جمعہ، 23 مئی، 2014

صدائے جرس



ارشادات ، واقعات ، تعلیمات  اور  طرز فکر 


   تاریخ بتاتی ہے کہ قلندری سلسلہ حضرت عبدالعزیز مکیؓ سے  جاری ہوا - یہ بزرگ حضرت صالح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں -
انہیں جب رسول الله صلّ الله علیہ وسلّم کے ظہور کی نوید ملی تو انہوں نے الله تعالیٰ سے التجا کی کہ  مجھے  اتنی  طویل    عمر  عطا  فرما  کہ  میں
خاتم النبیین صلّ الله علیہ وسلّم کے دست حق پرست پر بیعت ہوسکوں ...
 الله تعالیٰ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی - 

" مناقب قلندریہ " میں لکھا ہے کہ مسجد نبویؐ کے قریب صفّہ  ایک چبوترہ تھا - وہاں پر اصحاب صفّہ قیام کرتے تھے - حضرت عبدالعزیز مکی قلندرؓ بھی ان میں سے ایک تھے - اصحاب صفّہ کی تعداد سو سے زیادہ بتائی جاتی ہے -

 قلندر کی تعریف یہ ہے کہ وہ عبادت و ریاضت ، خلوص و ایثار اور عجز و انکساری سے ایسے مقام پر فائز ہوجائے جہاں انسانی ذہن غیر جانبدار ہوجاتا ہے - قلندر پر تسخیر کائنات کے راز کھل جاتے ہیں -
الله کی مخلوق ان کی خدمت میں جب گزارش کرتی ہے تو الله کے دیئے ہوئے علوم اور اختیارات سے وہ ان گزارشات کو سنتے بھی ہیں اور اس کا تدارک بھی کرتے ہیں -

یہی وہ پاکیزہ اور قدسی نفس بندے ہیں جن کے بارے میں الله تعالیٰ فرماتا ہے :

 "  میں اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہوں اور ان کے
   کان ، آنکھ اور زبان بن جاتا ہوں - پھر وہ میرے
    ذریعے سنتے ہیں ، میرے ذریعے بولتے ہیں اور
    میرے  ذریعے   ہی  چیزیں    پکڑتے     ہیں - "  

حضرت سید محمّد عظیم برخیا المعروف قلندر بابا اولیاؒء بھی قلندری سلسلہ کے نصف النہار سورج ہیں - آپؒ کا خاندانی سلسلہ حضرت امام حسن عسکریؒ سے قائم ہے - 

حضور قلندر بابا اولیاؒء  اپنے نانا  تاج الدین بابا اولیاءؒ کے پاس 9 سال تک مقیم رہے - 9 سال کے عرصے میں بابا تاج الدین ناگپوریؒ نے ان کی روحانی تربیت فرمائی -

تقسیم ہند کے بعد حضور قلندر بابا اولیاؒء اپنے اہل و عیال کے ساتھ کراچی تشریف لے آئے -حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ  کی روح پر فتوح نے حضور قلندر بابا اولیاؒء کی روح کو تعلیم دی - سیدنا حضورعلیہ الصلوٰة والسلام نے براہ راست علم لدنی عطا فرمایا - 

حضور قلندر بابا اولیاؒء کے حلقہ ارادت میں تقریباً ہر شعبہ کے لوگ شامل تھے - انجینئر ، ڈاکٹر ، ٹیچر ، پروفیسر ، صنعت کار ، سوداگر ،  اعلیٰ عہدوں پر فائز اور ماتحت سرکاری افسران ... سب ہی لوگ حاضر ہوتے تھے ...

حضور قلندر باباؒ کے کمرے میں ایک تخت بچھا ہوا تھا ... تخت کے اوپر ایک چٹائی اور دو تکیے رکھے رہتے تھے ... تخت کے سامنے ایک کرسی اور ایک تپائی ( بینچ ) پڑی ہوئی تھی -
ایک چھوٹی اٹیچی تھی جس میں ایک یا دو جوڑے کپڑے رکھتے تھے لوگ جب حاضر ہوتے اور ایک کرسی اور بینچ پر بیٹھ جاتے تو گفتگو کا سلسلہ کبھی  قلندر باباؒ شروع کرتے تھے اور کبھی حاضرین میں سے کوئی ایک سوال کرتا تھا -

سوال و جواب کی یہ محفل گھنٹوں جاری رہتی تھی - ہر علم کے بارے میں سوال کرنے کی عام اجازت تھی - لیکن روحانی ، تحقیقی اور سائنسی علوم کے بارے میں  سوال کرنے کو پسند فرماتے تھے - شب بیداری  قلندر بابا اولیاؒء  کا محبوب مشغلہ تھا -اس دوران بھی سوال و جواب کی محفل جم جاتی تھی -
حضور قلندر بابا اولیاؒء کا طریقہ تعلیم یہ تھا کہ وہ خود ہی کوئی بات بیان کرکے سننے والے سے پوچھتے تھے کہ اس کا کیا مطلب ہوا ؟ ... یا کوئی طالب علم سوال کرتا تھا تو اس کا تشفی بخش جواب دینا  قلندر بابا اولیاؒء اپنا فرض جانتے تھے - 

ایک صاحب تشریف لائے جو پارسی تھے اور پیشہ کے لحاظ سے ویونگ اور ڈائنگ ماسٹر تھے - انہوں نے رنگ کے بارے میں سوال کیا ... جب وہ کمرے سے باہر آئے تو انہوں نے کہا .." رنگ کے بارے میں ایسی تشریح میں نے نہ سنی ہے اور نہ کہیں پڑھی ہے - " 

 آسمانی رنگ کے بارے میں قلندر باباؒ کا انکشاف ہے کہ آسمانی رنگ کوئی رنگ نہیں ہے ... جب ہم خلاء میں دیکھتے ہیں تو خلاء میں جس جگہ سے ہماری نظر ٹکرا کر واپس آتی ہے ، نظر اور ٹارگٹ کے درمیان جو فاصلہ ہے ... شعور انسانی اسے آسمانی دیکھتا ہے ... آسمان پر ماہ و انجم کا جو نظام ہے اور قندیلیں روشن ہیں ، یہ قندیلیں دراصل آسمان کی خوبصورتی کا  تعین کرتی ہیں - 

ایک صاحب نے عرض کیا .." جب میں آپ کا تصور کرتا ہوں تو آپ اور پورا مکان میرے سامنے ہوتا ہے .. مگر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ میں مکان میں ہوں اور آپ کے پاس ہوں یا مکان اور آپؒ میرے پاس آگئے ہیں -"

قلندر باباؒ نے فرمایا ... 

..."   قرآن ان لوگوں کو روشنی دکھاتا ہے جو اپنے اندر الله کے بارے میں ذوق رکھتے ہیں - غیب سے مراد وہ تمام حقائق ہیں جو ابھی انسان کے مشاہدے میں نہیں آئے ..
ایمان سے مراد ذوق ہے  ذوق وہ عادت ہے جو تلاش میں سرگرداں رہتی ہے .. اس لئے نہیں کہ اسے کوئی معاوضہ ملے گا بلکہ صرف اس لئے کہ ذوق طبیعت کا تقاضہ ہے ..   

متقی سے وہ انسان مراد ہے جو سمجھنے میں بڑی احتیاط سے کام لیتا ہے ، ساتھ ہی بدگمانی کو راہ نہیں دیتا .. وہ الله کے معاملے میں اتنا محتاط ہوتا ہے کہ کائنات کا کوئی روپ اسے دھوکہ نہیں دے سکتا - وہ الله کو بالکل الگ سے پہچانتا ہے اور الله کے کاموں کو بالکل الگ سے جانتا ہے -

 صحیح طور سے پہچاننے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر ذوق موجود ہے .. ہر انسان کے اندر یہ ذوق موجود ہے اور یہی ذوق لائف اسٹریم ہے .. انسان اس کو استعمال کرے یا نہ کرے یہ اس کی اپنی مرضی اور مصلحت ہے .. انسان کے اندر اگر ذوق نہ ہو تو انسان خلا  ہے -

قرآن پاک میں الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے ...

 " میں نے انسان کو بجنی مٹی سے بنایا ہے - "

بجنی مٹی سے مراد خلا ہے .. ذوق میں نہ وزن ہوتا ہے ، نہ ذوق کے لئے فاصلہ کوئی معنی رکھتا ہے .. نہ نہ ذوق زمین آسمان کی حدود کا پابند ہے .. نہ اسے وقت پابند بنا سکتا ہے .. انسان بغیر ذوق کے خلا ہے .. اور خلا چلتا پھرتا نہیں ہے .. خلا میں ذوق چلتا پھرتا ہے ..

 انسان ذوق سے اس وقت تک متعارف نہیں ہوتا جب تک اس کا تعارف حاصل کرنے کی جدوجہد نہ کرے اور جب ذوق کا تعارف حاصل ہوجاتا ہے تو انسان اس بات سے باخبر ہوجاتا ہے کہ دراصل ذوق ہی انسان ہے جو فرشتوں کا سربراہ ہے .. الله کی بہترین صفت ہے

اور کائنات میں الله کا نائب ہے .. نہ وہ پیروں سے چلنے اور ہاتھوں سے پکڑنے کا پابند ہے نہ وہ آنکھوں سے دیکھنے اور کانوں سے سننے کا محتاج ہے .. یہ ساری خرافات انسان نے آپ ہی تخلیق کی ہیں   "...

ایک شاگرد نے سوال کیا .. فرشتے ، جنّات اور انسان کی تخلیق کس طرح ہوئی ؟

 جواب میں فرمایا ...

..."   دماغ کے ہر خلیئے میں ایک نقطہ ہے .. اور یہ نقطہ ہر خلیئے میں روح کے قائم مقام ہے .. یہ نقطہ 48 دائروں سے بنا ہوا ہے .. ان دائروں کو ہم کروموسوم بھی قیاس کرسکتے ہیں ...

کروموسوم کی تین قسمیں ہیں ... ایک وہ جس سے فرشتے تخلیق ہوتے ہیں اس کروموسوم میں جنسی خواہش نہیں ہوتی .. اور وہ روح کے ساتھ ازل میں پیدا ہوا اور روح کے ساتھ ابد تک  رہے گا .. یہ کروموسوم عام آدمی کو نظر نہیں آتا جس طرح عام آدمی کو روح نظر نہیں آتی ..

دوسرا کروموسوم جنّات کا ہے اس میں جنسی خواہش اور تناسل دونوں ہوتے ہیں .. جنّات بھی عام آدمی کو نظر نہیں آتے - اس کروموسوم کی زندگی بھی محدود ہوتی ہے ..

تیسرا کروموسوم انسان کا ہے .. اس میں بھی جنسی خواہش اور تناسل دونوں ہیں .. اس کی زندگی بھی محدود ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ وہ نظر بھی آتے ہیں مگر روح نکل جانے کے بعد مٹی میں مل جاتے ہیں ..

حقیقت تو یہ ہے کہ کروموسوم کو بھی نظر کا دھوکہ کہنا چاہئے .. اس لئے کہ کروموسوم میں روح چھپی ہوتی ہے .. روح کے بغیر کروموسوم کی کوئی حیثیت نہیں   "...

فرشتوں کے کروموسوم کو  قلندر بابا اولیاؒء نے نسمہ مطلق کا نام دیا ہے .. جنّات کے کروموسوم کو نسمہ مفرد ..اور  انسان کے کروموسوم کو نسمہ مرکب کہا ہے .. یعنی فرشتے نسمہ مطلق کی تخلیق ہیں ، جنّات نسمہ مفرد کی تخلیق ہیں اور انسان نسمہ مرکب کی تخلیق ہے -

نسمہ سے مراد یہ ہے کہ ہر تخلیق کے جسم کے اوپر روشنیوں کا بنا ہوا ایک اور جسم ہے - یہ جسم لہروں سے بنا ہوا ہے - انسان کی تخلیق نسمہ مرکب سے ہوئی اس کا مطلب یہ ہے کہ روشنیوں کے تانے بانے پر انسانی تقش و نگار بنے ہوئے ہیں ..
اس کی مثال قالین کے اوپر شیر کی تصویر ہے .. جب ہم قالین کے اوپر شیر کی تصویر دیکھتے ہیں تو ہم یہ نہیں کہتے کہ قالین پر شیر بیٹھا ہے .. ہم کہتے ہیں کہ یہ شیر ہے -

انسان کے اوپر اگر نسمہ کی حقیقت منکشف ہوجائے تو وہ فرشتے، جنّات اور انسان کی روح کو دیکھ سکتا ہے - نا صرف دیکھ سکتا ہے بلکہ تصرف بھی کر سکتا ہے -

شاگرد نے پوچھا ..." ہر انسان صحت مند رہنا چاہتا ہے .. لیکن شاید ہی کوئی آدمی ہو جو  بیمار نہ ہوتا ہو .. ہر انسان خوش رہنا چاہتا ہے لیکن شاید ہی کوئی آدمی ہو جو غمگین نہ ہوتا ہو .. بلکہ مشاہدہ یہ ہے کہ ہزار  میں سے نوسو ننانوے لوگ ناخوش رہتے ہیں  اور ایک آدمی خوش رہتا ہے لیکن خوش رہنے والا بھی اس بات سے نا واقف ہے کہ خوشی کیا ہے ؟ "

حضور قلندر باباؒ نے فرمایا ...

..."   انسان کے دماغ میں ایک خاص دروازہ Main Gate   ہے ... اور اس کے اطراف میں اور بہت سارے دروازے ہیں .. مین گیٹ بند ہوجانے سے دوسرے گیٹ بھی بند ہوجاتے ہیں ..

جیسے ہی دروازے بند ہوتے ہیں .. حواس سکڑنے لگتے ہیں .. حواس کا سکڑنا ہی دراصل بیماری ہے دماغ مسلسل انفارمیشن قبول کرنے کا ایک آلہ ہے .. دماغ انفارمیشن قبول کرکے خلیوں میں تقسیم کرتا رہتا ہے اور ہر خلیہ مختلف حسیات کو بیلنس کرتا رہتا ہے ...

لیکن اگر انفارمیشن میں رکاوٹ آجائے چاہے وہ کسی حادثے کی وجہ سے ہو یا انسان کے اپنے ارادے سے ہو .. تو گیٹ بند ہونے لگتے ہیں .. اور جیسے ہی گیٹ غیر ضروری طور پر بند ہوتے ہیں سکڑتے سکڑتے اتنے سکڑ جاتے ہیں کہ دماغ کے اوپر فالج گر جاتا ہے ..

اگر کوئی فرد ضدی ہے .. اور وہ چاہتا ہے کہ جو بات اس کے خیال میں ہے وہی پوری ہو اور وہ دوسرے کی بات نہیں سنتا تب انفارمیشن کے بہاؤ میں فرق پڑ جاتا ہے .. اور اس فرق سے حواس سکڑنے لگتے ہیں   "...


ہمیں کیسے پتہ چلے کہ حواس کا سکڑنا کیا ہے  ؟  

..."   ایسے شخص کے منہ کا ذائقہ خراب ہوجاتا ہے .. اچھی چیزیں بھی آنکھوں کو بری لگتی ہیں .. سریلی آواز بھی دماغ پر بوجھ بنتی ہے .. چہرہ کبھی پھیکا پڑ جاتا ہے .. کبھی تمتماتا ہے .. چہرہ پر جو چمک دمک ہونی چاہئیے وہ چمک دمک نہیں رہتی ، چاہے چہرہ کسی بھی رنگ کا ہو ..

اس کا علاج یہ ہے کہ شہادت کی انگلی پر ان الله علیٰ کل شئ قدیر   تین دفعہ پڑھ کر دم کریں اور انگلی کو تیس سیکنڈ تک تالو پر پھیریں - آنکھیں بند کرکے یہ تصور کریں کہ دماغ کا مین گیٹ کھل گیا ہے .. ذہن میں یہ ارادہ ہونا چاہیئے کہ بیماری ختم ہوگئی ..


ہر انسان کے دماغ میں دو کھرب خلئے ہیں .. ان دو کھرب خلیوں میں ایک خاص گیٹ کے اطراف پانچ اورگیٹ Gates ہوتے ہیں اس طرح بارہ کھرب خلئے ہوئے .. خاص گیٹ وہ ہے جس میں وہم پرورش پاتا ہے ..

اس کے ساتھ ایک اور گیٹ کھلتا ہے جہاں خیال بنتا ہے .. اس کے ساتھ تیسرے گیٹ میں حواس بنتے ہیں .. چوتھا گیٹ کھلتا ہے تو حرکت واقع ہوتی ہے .. پانچواں گیٹ کھلتا ہے تو عمل وقوع پزیر ہوتا ہے .. اور چھٹا گیٹ کھلتا ہے تو نتیجہ برآمد ہوتا ہے   "...


 قلندر بابا اولیاؒء ایک شاگرد کے استفسار پر " یومنون بالغیب "   کی تشریح میں فرماتے ہیں  ..."  

 " جو ایمان لائے ہیں غیب پر  "


الله تعالیٰ کے لئے تو کچھ بھی غیب نہیں ہے - یہ غیب بندوں کے لئے ہے .. بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جنہیں الله تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور انسانوں کے دلوں میں ان چیزوں کے لئے رغبت پیدا کردی ہے ..

یہ رغبت ہی ہے جو انسانوں کو ایجاد کی طرف مائل کرتی ہے .. ایجاد کا ایک اعجاز یہ ہے کہ ایجاد کرنے میں کتنی ہی محنت کرنی پڑے اور کتنا ہی وقت صرف ہوجائے .. کتنی ہی مشکلات پیش آئیں موجد جب تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچتا کوشش جاری رکھتا ہے -

اور دوسروں کے لئے جدوجہد اور کوشش کا راستہ متعین کرجاتا ہے کہ وہ بھی اسی طرح تحقیق و تلاش میں مصروف رہے اور ان چیزوں کو پردۂ غیب سے باہر نکالے جو انسانوں کے خیالات میں آتی رہتی ہیں .. ایجاد کتنی ہی خوش نما ہو .. خوفناک ہو .. موجد اس کی پرواہ کے بغیر اپنی تلاش جاری رکھتا ہے ..

الله تعالیٰ تحقیق و تلاش کرنے والے لوگوں کو ایک خاص عقل عطا کرتا ہے جو غیب سے ظاہر ہونے والی اس چیز کی طرف ان کا دھیان کھینچتی رہتی ہے جس کا دنیا میں  مظاہرہ ہونا ہے .. اور یہ سب اس  لئے ہوتا ہے کہ الله تعالیٰ چاہتے ہیں کہ نئی نئی چیزیں نوع انسانی پر منکشف ہوں ..

الله تعالیٰ قرآن پاک میں  فرماتے ہیں  


جس  نے  آپ  کے  لئے  زمین  کو
 بستر  اور  آسمان  کو  عمارت  بنا  دیا-  

 یعنی آسمان کو عمارت کی شکل بنا دیا جو ظاہری طور پر نظر نہیں آتا مگر یہ بہت بڑی تعمیر ہے جس میں ستارے اور سیارے اپنی بیلٹ پر چل رہے ہیں ... یہاں عمارت کے معنی بہت وسیع ہیں ..
عمارت سے مراد انسان بھی ہیں اور دریا اور پہاڑ بھی ہیں - اڑنے والے پرندے بھی ہیں .. ان کی جبلت ، ضروریات ، خواص ، کیفیات وغیرہ سب لفظ عمارت میں آجاتا ہے - الله نے اتنی مخلوق بنا دی ہے کہ جن کی ہم گنتی نہیں کرسکتے اور یہ سب مخلوق اس کی تعمیر ہے ..

مخلوق کے لئے الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے مخلوق کے لئے زمین کو بستر بنایا اور آسمان کو عمارت بنا دیا ہے  

الله تعالیٰ فرماتا ہے ...

 نافرمان لوگ ان چیزوں کو توڑتے ہیں جن کو جوڑنے
کا  میں  نے  حکم  دیا  ہے  اور  فساد  کرتے  ہیں ..

کبھی وہ لوگ یہ سوچتے نہیں کہ یہ انہی کا نقصان ہے وہ میرا کچھ نقصان نہیں کرتے .. حقیقت میں کوئی چیز بگڑتی نہیں ہے بلکہ اسی حالت میں رہتی ہے جس حالت میں اسے رکھا گیا ہے ..

الله تعالیٰ فرماتا ہے :

      " میں نے آدم کو سب نام سکھائے اور تاکہ وہ بتائے 
فرشتوں کو .. کہا بتاؤ وہ نام اگر سچے ہو .."

فرشتوں نے کہا

             " تو برتر ہے ہمیں معلوم نہیں مگر وہ جو تو نے ہمیں
سکھایا ہے - بے شک تو جاننے والا ہے -"


الله تعالیٰ فرماتا ہے...

         کہا اے آدم ! بتادے نام ان کو پھر جب اس نے نام بتادیئے
         تو کہا کیا میں نہ کہتا تھا کہ مجھے زمین و آسمان  کی خبر            ہے اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اس کی بھی خبر ہے -

 سورہ بقرہ میں ارشاد ہے ..

الم - یہ کتاب .. نہیں ہے شک اس میں .. ہدایت ہے متقی لوگوں کے لئے اور متقی لوگ وہ ہیں جو غیب پر یقین رکھتے ہیں - اور قائم کرتے ہیں  صلوٰة  
( یعنی نماز میں الله سے ان کا تعلق قائم ہوجاتا ہے ) اور الله کے دیئے ہوئے رزق میں سے خرچ کرتے ہیں - 


قرآن فرماتا ہے : اس کتاب سے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے ہدایت پانے کے لئے متقی ہونا ضروری ہے .. اور متقی کی تعریف یہ ہے کہ اس کا غیب پر ایمان ہوتا ہے .. ایمان کی تکمیل یقین ہے اور یقین مشاہدے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا ..
 نمازی کی تعریف یہ ہے کہ اس کا الله تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم ہوتا ہے - وہ دیکھتا ہے کہ میں الله کے سامنے رکوع و سجود میں ہوں .. یا وہ یہ دیکھتا ہے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے .. اور جو کچھ وہ خرچ کرتا ہے اس کے یقین میں یہ بات موجود ہوتی ہے کہ سب کچھ الله کا دیا ہوا ہے .. میری ذاتی ملکیت کچھ نہیں   "...




خواجہ شمس الدین عظیمی  

( مرکزی مراقبہ ہال - سرجانی ٹاؤن ، کراچی )

صدائے جرس ...  روحانی ڈائجسٹ  ...  جنوری ٢٠٠٣ء  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں