اتوار، 7 ستمبر، 2014

مکتوبات عظیمؒ -- 2


                              مکتوبات  عظیمؒ    



حضور قلندر بابا اولیاؒء کا ایک خط جو آپ نے ایک صاحب کے استفسارات کے جواب میں تحریر کروایا تھا -


بسم الله الرحمٰن الرحیم   

 برادر عزیز سلمہ الله تعالیٰ بہت دعا 


حسب ذیل عبارت تمہارے تحریر کردہ سوالات کے جواب میں لکھی جارہی ہیں - بظاہر سوالات بالکل مختصر اور آسان ہیں لیکن ان کا جواب زیادہ غور طلب ہے اور تفصیل چاہتا ہے - 

اگر پوری باتیں سمجھنے میں دقت پیش آئے تو بار بار پڑھ کے اور غور کرکے الفاظ کا مفہوم اچھی طرح ذہن نشین کرلینا - یہ ایسی باتیں ہیں جن کا صرف کاغذ پر لکھا رہنا کافی نہیں ہے - ان کا حافظہ میں نقش کرنا ضروری ہے -

لوح محفوظ سے ایک نور آتا ہے وہ اس طرح پھیلتا ہے کہ ساری کائنات اس کی گرفت میں ہوتی ہے - اس کے پھیلنے کی طرزیں کسی ایک سمت میں نہیں ہوتیں بلکہ ہر سمت میں ہوتی ہیں - اسی بات کو دوسرے الفاظ میں اس طرح کہیں گے کہ اس نور کے پھیلنے کی کوئی سمت نہیں ہوتی -
اب تم سمت نہ ہونے کا مطلب سمجھ لو کہ سمت نہ ہونا کیا چیز ہے اور نور کا تمام سمتوں میں پھیلنا کیا معنی رکھتا ہے - یہ ساری باتیں قرآن پاک میں بالتصریح  الله  تعالیٰ  نے ارشاد فرمائی ہیں -
 افسوس یہ ہے کہ ان ارشادات کو متشابہات کہہ کر نظر انداز کردیا گیا ہے -
تحریر میں زیادہ گنجائش نہیں ہے - صرف ایک مثال دے کر میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں - اس مثال پر غور کرو -

چند خلاباز خلا میں جا چکے ہیں - وہ کہتے ہیں کہ سو میل سے زیادہ بلندی پر ایک تو بالکل بےوزنی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے - دوسرے یہ کہ زمین یا تو بالکل گول یا تقریباً گول نظر آتی ہے - ایک نے کہا ہے کہ گیند نما نظر آتی ہے - تم نے خود بھی مشاہدہ میں دیکھا ہے کہ پپیتہ کی صورت ہے - 


اب صحیح صورتحال سمجنا چاہو تو یہ نظر آئے گا یا یہ محسوس ہوگا یا یہ حقیقت منکشف ہوگی کہ ساڑھے تین ارب انسان اور چلنے پھرنے والے چوپائے سب کے سب ٹانگوں کے بل زمین سے لٹکے ہوئے ہیں - ہر انسان یہ کہتا ہے کہ میں زمین پر پیروں کے بل چل رہا ہوں - سمجھ لو کہ وہ کتنی غلط بات کہہ رہا ہے -


 جب سے نوع انسانی آباد ہے ، وہ تمام لوگ جن پر حقیقت منکشف نہیں ہوئی ہے یہی کہتے ہیں - یہی سمجھتے ہیں - غور کرو کہ جب آدمی پیروں کے بل لٹک رہا ہے تو چل کیسے سکتا ہے - لٹکنے کی حالت تو بالکل جبری ہے - اس کا یہ کہنا کہ میں چل رہا ہوں سراسر غلط ہے - جبری حالت میں اس کا ارادہ بےمعنی ہے - اس لئے کہ اس کی اپنی کوئی حرکت ممکن نہیں -


 یہ بات تو قرین قیاس ہے کہ جن تاروں میں اس کے پیر بندھے ہوئے ہیں وہ تار حرکت کرتے ہوں اور ان   کے ساتھ پیر بھی حرکت کرتے ہوں - ان تاروں سے انسان کے ارادے کا کیا تعلق جب کہ انسان کو ان تاروں کا کوئی علم ہی نہیں - باوجود اتنی صریح غلطیوں کے وہ دعوے کرتا ہے کہ میرا سر بلندی کی طرف ہے اور میرے پیر پستی کی طرف اور میں چلتا پھرتا ہوں - واقعہ یہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو ایک بنوا بنا لیا ہے اور کہتا ہے کہ یہ بنوا حقیقت ہے -


 دراصل نہ کوئی سمت ہے ، نہ انسان حرکت کرنے کی قدرت رکھتا ہے - ہاں صرف نیت کرسکتا ہے - چنانچہ اس نے اپنی نیت ہی میں لاشمار دعوے جمع کرلیئے - انسان کے باقی تمام دعووں کا اس ہی دعوے پر قیاس کرلو -


 الله تعالیٰ نے قرآن پاک میں ہر مشاہدہ کو رد کیا ہے - جگہ جگہ فرمایا ہے ...


" تم نہیں سمجھتے ایسا ہے ، ایسا ہے اور تم نہیں دیکھتے - "  

ایک جگہ فرمایا ہے ...


" تم دیکھتے ہو پہاڑ اور گمان کرتے ہو کہ یہ جم رہے ہیں - " 


الله تعالیٰ نے جس چیز کو قرآن پاک میں غیب فرمایا ہے وہ انسان کا غیب ہے ، الله کا غیب نہیں ہے - ظاہر ہے کہ جب وہ الله کے لئے غیب نہیں ہے تو الله کے لئے حضور ہے - جو الله کا حضور ہے وہ حقیقت ہے جو انسان پر منکشف نہیں ہے - اس لیئے جو اس کا مشاہدہ ہے وہ حقیقت نہیں ہے - اس ہی لیئے غلط ہے - بدیں سبب ہر مشاہدہ کو رد کیا ہے -

 اب ساری حقیقت علم حضوری ہے - یہ علم حضوری الله کی طرف سے ملتا ہے ، جس کو الله تعالیٰ توفیق عطا فرمائیں - قرآن پاک میں اس کی بھی وضاحت ہے -

الله تعالیٰ نے فرمایا ہے ...

..." جس نے ہمارے لیے جہد کیا ہے ،
             ہم اس پر اپنی راہیں کھول دیتے ہیں ... " 

 قرآن پاک میں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں ...


ملکہ سبا کے قصے میں ہے جب سلیمان نے کہا اپنے درباریوں سے کہ تم میں سے کون اس کا  تخت جلدی لا سکتا ہے تو جنات میں سے ایک نے کہا کہ جتنی دیر میں آپ دربار برخاست کریں میں تخت حاضر کردوں گا -

دوسری آیت میں الله تعالیٰ فرماتے ہیں ... ایک دوسرے شخص نے کہا پلک جھپکنے بھی نہ پائے گی کہ تخت یہاں موجود ہوگا - اور تخت آگیا - 
الله تعالیٰ نے اس شخص کی خصوصیت بتائی ہے کہ وہ کتاب کا علم رکھتا تھا - جتنے صحائف آسمانی ہیں ، الله تعالیٰ ان سب کو کتاب کے نام سے یاد کرتے ہیں - ان میں قرآن بھی ہے -  چنانچہ قرآن میں یہ علم موجود ہے جیسا کہ الله تعالیٰ نے خود فرمایا ہے اور بار بار قرآن کو کتاب کے نام سے موسوم کیا ہے -
جو قرآن نہیں سمجھتے  وہ جو بھی چاہیں کہیں - ان کی زبان کون پکڑ سکتا ہے لیکن قرآن خود ان کی تردید کرتا ہے اس لئیے ضروری ہے کہ تم عربی پڑھو اور قرآن کو قرآن کے الفاظ میں سمجھو - بغیر کسی تاویل اور بغیر کسی اثر کے بالکل غیر جانبدار ہوکر ، اس تصور سے کہ الله تعالیٰ کیا فرماتے ہیں -


 جہاں تک سمجھنے کا سوال ہے ، الله تعالیٰ نے خود وعدہ فرمایا ہے کہ میں نے تمہارے لئے قرآن کا سمجھنا آسان کردیا ہے - ہے کوئی سمجھنے والا ؟ یہ صلائےعام ہے - سورہ قمر میں چار مرتبہ یہ بات کہی گئی ہے - 


آمدم برسر مطلب - تم یہ بات سمجھ گئے ہوگے کہ سمت کوئی چیز نہیں ہے - یہ انسان کی اپنی مفروضہ اور قیاس کردہ ہے - جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے علم حضوری کے علاوہ کوئی علم موجود نہیں ہے - انسان کا حافظہ اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ علم حضوری کی کسی ایک طرز کو بھی اپنے اندر محفوظ کرلے -

 چنانچہ لوح محفوظ سے پھیلنے والا نور انسان کو اطلاعات فراہم کرتا ہے تو اپنی غرض اور مطلب برآری کے نقطہء نظر سے کام لے کر ان اطلاعات 999  فی ہزار کو تو رد کردیتا ہے - ایک فی ہزار کو مسخ کرکے توڑ مروڑ کے حافظہ میں رکھ لیتا ہے - یہی مسخ شدہ اور بگڑے ہوئے خدوخال ، اس کے تجربات کا ، مشاہدات کا ، عادات اور حرکات کا سانچہ بن جاتے ہیں -


 اب جتنی اطلاعات وہ اخذ کرتا ہے ، ان ہی سانچوں میں ڈھلتی چلی جاتی ہیں - یہ ہے انسان کا تمام کارنامہ اور اس کی معین کردہ اور فرض کردہ سمتیں ، فارمولے اور اصول - اس ہی خرافات کے بارے میں وہ بار بار یہ کہتا رہتا ہے کہ یہ ہے میرا تجربہ ، یہ ہے مشاہدہ ، یہ ہے علم طبعی - 


تمہارے ذہن میں یہ بات تو آگئی کہ جو نور پوری کائنات میں پھیلتا ہے اس میں ہر قسم کی اطلاعات ہوتی ہیں جو کائنات کے ذ رہ  ذ رہ کو ملتی ہیں - ان اطلاعات میں چکھنا ، سونگھنا ، سننا ، دیکھنا ، محسوس کرنا ، خیال کرنا ، وہم و گمان وغیرہ وغیرہ زندگی کا ہر شعبہ ، ہر حرکت ، ہر کیفیت کامل طرزوں کے ساتھ موجود ہوتی ہے - 


ان کو صحیح حالت میں وصول کرنے کا طریقہ صرف ایک ہے - انسان ہر طرز میں ، ہر معاملہ میں ، ہر حالت میں کامل استغنیٰ رکھتا ہو - مسخ کرنے والی اس کی اپنی مصلحتیں ہوتی ہیں - جہاں مصلحت نہیں ہے ، وہاں استغنیٰ ہے ، غیر جانبداری ہے اور الله کا شعار ہے - اب جو حرکت ہوتی ہے وہ پوری کائنات کو محیط ہے اور پوری کائنات میں عمل کرتی ہے -
 اس چیز کو پھر ایک دفعہ سمجھ لو - یہ کوئی باریک بات نہیں ہے - صرف توجہ کی ضرورت ہے - 
انسان کی ذاتی مصلحتیں اپنے لیے نور کی شعاعوں کو محدود کرلیتی ہیں - یہ محدود شعاعیں اپنا کائناتی عمل ترک نہیں کرسکتیں - وہ تو جاری رہتا ہے - اب انسان کا ایک باطل تصور جو اس نے شعاعوں سے وابستہ کرلیا ہے ، غلط امیدیں بن  جاتا ہے - یہی ناکامی ہے - یہی انسانی مصیبت ہے - 

سیدھی سادی بات ہے کہ جس نور کا تعلق ساری کائنات سے ہے وہ ایک فرد واحد کے لیے کیسے مخصوص ہوسکتا ہے - انسان اگر ذاتی اغراض کی قید و بند میں مبتلا نہیں ہے تو ان  شعاعوں کو پوری کائنات پر محیط دیکھتا اور محیط  سمجھتا ہے -
  چنانچہ شعاعوں کا اور اس کے زاویہ نظر کا ایک خاص ارتباط قائم ہوجاتا ہے - یہ ارتباط وہ شے ہے جو الله کے قانون کے زیر اثرشعاعوں کے لیے محل توجہ ہے - اب اس کے مفاد کا تحفظ شعاعیں خود کرتی ہیں - اس کا یہ مطلب ہوا کہ اگر وہ کہے دن توشعاعوں کو دن پیدا کرنا پڑے گا - اگر وہ کہے رات تو شعاعوں کو رات کی تخلیق کرنی پڑے گی -

 الله کا شعار شعاعوں کو اس بات کا حکم دیتا ہے کہ وہ دو سنتیں پوری کریں - ایک کائنات کے لیے عمل کرنا ، دوسری اس فرد کے مفاد میں عمل کرنا جس نے ان شعاعوں سے ارتباط قائم کیا ہے -  

جس وقت حضرت اویس قرنیؓ اور حضرت عمرؓ کی ملاقات ہوئی تو حضرت عمرؓ نے حضرت اویس قرنیؓ سے درخواست کی تھی کہ آپ مجھے کچھ نصیحت کریں - اس پر حضرت اویسؓ نے دو سوال کیے - 

 1  - " یا عمرؓ ! آپ الله کو جانتے ہیں ؟ "
  
  انہوں نے جواب دیا ..." ہاں ، میں الله کو جانتا ہوں - "


 2  - " یا عمرؓ ! الله بھی آپ کو جانتا ہے ؟ "


   جواب دیا ... " الله بھی مجھے جانتا ہے - "    


ان دونوں باتوں کا مطلب بالکل واضح ہے - صرف یہ کافی نہیں ہے کہ انسان الله کی راہ میں قدم اٹھائے اور کام پورا ہوجائے - وہاں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ قدم صرف الله کے لیے اٹھایا گیا ہے یا اور بھی مصلحتیں شامل ہیں - اس میں جنت بھی ایک مصلحت ہے - اور بہت سے نیکیاں بھی مصلحت ہیں -

 الله تعالیٰ کسی کو اس وقت تک نہیں پہچانتا جب تک کہ مقصد صرف الله کی ذات نہ ہو - اگر ایک آدمی کا مقصد جنت ہے تو جنت اسے جانتی ہے - کہتی ہے " آؤ لبیک ! " یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ روحانیت میں الله کے ساتھ کوئی دوسرا مقصد ، کوئی دوسری غایت شریک کرنا کفر ہے - 

تم نے جو خواب لکھا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں ...
 میں آپ کے قدموں میں بیٹھا رو رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ بابا جی ! میری اماں کہاں گئی - میری اماں مجھے دلا دو -

اطلاع کے تین حصے ہیں - ایک حصہ میری صورت ہے - دوسرا حصہ تمہاری اپنی صورت ہے - تیسرا حصہ  اماں  ہیں جو موجود نہیں ہیں - اطلاع کا انکشاف ہوتا ہے یہاں سے کہ تم ایک جگہ ہو - اس جگہ تمہاری حیثیت ایک ایسے سوال کی ہے جو بہت سے سوالات کا مجموعہ ہے -
 اس مجموعہ کا نام ہے اماں یعنی زندگی کے بہت سے راستے جس نقطے سے شروع ہوتے ہیں اور  انسان یہ طے نہیں کرسکتا کہ مجھے کن راستوں پر سفر کرنا ہے - قدرتاً ماں کی پوزیشن یہی ہے کہ وہ زندگی کو ایک ایسے نقطے پر لا کر کھڑا کردیتی ہے جہاں سے زندگی کا سفر شروع ہوتا ہے -

راستے لاشمار ہیں - انسان کے سامنے یہ مرحلہ ہے کہ وہ جس راستے پر سفر شروع کرے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ راستہ غلط ثابت ہوجائے اور اسے ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑے - یہاں وہ اپنی روح سے رہنمائی چاہتا ہے لیکن روح کو کسی روپ میں مشکل دیکھتا ہے کیوں کہ اسے ہر شے کو مشہود بنا کے دیکھنے کی عادت ہے -


جن دنوں میں تم نے یہ خواب دیکھا ہے ، ان دنوں میں ایسے خیالات کا زیادہ زور اور دباؤ رہا ہے - مذکورہ بالا خواب 19جون کا ہے - ذہن پر یہ کیفیت ہفتوں پہلے سے مسلط تھی - اس کا جواب روح 7 جون کو خواب میں دے چکی ہے -  7 جون کا خواب تم نے اپنے الفاظ میں اس طرح دیکھا ہے ... 


 ایک آدمی نے مجھے آکے کہا کہ قبلہ بدر صاحب نے تم کو بلایا ہے - میں فوراً روانہ ہوگیا اور تھوڑی دیر کے بعد ایک مکان میں داخل ہوگیا - دروازہ پر ایک عورت ملی - اس عورت نے کہا کہ بدر صاحب اس کمرے میں تمہارا انتظار کر رہے ہیں -

 کمرے میں داخل ہوکر میں نے دیکھا کہ بدر صاحب میز کے سامنے بیٹھے ہوئے کچھ کر رہے ہیں - مجھے دیکھ کر وہ کھڑے ہوگئے - میں نے سلام عرض کیا - انہوں نے مجھے گلے سے لگایا اور میری زبان اپنے منہ میں لے کر زور سے دبائی جس سے میری آنکھ کھل گئی -   


اس خواب میں مذکورہ سوالات کا پورا جواب موجود ہے - یعنی مستقبل میں الله کی طرف سے معاونت کا بندوبست ہوگا - غیب سے ایسا پروگرام بن جائے گا جو آئندہ زندگی کو کامیاب بنانے کا ضامن ہے - ہر چیز بروقت ہوتی جائے گی - واضح طور پر اس خواب میں سب چیزیں موجود ہیں - تمہارا بلایا جانا ، درمیان میں کسی کی رہنمائی اور آخری منزل میں انسپائریشن ( Inspiration , الہامی خیال ) کی تکمیل غیب سے -   یہ سارے ذرات خواب میں الگ لگ موجود ہیں -

 دنیا کے معاملات باقی رہے ، وہ سارے کے سارے ان ہی کڑیوں کا ساز و سامان ہیں - ان کا بروقت موجود ہونا ، عمل میں آنا یقینی ہے - 

تم نے حسب ذیل مراقبہ لکھا ہے ...


1- رات کو سبق پڑھتے ہوئے سارا جسم زمین سے اٹھ جاتا ہے - مگر جب آگے چلنے کی کوشش کرتا ہوں تو گرنے لگتا ہوں -


 2 - جب آپ کا تصور کرتا ہوں تو آپ اور ناظم آباد کا پورا مکان میرے سامنے ہوتا ہے مگر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ میں ناظم آباد میں ہوں یا ناظم آباد اور آپ میرے پاس آگئے ہیں - 

  الله تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے ...

 ھدی للمتقین ૦ الذین یومنون بالغیب 

مفہوم :   یہ کتاب ان لوگوں کو روشنی دکھاتی ہے جو
              اپنے اندر الله کے بارے میں ذوق رکھتے ہیں - 


غیب سے مراد وہ تمام حقائق ہیں جو انسان کے مشاہدات سے باہر ہیں - وہ سب کے سب الله کی معرفت سے تعلق رکھتے ہیں - ایمان سے مراد ذوق ہے - ذوق وہ عادت ہے جو تلاش میں سرگرداں رہتی ہے - اس لیے نہیں کہ اسے کوئی معاوضہ ملے گا - بلکہ صرف اس لیے کہ طبیعت کا تقاضہ پورا کرے - 


متقی سے وہ انسان مراد ہے جو سمجھنے میں بڑی احتیاط سے کام لیتا ہے -  ساتھ ہے بدگمانی کو راہ میں نہیں دیتا - وہ اللہ کے معاملے میں اتنا محتاط ہوتا ہے کہ کائنات کا کوئی روپ اسے دھوکہ نہیں دے سکتا - وہ الله کو بالکل الگ سے پہچانتا ہے اور الله کے کاموں کو بالکل الگ سے جانتا ہے - صحیح طور سے پہچاننے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر ذوق موجود ہے -
یہ نہ سمجھ لینا کہ ہر انسان کے اندر یہ ذوق موجود نہیں ہے - درحقیقت وہی ذوق لائف اسٹریم ( Life Stream  چشمہ حیات ) ہے - اس ہی سے زندگی کی بنا ہے - انسان اس کو استعمال کرے یا نہ کرے یہ اس کی اپنی مرضی اور مصلحت ہے -  
یہ ذوق ہی انسان کے اندر بستا ہے ورنہ انسان خلا ہے

جیسا کہ الله تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد کیا ہے ... 

"  میں نے انسان کو بجنی مٹی سے بنایا ہے - "

یہاں مٹی کی نیچر ( Nature فطرت ) بیان کی ہے جو خلا ہے -  اب یہ بات تمہارے لیے سمجھنا بہت آسان ہے کہ ذوق میں نہ وزن ہوتا ہے ، نہ ذوق کے لیے فاصلہ کوئی معنی رکھتا ہے - نہ ذوق زمین آسمان کی حدود کا پابند ہے - نہ اسے وقت پابند بنا سکتا ہے - یہی ذوق چلتا پھرتا ہے -


 یہ بات ضرور ہے کہ انسان اس سے اس وقت تک متعارف نہیں ہوتا جب تک اس سے تعارف حاصل نہ کرے -  جب تعارف حاصل کرلیتا ہے تو اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہی ذوق انسان ہے - یہ پوری کائنات میں آزاد ہے - فرشتوں کا سربراہ ہے - الله کی بہترین صنعت ہے اور کائنات میں الله کا نائب ہے - نہ وہ پیروں سے چلنے اور ہاتھوں سے پکڑنے کا پابند ہے - نہ وہ آنکھوں سے دیکھنے اور کانوں سے سننے کا محتاج ہے -

 یہ ساری خرافات انسان نے آپ ہی تخلیق کی ہیں اور آپ ہی ڈھول بجاتا پھرتا ہے کہ ہائے میں تو بالکل مجبور ہوں - تم یہ سوچو گے کہ کتنے ہی آدمی جو الله سے تعارف حاصل کرسکے وہ تو بہر صورت آزاد نہیں ہیں -  انہیں ہر معاملہ میں آزاد ہونا چاہیئے - یہ صحیح ہے کہ وہ آزاد ہیں مگر ساتھ ہی وہ نوع انسانی کے معاشرے کی رسی میں بندھے ہوئے ہیں - ہر دور میں اس ہی کمزوری نے ایسے لوگوں کی آزادی کو ادھورا رکھا ہے - 


جس کا نام زید ہے وہ اس ہی ذوق کا پیٹرن ( Pattern ، طرز ) ہے - کوئی پیٹرن ساکت و صامت پنجرہ نہیں بلکہ بولتا ، چلتا پھرتا ، کھاتا پیتا ، سوچتا سمجھتا انسان ہے - فرش سے عرش تک اس کا ایک قدم ہے - سوئی کا روزن اور آسمانوں کی کھلی فضا ایک ستارہ سے دوسرے ستارے تک کا فاصلہ اس کے لیے ایک ہی معنی رکھتا ہے - وہ نہ کہیں رکتا ہے ، نہ کھٹکتا ہے - افسوس یہ ہے کہ وہ خود کو جانتا نہیں کہ میں کیا ہوں اور کائنات کیا ہے -

 حضورعلیہ الصلوة والسلام  کا نوع انسانی پر یہ سب سے بڑا احسان ہے کہ انہوں نے ان تمام رازوں کو واشگاف کرکے رکھ دیا -   یہ نہ سمجھنا کہ یہ سب راز انہوں نے از خود منکشف کردیئے تھے بلکہ ان پر الله نے کھولے جن کو من و عن انہوں نے قرآن کی صورت میں ریکارڈ کرادیا -
 انہوں نے ساری زندگی کی جفاکشی سہہ کر اس امانت کو نوع انسانی کے حوالے کیا - نوع انسانی نے جو قدر کی ہے ، وہ ظاہر ہے - 
الله نے اس ہی علم کو کتاب کا علم فرمایا ہے - ہر انسان اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ، چاہے اس کا نام زید ہو ، بکر ہو یا عمر ہو - 


تم نے لکھا ہے کہ چلنے کی کوشش کرتا ہوں تو گرنے لگتا ہوں - یہ اس وجہ سے ہے کہ ابھی تم انسان سے اچھی طرح متعارف نہیں ہو جو حقیقی انسان ہے - 

تم یہ خط بغور پڑھنا - اگر کوئی لفظ یا طرز بیان تمہیں مشکل محسوس ہو اسے بار بار پڑھ کر سمجھ لینا - رات کے وقت فرصت میں بیٹھ کر حرف بحرف اس خط کی نقل کرنا اور وہ نقل اپنی فائل میں محفوظ کرلینا - اس خط کی نقل کرنا تمہارے لیئے اشد ضروری ہے - اس لیئے ضروری ہے کہ عبارتیں اور مفہوم اچھی طرح تمہارے حافظے میں منتقل ہوجائیں -

 پھر اس نقل کا بار بار پڑھنا بھی ضروری ہے - جب تم اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر کو بار بار پڑھنے میں آسانی محسوس کرو گے اور ذہن کو لفظوں کے معانی میں مرکوز رکھ سکو گے ، میرے لکھے ہوئے لفظوں کو پڑھنے میں ذہن پر الگ سے جو بار پڑ سکتا ہے اس بار سے تمہارا ذہن محفوظ رہے گا - 


سلسلہ کے سب بہن بھائی تمہیں یاد کرتے ہیں اور مزاج پوچھتے ہیں - 
                                                   
                                                            بہت یاد سے                                                                                       دعا گو                                                                              حسن اخریٰ محمّد عظیم 

                                             1 بجے شب ، 19 - اگست 1963 ء


کتاب ... تذکرہ قلندر بابا اولیاؒء ...  مصنف خواجہ شمس الدین عظیمی   

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں