جمعرات، 8 مئی، 2014

صحبت با اولیاء -- 1



ارشادات ، واقعات ، تعلیمات  اور  طرز فکر 



جناب منصور الحسن کی یہ تحریر جنوری 1994ء کے روحانی ڈائجسٹ میں " روحانی استاد " کے عنوان سے شائع ہوئی-
  اس مضمون میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ  خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنے مرشد کریم  حضور قلندر بابا اولیاؒء کے ساتھ گزارے ہوئے خوبصورت لمحات کا تذکرہ کیا ہے -

یہاں اس مضمون کو مختصراً  " صحبت با اولیاء "  کے عنوان سے پیش کیا جا رہا ہے -  


     روحانی انسان کی صحبت اختیار کرنے سے آدمی کا ذہن رحمان کی طرف لگ جاتا ہے - غم ، خوف ،اضمحلال ، پریشانی سے نجات مل جاتی ہے - یقین کے چراغ روشن ہوجاتے ہیں اور آدمی میں ذہنی وسعت پیدا ہوجاتی ہے ، کسی نے کیا خوب کہا ہے  
             
               یک  زمانہ  صحبت  با  اولیاء  
              بہترازصد سالہ طاعت بے ریا  


کسی علم یا فن کو سیکھنے کے لئے ہمیں استاد کی ضرورت پڑتی ہے جو قدم قدم ہماری راہنمائی کر کے ہمیں اس فن سے متعارف کراتا ہے جو ہم سیکھنا چاہتے ہیں -
کوئی مصور اپنے شاگرد کی راہنمائی نہ کرے تو شاگرد مصوری کے فن میں کمال حاصل نہیں کرسکتا - استاد کی راہنمائی میں شاگرد اپنے اندر چھپی ہوئی تصویر بنانے کی صلاحیت کو بیدار کرلیتا ہے -

روحانی استاد اپنے شاگرد کے اندر پہلے روحانی صلاحیتوں کو بیدار کرتا ہے پھر اسے تعلیم دیتا ہے -ضروری ہے کہ روحانی استاد تلاش کرنے کے لئے شاگرد پہلے اس کی صحبت اختیار کرے -
اس کے شب و روز کا بغور مطالعہ کرے اوردیکھے کہ اس شخص کی اپنی روح سے وابستگی کس حد تک ہے - اس کے اوپر دنیا کا غلبہ ہے یا اسے استغناء حاصل ہے -

روحانی استاد وہ ہے جس کی قربت میں آدمی کا ذہن ماورائی دنیا کی طرف متوجہ ہوجائے اور جتنی دیر آدمی اس کے پاس بیٹھے  اس  کے  اوپر   غم ،خوف ،اضمحلال اور پریشانی کا سایہ نہ پڑے - یقین کے بجھتے دیئے روشن ہوجائیں - 

روحانی استاد کی پہچان یہ ہے کہ وہ کسی سے توقع رکھتا ہے اور نہ اس کے اندر حسد اور لالچ ہوتا ہے - روحانی استاد کی مجلس میں بیٹھ کر ذہنی وسعت پیدا ہوتی ہے - ذہن کائناتی نظام میں اس طرح گم ہوجاتا ہے کہ اس کے اوپر غیبی دنیا کے علوم وارد ہونے لگتے ہیں -

روحانی طرز فکر کو اپنانے کے لئے ضروری ہے پہلے مخصوص طرز فکر کو قبول کیا جائے پھر طرز فکر والی ہستی سے تعلق قائم کر لیا جائے -
یہ تعلق اسی وقت قائم ہوسکتا ہے جب طرز فکر حاصل کرنے والا اس ہستی کی عادات و اطوار کو اپنی عادات و اطوار بنالے اور جس کی طرز فکر حاصل کرنا مقصود ہو وہ بھی دوسرے آدمی کو اپنا قرب عطا کردے اور اس کو اپنی جان کا ایک حصہ سمجھے - 

جس طرح ایک بچہ محض تخلیقی ربط ، ذہنی قربت اور تعلق کی وجہ سے وہی زبان بولنے لگتا ہے جو اس کی ماں کی زبان ہوتی ہے - وہ زبان کی ساخت ، الفاظ اور جملوں سے بغیر بتائے وہی مطلب اخذ کرتا ہے جو اس کے ماحول کے افراد سمجھتے ہیں
اسی طرح شاگرد اور استاد کے درمیان روحانی اور قلبی رشتہ کی بدولت استاد کے علوم ، استاد کی طرز فکر اور انوار شاگرد کو منتقل ہوتے رہتے ہیں -

شاگرد اور استاد کے درمیان ذہنی تعلق میں آب و تاب شاگرد کے عشق و محبت یا استاد کی نظر عنایت سے آتی ہے اس تعلق کو مضبوط کرنے کا ایک ذریعہ روحانی استاد کی صحبت ہے -

جب شاگرد استاد کی صحبت میں بیٹھتا ہے ، اس سے سوال و جواب کرتا ہے ، استاد کے ارشادات سے مستفیض ہوتا ہے تو جب تک اس کی قربت میں موجود رہتا ہے اوپر بیان کیے  گئے تخلیقی قانون کے مطابق استاد کی شخصیت اپنی تمام تر صفات کی ساتھ شاگرد کے اندر دور کرتی رہتی ہے -
اسی لئے روحانی استاد کی خدمت میں بیٹھنے کو اہمیت دی جاتی ہے -

ذہنی تعلق اور استاد کی شخصیت کو شاگرد کے اندر جذب کرنے کے لئے تصور کی قوت سےسے بھی کام لیا جاتا ہے جس سے اس کا روحانی ربط ہر وقت استاد کی ذات سے قائم رہتا ہے
اور استاد کے انوار اور معرفت الہیہ کی صلاحیت شاگرد کی ذہنی سکت اور استاد سے محبت اور تعلق کی مناسبت سے مسلسل منتقل ہوتی رہتی ہے ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب شاگرد اپنے استاد کا عکس  بن جاتا ہے اس مقام کو تصوف میں " فنا فی الشیخ " کا نام دیا جاتا ہے -  


نوع انسانی کے جوہر ، شعبہ خدمت خلق کے نگراں ،
عظیم روحانی سائنسداں امام سلسلہ عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاؒء  کے محبوب شاگرد اور فنا فی الشیخ مرید ، خانوادہ سلسلہ عظیمیہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی ذات گرامی وہ ہستی ہے جو حضور قلندر بابا اولیاؒء  کے سب  سے زیادہ قریب رہی -

اپنے عظیم مرشد کے شب و روز کا مشاہدہ ان کا معمول رہا اور حضور قلندر بابا اولیاؒء  کے علوم اور طرز فکر ان کا ورثہ اور نصیب بنا -اپنے محبوب مرشد سے قربت کا یہ عالم رہا کہ حضور بابا صاحب کم و بیش 14 سال حضرت عظیمی صاحب کے گھر میں  مقیم رہے  -

14 سالہ قلبی ، ذہنی اور جسمانی و روحانی قربت اس بات پر منتج ہوئی کہ حضور قلندر بابا اولیاؒء نے نہ صرف اپنے علوم بلکہ اپنی ذات عظیمی صاحب میں منتقل فرمادی اور عالم ظاہر سے پردہ فرمالیا -  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں