کشف و کرامات
تعارف
حضور قلندر بابا اولیاؒء کے کشف و کرامات بیان کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ کشف و کرامت کا علمی انداز سے جائزہ لیا جائے کہ اس کی حقیقت کیا ہے -
عربی میں " خرق " کے معنی " پھاڑنا " یا " توڑ دینا " کے ہیں جبکہ " عادت " عام قوانین قدرت کو کہا جاتا ہے -
عربی میں " خرق " کے معنی " پھاڑنا " یا " توڑ دینا " کے ہیں جبکہ " عادت " عام قوانین قدرت کو کہا جاتا ہے -
خرق عادت کی نوعیت بیان کرنے کے لئے چند اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں مثلاً معجزہ ، کرامت ، استدراج وغیرہ -
اردو لغت کے مطابق معجزہ کی تعریف یہ ہے کہ ... " وہ حیرت انگیز بات جو صرف نبی سے ظاہر ہو ، ایسی خرق عادت جو نبی سے صادر ہو ، وہ کام جو طاقت بشری سے باہر یا عاجز کردینے والا ہو معجزہ کہلاتا ہے -
معجزہ صرف انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعے ہی ظاہر ہوتا تھا ، چونکہ نبوت ختم ہوچکی ہے لہٰذا معجزات کا سلسلہ خاتم النبیین محمّد رسول الله صلّ الله علیہ وسلّم پر ختم ہوچکا ہے -
صوفیاء کرام سے ظاہر ہونے والے خرق عادت کو کرامت کہا جاتا ہے - انبیاء کرام علیہم السلام اور صوفیاء کرام کے علاوہ اگر کسی شخص سے کسی منفی نیت سے خرق عادت کا صدور ہو تو اسے استدراج کہتے ہیں - استدراج کے معنی شیطانی طاقت سے مافوق الفطرت (Super natural ) کام ہونا ، یہ شعبدہ بازی یا جادوگری ہے -
علامہ یوسف نبہانی نے کشف و کرامات کی دلیل میں ایک ضخیم کتاب " جامع کرامات اولیاء " تحریر کی ہے - اس کتاب میں ایک جگہ تحریر کرتے ہیں
" ہم عرف میں یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ بادشاہ جسے خدمت خاصہ کے لئے متعین کرتے ہیں اور جسے محبت کی محفل میں آنے کی اجازت دیتے ہیں اسے ایسے اختیارات بھی دیتے ہیں جو دوسروں کو نہیں ملا کرتے بلکہ عقل سلیم کا فتویٰ تو یہ ہے کہ جب یہ قرب و وصال کی دولت ملتی ہے تو یہ مناصب خود بخود آجاتے ہیں یعنی قرب اصل ہوتا ہے اور عہدہ اس کے تابع ...
اب فرمائیے کہ الله کریم سب سے بڑا بادشاہ ہے کہ نہیں ؟ تو جسے یہ شہنشاہ اپنی خدمت کی دہلیز پر کرامت کے درجے عطا فرما کر متعین کرتا ہے ، اسرار معرفت اسے عطا کرتا ہے ، دوری و فراق کے پردے ہٹا کر اسے اپنے قرب کے قالین پر بٹھاتا ہے تو کیا پھر اسے اس جہان میں کچھ کرامات کے اظہار سے روک سکتا ہے
حالانکہ یہ سارا جہاں روحانی سعادتوں اور خداوندی معرفتوں کے مقابلے میں عدم محض اور فنائے صرف ہے تو جب وہ سب کچھ عطا فرما دیا ہے تو یہ حقیر چیز کسے عطا نہ ہوگی - "
علامہ نبہانی مزید تحریر فرماتے ہیں... " جب بندۂ خدا طاعات کے راستے پر چلتا ہوا اس مقام رفیع تک پہنچتا ہے تو الله کریم فرما دیتے ہیں " میں اس کے کان اور آنکھ بن جاتا ہوں "
جب جلال الہی کا نور اس کے کان بنتا ہے تو وہ بندۂ خدا قریب و دور سے سننے لگ جاتا ہے اور جب یہی نور اس کی نگاہ کو تاباں کرتا ہے تو وہ قریب و دور کو دیکھنے لگ جاتا ہے اور جب یہی نور جلال ولی کا ہاتھ بن جاتا ہے تو اسے آسان و مشکل اور قریب و بعید میں تصرف عطا کردیتا ہے - "
کشف و کرامت کے ضمن میں ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاؒء فرماتے ہیں ...
✦..." علم نبوت کے زیر اثر جب کوئی خرق عادت نبی سے صادر ہوتی تھی اس کو معجزہ کہتے تھے اور جب کوئی خرق عادت ولی سے صادر ہوتی ہے تو اس کو کرامت کہتے ہیں لیکن یہ بھی علم نبوت کے زیر اثر ہوتی ہے - معجزہ اور کرامت کا تصرف مستقل ہوتا ہے ...
مستقل سے مراد یہ ہے کہ جب تک صاحب تصرف اس چیز کو خود نہ ہٹائے وہ نہیں ہٹے گی لیکن استدراج کے زیر اثر جو کچھ ہوتا ہے وہ مستقل نہیں ہوتا اور اس کا اثر فضا کے تاثرات بدلنے سے خود بخود ضائع ہوجاتا ہے - استدراج کے زیر اثر جو کچھ ہوتا ہے اس کو جادو کہتے ہیں ...
خرق عادت یا کرامت کا ظہور کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے ، جب کسی بندہ کا شعوری نظام لاشعوری نظام سے خود اختیاری طور پر مغلوب ہوجاتا ہے تو اس سے ایسی باتیں سرزد ہونے لگتی ہیں جو عام طور سے نہیں ہوتیں اور لوگ انہیں کرامت کے نام سے یاد کرنے لگتے ہیں جو سب بھان متی ہے ...
روحانی علوم اور روحانیت بالکل الگ ہے - اعمال و حرکات میں خرق عادت اور کرامت خود اپنے اختیار سے بھی ظاہر کی جاتی ہے اور کبھی کبھی غیر اختیاری طور پر بھی سرزد ہوجاتی ہے - خرق عادت آدمی کے اندر ایک ایسا وصف ہے جو مشق کے ذریعے متحرک کیا جا سکتا ہے "...✦
سیدنا حضورعلیہ الصلوٰة والسلام کے وارث اور الله کے دوست حضور قلندر بابا اولیاؒء کی ذات با برکات سے جو کرامات وقتاً فوقتاً صادر ہوتی رہی ہیں ، قارئین کی خدمت میں پیش ہیں -
حضور بابا صاحبؒ کی اکثر و بیشتر کرامات خانوادہ سلسلہ عظیمیہ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنی تصنیف " تذکرہ قلندر بابا اولیاؒء " میں تحریر فرمائی ہیں -
کتاب ... تذکرہ قلندر بابا اولیاؒء ... کا پہلا ایڈیشن 1982ء میں شائع ہوا -
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں