پیر، 25 نومبر، 2013

ہمدم دیرینہ--21


 پی- ایچ - ڈی



محمّد ایوب صاحب حکومت پاکستان میں غالباً ڈپٹی سیکرٹری کے عہدہ پر فائز ہیں .. ان کو دینیات میں ریسرچ کرنے کا شوق ہوا -   ان کو حضرت شاہ ولی الله  دہلویؒ  کے اقوال اور فرمودات پر ریسرچ کرنا تھا .. چنانچہ وہ کراچی میں مشہور اور فاضل علماء سے سمجھنے  کے لئے گئے مگر کسی کے درس سے مطمئن نہیں ہوئے -

 کسی کے ذریعے قلندر بابا کی بابت معلوم ہوا کہ وہ بخوبی سمجھا دیں گے ..   چنانچہ وہ قلندر بابا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور  قلندر بابا سے درس لیتے رہے اس طرح وہ شاہ ولیؒ الله پر بڑا کامیاب تھیسس (Thesis)  لکھ  کر پی- ایچ - ڈی میں کامیاب ہو گئے --

                                                     تحریر --- سید نثارعلی بخاری

اتوار، 24 نومبر، 2013

ہمدم دیرینہ--20


تصرف  


 ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں قلندر بابا کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک عالم صاحب تشریف لائے... قلندر بابا نے دریافت کیا کہ مولانا آپ کیسے تشریف لائے ؟ مولانا نے عرض کیا کہ قرآن پاک کی آیت کریمہ...

 ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین -

 میں یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ روزہ نماز ، زکوٰة ، حج وغیرہ کا ذکر کیوں نہیں ہے ؟  آیا یہ فرائض کس کے واسطے ہیں .. 

قلندر بابا نے خادم کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ .. بھائی آپ کی سمجھ میں کیا آتا ہے ؟ میں نے اس سے پہلے اس آیت کریمہ پر غور نہیں کیا تھا .. میں نے قلندر بابا سے عرض کیا کہ آپ ہی اس کا مفہوم سمجھا دیجئے میں کیا اور میرا علم کیا مگر قلندر بابا نے فرمایا کہ ذرا سوچ کر آپ بتائیے کہ آپ کیا سمجھے ہیں ..

چنانچہ میں نے تعمیل ارشاد میں عرض کیا کہ بھائی صاحب میری ناقص راۓ میں نسکی لفظ قابل غور ہے .. اگر چہ نسک کے معنی قربانی کے ہوتے ہیں لیکن ﷲ تعا لیٰ جل علیٰ نے اوامر و نواہی کے لئے کہے ہیں -  یہ سن کر قلندر بابا نے مولانا صاحب سے فرمایا کہ آپ کی سمجھہ میں آگیا ؟

مولانا صاحب نے کچھ تامل کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ معنی قرین عقل ہیں .. اس پر قلندر بابا نے فرمایا کہ بھائی نے صحیح سمجھا  یہی اس کے معنی ہوئے ہیں - یہ   قلندر بابا کے تصرف کا اثر تھا جو میری زبان سے کہلوا دیا -- 

                                                     تحریر --- سید نثارعلی بخاری

ہمدم دیرینہ--19


تصرف


  مجہہ پر ایک دور مالی مشکلات کا کراچی میں آیا میں نے قلندر بابا سے ذکر کیا تو انہوں نے ایک تعویذ  مجھے دے کر فرمایا کہ... اس کو جس جگہ الماری میں روپیہ رکھتے ہو اس میں رکھ  دو انشاء الله الماری کبھی روپے سے خالی نہیں ہوگی -

  چنانچہ میں نے تعویذ الماری میں رکھ دیا .. اس بات کو تقریباً پندرہ سولہ سال ہوگئے ہیں لیکن الله تعالیٰ کے فضل و کرم اور قلندر بابا کے تصرف سے آج تک الماری روپے سے خالی نہیں ہوئی .. جب روپیہ ختم ہونے کے قریب ہوتا ہے کہیں نہ کہیں سے آجاتا ہے -

                                                     تحریر --- سید نثارعلی بخاری

ہفتہ، 23 نومبر، 2013

ہمدم دیرینہ--18


خلافت


  میں قلندر بابا کے سلسلہ عالیہ کے معاملات میں مداخلت کرنا پسند نہیں کرتا لیکن راٹھور صاحب کے اصرار پر میں نے قلندر بابا سے معذرت کے ساتھ عرض کیا کہ راٹھور صاحب خلافت کی بابت دریافت کرنا چاہتے ہیں .. اس پر قلندر بابا نے فرمایا کہ ...

" میری نظر میں سب ہے راٹھور صاحب سے کہہ دینا کہ انہیں کیا فکر ہے ان کی دنیا و دین ٹھیک ہیں اور انشاء الله تعالیٰ  آئندہ اور ٹھیک ہوجائیں گے .. جب وقت آئے گا خلافت کا مسٔلہ بھی طے ہوجاۓ گا ویسے شمشاد و رؤف کی طرح وہ بھی میرے بیٹے ہیں " -

  چنانچہ میں نے آپ کا ارشاد راٹھور صاحب سے کہہ دیا - 

ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ میں نے قلندر بابا سے عرض کیا کہ مجھے بھی اپنے سلسلے میں شامل کر لیجئے .. یہ سن کر آپ  مسکراۓ اور فرمایا کہ ...
" بھائی آپ ہی تو میرے بچپن کے ساتھی اور بے تکلف دوست ہیں .. یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ میں آپ سے بعیت لوں آپ مجہہ سے جدا نہیں ہیں اور ارادت تو دل سے ہوتی ہے .. بھائی میں جانتا ہوں کہ آپ اگر بہتر (72) گھنٹے متواتر جاگ کر جو وظیفہ بتاؤں وہ پڑھ لیں .. پھر دیکھنا کیسے کیسے عجائبات کا مشاہدہ ہوتا ہے انشاء الله برسوں کی راہ ایک ہفتہ میں طے کرا دوں گا " -

 مگر بد قسمتی سے میری بہتر(72)  گھنٹے جاگنے کی ہمت نہ ہوئی اور میں نعمت عظمیٰ سے محروم رہا -  ویسے قلندر بابا کی  ہمیشہ مجہہ پر  نظر کرم و التفات رہی جس کا میں ممنون ہوں -

                                                          تحریر --- سید نثارعلی بخاری

جمعہ، 22 نومبر، 2013

ہمدم دیرینہ--17



پاکستان میں آمد


  میں بلند شہر میں مسلم لیگ تحریک کا سرگرم کارکن اور سیکرٹری رہا .. تقسیم ملک کے بعد میرا  وطن  میں رہنا خطرناک ہوگیا تھا اور برادران وطن کے طرز عمل سے زندگی گزارنا اجیرن ہوگئی تھی .. میں مشرقی پنجاب کے راستے دشمنوں کے حملے سے بچتا ہوا  20 اکتوبر 1947ء کو لاہور آ گیا اور پھر راولپنڈی چلا گیا -

 قلندر  بابا کا پاکستان آنے کا ارادہ نہیں تھا مگر آپ کی بہنوں اور بہنوئیوں کے اصرار پر با دل ناخواستہ مع متعلقین کراچی تشریف لے آئے اور مجھے کراچی بلانے کے لئے متعدد خطوط میرے پاس ارسال فرمائے اور جب مجھے اپنا کاروبار سمیٹ کر آنے میں تاخیر ہوئی تو آپ نے آخری خط میں تحریر فرمایا کہ بھائی اگر تم کراچی نہیں آتے تو میں ہندوستان واپس چلا جاؤں گا چنانچہ میں تعمیل ارشاد میں کراچی آگیا ...

... اور قلندر بابا نے لی مارکیٹ کے علاقہ  میں اپنے مکان سے ملحق میرے اور میری ہمشیرہ اور بھانجوں کے لئے ایک مکان کرایہ پر لے لیا اور ہم سب بھی وہیں رہنے لگے لیکن یہ علاقہ رہنے کے قابل نہیں تھا چنانچہ میں پیر الہی بخش کالونی میں منتقل ہوگیا  اور قلندر بابا عثمان آباد میں مکان خرید کر تشریف لے گئے - 
   
  قلندر بابا نے سیٹھ عثمان بمبئی والا کے کارخانہ میں آرمیچر وغیرہ باندھنے کا کام شروع کردیا .. اسی دوران روزنامہ اردو ڈان میں ایک مناسب اسامی پراسسٹنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے فائز ہوگئے اور جب اردو ڈان بند ہوگیا تو رسالہ نقاد میں کام کرنے لگے نقاد رسالہ کے دفتر کے قریب رتن تالاب پر طفیل احمد صاحب چغتائی رہتے تھے ..

.. قلندر بابا تقریبا روزانہ شام کو دفتر سے فارغ ہو کر چغتائی صاحب کے پاس تشریف لے جایا کرتے تھے .. ہفتہ کی شام میرے پاس پیر الہی بخش کالونی میں تشریف لاتے اور رات کو وہیں  قیام فرما کر اتوار کو اپنے گھر تشریف لے جاتے اس کے بعد میں نے لیاقت آباد مکان تعمیر کرا لیا جس کا سنگ بنیاد قلندر بابا نے اپنے دست مبارک سے رکھا .. میں اسی مکان میں تا ایں دم سکونت پزیر ہوں - 

نوٹ : بخاری صاحب اپنی وفات یکم نومبر 1985ء تک اسی مکان...  مکان نمبر ١٢ / ٢  لیاقت آباد  کراچی  میں  مقیم  رہے -

چنانچہ اس مکان میں بھی قلندر بابا پہلے اتوار کو اپنی کار میں تشریف لاتے رہے ... اس کے بعد جناب تجمل علی صاحب راٹھور کی کار میں تشریف لانے لگے اور جب اتوار کی بجاۓ جمعہ کی تعطیل ہونے لگی تو ہر جمعہ کو راٹھور صاحب آپ کو میرے یہاں لانے لگے ان کا یہ معمول اس وقت تک رہا جب تک کار میں بیٹھنے کی طاقت رہی اس کے بعد آپ نے مجھ سے فرمایا کہ ...
 بھائی اب مجہہ سے گاڑی میں بیٹھا نہیں جاتا .. اب آپ میرے پاس ہفتہ میں ایک مرتبہ آیا کیجئے اور جب میں نے سواری کی دقت اور تکلیف کا عذر پیش کیا تو آپ نے راٹھور صاحب سے فرمایا کہ آپ ہفتہ میں ایک مرتبہ بھائی کو ان کے مکان سے یہاں لایا کیجئے اور پہنچا بھی دیا کیجئے -

                                                            تحریر --- سید نثارعلی بخاری

جمعرات، 21 نومبر، 2013

ہمدم دیرینہ--16


شوق


 قلندر بابا کو کبھی کسی کھیل سے دلچسپی نہیں رہی .. مدت العمر میں پنجہ لڑانے اور اور شطرنج کھیلنے کا شوق ہوا .. پنجہ لڑانے کی بڑی مہارت تھی اور شطرنج بھی اچھی کھیلتے تھے لیکن یہ دونوں شوق بالکل ترک کر دئے...

 اور صرف شعر و سخن .. حضرات اولیاء الله کے تذکرے اور مختلف النوع مسائل و موضوعات پر گفتگو کرتے تھے اور عام طور پر احباب کو نیکی کرنے کی اور راقم الحروف کو خاص طور پر حلال کی روزی کمانے کی اور محتاط رہنے کی تلقین فرمایا کرتے -

 مزید بر آں قلندر بابا کا مسلک محبت تھا اور آپ بار با ر فرمایا کرتے کہ محبت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے اسی کی بدولت انسان کو سب کچھ ملتا ہے چنانچہ آپ کا ایک شعر ہے
       
                ہوگا تری محفل میں کوئی اور بھی جلوہ    
                مجہہ  کو تو محبت  ہی محبت  نظر  آئی 

                                                      تحریر --- سید نثارعلی بخاری

بدھ، 20 نومبر، 2013

ہمدم دیرینہ--15


خرق عادت 


     مولوی ظہور الحسن صاحب گنگوہ ضلع سہارن پور کے رہنے والے عدالت ججی بلند شہر میں منصرم تھے - وہ نیک سیرت ،   سادہ مزاج،  عبادت گزار ،   فقیر دوست آدمی تھے ان کا حضرت خواجہ لعل علی صاحب برنیؒ  کے مزار پر جانے کا روزانہ ورد تھا ...

   ایک دن ایک ملنگ چرس پینے والا بندا شاہ جو خواجہ  صاحبؒ کے مزار کے احاطے سے باہر پڑا رہتا تھا ...اس نے مولوی صاحب موصوف سے کہا کہ خواجہ صاحبؒ  نے مجھ سے فرمایا ہے  کہ تو مولوی صاحب کو اپنا مرید کرلے -

           مولوی صاحب اس کی ظاہری ہیٔت کو دیکھ کر اس کے ہاتھ پر بیعت ہونا پسند نہیں کرتے تھے مگر ساتھ یہ خیال آتا تھا کہ اگر واقعی صاحب مزار خواجہ صاحبؒ  نے بیعت کے لئے ارشاد فرمایا ہے تو کہیں ان کی حکم عدولی نہ ہوجاۓ ...
چنانچہ اس مخمصے میں وہ میرے غریب خانے پر آئے اور فکرمند سے بیٹھ گئے دریافت حال کرنے پر انہوں نے سارا ماجرا بیان کیا..

 قلندر بابا ان دنوں دہلی سے آئے ہوئے تھے انہوں نے مولوی صاحب کا معاملہ سن کر فرمایا کہ...

 " آپ کو پریشا ن ہونے کی ضرورت نہیں ہے کل صبح آپ   کوخواجہ  صاحبؒ  سے معلوم کرکے اصل بات بتادی جاۓ گی  "..

 چنانچہ اگلے دن صبح کو مولوی صاحب میرے یہاں آگئے قلندر بابا نے فرمایا کہ ..

 " رات خواجہ صاحبؒ  سے ملاقات کی تھی  انہوں نے فرمایا کہ ہم صاحب ارشاد نہیں ہیں ہم نے کسی بندا شاہ کو بیعت لینے کا حکم نہیں دیا - مولوی صاحب آپ کسی بندا شاہ کے پھندے میں نہ پھنسیں وہ کوئی بزرگ نہیں ہے " -

  اس قسم کا فیض قلندر بابا نے مولانا کابلیؒ و حضرت تاج الدین اولیؒا سے حاصل کیا تھا جس کا اظہار قلندر بابا نے بھارت میں عام طور پر نہیں کیا --

                                                      تحریر --- سید نثارعلی بخاری

منگل، 19 نومبر، 2013

ہمدم دیرینہ--14




خرق عادت  


  میرے آبائی مکانات موضع مرزا پور جو بلند شہر سے ڈھائی میل کے فاصلہ پر تھا وہاں پر تھے .. میں نے معاش کے سلسلہ میں شہر میں رہنا شروع کیا اور ایک مکان جو مدت دراز سے کھنڈر پڑا ہوا تھا اس کو مالک مکان نے از سرنو نیچے دوکانیں اس کے اوپر بالاخانہ تعمیر کرایا ..

 سب سے پہلے میں نے بالا خانہ کرایہ پر لے لیا دو تین دن تک مجھے ڈراؤنے خواب نظر آتے رہے  جن کی میں نے پرواہ نہیں کی .. 
اس کے بعد یہ کیفیت ہوئی کہ روزانہ رات کو خواب کی حالت میں میرے سینے پر نا قابل  برداشت وزنی کوئی شے بیٹھ کر مرا گلا دبوچتی اور میں لاحول اور کلمہ طیبہ پڑھ کر  بمشکل تمام  بیٹھ جاتا مگر کچھ نظر نہیں آتا ..

مجبوراً عامل کامل لوگوں سے رجوع کیا تو ایک عامل صاحب نے وعدہ کیا کہ آج رات ہم آپ کے یہاں سو کر معلوم کریں گے کہ کیا معاملہ ہے .. چنانچہ آدھی رات گزرنے کے بعد اس پراسرار شے نے مجھے چھوڑ کر ان عامل صاحب کو دبا لیا 

.. وہ خوف زدہ ہو کر اٹھ بیٹھے اور پھر صبح تک نہ خود سوۓ اور نہ مجھے سونے دیا .. ان کے علاوہ  دو عامل حضرات کے ساتھ بھی ایسا واقعہ پیش آیا اس کے بعد پھر کسی کو میرے یہاں سونے کے ہمت نہ ہوئی اور میں   مسلسل بلاۓ بے درماں سے نبرد آزما ہوتا رہا ..

ان ہی ابتلا کے ایام میں قلندر بابا دہلی سے تشریف لے آئے اور ہم دونوں شام کے وقت مکان کو مقفل کر کے ٹہلنے چلے گئے رات کو واپس آنے پر میں نے تالا کھول کر قلندر بابا سے  عرض کیا کہ آپ اوپر تشریف لے جائیں میں پان لگوا کر حاضر ہوتا ہوں

 جب میں پان لے  کر آیا  تو دیکھا کہ  قلندر بابا  کھڑے ہوۓ ہنس رہے تھے  میں نے تنہا ہنسنے کا سبب پوچھا تو اصرار کرنے کے بعد فرمایا کہ صحن میں پلنگ پر دو آدمی بیٹھے ہوئے تھے وہ مجھے دیکھ کر قہقہہ لگاتے ہوئے غائب ہوگئے  اس بات پر ہنسی آرہی ہے کہ وہ مجھے ڈرانا چاہتے تھے...

یہ سن کر میں نے اپنی آپ بیتی سنا ڈالی قلندر بابا نے فرمایا کہ یہ جنات ہیں انشاء الله ان کا انتظام کردیا جاۓ گا  چنانچہ دو جمعراتوں کے بعد  جنّات مکان چھوڑ کر چلے گئے اس کے بعد میں اس مکان میں بارہ سال تک رہا پھر کسی نے مجھے نہیں ستایا --

                                                         تحریر --- سید نثارعلی بخاری

ہمدم دیرینہ--13



تعلق خاطر


  ایک مرتبہ کا ذکر ہے  کہ کسی معمولی بات پر قلندر بابا کی طبیعت میں میری طرف سے تکدر پیدا ہوگیا اور قریب ایک ماہ تک ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوا ..

 اسی اثنا میں عید الفطر آگئی ، چنانچہ عید کے مبارک موقع پر میں آپ کے مکان پر حاضر ہوا .. قلندر بابا  نظر پڑتے ہی کھڑے ہوگئے اور نہایت گرمجوشی سے محبت کے ساتھ گلے مل کر اس قدر روۓ کہ آپ کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہوگیا اور میرے اندر بھی گداز کی ایسی کیفیت پیدا ہوئی کہ آنکھوں سے اشکوں کی جھڑی بندھ گئی اور دل ایسا بھر آیا کہ جانبین کی زبان سے شکایت کا ایک لفظ بھی نہ نکلا...
     
            ؏   جب گلے سے لگ گئے سارا گلہ جاتا رہا                               

  اور ہماری دوستی پہلے سے بھی زیادہ استوار ہوگئی .. جہاں تک مجھے یاد ہے ہماری تقریبآ ستر (70)   سالہ دوستی میں اور کوئی ناخوشگوار واقعہ ظہور میں نہیں آیا ..  لوگ ہماری دوستی پر رشک کرتے تھے اور ہماری دوستی کی مثال پیش کیا کرتے تھے --

                                          تحریر --- سید نثارعلی بخاری



منگل، 12 نومبر، 2013

ہمدم دیرینہ--12



کیف و مستی  


  ایک دور ایسا بھی آیا کہ قلندر بابا پر جذب و استغراق کا غلبہ ہوگیا .. اکثر اوقات آپ خاموش رہتے اور گاہے گاہے گفتگو بھی غیر مربوط ہوجاتی اور لباس کی تبدیلی کا بھی خیال نہ آتا ..
 لیکن یہ کیفیت زیادہ عرصہ تک مسلسل نہیں رہی اس کے بعد کبھی کبھار جب جذب کا عالم ہوتا تو اتنے عرصہ کے لئے آپ خاموش ہوجایا کرتے تھے .. ہم لوگ بھی سمجھ جاتے تھے کہ اس وقت باتیں نہیں کرنی چاہییں مگر تھوڑی دیر کے  بعد معمول پر آجاتے تھے -
   
                                                      تحریر --- سید نثارعلی بخاری

اتوار، 10 نومبر، 2013

ہمدم دیرینہ--11


دائرہ احباب


  یوں تو قلندر بابا کے دوستوں اور احترام کرنے والوں کا دائرہ بہت وسیع تھا خادم کے ماسوا آپ کے مخصوص احباب جناب سید رحیم الله قابؔل صاحب گلاوٹھی ... شفیق احمد صاحب ... محمّد مبین صاحب برنی ... منشی عبدالقدیر صاحب شوؔخ برنی ... ماسٹر سید فضل الرحمن صاحب فضؔل برنی ... حبیب اللہ صاحب حبیؔب برنی ... سید حامد علی سبزواری ... قاضی حافظ الدین صاحب نشؔتر سکندر آبادی ... اور عبدالمجید صاحب بیخؔبر سکندر آبادی قابل ذکر ہیں -


آپ اپنے احباب کے ساتھ اخلاص اور محبت فرماتے تھے اور ان کی دلجوئی و ممکنہ خاطر مدارات کرتے اور کبھی ان سے کبیدہ خاطر نہ ہوتے آپ جس جگہ تشریف لے جاتے لوگ خوش آمدید کہتے - اپ حلقۂ احباب میں خاص طور پر اور عامتہ الناس میں عام طور پر مقبول و ہر دلعزیز تھے اور عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے - آپ سنجیدہ طبیعت کے ساتھ پر مزاح بھی تھے -

                                                       تحریر --- سید نثارعلی بخاری

جمعہ، 8 نومبر، 2013

ہمدم دیرینہ--10



وضعداری  


قلندر بابا سال میں ایک مرتبہ دہلی سے بلند شہر تشریف  لایا کرتے تھے اور ڈیڑھ دو مہینے غریب خانے پر قیام فرماتے -

 اس دوران میں شہر اور کبھی کبھار بیرون شہر بھی شعراء و ادباء کی محفلیں جمتیں اور صبح و شام کے اوقات میں آپ کے پاس صوفی منش لوگ آتے اور تصوف و بزرگان دین اور اولیاء عظام کے مکتوبات و ملفوظات پر سیر حاصل گفتگو اور تبصرے ہوتے دوسروں کی باتیں اطمینان سے سنتے اور آپ کی خداداد صلاحیت علم سے شعراء اور ادباء مستفید ہوتے ...

اور اہل ذوق حضرات آپ کی صحبت صالحہ اور دقیق و پیچیدہ مسائل کی تصریحات سے محظوظ ہوتے اور سکون قلب حاصل کرتے اسی طرح شب و روز سالہا سال تک بہترین فضا و ماحول میں گزرے -

آپ اردو اور فارسی زبانوں میں اعلیٰ   معیار کے شعر فرماتے تھے  افسوس ہے کہ آپ کے کلام کا کافی غیر مطبوعہ ذخیرہ بھارت رہ گیا اور پیش آمدہ حالات میں ضایع ہوگیا - 
 راقم کو آپ کے اشعار نویس ہونے کا فخر حاصل ہے - ایک مرتبہ باغپت ضلع میرٹھ سے 5 دسمبر 1942ء کو قلندر بابا نے ایک منظوم محبت نامہ خادم کے نام ارسال فرمایا جو میں نے بطور یادگار محفوظ کرلیا -- 

                                                           تحریر --- سید نثارعلی بخاری

جمعرات، 7 نومبر، 2013

ہمدم دیرینہ--9


معیشت  


  قلندر بابا نے شادی کے کچھ عرصہ بعد حکومت برطانیہ کی بری فوج میں جونیئر افسر کی حیثیت سے ملازمت کرلی -- ملایا ، سنگاپور کی طرف آٹھ مہینے ملازمت کی کہ بم پھٹنے کے حادثہ میں آپ زخمی ہوگئے اور صحت یاب ہونے پر آپ   نے ملازمت  ترک کردی -


 وطن واپس آنے کے بعد آپ اپنے پدر بزرگوار کے ساتھ ہاپوڑ باغپت ضلع میرٹھ کی تحصیلوں میں رہے اور عارضی طور پر سرکاری آسامیوں پر کام کرتے رہے .. چونکہ یہ کام آپ کی اعلیٰ  طبیعت کے منافی تھا اس لئے اس سلسلہ کو بہت جلد ترک کرکے.....


 دہلی میں قیام پزیر ہوگئے اور دہلی میں معاش کا ذریعہ رسائل و جرائد کی صحافت اور شعراء کے دواوین کی اصلاح و ترتیب کا کام منتخب فرمایا -  کبھی رؤسا اور امراء کی پیشکش قبول نہ کی اور نہ ہی خود دولت مند بننے کی خواہش اور کوشش کی -- 


                                                            تحریر --- سید نثارعلی بخاری

منگل، 5 نومبر، 2013

ہمدم دیرینہ--8



علوم متداولہ  ( مروجہ یا زمانہ حاضرہ کے علوم  )           


قلندر بابا  فطرتا  ذہین .. خوش خلق .. عمیق النظر .. سلیم الطبع ..  انسان شناس ..  سخن سنج ..  ادیب ..  فلسفی ..  رفیع التخیل شاعر..  ہونے کے ساتھ اس فن لطیفہ کی جملہ اصناف کے ماہر بلکہ استاد کامل ..

عروض ..  البیان ..  ہندسہ ..  رصد .. منطق .. صحافت.. معقولات.. تصوف..  واقف دین مبین .. رازدار عشق و محبت..  حامل علم لدنی ..  اور نہ معلوم کون کون سے علوم میں دسترس حاصل تھی --

                                                     تحریر --- سید نثارعلی بخاری

ہفتہ، 2 نومبر، 2013

ہمدم دیرینہ--7



ذمہ داریاں  


           قضارا قلندر بابا کی والدہ ماجدہ صاحبہ کا سایہ عاطفیت  سر سے اٹھ گیا انہوں نے پسماندگان میں چھ لڑکیاں اور دو لڑکے چھوڑے -

         بہنوں میں سے صرف ایک بہن جو قلندر بابا سے بڑی ہیں ان کی شادی ہوئی تھی ... ما بقیٰ چھوٹی بہنیں اور چھوٹے بھائی شیر احمد کی تربیت اور نگہداشت کی ذمہ داری قلندر بابا نے خود سنبھالی اور حتی الامکان ان کو ماں کے پیار سے محرومی کا احساس نہیں ہونے دیا ...

       چونکہ بہنوں کی تربیت دیکھ بھال کا مسٔلہ اہم تھا جو قلندر بابا انجام نہیں دے سکتے تھے اس لئے آپ کے والد صاحب نے آپ کی شادی دہلی میں ایک شریف خاندان کی لڑکی کے ساتھ کردی- اس طرح بہنوں کی دیکھ بھال میں آسانی ہوگئی --




                             تحریر --- سید نثارعلی بخاری

جمعہ، 1 نومبر، 2013

ہمدم دیرینہ--6


تعلیم و تربیت


    بھائی صاحب قلندر بابا  ابتدا سے اس  بندۂ ناچیز کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے اور بھائی کہہ کر مخاطب کرتے ... میں بھی آپ کو بھائی ہی کہتا تھا ... جہاں تک یاد پڑتا ہے کبھی ہم دونوں نے ایک دوسرے کا نام لے کر مخاطب نہیں کیا ..


 اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ قلندر بابا کی والدہ ماجدہ جب کبھی کھانے کے وقت ان کے یہاں ہوتا اور میں کھانے میں توقف اور تکلف کرتا تو وہ یہ فرمایا کرتی تھیں  کہ تو غیر سمجھتا ہے ، دونوں بھائی ساتھ کھانا کھا لو تو پھر مجھے مزید عذر کرنے کی جرأت نہ ہوتی -- 

وقت گزرتا رہا اور ہم دونوں بڑے ہوگئے ...  قلندر بابا کے والد صاحب تبادلہ پر بلند شہر آگۓ .. پھر تو روزانہ ملاقات ہوتی رہتی .. اس زمانہ میں عمر کے اعتبار  سے قلندر بابا ادبی اور اصلاحی موضوعات پر گفتگو فرماتے تھے اور کلاس میں نہایت ذہین اور ممتاز سمجھے جاتے تھے خاص طور پر علم ریاضی کے فارمولے اختراع کرتے اور امتحانات میں ممتاز پوزیشن حاصل کرتے تھے --

 ہائی اسکول کے  بعد اعلیٰ  تعلیم حاصل کرنے کے لئے آپ کے والد صاحب نے قلندر بابا کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل کرادیا ...


لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا چنانچہ داخلہ لینے کے بعد آپ  یونیورسٹی میں حاضری دینے کی بجاۓ  علی گڑھ کے ایک قبرستان کی مسجد کے حجرہ میں ایک خدا رسیدہ بزرگ المعروف مولانا کابلیؒ رہتے تھے ان کی خدمت میں صبح 9 -- 10 بجے سے رات کے 9 --10 تک رہتے اس کے بعد ترکمان دروازہ منے مرزا صاحب کے مکان اپنی قیام گاہ پر آجاتے --
      
 ایک مرتبہ میں قلندر بابا سے ملاقات کرنے کے لئے علی گڑھ آپ کی قیام گاہ پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ آپ مولانا کابلیؒ   کے پاس روزانہ چلے جاتے ہیں اس وقت بھی وہیں ملیں گے چنانچہ مرزا صاحب نے ایک لڑکے کو رہنمائی کے لئے میرے ساتھ کردیا کہ مولانا  کابلیؒ کے پاس لے جاؤ...

 جب میں مولانا کابلیؒ کی قیام گاہ پر حاضر ہوا تو قلندر بابا اندر تشریف فرما تھے میری آواز سن کر والہانہ حجرے سے باہر آئے اور بڑے تپاک سے معانقہ کرکے مولانا کابلی کی خدمت میں حجرہ کے اندر لے گئے ..

 میں مولانا صاحب کے حضور مودبانہ سلام عرض کر کے  دوزانو بیٹھ گیا قلندر بابا نے میرا تعارف کرایا تھوڑی دیر کے بعد مولانا صاحب سے اجازت لے کر شہر میں آگئے میں نے  مولانا صاحب کی خدمت میں رہنے اور تعلیم سے بے اعتنائی کا سبب قلندر بابا سے پوچھا تو

 آپ نے فرمایا کہ ... "   بھائی ان اسکول کالجوں کی تعلیم میں کیا رکھا ہے میں تو مولانا صاحب سے کچھہ اور ہی علم حاصل کر رہا ہوں آپ بھی دعا کریں کہ الله جل شانہ میرے ارادہ میں کامیابی عطا فرمائے "   --


قلندر بابا کے والد صاحب کو جب یہ معلوم ہوا کہ قلندر بابا کا رجحان تعلیم حاصل کرنے کی بجاۓ درویشوں کی طرف ہے 

.. آپ کے والد صاحب نہایت نیک طبیعت اور خوش مزاج تھے انہوں نے ایک مشفق باپ کی حیثیت سے فرمایا کہ ..
 بیٹے اب ماشااللہ خود سمجھدار ہو .. اپنے مستقبل کی بابت خوب سمجھ سکتے ہو جو تم مناسب خیال کرو وہ کرو...

 قلندر بابا اس کے بعد پھر مستقل طور پر بلند شہر واپس آگئے --

                                    تحریر --- سید نثارعلی بخاری