تفسیر عظیمؒ
دنیائے ادب میں منفرد اسلوب کا حامل علمی ، سائنسی ، ادبی نورانی مجلّہ روحانی ڈائجسٹ ، الحمدللہ اپنی عمر کے بیس سال ( 1999ء ) پورے کرچکا ہے -
اس کے قارئین کی ایک نسل عالم شباب سے نکل کر پیرانہ سالی کے ثمرات ہائے بزرگی سے مستفید ہورہی ہے اور گھٹنوں گھٹنوں چلنے والے وہ نونہال جن کی شرارت آمیز آمد سے روحانی ڈائجسٹ کو بچانے کے لئے بزرگ تکیے کے نیچے چھپا لیا کرتے تھے ، وہ نونہال اب عنفوان شباب کی تمام تر ذہنی اور فکری توانائیوں کے ساتھ روحانی ڈائجسٹ کے نوجوان قارئین کی صف میں شامل ہوچکے ہیں -
ان برسوں میں کتنے ہی ساتھی دنیائے عدم کی صدا پر لبیک کہہ گئے اور کتنے ہی نئے ساتھی قارئین نے اس جریدے کو شرف قبولیت سے ہمکنار کیا - زیر نظر تحریر روحانی ڈائجسٹ کے گزشتہ مخزن علم کا ایک در نایاب ہے - یہ تحریر جنوری 1982ء کے شمارے میں سہیل احمد کی جنبش قلم سے منظر عام پر آئی -
سہیل احمد ایک کتاب کے مصنف ہونے کے علاوہ ہفت روزہ اخبار جہاں میں روحانی مسائل کا کالم بھی باقاعدگی سے تحریر کر رہے ہیں - انہوں نے زیر نظر مضمون الله کے دوست ، علم لدنی کے حامل قلندر بابا اولیاؒء کی تحریر کردہ قرآن کی چند آیات کی روحانی تشریحات سے مرتب کیا ہے - قلندر بابا اولیاؒء کا ایک ایک لفظ علم و عرفان کے بحر بے کراں کا گوہر آبدار ہے -
یہ مضمون جہاں نئے قارئین کے علمی استفادہ اور دلچسپی کا باعث ہوگا وہاں پرانے قارئین کے لئے یاد رفتہ کی باد نسیم کا ایک جھونکا بھی ثابت ہوگا -
قرآن پاک کے متعلق الله تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ یہ لوح محفوظ پر موجود ہے - لوح محفوظ کائناتی تخلیق کے پروگرام کی بنیادی شکل ہے - قرآن مجید کے متعلق ایک اور ارشاد ربانی ہے کہ کوئی چھوٹی سے چھوٹی اور کوئی بڑی سے بڑی چیز ایسی نہیں ہے جو اس میں بیان نہ کردی گئی ہو - ان دونوں آیات کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ قرآن پاک کی بنیاد (Base ) لوح محفوظ ہے -
دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کائناتی تشکیل کے قوانین کا مجموعہ ہے اور اگر مادی دنیا میں جہاں مفہوم کی منتقلی کے لئے الفاظ کا سہارا لینا پڑتا ہے ، قدرت کے طرز عمل کو بیان کرنے کے لئے مختصر اور آسان ترین الفاظ استعمال کئے جائیں تو وہ قرآن پاک کی زبان ہے -
قرآن پاک میں ہر قسم کے مضمون کی طرف اشارات ملتے ہیں - کہیں آسمانوں کا ذکر ہے ، کہیں زمین کے بارے میں بیان کیا گیا ہے ، کہیں تخلیقی مراحل پر روشنی ڈالی گئی ہے ، کہیں وسائل کو زیر بحث لایا گیا ہے ، کہیں اجرام فلکی کی حیثیت بتائی گئی ہے -
ان آفاقی تذکروں کے ساتھ ساتھ آدمی کی معاشی ، معاشرتی اور تاریخی زندگی کو بھی بیان کیا گیا ہے - لیکن ان اشارات کے پیچھے افہام و تفہیم کیا ہے اور یہ کن رازوں اور فارمولوں کو بیان کرتے ہیں اس بات کو سمجھنا اس وقت ممکن ہے جب آدمی کے اندر صاحب قرآن کی طرز فکر کام کر رہی ہو اور آدمی قرآن کو قرآن کی سطح پر آکر سمجھنے کی کوشش کرے -
قرآن پاک میں جگہ جگہ اس بات کا تذکرہ ہے کہ ہماری آیات کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جن میں تفکر کی صلاحیت موجزن ہے ، جو صاحبان عقل ہیں ، جو شعور رکھتے ہیں ، جو راسخ فی العلم ہیں وغیرہ وغیرہ - اس کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کو الله تعالیٰ نے تفکر ، فہم اور علم میں راسخ ہونے کی صلاحیت بخشی ہے ، وہ قرآن پاک کے بیان کردہ تخلیقی فارمولوں سے وقف ہیں -
تفکر ، شعور ، عقل یہ ساری اصطلاحات ایک مخصوص طرز ذہن اور طرز فکر کو بیان کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہیں - جب بندے کا ذہن ہر طرف سے ہٹ کر صرف اور صرف الله کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور وہ الله کے لئے جیتا اور مرتا ہے تو ایسے بندے کی راہنمائی کا فریضہ خود ذات باری تعالیٰ اپنے ذمہ لے لیتی ہے اور پھر ان پر معرفت خداوندی کے دروازے کھل جاتے ہیں -
الله تعالیٰ کا ارشاد ہے :
" جو لوگ ہمارے لئے جہد کرتے ہیں ،
ہم ان پر اپنی راہیں کھول دیتے ہیں - "
ایسے بندوں کی صفت بیان کی گئی ہے :
" ہم ان کو آفاق و انفس میں اپنی نشانیوں کا
مشاہدہ کرائیں گے تاکہ انہیں معلوم ہوجائے
( یعنی ان پر یہ بات منکشف ہوجائے گی )
کہ قرآن حق ہے - "
اس سے پتہ چلتا ہے کہ مشاہدہ ہی وہ ذریعہ ہے جس سے قرآن پاک کے بیان کردہ مضامین کی مکمل اور حقیقی معنویت سامنے آتی ہے -
حضورعلیہ الصلوة والسلام کا ارشاد گرامی ہے :
" مومن کی فراست سے ڈرو کہ
وہ الله کے نور سے دیکھتا ہے - "
ایسے قدسی نفس حضرات ہر زمانے میں موجود رہے ہیں جن کو الله تعالیٰ کی طرف سے یہ نور بصیرت عطا ہوا - ماضی قریب میں حضرت سید محمّد عظیم برخیا المعروف حضور قلندر بابا اولیاؒء بھی ایک ایسی ہی ہستی ہیں -
جو لوگ حضرت بابا صاحبؒ کی صحبت میں رہے ہیں وہ یہ بات جانتے ہیں کہ بابا صاحبؒ عرفان خداوندی کی جن بلندیوں پر فائز تھے اور آپ کو تخلیق کے فارمولوں میں کس قدر دخل عطا کیا گیا تھا - بابا صاحبؒ نے جو تحریریں چھوڑی ہیں ، وہ خود صاحب تحریر کی عظمت کی دلیل ہیں -
لوح و قلم ، رباعیات اور تذکرہ تاج الدین بابا وہ تحریریں ہیں جو قارئین روحانی ڈائجسٹ کی نظروں سے گزر چکی ہیں اور محتاج تعارف نہیں
ان تحریروں کے علاوہ چند ارشادات ایسے ہیں جو بابا صاحبؒ نے سائلین کے جواب میں لکھوائے اور ان میں قرآن پاک کی بعض آیات کے ترجمے اور مختصر تشریحات بیان کیں -
ہم ذیل میں چند اقتباسات پیش کرتے ہیں تا کہ قارئین کو اندازہ ہوجائے کہ قرآن محض ایک مسئلہ مسائل کی کتاب نہیں بلکہ یہ کائناتی فارمولوں کی دستاویز ہے اور یہ کہ حضور بابا صاحبؒ کو قدرت نے اپنا کس قدر رازداں بنایا ہے -
الحجر 87 کا ترجمہ اور تشریح ایک سائل کو یوں لکھوائی -
✦..." ترجمہ :
" اور بے شک ہم نے آپ کو سات آیتیں ( نور )
عطا فرمائیں جو دہرائی جاتی ہیں اور عظمت والا قرآن - "
سات انوار کا بیان حسب ذیل ہے -
الله تعالیٰ نے سورہ فاتحہ میں جو تمام آسمانی صحیفوں کی تمہید ہے اور قرآن پاک کا بھی دیباچہ ہے ، ارشاد فرمایا ہے ...
1- الحمدللہ رب العالمین -
وہی الله لائق حمد ہے جس کا نور کائنات کی پرورش کر رہا ہے - یہ پہلا نور ہے -
جس کا نور رحم و کرم بن کر محیط ہے - یہ دوسرا نور ہے -
3 - ملک یوم الدین -
اس کا نور چھایا ہوا ہے ابتداء سے انتہا تک - یہ تیسرا نور ہے -
4 - ایاک نعبد و ایاک نستعین -
اس کا نور ہر بندے کا محافظ اور مددگار ہے - یہ چوتھا نور ہے -
5 - اھدنا الصراط المستقیم -
اس کا نور ہی سیدھا راستہ ہے - یہ پانچواں نور ہے -
6 - صراط الذین انعمت علیھم -
اس کا نور ہی نور ہے - یہ چھٹا نور ہے -
7 - غیر المغضوب علیھم ولا الضالین -
اس کا نور ہی جلال بن کر کائنات کو تنبیہہ کرتا ہے - یہ ساتواں نور ہے -
قرآن پاک کی زبان میں ساتوں انوار مل کر " سبع مثانی " کہلاتے ہیں اور ان ہی کی ملاوٹ کا نام روح ہے جو قدم قدم پر انسان کو مطلع کرتی ہے ، ہر بات بتاتی اور ہر چیز فراہم کرتی ہے - اس ہی روح کا نام
" ورائے محسوسیت " ہے - "...✦
روحانی ڈائجسٹ --- فروری 1999ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں