجسٹ   ...    ستمبر ١٩٩٥ء

منگل، 13 مئی، 2014

اخلاق کی فضول خرچی


ارشادات ، واقعات ، تعلیمات  اور  طرز فکر



 خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں ...

میں نے مرشد کریم  قلندر بابا اولیاؒء سے اپنا خواب بیان کیا انہوں نے تعبیر بتائی کہ تم اخلاق کی فضول خرچی کرتے ہو - مجھے حیرانی  کے ساتھ پریشانی لاحق ہوگئی کہ کیا اخلاق کی فضول خرچی  بھی ہوتی ہے ؟

مرشد کریم نے فرمایا ..." اخلاق کی فضول خرچی یہ ہے کہ جس کام کا  تجربہ نہ ہو اس میں نقصان ہوتا ہے اور پھر جانتے بوجھتے وہی کام کیا جائے تو یہ اخلاق کی فضول خرچی ہے - "

     روحانی ڈائجسٹ  ...   مارچ ٢٠٠٠ ء

پیر، 12 مئی، 2014

مسیحا



ارشادات ، واقعات ، تعلیمات  اور  طرز فکر 




زیر نظر مضمون جناب جمیل احمد صاحب کا تحریر کردہ ہے - یہ تحریر جنوری 1998ء کے روحانی ڈائجسٹ  میں " قلندر بابا کی مسیحائی " کے عنوان سے شا ئع ہوئی -    

 محترم جمیل صاحب کو حسن اخریٰ سید محمّد عظیم برخیا المعروف حضور قلندر بابا اولیاؒء کے داماد ہونے کا شرف حاصل ہے - اس کے علاوہ جمیل صاحب قلندر بابا کے روحانی فرزند بھی ہیں - یہ واقعہ قلندر بابا کی صاحبزادی سے جمیل صاحب کے نکاح کے ابتدائی سالوں کا ہے ، جب وہ ایک لاعلاج مرض میں مبتلا ہوگئے -
 ان کی تشویشناک حالت اور مرض کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے تمام دنیاوی مسیحاؤں نے مایوسی ظاہر کردی تھی لیکن انسانی لباس میں ملبوس ایک مسیحا ایسا بھی تھا جس کے ہاتھ میں الله نے اس مرض سے نجات کی سبیل رکھی تھی -


 ✦...    یہ پچاس کے عشرے کا واقعہ ہے - 1950ء میں میری شادی جناب محمّد عظیم کی صاحبزادی سے ہوئی - اس خوبصورت اور مقدس بندھن سے ہم دونوں میاں بیوی بہت ہی خوش تھے - ہمارے دامن میں الله کی دی ہوئی ہر وہ خوشی موجود تھی جسے کامیاب زندگی کی اساس قرار دیا جاسکتا ہے -

مسرت آگیں اور محبت بھرے جذبوں کے ساتھ ایک سال کا عرصہ کچھ اس طرح بیت گیا کہ وقت کی خاموش ڈگر کا ادراک ہی نہ ہوسکا - ان ہی دنوں اچانک مجھے کھانسی کی شکایت ہوگئی - چند روز اور گزرے ہوں گے کہ ہلکا ہلکا بخار بھی رہنے لگا -

کھانسی اور بخار کے ازالے کے لئے کئی طرح کی ادویہ استعمال کیں - مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق کھانسی کی شدت اور بخار کے تسلسل نے ادھ موا کردیا - نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک روز منہ سے خون آنا شروع ہوگیا -فوراً  ڈاکٹر کو دکھایا گیا -

ڈاکٹر نے مرض کی تشخیص کرتے ہوئے یہ ہولناک انکشاف کیا کہ مجھے ٹی بی ہوگئی ہے - یہ خبر میرے پورے گھر اور سسرال والوں کے لئے کسی قیامت سے کم نہیں تھی خود میری اور بیگم کی جذباتی کیفیت قابل دید تھی - بیماری کے دنوں میں میری اہلیہ کے والد محمّد عظیم ایک مشفق ہستی ثابت ہوئے - آپ نے اس دوران بہت دلاسا دیا اور ہمت بندھائی -

ڈاکٹروں نے کئی ماہ تک علاج معالجہ کیا ، دوائیں دیں اور مختلف قسم کے پرہیز کروائے اور با لآخر میرا مرض بظاہر بالکل ختم ہوگیا - اس واقعے کے بعد دو سال آرام سے گزرے تھے کہ پھر اچانک کھانسی اور ہلکے ہلکے بخار کی سابقہ کیفیت دوبارہ در آئی اور خون دوبارہ شروع ہوگیا -

اس دفعہ معروف Consultants  اور  Physicians کو دکھایا گیا - انہوں نے متعدد ٹیسٹ وغیرہ کیئے - علاج اور دوا خوری کا مہینوں کا کورس دوبارہ شروع ہوا جس سے چند ماہ میں مرض دوبارہ دب گیا -
لیکن جب تیسری مرتبہ Bleeding ہوئی تو خون نے بند ہونے کا نام ہی نہ لیا اور اس قدر خون منہ کے راستے خارج ہوا کہ سب بری طرح گھبرا گئے - میرے سسر جناب محمّد عظیم کو خبر ملی تو فوراً  مزاج پرسی کے لئے تشریف لائے لیکن میری حالت تشویشناک حد تک خراب تھی - سارے گھر میں کہرام بپا تھا -

آپؒ نے میری کیفیت کو ملاحظہ کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ جمیل صاحب کو فوراً ہسپتال میں Admit  کرا دیا جائے - انشاء اللہ ٹھیک ہوجائیں گے اور یہ کہ CMH  میں میرے چند ڈاکٹرز جاننے والے ہیں بہتر ہوگا کہ وہیں  Admit کرا دیں - 

CMH  میں ڈاکٹر منظور بھٹی صاحب میرے سسر محترم کے حلقۂ احباب میں شامل تھے - چنانچہ وہاں داخل کردیا گیا - اپنی داستان مزید بیان کرنے سے پہلے میں یہ بتاتا چلوں کہ میں کس بزرگ ہستی  کی بات بیان کر رہا ہوں - میرے سسر جناب محمّد عظیم صاحب کو آج ایک عالم  قلندر بابا اولیاؒء کے نام سے جانتا ہے - مجھے اس عظیم ہستی کا داماد ہونے کا شرف حاصل ہے -  

قلندر بابا اولیاؒء کی ہدایت پر مجھے CMH  میں داخل کروا دیا گیا اور خواجہ شمس الدین عظیمی , قلندر بابا اولیاؒء کی ہدایت پر میرے ساتھ  تیمارداری کے لئے رک گئے -  ڈاکٹروں نے کئی ایکسرے اور بلغم کے ٹیسٹ لئے ، طرح طرح کے  Examinations   ہوئے مگر مرض اپنی جگہ جوں کا توں رہا اور خون بند نہ ہوا -
ٹیسٹ رپورٹوں کو دیکھ کر ڈاکٹروں نے نیا انکشاف کیا کہ ٹی بی اپنی Third Stage میں پہنچ چکی ہے - یاد رہے کہ تیسری اسٹیج کی ٹی بی کا اس وقت علاج دریافت نہیں ہوا تھا اور یہ مرض لاعلاج امراض کی صف میں آتا تھا - اس اسٹیج کے مریض کو سب سے الگ تھلگ کرکے ڈال دیا جاتا تھا جہاں وہ اپنی زندگی کے دن گنتا  رہتا -

 میری حالت سے سارے ڈاکٹر مایوس نظر آنے لگے - بیماری نے پندرہ  روز تک طول کھینچا - اس عرصے میں جسم سے خون کے اخراج سے میری حالت دگرگوں ہوگئی - نقاہت اس قدر شدید ہوگئی کہ ہلکی سی کھانسی آجانے پر بھی چکر آجاتا اور نگاہوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا - کمزوری اتنی تھی کہ ہاتھ پیر ہلانا بھی اپنی اختیار میں نہ رہا - 

ایک روز ڈاکٹر منظور بھٹی نے خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب ( جو کہ میری تیمارداری کر رہے تھے ) کو بلایا اور کہا کہ ہم نے اپنی تمام تر کوششیں کرکے دیکھ لیں ہیں اور مرض اس اسٹیج میں پہنچ چکا ہے کہ بچنے کے امکانات معدوم ہیں اور ان کے بچنے کی اب کوئی امید دکھائی نہیں دیتی - بابا صاحب سے کہو انہیں گھر بلالیں -

بابا صاحب کو جب ڈاکٹر منظور کی بات گوش گزار کرائی گئی تو انہوں نے خفگی کا اظہار فرمایا - اگلے روز میری بیگم آئیں تو میری حالت زار کو دیکھ کر زاروقطار رونے لگیں - میری کیفیت ایسی تھی کہ بات کرنے کی بھی ہمت نہ تھی - ہر وقت غنودگی طاری رہتی تھی -
میں نے اپنی تمام تر قوت کو مجتمع کرکے بیگم سے کہا کہ تم ابا کے پاس جا کر کہو کہ جمیل کی حالت بہت خراب ہے اور دنیاوی مسیحاؤں کی تمام تدبیریں ناکام ہوچکی ہیں - اب صرف دعا کا سہارا باقی بچا ہے للہ توجہ فرمائیں -

بیگم اسی وقت روانہ ہوگئیں - جب وہ اپنے والد کے پاس پہنچیں  تو وہ تخت پر تشریف فرما تھے - بیگم نے جب اپنے مشفق اور سراپا جود وسخا والد محترم کو دیکھا تو دبے ہوئے جذبات کی چنگاری بھڑک اٹھی اور وہ کچھ کہنے کے بجائے بلک بلک کر رونے لگیں - باپ کے سینے سے لگ کر بہت دیر تک سسکتی رہیں -

بالآخر قلندر بابا کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا - آپؒ نے تین بار تخت پر مکے مارے اور زبان اقدس سے کچھ الفاظ بھی ادا فرمائے جو بیگم کی سمجھ میں نہ آسکے - میں وہاں اسپتال کے کمرے میں نقاہت کی حالت میں پڑا ہوا تھا - سب کچھ سایہ سایہ سا لگ رہا تھا ، اسی اثناء میں میں نے دیکھا کہ حضرت بابا تاج الدین ناگپوری رحمتہ الله علیہ اور  قلندر بابا اولیاؒء تشریف لائے ہیں -

میں جس بیڈ پر لیٹا ہوا تھا اس کی ایک پٹی پر بابا تاج الدین ناگپوری بیٹھے ہیں اور اور دوسری پر بابا صاحب - بابا تاج الدینؒ نے میرے سینے پر ہاتھ پھیرا مجھے کچھ ٹھنڈک سی محسوس ہوئی اور اس کے بعد میں بےہوش ہوگیا -

مجھے نہیں معلوم کہ ان متبرک اور پرنور ہستیوں نے کیا کیا - بہر حال جب مجھے ہوش آیا تو سینے کی جلن بند ہوچکی تھی  اور آھستہ روی سے میں ہاتھ بھی ہلا جلا سکتا تھا - میں نے کوشش کرکے ادھر ادھر کمرے میں نظر دوڑائی مگر میرے علاوہ وہاں کوئی اور دکھائی نہیں دیا -

اس دن کے بعد سے صحت درست ہونا شروع ہوگئی - اس طرح اچانک دوبارہ صحت یاب ہونے سے ڈاکٹرز حیران تھے - کیونکہ ایسے بظاہرکوئیعوامل باقی نہیں رہے تھے کہ میں ٹھیک ہوجاتا -صحت یاب ہو کر جب گھر آیا اور بابا صاحب پر پہلی نظر پڑی تو وہ زیر لب مسکرا رہے تھے - ان کی آنکھوں میں یقیناً کوئی ایسی بات تھی کہ میری نگاہیں جھکتی چلی گئیں -

 بابا صاحبؒ نے مجھے قریب بلا کر فرمایا ... " جمیل صاحب اب آپ کو یہ تکلیف کبھی نہیں ہوگی ، آپ بےفکر رہیئے - " اور یہ جملہ اب میری پوری زندگی پر محیط ہوچکا ہے - کیونکہ آج چالیس سال بعد بھی میں عمومی طور پر صحت مند ہوں -
اس موذی بیماری کو تو خیر چھوڑیں لیکن اس کے علاوہ بھی کبھی کوئی شدید بیماری مجھے لاحق نہیں ہوئی -   قلندر بابا اولیاؒء کی مسیحائی کے اس واقعے کے بعد ان کی بزرگی اور اعلیٰ مرتبے کے اعتراف میں جبین ناز عقیدت و احترام سے اس عظیم ہستی کے لئے جھک جاتی ہے -