منگل، 30 ستمبر، 2014

IMAGES -- 1


 خانقاہ عظیمیہ























S - T - Sector 14 - B , Shadman Town No- 1, Karachi. 


خانقاہ عظیمیہ


 خانقاہ عظیمیہ

علم و فضل کے اداروں کا جائزہ  لیتے ہوئے ہمیں صوفیاء کے مراکز کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیئے - ان مراکز کو زاویہ یا خانقاہ کہا جاتا ہے - اسلام کی ابتدائی صدیوں میں یہ مراکز توقع کے مطابق صوفیوں کے اجتماعات کے مقام تھے جہاں وہ جمع ہوکر مراقبہ اور دیگر روحانی ریاضتیں کرتے تھے - اور طالبوں کو باطنی اسرار و رموز سے آگاہ کیا جاتا تھا -

یہاں وہ لوگ جنہیں رسمی علم سے اطمینان نہیں ہوتا تھا آکر ایقان کی روشنی اور حقیقت کے براہ راست کشف کے طالب ہوتے تھے - وہ مکتبی علمی بحث و تمحیص یعنی قیل و قال کو خیر باد کہہ دیتے تھے اور اپنے روحانی رہنماؤں کی ہدایت کے مطابق غور و فکر ( حال ) سے انبساط حاصل کرتے تھے -
اسی لئے عارفوں اور استدلال پسندوں یعنی باطنی علم رکھنے والوں اور ظاہری علم رکھنے والوں کو بالترتیب صاحبان حال اور صاحبان قال کہا جاتا تھا - چنانچہ صوفیوں کے مرکز درحقیقت علمی مراکز ہوتے تھے - لیکن وہاں جو علم سکھایا جاتا تھا وہ کتابوں میں نہیں ملتا تھا اور اس کے انکشاف کے لئے ذہنی صلاحیتوں کی تربیت ہی کافی نہیں ہوتی تھی - 

ان مراکز میں شائقین روحانیت مراقبہ کے ذریعے علم کی بلند ترین صورت یعنی باطنی اور روحانی علم کا ادراک کرتے تھے - جس کی تحصیل کے لئے روح اور ذہن کی پاکیزگی ضروری ہوتی ہے -
 منگولوں کے حملے کے بعد صوفیاء کے مراکز ہمیشہ کے لئے علمی اداروں کی شکل اختیار کرگئے - عالم اسلام کے مشرقی علاقوں میں منگولوں کے حملے کے نتیجے میں معاشرے کے خارجی اداروں کی تباہی کے بعد کوئی ایسی تنظیم نہیں تھی جو تعمیر نو کا کام شروع کرنے کے قابل ہوتی ماسوائے صوفیوں کے سلسلے کے جنہیں معاشرے کا نڈر معاشرہ کہا جاسکتا ہے -  

کراچی ملک کا سب سے بڑا اور سب سے پرشکوہ شہر ہے - بے شمار خوبیاں ہیں جو اس شہر کو دیگر شہروں سے ممتاز کرتی ہیں اور اہل وطن کی زبان میں اسے " عروس البلاد "  کہا جاتا ہے -
 لیکن فی الحقیقت اس شہر نگاراں کے لئے فضیلت کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ سیدنا حضورعلیہ الصلوٰة والسلام کے علوم و اسرار کے وارث ، الله کے دوست ، بانی طریقہ عظیمیہ ، ابدال حق ، حامل علم لدنی ،حضور قلندر بابا اولیاؒء  نے اسی شہر کو اپنے قیام اور پھر اپنے خاکی جسم کی آخری آرام گاہ کے لئے منتخب کیا - جیسے لاہور کا طرّۂ افتخار داتؒا کی نگری ہونا ہے ، اسی طرح کراچی کا سرمایہ ناز حضور قلندر بابا اولیاؒء کا شہر ہونا ہے -  

حضور قلندر بابا اولیاؒء کا آستانہ مبارک جو شادمان ٹاؤن میں خانقاہ عظیمیہ کے  نام سے موسوم ہے ، عوام کے لئے موجب برکت و سعادت ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہی وہ مقدس بارگاہ ہے جہاں مظلوم کی داد رسی اور ظالم کی پرسش ہوتی ہے - یہاں دوستی کو اخلاص کا گوہر ملتا ہے اور دشمنی کا لبادہ چاک ہوجاتا ہے - خستہ حال غنی بنتے ہیں اور دولت کے بوجھ سے دبے ہوئے دل سکوں کی وسعتوں سے ہمکنار ہوتے ہیں -


 اپنے بندے کی دوستی کے طفیل الله تعالیٰ دعائیں قبول کرتے ہیں ، دعائیں مقبول اور ہر حاضری دینے والا پیکر مہر و محبت اور مجسمہ خلوص و ایثار بن کر لوٹتا ہے - یہ وہ پاکیزہ دربار ہے جہاں پہنچ کر تمام منفی جذبات دم توڑ دیتے ہیں اور اذہان رحم و کرم کی بارش میں دھل کر شفاف ہوجاتے ہیں - 

کتاب ... تذکرہ قلندر بابا اولیاؒء.. مصنف ---خواجہ شمس الدین عظیمی   

پیر، 29 ستمبر، 2014

وصال ... عرس مبارک


وصال  ...  عرس مبارک


وصال ...
             وصال سے پیشتر حضور قلندر بابا اولیاؒء نے آٹھ ماہ تک چوبیس گھنٹوں میں صرف ایک پیالی دودھ پر گزر کیا - اور تین روز پہلے کھانا اور پینا دونوں چھوڑ دیا - جب بھی درخواست کی گئی کہ آپ اور نہیں کچھ تو پانی ہی پی لیں تو حضورؒ نے ہاتھ کے اشارے سے منع فرما دیا - ایک ہفتہ پہلے اس بات کا اعلان فرما دیا کہ اب میں زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ کا مہمان ہوں -


 جس روز وصال ہوا اس روز صبح سویرے اپنے داماد ، محمّد جمیل صاحب سے فرمایا ... " آج تم کہیں نہیں جانا - میرا کچھ پتہ نہیں - "  دوپہر کے بعد فرمایا ... " تم گھر ہی میں رہنا - اس وقت میرے پیروں کی جان نکل چکی ہے   - " وصال سے تین گھنٹہ پیشتر حضرت خواجہ صاحب قبلہ کی طلبی ہوئی - ارشاد عالی ہوا ... " مجھ سے مصافحہ کرو - " اس سے پہلے کبھی کسی سے یہ بات نہیں فرمائی تھی -


 وصال سے ایک گھنٹہ قبل بھائی سراج صاحب نے جانے کی اجازت چاہی - فرمایا ... " اچھا جاؤ خدا حافظ ، صبح جلد آجانا - " امر واقعہ یہ ہے کہ بھائی سراج صاحب نے پیر و مرشد کا حق خدمت ادا کردیا -
 جناب خواجہ صاحب اور چند دوسرے متوسلین حضرات کی موجودگی میں ایک بار جنت کا تذکرہ ہورہا تھا - حضور بابا صاحبؒ نے فرمایا ... " میں نے ایک دھوبی کی پیشانی پر جنت کی مہر دیکھی ہے - یہ دھوبی سراج صاحب ہیں - "

28  جنوری 1979ء بروز اتوارحضور بابا صاحبؒ  کے وصال کی خبر روزنامہ جنگ ، روزنامہ جسارت اور روزنامہ ملت گجراتی نے نمایاں طور پر شائع کی - 


27 جنوری :   جنوری 1979ء کا روحانی ڈائجسٹ چھپ کر تیار ہوچکا تھا - ٹائٹل کی چھپائی ہنگامی حالت میں رکوا کر پہلے صفحے پر  قلندر بابا اولیاؒء کے وصال کی خبر اس طرح شائع کی گئی - 


آہ  قلندر بابا اولیاؒء    واحسرتا کہ آج دنیا اس وجود سرمدی سے خالی ہوگئی جس کے بارے میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے - 
... " میں اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہوں اور میں ان کے کان ، آنکھ اور زبان بن جاتا ہوں - پھر وہ میرے ذریعے سنتے ہیں ، میرے ذریعے بولتے ہیں اور میرے ذریعے چیزیں پکڑتے ہیں - ... "


روحانی ڈائجسٹ چھپ کر تیار ہی ہوا تھا کہ روحانی ڈائجسٹ کے سرپرست اعلیٰ حضور حسن اخریٰ محمّد عظیم برخیا ، قلندر بابا اولیاء رحمتہ الله علیہ نے سفر آخرت کی تیاری کرلی اور دیکھتے ہی دیکھتے واصل بحق ہوگئے - 
جگر خون ہوگیا ، آنکھیں پانی ہوگئیں ، دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا - دماغ ماؤف ہوگئے - کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو نمناک نہ ہوئی ہو - کوئی دل ایسا نہ تھا جو بے قراری کے عمیق سمندر میں ڈوب نہ گیا ہو - ایسا لگتا تھا کہ لوگوں کے جم غفیر پر سکتہ طاری ہوگیا ہے -   


  ایسی برگزیدہ ہستی نے پردہ فرمالیا جس کی نماز جنازہ میں انسانوں کے علاوہ لاکھوں فرشتے صف بستہ تھے ، حضور سرور کائنات صلّ الله علیہ وسلّم ، عاشق رسول حضرت اویس قرنی ، اولیاء کے سرتاج حضرت غوث الاعظم گرامی قدر اپنے معزز فرزند سعید کے استقبال کے لئے موجود تھے - حد نظر تک اولیاء الله کی ارواح کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا - 
مشیت ایزدی ایک ایسی حقیقت ہے جس کے بارے میں بجز صبر و شکر کوئی چارہ نہیں - الله کی سنت میں تبدیلی ہوتی ہے اور نہ تعطل واقع ہوتا ہے - قرآن پاک میں ارشاد ہے ... کل نفس زائقة الموت 


پیش نظر شمارہ میں عقیدت مند حضرات حضور قلندر باباؒ کی یہ رباعی پڑھیں گے ...

    
     اک جرعہ مئے ناب ہے کیا پائے گا
     اتنی سی کمی سے فرق  کیا  آئے گا
     ساقی مجھے اب مفت پلا ، کیا معلوم
      یہ  سانس  جو  آگیا  ہے پھر آئے گا 

27 جنوری  1979ء کی شب ایک بجے جب کہ شب بیدار ، خدا رسیدہ بندے اپنے الله کے حضور حاضری دیتے ہیں حضور قلندر بابا اولیاؒء مستقل حضوری پر تشریف لے گئے - انّا للہ و انّا الیہ راجعون    حضور قلندر بابا اولیاؒء کی وصیت کے مطابق آپ کا جسد مبارک عظیمیہ ٹرسٹ فاؤنڈیشن کے شمالی حصے میں محو استراحت ہے - جس وقت مٹی دی جارہی تھی اس وقت مغرب کی اذان ہورہی تھی - 

 عظیمیہ ٹرسٹ فاؤنڈیشن ...


حضور قلندر بابا اولیاؒء کی زندگی میں ہی ایک ٹرسٹ ، عظیمیہ ٹرسٹ فاؤنڈیشن کے نام سے تشکیل پا گیا تھا - عظیمیہ ٹرسٹ فاؤنڈیشن نے نارتھ کراچی میں مزار شریف کے لئے زمین حاصل کی - یہی وہ مقام ہے جہاں اس وقت قلندر بابا اولیاء رحمتہ الله علیہ محو استراحت ہیں اور مزار شریف مرجع خلائق ہے - 




 عرس مبارک ...


27 جنوری اس مقدس ہستی کا یوم وصال ہے جو بارگاہ خداوندی میں مقبول اور سیدنا حضورعلیہ الصلوٰة والسلام  کا محبوب ہے- اس وجود مسعود نے سیدنا حضورعلیہ الصلوٰة والسلام  کے اخلاق ، روحانی اور علوم حضوری کے مشن کو زمانے کے تقاضوں کے مطابق پیش کیا ہے-

عشق رسول صلّ الله علیہ وسلّم کے پروانے اور اولیاء الله کی محبت میں دیوانے ،   پاک باطن  لوگ  27 جنوری کو حضور قلندر بابا اولیاؒء کے عرس مبارک  میں  دور دراز مقامات سے تشریف لاتے ہیں اور روحانی فیض سے مالا مال اور سرخرو ہوکر اپنے اپنے  مقامات  پر  بابا  صاحبؒ  کے  فیض  کو عام کرتے ہیں -    



 مندرجہ ذیل پروگرام کے تحت عظیمیہ ٹرسٹ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام عرس کا انتظام و انصرام تکمیل پاتا ہے - 

پروگرام   27 جنوری  

 بعد نماز ظہر       ختم درود شریف اور آیت کریمہ 
بعد نماز عصر       قرآن خوانی 
بعد نماز مغرب       فاتحہ اور تقسیم لنگر 

بمقام                 خانقاہ عظیمیہ 
                      ایس - ٹی - سیکٹر 14 - بی 
                      بس اسٹاپ شادمان ٹاؤن نمبر 1 ، کراچی 

                     ( بس اسٹاپ سخی حسن سے اگلا بس اسٹاپ ہے ) -

کتاب ... تذکرہ قلندر بابا اولیاؒء 
مصنف --- خواجہ شمس الدین عظیمی   


اتوار، 28 ستمبر، 2014

یاد عظیمؒ -- 1


                                         یاد عظیمؒ 


 " یاد عظیمؒ "  ان خوش نصیب افراد کی یادداشتیں ہیں جنہیں حضور قلندر بابا اولیاؒء کی قربت کی سعادت میسر آئی -

ان افراد میں 

 زوجہ محترمہ قلندر بابا اولیاؒء ،

 شمشاد احمد صاحب ( حضور بابا صاحبؒ  کے بڑے صاحبزادے ) ،

 رؤف احمد صاحب (  بابا صاحبؒ کے چھوٹے صاحبزادے ) ، 

سید نثار علی بخاری صاحب (حضور بابا صاحبؒ کے بچپن کے دوست )

احمد جمال عظیمی صاحب ، نسیم احمد صاحب ، 

وقار یوسف عظیمی صاحب ( عظیمی صاحب کے صاحبزادے ) ،

سلام عارف عظیمی صاحب ( عظیمی صاحب کے صاحبزادے ) ،

 کنول ناز گل صاحبہ ( عظیمی صاحب کی صاحبزادی ) شامل ہیں -   


 زیر نظر مضمون  شہزاد احمد قریشی صاحب کی کاوش ہے جو جنوری 1997 کے روحانی ڈائجسٹ میں " کچھ یادیں کچھ باتیں " کے عنوان سے شائع ہوا - شہزاد احمد نے ان خوش نصیب افراد سے ملاقات کی جنہیں  حضور قلندر بابا اولیاؒء کی قربت کی سعادت میسر آئی اور دوران ملاقات ہونے والی گفتگو کو مضمون کی شکل میں ترتیب دیا -

زوجہ محترمہ قلندر بابا اولیاؒء :

بابا بڑے سیدھے سادھے آدمی تھے - ان میں نمود و نمائش بالکل نہیں تھی - سادگی پسند تھے - فضول خرچ نہیں تھے - ان کے والد صاحب تحصیل میں نوکر تھے - والدہ کا انقال ہوچکا تھا - یہ 6 بہنیں اور 2 بھائی تھے -
بہت اچھے شوہر تھے - بحیثیت والد کے بہت ہی مشفق اور محبت کرنے والے باپ تھے - کبھی بھی انہوں نے نہ بچوں کو مارا اور نہ گھرکی دی - سب سے کہتے تھے کہ بچوں کو مارو نہیں ، پیار سے کام لو - بچوں سے جھوٹ مت بولو - نہ بڑے جھوٹ بولیں نہ بچہ جھوٹ بولے -
میں اپنی بڑی لڑکی سے عموماً کہا کرتی تھی کہ روبینہ .. میں تجھے یہ چیز دوں گی - میرا یہ کام کردے تو بابا صاحبؒ  فوراً بولتے کہ یہ جھوٹ بولا ہے -   
کھانے میں کوئی خاص چیز پسند نہیں تھی ، سب کچھ کھا لیا کرتے تھے -
فوج کی ملازمت کے حوالے سے اماں جی نے بتایا کہ دہلی میں 4 مہینے کی ٹریننگ کے بعد 300 آدمیوں کی نفری کے ہمراہ بمبئی گئے اور وہاں سے پونا گئے - ایک دفعہ آرمی میں Duty کے سلسلے میں کولمبو گئے -
ایک دن اپنے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ وہاں ایک گولا آکر گرا - اس وقت بابا صاحب نے جو حفاظتی ٹوپی سر پر لی ہوئی تھی اس میں جو آنکھوں کی حفاظت کے لئے شیشہ تھا وہ دھماکے کی شدت سے ٹوٹ گیا اور کافی سارا دھواں مٹی سمیت سانس کے ذریعے اندر چلا گیا - اور پسلیاں اندر دھنس گئیں - بہت تکلیف ہوئی ، زخمی بھی ہوگئے -
آخر عمر تک ٹانگوں پر ان زخموں کے نشان موجود تھے - انہیں ہسپتال میں داخل کردیا گیا - نیند کے انجکشن وغیرہ لگائے گئے - ہمارے پاس ان کی کوئی خبر ہی نہیں تھی - دو ماہ سے ان کا کوئی خط ہی نہیں آیا تھا -
خیر ... ہسپتال سے فارغ ہوتے وقت ڈاکٹروں نے کہا کہ آپ پہاڑی علاقے میں چلے جائیں تاکہ مکمل صحت مند ہوجائیں - انہوں نے کہا ... " نہیں میں گھر جاؤں گا " .. ڈاکٹرز کہنے لگے کہ گھر جاؤ گے تو مر جاؤ گے - انہوں نے جواب میں کہا کہ ... " میں نہیں مرتا  " ... - دہلی میں آئے ، دہلی میں میری والدہ اور ان کی بہن کا گھر تھا -ان کے والد صاحب بہت ہی شریف النفس اور شفقت کرنے والی شخصیت کےحامل تھے -
انہوں نے بڑی شفقت اور توجہ کے ساتھ علاج کرایا اور تیمار داری کی - تکلیف کے باعث وہ کروٹ نہیں لے سکتے تھے - سارا دن کچھ نہ کچھ دوائی ملتی رہتی تھی - صحت مند ہونے کے بعد واپس اپنی ملازمت پر چلے گئے - جاپان کی جنگ میں بھیجنے کی بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ میرے والد بوڑھے ہیں - پہلے میں ان سے پوچھ لوں -

اپنے والد صاحب کا بہت ادب کیا کرتے تھے - ان کے سامنے بیٹھ کر بولا بھی نہیں کرتے تھے - انہوں نے شاعری کی ایک کتاب بھی لکھی اور اس کا مسودہ انہوں نے ایک شخص کو کتابت کے لئے دیا کہ اس کی کتابت کروا کر لے آئیں لیکن وہ اس سے گم ہوگیا اور اس طرح وہ شاعری منظر عام پر نہ آسکی - 

فرائض کی ادائیگی کے معاملے میں بابا صاحبؒ بہت پابند تھے - اور دوسروں کو بھی اس کی تاکید کرتے تھے کہ فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہو - ان کے ڈرائیور کی دیگر ذمہ داریوں میں ایک ذمہ داری یہ بھی تھی کہ وہ جمیل صاحب (   بابا صاحبؒ کے داماد ) کو گھر لایا کرتا تھا -
 ایک روز شمشاد ( بابا صاحبؒ کے صاحبزادے ) نے ڈرائیور سے گاڑی مانگی اور گاڑی لے کر چلا گیا ... اور ڈرائیور جمیل صاحب کو لانا بھول گیا - انہوں نے پوچھا کہ جمیل کہاں ہے ؟ ڈرائیور نے کہا بھائی شمشاد نے گاڑی مانگی تھی اس لئے میں جمیل صاحب کو نہیں لا سکا -  بابا صاحبؒ نے بہت خفگی کا اظہار کیا کہ تم نے اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتاہی کیوں کی - 


کئی سال تک بابا صاحبؒ ، خواجہ صاحب ( خانوادہ سلسلہ عظیمیہ ) کے ہاں رہے - اس دوران ان کی روٹین تھی کہ جمعہ کی شام کو آتے اور اتوار کی شام چلے جاتے - ایک دفعہ میں نے ان سے کہا کہ اپنے گھر میں رہیں تو انہوں نے کہا کہ ..." فقیر کو جہاں کا حکم ہوتا ہے ، فقیر وہاں رہتا ہے - "   


محترم شمشاد احمد صاحب :(حضور بابا صاحبؒ کے بڑے صاحبزادے) 


جب ابا کو ولایت ملی اس وقت میری عمر کوئی دس گیارہ سال کی تھی - اور ہم اس وقت عثمان آباد میں شو مارکیٹ کے پاس رہا کرتے تھے - ایک دن مجھے پتا چلا کہ ابّا دو تین روز ہوگئے اپنے کمرے میں ہیں - اس دوران وہ کسی سے بات بھی نہیں کر رہے -
اس دوران اماں دروازہ کھٹکھٹا کر کھانا یا پانی وغیرہ کمرے میں رکھ دیتی تھیں - ان تمام دنوں میں انہوں نے کمرے میں روشنی بھی نہیں کی - عثمان آباد والے گھر میں اس وقت بجلی نہیں تھی - مٹی کے تیل کی لالٹین استعمال ہوتی تھی - اور لالٹین صاف کرنا میری ذمہ داری تھی - نہ لالٹین کمرے سے باہر آئی اور نہ جلی -

چند روز کمرے میں تنہا رہنے کے بعد جب وہ باہر آئے تو ان کے چہرے پر ایک خاص کیفیت نظر آتی تھی - پھر کچھ لوگوں کی آمد و رفت شروع ہوئی جن سے ہم پہلے واقف نہیں تھے - ان لوگوں میں ایسے افراد کی تعداد زیادہ ہوتی تھی جو ابّا سے سوال و جواب کیا کرتے تھے -
بہت عرصے تک تو ہمیں پتا ہی نہیں چلا کہ ابّا روحانی شخصیت ہیں - ان لوگوں کے ذریعے جو ابّا سے ملنے آیا کرتے تھے ، بہت عرصے کے بعد پتا چلا - ابّا نے ہمیں یہ بات نہیں بتائی - روحانیت میں اتنا اہم مقام حاصل ہونے کے بعد بھی ان کے معمولات یا بول چال میں کسی قسم کی تبدیلی واقع نہیں ہوئی -

صبح ساڑھے سات بجے ماہنامہ نقاد کے دفتر جو مولوی مسافر خانہ کے پاس تھا ، چلے جاتے اور شام پانچ یا ساڑھے پانچ بجے واپس گھر آتے تھے - گھر سے دفتر تک پیدل جاتے اور آتے تھے - اس کے بعد کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کسی صاحب کے ساتھ گاڑی میں آئے - جو صاحب بھی گھر چھوڑنے آتے تھے ابّا ان سے باہر ہی گفتگو کرتے تھے - کبھی گھر میں نہیں لائے -
بعد میں پتا چلا کہ یہ تو روحانیت پر گفتگو ہوا کرتی تھی - ہم سمجھتے تھے کوئی دوست وغیرہ ہیں -انہوں نے اپنی روٹین کو برابر  جاری رکھا اور اپنے روحانی معاملات کو رات میں اپنے کمرے میں تنہائی میں کرتے - انہوں نے کبھی محسوس نہیں ہونے دیا کہ ان میں تبدیلی آرہی ہے -

ہمارے گھر کا ماحول کچھ ایسا تھا کہ ہم اپنے والد سے کوئی فرمائش نہیں کرسکے - ہمارے دادا نے اس طریقے سے ہمیں مصروف کردیا تھا نمازوں کی طرف ، قرآن کی طرف اور پڑھائی کی طرف - اس طرح ہمارے پاس دیگر کھیل کود میں حصہ لینے کا وقت نہیں تھا - اسی وجہ سے ہمارا  گھر سے باہر نکلنا نہیں ہوتا تھا - یعنی گھر سے اسکول اور مسجد کا آنا جانا تھا - گھر میں کیرم بورڈ یا لیڈو تھی - آفتاب بھائی ( بڑے بھائی ) کے ساتھ کھیل لیا کرتے تھے - 


ابّا چیخ کر بولنے کو سخت ناپسند کرتے تھے - ہمارے جاننے والوں میں کچھ عادتاً اونچی آواز میں بولتے تھے تو ابّا فرماتے ..." ارے بھئی ، آہستہ بولا کرو .. بلا وجہ کیا بلڈ پریشر ہائی کرنا -"
 اگر وہ کہتے کہ بھائی صاحب عادت بن گئی ہے ،
تو آپ کہتے ..." کیا عادت بن گئی ہے ؟ بنا لی ہے ، صحیح کرلو - کیا فائدہ ؟ اتنی زور سے کیوں بولتے ہو - "

 ان کی ایک نصیحت جو مجھے ابھی تک یاد ہے ان کے الفاظ تھے کہ ..." آواز کمرے سے باہر نہیں جانی چاہیئے - " 
دوسرے کمرے میں آواز سے کوئی پریشانی نہ ہو - یہ ہمیشہ سے ہی ہم نے دیکھا کہ وہ خود بھی اتنی آواز سے بولتے تھے کہ جو ذہن کو مرتعش نہ کرے - اگر کسی نے ان کے ساتھ غلط بات کی یا غلط رویہ اختیار کیا تو انہوں نے اپنی ناراضگی یا خفگی کا اظہار اپنی آواز سے نہیں کیا - کبھی درشت لہجہ اختیار نہیں کیا -   


اپنی روزمرہ کی چیزوں کو بہت ترتیب اور مقررہ جگہوں پر ہی رکھتے تھے -  مثلاً دفتر سے آکر اچکن کو جھاڑ کر ہینگر میں لٹکاتے تھے - اچکن کو کبھی کیل پر نہیں لٹکایا - جوتے اتارنے کے بعد جھاڑ کر برابر رکھتے تھے - جوتوں کو آگے پیچھے یا غیرمتوازن نہیں رکھتے تھے - پتلون کی کس جیب میں چابی ہوتی ہے ، ہاتھ لاشعوری طور پر اس جیب میں جاتا اگر چابی دوسری جیب سے ملتی تو خفگی سے اظہار کرتے کہ بھئی یہاں پرکیسے آگئی چابی -  



انہوں نے ہمیں سختی سے ہدایت کی تھی کہ اگر کسی کی کوئی بات سامنے آجائے تو اسے بیان نہ کیا جائے ، اور اس سے ذاتی فائدہ نہ اٹھایا جائے -
 ان کے الفاظ تھے ... " کبھی الله کے نام کو بیچنے کی کوشش نہیں کرنا - "
ایک دفعہ میں اکیلا ابّا کے پاس کمرے میں بیٹھا ہوا تھا تو میں نے ان سے  کہا کہ مجھے کوئی خاص بات ، باتیں یا نصیحت کریں - تو انہوں نے کہا کہ ... " کسی کو سینگ نہیں مارنا " ، میں نے کہا کہ میں سمجھا نہیں -
کہنے لگے ... " آدمی دو طرح کے ہوتے ہیں ، ایک وہ جو انسان ہوتے ہیں اور ایک وہ ہوتے ہیں جو لوگوں کو تنگ کرتے ہیں - تنگ کرنے والے جو ہوتے ہیں وہ سینگ مارتے ہیں - جیسے بیل خواہ مخواہ سینگ مارتا ہے اپنی غرض سے غرض رکھو - کسی کے کام میں دخل مت دو - کسی پر مسلط ہونے کی کوشش مت کرنا اور نہ اس کی ٹوہ کہ کوئی کیا کر رہا ہے - "


جب مجھے کار چلانے کا لائسنس مل گیا تو ابّا کی اجازت ملی کہ اب میں اکیلا گاڑی چلا سکتا ہوں - جب میں پہلی دفعہ اکیلا گاڑی چلانے کے لئے جانے لگا تو انہوں نے کہا کہ غور سے ایک بات سنو -
کبھی غصے کی حالت میں گاڑی نہیں چلانا - بالکل ذہن کو ٹھنڈا رکھ کر گاڑی چلانا - اور کچھ بھی ہوجائے گاڑی چلاتے ہوئے غصہ نہیں کرنا اور اگر کبھی غصہ آجائے تو گاڑی روک کر پانی پی لو اور لاحول پڑھ لو - تھوڑی دیر آرام کرلو - ٹہل لو - لیکن غصہ کی حالت میں گاڑی چلانا نہیں ہے -  



ہمارے بڑے بھائی آفتاب بھائی کا ستائیس سال کی عمر میں انتقال ہوا - اس وقت ابّا 1D ،1/7 میں تھے - میں یہ خبر دینے کے لئے ان کے پاس گیا - میں نے ان کے قریب ہی کھڑے ہوکر آہستہ سے کہا بھائی کا انتقال ہوگیا ہے - صرف اتنے ہی الفاظ تھے اور بس -
انہوں نے میری طرف دیکھا اور وہ نظر میں کبھی نہیں بھول سکتا - میں نے دیکھا کہ ان کی دونوں آنکھیں جو پوری طرح روشن تھیں ان کی روشنی اسی وقت ختم ہوگئی - دونوں آنکھوں میں پتلی کی جگہ سفیدی آگئی - اسی وقت سفیدی آگئی - دیر نہیں لگی تھی اس میں - بس انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا اچھا تم جاؤ ، میں آجاؤں گا -  بالکل نارمل لہجہ تھا اور میں واپس گھر آگیا -

تقریباً گھنٹہ سوا گھنٹہ کے بعد ابّا بھی گھر پہنچ گئے - بعد میں ان کی دونوں آنکھوں کا آپریشن ہوا تھا - لیکن ان کی آنکھیں نارمل نہیں ہوسکیں - عینک لگ گئی تھی - ان دونوں آنکھوں کو بےنور ہوتے ہوئے میں نے خود دیکھا ہے - آفتاب بھائی کی خبر سن کر انہوں نے کسی قسم کی Feeling حزن یا غم کا بالکل اظہار نہیں کیا - انہوں نے اس کا بھی اظہار نہیں کیا کہ انہیں نظر نہیں آرہا ہے -  


بابا صاحب کے وصال کی تفصیلات بتاتے ہوئے شمشاد صاحب نے بتایا کہ ... وصال کے چند ماہ پہلے سے ان کی طبیعت خراب رہنا شروع ہوگئی تھی - آہستہ آہستہ چلنا پھرنا پھر اٹھنا بیٹھنا اور پھر کھانا پینا بھی بند ہوگیا - آخری دنوں میں اپنے کمرے تک محدود ہوگئے تھے - نقاہت کے باعث ہاتھوں کی حرکت بھی ختم ہوچکی تھی - ساکت لیٹے رہتے تھے -
ستائیس رجب ( صفر ) یا ستائیس جنوری کو شام کو میں اپنی ڈیوٹی سے رات بارہ بجے کے بعد گھر پہنچا - ابّا کے کمرے میں جا کر انہیں دیکھا - انہوں نے آنکھوں کے اشارے سے بتایا کہ ٹھیک ہے - میں اپنے کمرے میں چلا گیا - پھر رات کو ایک بجے کے قریب ان کے کمرے میں گیا ، کچھ محسوس نہیں ہوا - عام روٹین کی طرح ساکت تھے -
رات ڈیڑھ بجے کے بعد مجھے بےچینی محسوس ہوئی تو میں ان کے کمرے میں گیا - جب میں ان کے کمرے میں داخل ہوا تو ان کی آنکھوں میں سے زندگی کی روشنی ختم ہوچکی تھی - وقت ختم ہوگیا تھا - میں ان کے قریب گیا ، سانس دیکھا ، دل کی دھڑکن دیکھی ، کلائی سے حرارت دیکھی -
جسم ٹھنڈا ہوچکا تھا - میں نے اماں کو بتایا ، پھر بہن کو بتایا - جس نوعیت کی بیماری تھی اس کے لئے ہم ذہنی طور پر تیار تھے - اس لئے اس وقت نارمل رہے - اور یہ ضبط کرنا ضروری  بھی تھا کیونکہ تربیت کا یہی تقاضا تھا - ابّا بین کو یا رونے پیٹنے کو ناپسند کرتے تھے -  



محترم رؤف احمد صاحب : ( بابا صاحب کے چھوٹے صاحبزادے ) 


میں نے کبھی ابّا سے ضد نہیں کی - وہ بہت ہی شفیق اور پیار کرنے والے تھے - بڑے آرام سے سمجھا دیا کرتے تھے اور ہم سمجھ بھی جایا کرتے تھے - جب وہ بیرون شہر جاتے تھے تو ہمارے لئے کھلونے وغیرہ لایا کرتے تھے - ایک دفعہ بس لائے تھے - ایک دفعہ اڑن طشتری لائے تھے -

اگر میں ان سے کوئی فرمائش کرتا تو فرماتے .. " ہاں صحیح ہے ، ٹھیک ہے ، جیسے ہی وقت ہوگا ہوجائے گا - "

انہیں غصہ تو آتا ہی نہیں تھا -    میں نے دیکھا کہ ان کے پاس ہر مکتبہ فکر کے لوگ آیا کرتے تھے - ابّا انہیں مطمئن کردیا کرتے تھے - میں نے ایسا نہیں دیکھا کہ کسی فرد کے سوال پر ابّا نے جھنجھلاہٹ کا اظہار کیا ہو - مقابل کی ذہنی سطح کے مطابق تسلی بخش جواب دیا کرتے تھے -

جب ابّا میرے لئے موٹر سائیکل لے کر آئے تو مجھے موٹر سائیکل چلانا نہیں آتی تھی - بہنوئی کے ساتھ لائے تھے - موٹر سائیکل جب گھر میں گیٹ سے اندر لائے تو اس وقت ابّا نے مجھ سے کہا تھا کہ دیکھو ہینڈل کی طرف کبھی بھی مت دیکھنا - سامنے دیکھنا - حالانکہ ہم نے اپنے ہوش میں ابّا کو کوئی سواری چلاتے ہوئے نہیں دیکھا - پیدل چلتے تھے یا کوئی گاڑی میں گھر چھوڑ دیتا تھا -

وہ زندگی میں حقیقت پسند تھے - جذباتی نہیں تھے - انہوں نے ایک دفعہ کہا کہ ... " اپنا حق لینے کے لئے اگر کسی کو کچھ دینا پڑتا ہے تو وہ اسے دیں - اس لئے کہ اگر آپ ابھی نہیں دیں گے تو آپ کو مطلوبہ چیز نہیں ملے گی اور آپ کا جو نقصان ہوجائے گا وہ اس سے بڑا ہوگا - "
ہمارے والد صاحب میں کسی قسم کی توقع یا غرض نہیں تھی - 

     روحانی ڈائجسٹ .. جنوری  1997ء                 

تفسیرعظیمؒ -- 13



                                        تفسیر عظیمؒ              


ترجمہ :  کسی بشر کی طاقت نہیں کہ الله سے کلام کرے مگر وحی کے               ذریعے یا حجاب کے پیچھے سے یا کوئی رسول بھیج دے تو وہ             اس کے حکم سے جو چاہے وحی کرے - بے شک وہ بلند مرتبہ              حکمت والا ہے                               ( سورۂ الزخرف - 51 )

تفسیر عظیم ...
                 ..."   وحی اسے کہتے ہیں کہ جو سامنے منظر ہو وہ ختم ہوجائے  پردے کے پیچھے جو منظر ہو وہ سامنے آجائے - اسی آیت میں ہے کہ اسے آواز آتی ہے - فرشتہ کے ذریعہ یا رسول کے ذریعہ - اس کے معنی یہ ہیں کہ فرشتہ سامنے آتا ہے  اور الله کی طرف سے بات کرتا ہے - حجاب کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شکل سامنے آتی ہے اور اس طرح بات کرتی ہے جیسے کہ وہ الله تعالیٰ ہے حالانکہ وہ الله تعالیٰ نہیں بلکہ حجاب ہے -

یہاں جو کچھ مزید کہنا ہے وہ یہ ہے کہ ہر فرد کو یہ توفیق ملی ہے - دیکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ تینوں چیزیں پردے کے پیچھے ہیں پردے کے اوپر نہیں ہیں - جب تک پردہ اٹھتا نہیں ہے یہ تینوں طریقے بیدار نہیں ہوتے - یہ تینوں شکلیں اس صورت میں ظاہر ہوتی ہیں جب انسان پردہ کے پیچھے دیکھنے کا عادی ہوجاتا ہے -

وحی کے بارے میں یہ نہ سمجھا جائے کہ وحی صرف انبیاء پر آتی ہے - الله تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ ہم نے مریمؑ  کی طرف وحی بھیجی ، ہم شہد کی مکھی کی طرف وحی بھیجتے ہیں - شہد کی مکھی نبی نہیں ہے -
 یہاں یہ بات قابل بحث ہے کہ حضرت مریمؑ  پر وحی نازل ہوتی تھی تو اس کے ساتھ پھل ، پھول ، انگور وغیرہ آتےتھے جنہیں کھا کر وہ اپنی زندگی گزارتی تھیں - اس کے معنی یہ ہوئے کہ عام وحی میں کھانے پینے کی چیزیں بھی شامل ہیں - "...✦   

                                            روحانی ڈائجسٹ ... جنوری 2003 ء  

ہفتہ، 27 ستمبر، 2014

تفسیرعظیمؒ -- 12


                                   تفسیر  عظیمؒ   


ترجمہ :  اور ہم نے قرآن کو سمجھنا آسان کردیا ہے -
           ہے کوئی سمجھنے والا ؟  ( سورۂ القمر ) 

تفسیر عظیم ...
                 ..."      ہم نے قرآن کو سمجھنا آسان کردیا تو ہے کوئی سمجھنے والا ، اس میں کسی جگہ یہ شرط نہیں کہ مخاطب عربی جانتا ہو یا اس نے عربی پڑھی ہو - اس کے معنی بہت ہی سادہ ہیں کہ چاہے وہ کسی بھی ملک کا رہنے والا ہو ، چاہے اس کی مادری زبان کوئی بھی ہو ، چاہے اس نے عربی کا ایک لفظ بھی نہ سنا ہو ، الله تعالیٰ نے قرآن کے معنی ضمیر کے ذریعہ اس کے لئے صاف کردیئے ہیں -

 اس کے معنی یہ ہوئے کہ الله تعالیٰ اس کے ذہن میں وہ باتیں ڈال دیتا ہے جو انسانیت کے مطابق ہیں - یہ اس کا باطن ہے - ایسا نہیں سمجھنا چاہیئے کہ قرآن پاک عربی جاننے والوں کے لئے یا صرف مسلمانوں تک محدود ہے - اس لئے کہ بہت سارے ایسے مسلمان ملیں گے جو عربی کا ایک لفظ بھی نہیں جانتے مگر ان کا دھیان اس ان دیکھی طاقت کی طرف جاتا ہے جس کی وہ عبادت کرتے ہیں ، جسے وہ مانتے ہیں ، جسے وہ خدا کہتے ہیں ، جسے وہ اپنا باطن سمجھتے ہیں یا جسے وہ اپنے ضمیر کی آواز کہتے ہیں با الفاظ دیگر جسے وہ کبھی Self کہتے ہیں ، جس سے وہ خود کو چھپا نہیں سکتے اور جسے وہ حاضر و ناظر کہتے ہیں -

قدم بقدم الله تعالیٰ انہیں ان کے ضمیر کے ذریعے سمجھاتا ہے کہ یہ افعال انسانی ہیں یا غیر انسانی ہیں - اگر انسان وہ آواز نہیں سنتا اور اس کی پرواہ نہیں کرتا تو وہ شخص سجین میں اپنا گھر بناتا ہے - پہلے وہ ادنیٰ میں آیا یعنی عالم ناسوت میں آیا پھر زیادہ ادنیٰ میں چلا گیا یعنی سجین میں چلا گیا - ظاہر ہے کہ سجین سے سب راستے سجین میں ہی کھلتے ہیں ، علیین میں کھل نہیں سکتے - "...✦ 

                                            روحانی ڈائجسٹ ... جنوری 2003 ء 

جمعہ، 26 ستمبر، 2014

تفسیرعظیمؒ -- 11



                                     تفسیر  عظیمؒ   


ترجمہ : ہم نے یہ اتارا شب قدر میں اور تمہیں کیا ادراک کہ کیا ہے شب              قدر - شب قدر بہتر ہے ہزار مہینے سے - اترتے ہیں فرشتے اور            روح اس میں اپنے رب کے حکم سے ہر کام پر - امان ہے وہ                  رات صبح کے نکلنے تک - ( سورۂ قدر ) 

تفسیر عظیم ...
                   ..."      شب قدر وہ رات ہے جس کا ادراک عام شعور سے ستر ہزار گنا یا اس سے بھی زیادہ ہے کیونکہ ایک رات کو ایک ہزار مہینے سے ستر ہزار گنے ( گنا ) کی مناسبت ہے - اس ادراک سے انسان کائناتی روح کا ، فرشتوں کا اور ان امور کا جو تخلیق کے راز ہیں مشاہدہ کرتا ہے - 

تصوف میں اس ادراک کو فتح کے نام سے تعبیر کرتے ہیں - فتح میں انسان ازل سے ابد تک معاملات کو بیداری کی حالت میں چل پھر کر دیکھتا اور سمجھتا ہے - کائنات کے بعید ترین فاصلوں میں اجرام سماوی کو بنتا اور عمر طبعی کو پہنچ کر فنا ہوتے دیکھتا ہے -
لاشمار کہکشانی نظام اس کی آنکھوں کے سامنے تخلیق پاتے ہیں - اور لا حساب دور زمانی گزار کر فنا ہوتے نظر آتے ہیں - فتح کا ایک سیکنڈ بعض اوقات ازل تا ابد کے وقفے کا محیط بن جاتا ہے - "...✦    

                                                روحانی ڈائجسٹ ... جنوری 2003 ء 

جمعرات، 25 ستمبر، 2014

تفسیرعظیمؒ -- 10



                                    تفسیر عظیمؒ   


ترجمہ : الم - اس کتاب میں کوئی شک و شبہ نہیں ، ہدایت دیتی ہے               متقیوں کو - یہ وہ لوگ ہیں جو یقین رکھتے ہیں غیب پر -
 ( سورۂ البقرہ ) 

 تفسیر عظیمؒ ...
                      ..."  یہاں غیب سے مراد وہ تمام حقائق ہیں جو انسان کے مشاہدات سے باہر ہیں - وہ سب کے سب الله کی معرفت سے تعلق رکھتے ہیں - ایمان سے مراد ذوق ہے - ذوق وہ عادت ہے جو تلاش میں سرگرداں رہتی ہے - اس لئے نہیں کہ اسے کوئی معاوضہ ملے گا بلکہ صرف اس لئے کہ طبیعت کا تقاضہ پورا کرے -

متقی سے وہ انسان مراد ہے جو سمجھنے میں بڑی احتیاط سے کام لیتا ہے -  ساتھ ہی بدگمانی کو راہ نہیں دیتا ، وہ الله کے معاملے میں اتنا محتاط ہوتا ہے کہ کائنات کا کوئی روپ اسے دھوکہ نہیں دے سکتا - وہ الله کو بالکل الگ سے پہچانتا ہے اور الله کے کاموں کو بالکل الگ سے جانتا ہے - صحیح طور پر پہچاننے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر ذوق موجود ہے - درحقیقت وہی ذوق لائف اسٹریم ( چشمۂ حیات ) ہے - 

غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب پر یقین رکھنا ضروری ہے - مذکورہ بالا آیت میں لوح محفوظ کا یہی قانون بیان ہوا ہے - نوع انسانی اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں اس قانون پر عمل پیرا ہے - یہ دن رات کے مشاہدات اور تجربات ہیں - جب تک ہم کسی چیز کی طرف یقین کے ساتھ متوجہ نہیں ہوتے ہم اسے دیکھ سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں -

اگر ہم کسی درخت کی طرف نظر اٹھاتے ہیں تو اس درخت کی ساخت ، پتیاں ، پھول ، رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے لیکن پہلے ہمیں قانون کی شرط پوری کرنا پڑتی ہے - یعنی پہلے ہم اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے - اس یقین کے اسباب کچھ ہی ہوں تاہم اپنے ادراک میں کسی درخت کو جو ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہے ایک حقیقت ثابتہ تسلیم کرنے کے بعد اس درخت کے پھول ، پتوں ، ساخت اور رنگ و روپ کو دیکھ سکتے ہیں -  "...✦      

                                           روحانی ڈائجسٹ ... جنوری 2003 ء  

بدھ، 24 ستمبر، 2014

تفسیرعظیمؒ -- 9



                                   تفسیر  عظیمؒ   


ترجمہ :    " اے کپڑوں میں لپٹنے والے ، رات کو قیام کیا کرو مگر تھوڑی سی رات یعنی نصف رات ( کہ اس میں قیام نہ کرو بلکہ آرام کرو ) یا اس نصف سے کسی قدر کم کردو یا نصف سے کسی قدر بڑھا دو اور قرآن خوب خوب صاف پڑھو ( کہ ایک ایک حرف الگ الگ ہو ) ، ہم تم پر ایک بھاری کلام ڈالنے کو ہیں - بے شک رات کے اٹھنے میں دل اور زبان کی خوب موافقت ہوتی ہے اور بات خوب ٹھیک نکلتی ہے - بے شک تم کو دن میں بہت کام رہتا ہے اور اپنے رب کا نام یاد کرتے رہو اور سب سے قطع کرکے اس ہی کی طرف متوجہ رہو - وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے - اس کے سوا کوئی قابل عبادت نہیں - "
                                                                         ( سورہ مزمل )

تفسیر عظیم :
                 ..."  جب ہم آدمی کی پوری زندگی کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ انسانی زندگی کا نصف لاشعور کے اور نصف شعور کے زیر اثر ہے - پیدائش کے بعد انسانی عمر کا ایک حصہ قطعی غیر شعوری حالت میں گزرتا ہے -
 پھر ہم تمام زندگی میں نیند کا وقفہ شمار کریں تو وہ عمر کی ایک تہائی سے زیادہ ہوتا ہے - اگر غیر شعوری عمر اور نیند کے وقفے ایک جگہ جمع کئے جائیں تو پوری عمر کا نصف ہوں گے - یہ وہ نصف ہے جس کو انسان لاشعور کے زیر اثر بسر کرتا ہے - ایسا کوئی انسان پیدا نہیں ہوا جس نے قدرت کے اس قانون کو توڑ دیا ہو - چنانچہ ہم زندگی کے دو حصوں کو لاشعوری اور شعوری زندگی کے نام سے جانتے ہیں - یہی زندگی کی دو قسمیں ہیں -

 لاشعوری زندگی کا حصہ لازم غیر رب کی نفی کرتا ہے اور اس نفی کا حاصل اسے غیر ارادی طور پر جسمانی بیداری کی شکل میں ملتا ہے - اب اگر کوئی شخص لاشعور کے زیر اثر زندگی کے وقفوں میں اضافہ کردے تو اسے روحانی بیداری میسر آسکتی ہے - اس اصول کو قرآن پاک نے سورۂ مزمل میں بیان فرمایا ہے - 

متذکرہ بالا آیات کی رو سے جس طرح جسمانی توانائی کے لئے انسان غیر شعوری طور پر غیر رب کی نفی کرنے کا پابند ہے ، اس ہی طرح روحانی بیداری کے لئے شعوری طور پر غیر رب کی نفی کرنا ضروری ہے - سورۂ مزمل کی مذکورہ بالا آیات میں الله تعالیٰ نے یہی قانون بیان فرمایا ہے - جس طرح غیر شعوری طور پر غیر رب کی نفی کرنے سے جسمانی زندگی کی تعمیر ہوتی ہے اس ہی طرح شعوری طور پر غیر رب کی نفی کرنے سے روحانی زندگی حاصل ہوتی ہے -

 جس چیز کو مذکورہ بالا عبارت میں لاشعور کہا گیا ہے اور حضورعلیہ الصلوة والسلام کی زبان میں " نفس " اور قرآن پاک کی زبان میں  " حبل الورید " اس ہی کو تصوف کی زبان میں " انا " کہتے ہیں -  جب غیر رب کی نفی کی جاتی ہے اور" انا " کا شعور باقی رہتا ہے تو یہی " انا " اپنے رب کی طرف صعود کرتی ہے - جب یہ " انا " صعود کرکے صفت الہیہ میں جذب ہوجاتی ہے تو صفت الہی کے ساتھ منسلک ہوکر حرکت کرتی ہے - " انا " کے صفت الہیہ میں جذب ہوجانے کی کئی منزلیں ہیں - پہلی منزل ہے ایمان لانا - "...✦  

                                       روحانی ڈائجسٹ ... جنوری 2003 ء 

منگل، 23 ستمبر، 2014

تفسیرعظیمؒ -- 8


                                 تفسیر عظیمؒ   


ترجمہ :  الله نور ہے آسمانوں اور زمین کا ، اس نور کی مثال طاق کی مانند ہے جس میں چراغ رکھا ہو اور وہ چراغ شیشے کی قندیل میں ہے - قندیل ایسی ہے جیسے ایک روشن ستارہ ، اس میں مبارک درخت کا تیل جلایا جاتا ہے یعنی وہ زیتون ہے - نہ مشرق کی طرف ہے نہ مغرب کی طرف - اس کا تیل ایسا کہ ابھی سلگ اٹھے گا ابھی اس میں آگ نہ لگی ہو - نور پر نور ہے - الله راہ دیتا ہے نور کی جسے چاہے اور الله مثالیں بیان کرتا ہے لوگوں پر - اور الله ہر شئے کا علم رکھتا ہے -  
                                                                  ( سورہ نور - آیت 35 )

تفسیر عظیم ...
                       ..."  تمام موجودات ایک ہی اصل سے تخلیق ہوتی ہیں خواہ وہ موجودات بلندی کی ہوں یا پستی کی - ہم ساخت کی ترتیب کو حسب ذیل مثال سے واضح کرسکتے ہیں -
شیشے کا ایک بہت بڑا گلوب ہے ، اس گلوب کے اندر دوسرا گلوب ہے - اس دوسرے گلوب کے اندر ایک تیسرا گلوب ہے - اس تیسرے گلوب میں حرکت کا مظاہرہ ہوتا ہے اور یہ حرکت شکل و صورت ، جسم و مادیت کے ذریعے ظہور میں آتی ہے -
 پہلا گلوب تصوف کی زبان میں نہر تسوید یا تجلی کہلاتا ہے - یہ تجلی موجودات کے ہر ذرہ سے لمحہ بہ لمحہ گزرتی رہتی ہے تاکہ اس کی اصل سیراب ہوتی رہے - دوسرا گلوب نہر تجرید یا نور کہلاتا ہے - یہ بھی تجلی کی طرح لمحہ بہ لمحہ کائنات کے ہر ذرہ سے گزرتا رہتا ہے -
 تیسرا گلوب نہر تشہید یا روشنی کا ہے - اس کا کردار زندگی کو برقرار رکھتا ہے - چوتھا گلوب نسمہ کا ہے جو گیسوں کا مجموعہ ہے - اس ہی نسمہ کے ہجوم سے مادی شکل و صورت اور مظاہرات بنتے ہیں -

الله تعالیٰ کے یہ چاروں تسلط مسلسل اور مستقل ہیں - ان میں سے کوئی تسلط اگر منقطع ہوجائے تو کائنات فنا ہوجائے گی - وہ تسلط خالقیت کا ہو ، مالکیت ہو یا عطائے زندگی کا ہو یا عطائے نسمہ کا -
 نمبر-1 -  کائنات کا لاشعور ، نہر تسوید -
نمبر - 2 - کائنات کا شعور ، نہر تجرید -
 نمبر -3 - کائنات کا ارادہ ، نہر تشہید -
نمبر- 4 - کائنات کی حرکت ، نہر تظہیر ہے -  "...✦ 

                                            روحانی ڈائجسٹ ... جنوری 2003 ء  

پیر، 22 ستمبر، 2014

تفسیرعظیمؒ -- 7



                              تفسیر عظیمؒ   


ترجمہ :      کہہ دو الله ایک ہے - بے نیاز ہے - نہ اس سے کوئی پیدا ہوا                  اور نہ اسے کسی نے پیدا کیا اور نہ اس کا کوئی خاندان ہے 
                                                                       ( سورہ اخلاص )

تفسیر عظیم ...
                    ..."   یہاں الله تعالیٰ کی پانچ صفات بیان ہوئی ہیں - 
پہلی صفت وحدت یعنی وہ کثرت نہیں -
 دوسری صفت بے نیازی یعنی وہ کسی کا محتاج نہیں -
 تیسری صفت یہ کہ وہ کسی کا باپ نہیں -
چوتھی صفت یہ کہ وہ کسی کا بیٹا نہیں -
 پانچویں صفت یہ کہ اس کا کوئی خاندان نہیں -

 یہ تعریف خالق کی ہے اور خالق کی جو بھی تعریف ہوگی مخلوق کی تعریف کے برعکس ہوگی یا مخلوق کی جو بھی تعریف ہوگی خالق کی تعریف کے برعکس ہوگی - اگر ہم خالق کی تعریفاتی حدوں کو چھوڑ کر مخلوق کی تعریف بیان کریں تو اس طرح کہیں گے کہ خالق وحدت ہے تو مخلوق کثرت ہے ، خالق بے نیاز ہے تو مخلوق محتاج ہے ، خالق باپ نہیں رکھتا تو مخلوق باپ رکھتی ہے -

خالق کا کوئی بیٹا نہیں لیکن مخلوق کا بیٹا ہوتا ہے ، خالق کا کوئی خاندان نہیں لیکن مخلوق کا خاندان ہونا ضروری ہے - ثانی ہونا ، ذی احتیاج ہونا ، ذی اولاد ہونا ، ذی والدین ہونا ، ذی خاندان ہونا مخلوقیت کی قدریں ہیں یہ قدریں مکان یعنی مظہرSpace  پر مشتمل ہیں لیکن خالقیت کی قدریں ان قدروں کے برعکس ہیں -

مخلوقیت کی قدروں میں ابتداء ، انتہا ، اشتباہ ، عکس رنگ ( روشنی ) کی حد بندی اور ہر قسم کا تغیر ہوتا ہے اور مختلف نوعوں میں مختلف شکل و صورت مختلف آثار و احوال پائے جاتے ہیں -   "...✦  

                                            روحانی ڈائجسٹ ... جنوری 2003 ء                                                                                             

اتوار، 21 ستمبر، 2014

تفسیرعظیمؒ -- 6


                                تفسیر عظیمؒ   


ایک مرتبہ ابوتراب حضرت علی کرم الله وجہہ نے فرمایا                                               ..." قلوب الابرار قبور الاسرار "
 یعنی اولیاء الله کے سینے اسرار الٰہی کی قبریں ہیں " ...

 حضرت علی المرتضٰیؓ کا یہ قول حامل علم لدنی سید محمّد عظیم برخیا المعروف حضور قلندر بابا اولیاؒء پر صادق آتا ہے - ایسے لوگ جنہیں حضرت بابا صاحب کی قربت کی سعادت حاصل ہوئی وہ یہ بات جانتے ہیں کہ  بابا صاحبؒ کی شخصیت کا محور توحید باری تعالیٰ ، ذات رسالت مآب صلّ الله علیہ وسلّم اور قرآن پاک تھا -  بابا صاحبؒ کو یہ عظیم الشان اعزاز حاصل ہے کہ آپ دربار نبوت صلّ الله علیہ وسلّم سے فیض یافتہ ہیں -
اس فیض سے ہی ان کو قرآن پاک کی تفہیم کی وہ روشنی حاصل ہوئی ہے جو سیدنا حضورعلیہ الصلوٰة والسلام کی طرز فکر کی پرتو ہے - بابا صاحب ان اولیاء الله کی صف میں نظر آتے ہیں جن پر قرآن کی یہ آیت صادق آتی ہے -  
... " ہم نے الله کا رنگ اختیار کیا اور
 الله کے رنگ سے بہتر کس کا رنگ ہے
  ( سورہ البقرہ - آیت 137 ) ... "

قدرت نے قلندر بابا اولیاؒء کو کائناتی فارمولوں اور اسرار الہی کا امین بنایا - ہم ذیل میں قلندر بابا اولیاؒء کی تحریر کردہ چند آیات قرانی کی روحانی تفسیر پیش کر رہے ہیں - اس کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کائناتی فارمولوں کی عظیم ترین دستاویز اور علوم و معارف کا بے مثل خزینہ ہے -  

ترجمہ : شروع الله کے نام سے جو بڑا رحمٰن اور رحیم ہے - 


تفسیر عظیم ...  
                 ..."      لوح محفوظ کا قانون یہ ہے کہ جب کوئی فرد دوسرے فرد سے روشناس ہوتا ہے تو اپنی طبیعت میں اس کا اثر قبول کرتا ہے - اس طرح دو افراد میں ایک فرد اثر ڈالنے والا اور دوسرا فرد اثر قبول کرنے والا ہوتا ہے - اصطلاحاً ہم ان دونوں میں سے ایک کا نام حساس اور دوسرے کا نام محسوس رکھتے ہیں -
حساس محسوس کا اثر قبول کرتا ہے اور مغلوب کی حیثیت رکھتا ہے - مثلاً زید جب محمود کو دیکھتا ہے تو محمود کے متعلق اپنی معلومات کی بنا پر کوئی رائے قائم کرتا ہے - یہ رائے محمود کی صفت ہے جس کو بطور احساس زید اپنے اندر قبول کرتا ہے - یعنی انسان دوسرے انسان یا کسی چیز کی صفت سے مغلوب ہوکر اور اس چیز کی صفت کو قبول کرکے اپنی شکست اور محکومیت کا اعتراف کرتا ہے -

 یہاں آکر انسان ، حیوانات ، نباتات ، جمادات سب کے سب ایک ہی قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں اور انسان کی افضلیت گم ہوکر رہ جاتی ہے - اب یہ سمجھنا ضروری ہوگیا کہ آخر انسان کی وہ کون سی حیثیت ہے جو اس کی افضلیت کو قائم رکھتی ہے اور اس حیثیت کو حاصل کرنا کس طرح ممکن ہوسکتا ہے ؟...

انبیاء اس حیثیت کو حاصل کرنے کا اہتمام اس طرح کیا کرتے تھے کہ وہ جب کسی چیز کے متعلق سوچتے تو اس چیز کے اور اپنے درمیان کوئی رشتہ براہ راست قائم نہیں کرتے تھے - ہمیشہ ان کی طرز فکر یہ ہوتی تھی کہ کائنات کی تمام چیزوں کا اور ہمارا مالک الله تعالیٰ ہے - کسی چیز کا رشتہ ہم سے براہ راست نہیں ہے بلکہ ہم سے ہر چیز کا رشتہ الله تعالیٰ کی معرفت ہے -

 رفتہ رفتہ ان کی یہ طرز فکر مستحکم ہوجاتی تھی اور ان کا ذہن ایسے رجحانات پیدا کرلیتا تھا کہ جب وہ کسی چیز کی طرف مخاطب ہوتے تھے تو اس چیز کی طرف خیال جانے سے پہلے الله تعالیٰ کی طرف خیال جاتا تھا - انہیں کسی چیز کی طرف توجہ دینے سے پیشتر یہ احساسعادتاً ہوتا تھا کہ یہ چیز ہم سے براہ راست کوئی تعلق نہیں رکھتی - اس چیز کا اور ہمارا واسطہ الله تعالیٰ کی وجہ سے ہے - 

جب ان کی طرز فکر یہ ہوتی تھی تو ان کے ذہن کی ہر حرکت میں الله تعالیٰ کا احساس ہوتا تھا - الله تعالیٰ ہی بحیثیت محسوس کے ان کا مخاطب اور مد نظر قرار پاتا تھا اور قانون کی رو سے الله تعالیٰ کی صفات ہی ان کا احساس بنتی تھیں - رفتہ رفتہ الله تعالیٰ کی صفات ان کے ذہن میں ایک مستقل مقام حاصل کرلیتی تھیں یا یوں کہنا چاہیئے کہ ان کا ذہن الله تعالیٰ کی صفات کا قائم مقام بن جاتا تھا - یہ مقام حاصل ہونے کے بعد ان کے ذہن کی ہر حرکت الله تعالیٰ کی صفات کی حرکت ہوتی تھی اور الله تعالیٰ کی صفات کی کوئی حرکت قدرت اور حاکمیت کے وصف سے خالی نہیں ہوتی - چنانچہ ان کے ذہن کو یہ قدرت حاصل ہوجاتی تھی کہ وہ اپنے ارادوں کے مطابق موجودات کے کسی ذرہ ، کسی فرد اور کسی ہستی کو حرکت میں لاسکتے تھے -


 بسم الله شریف کی باطنی تفسیر اس ہی بنیادی سبق پر مبنی ہے - اولیائے کرام میں اہل نظامت ( الله کی ایڈمنسٹریشن کے کارندے ) کو الله تعالیٰ کی طرف سے یہی ذہن عطا کیا جاتا ہے اور قرب نوافل والے اولیائے کرام اپنی ریاضت اور مجاہدوں کے ذریعے اس ہی ذہن کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں -    "...✦ 

                                     روحانی ڈائجسٹ ... جنوری 2003 ء    

ہفتہ، 20 ستمبر، 2014

تفسیرعظیمؒ -- 5


                                تفسیر عظیمؒ              

قرآن پاک کا ایک اسلوب بیان یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف مظاہر کی قسمیں کھا کر ایسے ضابطوں کی طرف زور دے کر توجہ دلائی ہے جو مظاہر کی بنیادوں میں کارفرما ہیں - اس اسلوب بیان کا مختلف سورتوں کی ابتداء میں ہونا اس کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے -
اور اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ان مظاہر کی حیثیت فی الواقع کیا ہے ؟ اور یہ تخلیق کی تدوین میں کیا کردار انجام دیتے ہیں ؟   


   بابا صاحبؒ نے سورہ طور کی ابتدائی سات آیات کا ترجمہ اور تشریح اس پیرائے میں بیان کی ہے :



..."     ترجمہ ... " قسم ہے پہاڑ کی اور بین السطور کتاب کی جو وسیع تر ورق ہے ، اور بیت المعمور کی ، اور قدرت کی حد بندیوں کی ، اور نزول کرتے سمندر کی کہ آپ کے رب کی وعید کو پورا ہونا ہے - "


تشریح :    الله تعالیٰ نے بار بار قرآن پاک میں لیل و نہار کا تذکرہ اس طرح کیا ہے جس میں مظاہر قدرت کی طرف کھلا اشارہ پایا جاتا ہے - دن الله تعالیٰ کے نزدیک الگ مظاہر کا مجموعہ ہے اور رات الگ مظاہر کا -
 ایسے مظاہر جو دن میں رونما ہوتے ہیں ، رات میں رونما نہیں ہوتے اور ایسے مظاہر جو رات میں رونما ہوتے ہیں ، دن میں رونما نہیں ہوتے - یہ وہی مظاہر ہیں جن سے قلبی واردات بنتی ہے اسی قلبی واردات کا نام حواس ہے -


 دن کی روشنی میں انسان کے دیکھنے ، سننے اور سمجھنے کی طرزیں رات کی طرزوں سے بالکل الگ ہوتی ہیں - کئی ایسی چیزیں جو دن کے وقت بشاشی اور شگفتگی لاتی ہیں ، رات میں خوف و دہشت پیدا کرتی ہیں - غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دن رات کس درجہ مختلف ہیں -  


مصنوعی روشنیوں کے ذریعے رات کو کتنا ہی منور بنا لیا جائے ، وہ دن کے مظاہر پیدا نہیں کرسکتی اور دن کو کتنا ہی خاموش اور پرسکون بنا لیا جائے ، وہ رات کے مظاہر پیدا نہیں کرسکتا - یہ سب قدرت کے ضابطے ہیں اور ایسے فارمولے ہیں جنہیں الله تعالیٰ نے کتاب مسطور فرمایا ہے - اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے والطور فرمایا ہے یعنی پہاڑ کی قسم کھائی ہے - یہ قسم عنوان ہے ان ہی مظاہر کی کتاب کا -

 الله تعالیٰ نے پہاڑ کے بارے میں قرآن کے اندر ہی وضاحت کردی ہے کہ

 ... " تم دیکھتے ہو پہاڑ اور گمان کرتے ہو کہ یہ جمے ہوئے ہیں - ... "

 ان الفاظ سے الله تعالیٰ انسانی مشاہدہ کو رد کردیتے ہیں اور حقیقت کی طرف اشارہ فرماتے ہیں - گویا ان پہاڑوں کی جو حیثیت انسانی نگاہ میں ہے صحیح نہیں ہے - دراصل یہ مظاہر قدرت کے رازوں کا گہوارہ ہیں - ہیں تو یہ گردش میں اور تیز گردش میں اور ساتھ ہی ایسے پریشر کے بانی ہیں جس سے زمین کے مظاہر کی نوعیتیں رد و بدل ہوتی ہیں -


آیت نمبر 1 میں اور  2 میں یہی بات بیان کی گئی ہے - پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ کتاب وسیع تر ورق کی حیثیت رکھتی ہے یہاں تک کہ یہ کتاب وسیع ترین آبادیاں اور بلند ترین آسمانی رفعتیں اسی کے اندر سما جاتی ہیں - صرف یہی نہیں کہ یہ کتاب اور وسیع تر ورق کو محیط ہے بلکہ نازل ہونے والے تمام مظاہر کے سمندر اسی سے وابستہ ہیں -
 یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ایک روز ان سب کا اتمام ہوجائے -  جس طرح مظاہر کی ابتداء ہوئی ، ان کی انتہا بھی ہے - پھر وہ لوگ جو تیرے رب کے نافرمان ہوگئے ان کے لئے عذاب کی بشارت ہے -  "...✦    

اوپر کی سطروں میں بیان کردہ قرانی آیات کی تشریح اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ قرآن پاک علوم و معارف کا خزینہ ہے اور اس میں وہ تمام فارمولے بیان کئے گئے ہیں جن کے ذریعے ہم ان طریقوں سے اس لئے واقف نہیں ہیں کہ ہم نے تفکر کی راہ کو چھوڑ دیا ہے اور خلوص پر مبنی جدوجہد کی بجائے تقلید اور جمود کا شکار ہوگئے ہیں - 


حضور قلندر بابا اولیاؒء کی ذات گرامی علم و عرفان اور تسخیر کائنات کا نشان راہ ہے - آپ کی ذات ایک ایسا روشن چراغ ہے جس کو زمانہ کی گردش خود روشن کرتی ہے تاکہ تیرہ و تاریک زمانہ میں نور و ظلمت کا توازن برقرار رہے -

 جناب رسالت مآب صلّ الله علیہ وسلّم  نے حضرت اویس قرنی کی شان میں فرمایا کہ ... " زمین میں گمنام لیکن آسمانوں میں مشہور - "
 حضور بابا صاحبؒ بھی ایسے لوگوں میں سے ہیں - اگرچہ آپ نے گمنام زندگی بسر کی لیکن اپنی تحریروں کے ذریعے جو نقوش چھوڑ گئے ہیں اور جو کچھ آشکار کرگئے ہیں ، زمانہ اس عظمت کو آج نہیں تو کل سمجھنے کے قابل ضرور ہوجائے گا -  



روحانی ڈائجسٹ  ---  فروری 1999ء