ارشادات ، واقعات ، تعلیمات اور طرز فکر
زیر نظر مضمون جناب جمیل احمد صاحب کا تحریر کردہ ہے - یہ تحریر جنوری 1998ء کے روحانی ڈائجسٹ میں " قلندر بابا کی مسیحائی " کے عنوان سے شا ئع ہوئی -
محترم جمیل صاحب کو حسن اخریٰ سید محمّد عظیم برخیا المعروف حضور قلندر بابا اولیاؒء کے داماد ہونے کا شرف حاصل ہے - اس کے علاوہ جمیل صاحب قلندر بابا کے روحانی فرزند بھی ہیں - یہ واقعہ قلندر بابا کی صاحبزادی سے جمیل صاحب کے نکاح کے ابتدائی سالوں کا ہے ، جب وہ ایک لاعلاج مرض میں مبتلا ہوگئے -
ان کی تشویشناک حالت اور مرض کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے تمام دنیاوی مسیحاؤں نے مایوسی ظاہر کردی تھی لیکن انسانی لباس میں ملبوس ایک مسیحا ایسا بھی تھا جس کے ہاتھ میں الله نے اس مرض سے نجات کی سبیل رکھی تھی -
✦... یہ پچاس کے عشرے کا واقعہ ہے - 1950ء میں میری شادی جناب محمّد عظیم کی صاحبزادی سے ہوئی - اس خوبصورت اور مقدس بندھن سے ہم دونوں میاں بیوی بہت ہی خوش تھے - ہمارے دامن میں الله کی دی ہوئی ہر وہ خوشی موجود تھی جسے کامیاب زندگی کی اساس قرار دیا جاسکتا ہے -
مسرت آگیں اور محبت بھرے جذبوں کے ساتھ ایک سال کا عرصہ کچھ اس طرح بیت گیا کہ وقت کی خاموش ڈگر کا ادراک ہی نہ ہوسکا - ان ہی دنوں اچانک مجھے کھانسی کی شکایت ہوگئی - چند روز اور گزرے ہوں گے کہ ہلکا ہلکا بخار بھی رہنے لگا -
کھانسی اور بخار کے ازالے کے لئے کئی طرح کی ادویہ استعمال کیں - مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق کھانسی کی شدت اور بخار کے تسلسل نے ادھ موا کردیا - نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک روز منہ سے خون آنا شروع ہوگیا -فوراً ڈاکٹر کو دکھایا گیا -
ڈاکٹر نے مرض کی تشخیص کرتے ہوئے یہ ہولناک انکشاف کیا کہ مجھے ٹی بی ہوگئی ہے - یہ خبر میرے پورے گھر اور سسرال والوں کے لئے کسی قیامت سے کم نہیں تھی خود میری اور بیگم کی جذباتی کیفیت قابل دید تھی - بیماری کے دنوں میں میری اہلیہ کے والد محمّد عظیم ایک مشفق ہستی ثابت ہوئے - آپ نے اس دوران بہت دلاسا دیا اور ہمت بندھائی -
ڈاکٹروں نے کئی ماہ تک علاج معالجہ کیا ، دوائیں دیں اور مختلف قسم کے پرہیز کروائے اور با لآخر میرا مرض بظاہر بالکل ختم ہوگیا - اس واقعے کے بعد دو سال آرام سے گزرے تھے کہ پھر اچانک کھانسی اور ہلکے ہلکے بخار کی سابقہ کیفیت دوبارہ در آئی اور خون دوبارہ شروع ہوگیا -
اس دفعہ معروف Consultants اور Physicians کو دکھایا گیا - انہوں نے متعدد ٹیسٹ وغیرہ کیئے - علاج اور دوا خوری کا مہینوں کا کورس دوبارہ شروع ہوا جس سے چند ماہ میں مرض دوبارہ دب گیا -
لیکن جب تیسری مرتبہ Bleeding ہوئی تو خون نے بند ہونے کا نام ہی نہ لیا اور اس قدر خون منہ کے راستے خارج ہوا کہ سب بری طرح گھبرا گئے - میرے سسر جناب محمّد عظیم کو خبر ملی تو فوراً مزاج پرسی کے لئے تشریف لائے لیکن میری حالت تشویشناک حد تک خراب تھی - سارے گھر میں کہرام بپا تھا -
آپؒ نے میری کیفیت کو ملاحظہ کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ جمیل صاحب کو فوراً ہسپتال میں Admit کرا دیا جائے - انشاء اللہ ٹھیک ہوجائیں گے اور یہ کہ CMH میں میرے چند ڈاکٹرز جاننے والے ہیں بہتر ہوگا کہ وہیں Admit کرا دیں -
CMH میں ڈاکٹر منظور بھٹی صاحب میرے سسر محترم کے حلقۂ احباب میں شامل تھے - چنانچہ وہاں داخل کردیا گیا - اپنی داستان مزید بیان کرنے سے پہلے میں یہ بتاتا چلوں کہ میں کس بزرگ ہستی کی بات بیان کر رہا ہوں - میرے سسر جناب محمّد عظیم صاحب کو آج ایک عالم قلندر بابا اولیاؒء کے نام سے جانتا ہے - مجھے اس عظیم ہستی کا داماد ہونے کا شرف حاصل ہے -
قلندر بابا اولیاؒء کی ہدایت پر مجھے CMH میں داخل کروا دیا گیا اور خواجہ شمس الدین عظیمی , قلندر بابا اولیاؒء کی ہدایت پر میرے ساتھ تیمارداری کے لئے رک گئے - ڈاکٹروں نے کئی ایکسرے اور بلغم کے ٹیسٹ لئے ، طرح طرح کے Examinations ہوئے مگر مرض اپنی جگہ جوں کا توں رہا اور خون بند نہ ہوا -
ٹیسٹ رپورٹوں کو دیکھ کر ڈاکٹروں نے نیا انکشاف کیا کہ ٹی بی اپنی Third Stage میں پہنچ چکی ہے - یاد رہے کہ تیسری اسٹیج کی ٹی بی کا اس وقت علاج دریافت نہیں ہوا تھا اور یہ مرض لاعلاج امراض کی صف میں آتا تھا - اس اسٹیج کے مریض کو سب سے الگ تھلگ کرکے ڈال دیا جاتا تھا جہاں وہ اپنی زندگی کے دن گنتا رہتا -
میری حالت سے سارے ڈاکٹر مایوس نظر آنے لگے - بیماری نے پندرہ روز تک طول کھینچا - اس عرصے میں جسم سے خون کے اخراج سے میری حالت دگرگوں ہوگئی - نقاہت اس قدر شدید ہوگئی کہ ہلکی سی کھانسی آجانے پر بھی چکر آجاتا اور نگاہوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا - کمزوری اتنی تھی کہ ہاتھ پیر ہلانا بھی اپنی اختیار میں نہ رہا -
ایک روز ڈاکٹر منظور بھٹی نے خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب ( جو کہ میری تیمارداری کر رہے تھے ) کو بلایا اور کہا کہ ہم نے اپنی تمام تر کوششیں کرکے دیکھ لیں ہیں اور مرض اس اسٹیج میں پہنچ چکا ہے کہ بچنے کے امکانات معدوم ہیں اور ان کے بچنے کی اب کوئی امید دکھائی نہیں دیتی - بابا صاحب سے کہو انہیں گھر بلالیں -
بابا صاحب کو جب ڈاکٹر منظور کی بات گوش گزار کرائی گئی تو انہوں نے خفگی کا اظہار فرمایا - اگلے روز میری بیگم آئیں تو میری حالت زار کو دیکھ کر زاروقطار رونے لگیں - میری کیفیت ایسی تھی کہ بات کرنے کی بھی ہمت نہ تھی - ہر وقت غنودگی طاری رہتی تھی -
میں نے اپنی تمام تر قوت کو مجتمع کرکے بیگم سے کہا کہ تم ابا کے پاس جا کر کہو کہ جمیل کی حالت بہت خراب ہے اور دنیاوی مسیحاؤں کی تمام تدبیریں ناکام ہوچکی ہیں - اب صرف دعا کا سہارا باقی بچا ہے للہ توجہ فرمائیں -
بیگم اسی وقت روانہ ہوگئیں - جب وہ اپنے والد کے پاس پہنچیں تو وہ تخت پر تشریف فرما تھے - بیگم نے جب اپنے مشفق اور سراپا جود وسخا والد محترم کو دیکھا تو دبے ہوئے جذبات کی چنگاری بھڑک اٹھی اور وہ کچھ کہنے کے بجائے بلک بلک کر رونے لگیں - باپ کے سینے سے لگ کر بہت دیر تک سسکتی رہیں -
بالآخر قلندر بابا کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا - آپؒ نے تین بار تخت پر مکے مارے اور زبان اقدس سے کچھ الفاظ بھی ادا فرمائے جو بیگم کی سمجھ میں نہ آسکے - میں وہاں اسپتال کے کمرے میں نقاہت کی حالت میں پڑا ہوا تھا - سب کچھ سایہ سایہ سا لگ رہا تھا ، اسی اثناء میں میں نے دیکھا کہ حضرت بابا تاج الدین ناگپوری رحمتہ الله علیہ اور قلندر بابا اولیاؒء تشریف لائے ہیں -
میں جس بیڈ پر لیٹا ہوا تھا اس کی ایک پٹی پر بابا تاج الدین ناگپوری بیٹھے ہیں اور اور دوسری پر بابا صاحب - بابا تاج الدینؒ نے میرے سینے پر ہاتھ پھیرا مجھے کچھ ٹھنڈک سی محسوس ہوئی اور اس کے بعد میں بےہوش ہوگیا -
مجھے نہیں معلوم کہ ان متبرک اور پرنور ہستیوں نے کیا کیا - بہر حال جب مجھے ہوش آیا تو سینے کی جلن بند ہوچکی تھی اور آھستہ روی سے میں ہاتھ بھی ہلا جلا سکتا تھا - میں نے کوشش کرکے ادھر ادھر کمرے میں نظر دوڑائی مگر میرے علاوہ وہاں کوئی اور دکھائی نہیں دیا -
اس دن کے بعد سے صحت درست ہونا شروع ہوگئی - اس طرح اچانک دوبارہ صحت یاب ہونے سے ڈاکٹرز حیران تھے - کیونکہ ایسے بظاہرکوئیعوامل باقی نہیں رہے تھے کہ میں ٹھیک ہوجاتا -صحت یاب ہو کر جب گھر آیا اور بابا صاحب پر پہلی نظر پڑی تو وہ زیر لب مسکرا رہے تھے - ان کی آنکھوں میں یقیناً کوئی ایسی بات تھی کہ میری نگاہیں جھکتی چلی گئیں -
بابا صاحبؒ نے مجھے قریب بلا کر فرمایا ... " جمیل صاحب اب آپ کو یہ تکلیف کبھی نہیں ہوگی ، آپ بےفکر رہیئے - " اور یہ جملہ اب میری پوری زندگی پر محیط ہوچکا ہے - کیونکہ آج چالیس سال بعد بھی میں عمومی طور پر صحت مند ہوں -
اس موذی بیماری کو تو خیر چھوڑیں لیکن اس کے علاوہ بھی کبھی کوئی شدید بیماری مجھے لاحق نہیں ہوئی - قلندر بابا اولیاؒء کی مسیحائی کے اس واقعے کے بعد ان کی بزرگی اور اعلیٰ مرتبے کے اعتراف میں جبین ناز عقیدت و احترام سے اس عظیم ہستی کے لئے جھک جاتی ہے -
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں