ہفتہ، 10 مئی، 2014

صحبت با اولیاء -- 3


ارشادات ، واقعات ، تعلیمات  اور  طرز فکر



مرید کی بے خبری میں  پیر و مرشد کی مرید پر عنایات کے حوالے سے فرمایا کہ حضور قلندر بابا اولیاؒء نے ایک دفعہ مجھ سے فرمایا کہ ...

" بعض حالات میں ایسا ہوتا ہے کہ پیر و مرشد  اپنے دوست اپنے مرید کے اندر سے تعفن کو الگ کرتا ہے ، صاف کرتا ہے ، بار بار صاف کرتا ہے اور وہ خود کو گندہ کر لیتا ہے - ایسا بھی ہوتا ہے کہ مرشد ساری زندگی ایک مرید کی صفائی پر لگا رہتا ہے اور آخر میں وہ پھر خود کو گندہ کر لیتا ہے اور پیر و مرشد اس دنیا سے چلا جاتا ہے -"

مراقبہ کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے ارشاد ہوا کہ حضور قلندر بابا اولیاؒء نے فرمایا ہے کہ ...

"  مراقبہ ایک ایسا عمل ہے کہ اگر اس کو خلوص نیت سے اور مستقل بنیادوں پر کیا جائے تو الله تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق کہ میں انسان کے اندر ہوں -
مراقبہ کرنے والا بندہ الله تعالیٰ کو دیکھ لیتا ہے ، الله تعالیٰ کی شان کریمی سے فیض یاب ہو جاتا ہے اور دنیاوی مصیبتیں اور دنیاوی پریشانیاں اس کے اوپر سے ختم ہوجاتی ہیں اور اس کے پاس سوائے سکون کے کچھ نہیں رہتا -"

دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کرتے ہوئے حضور قلندر بابا اولیاؒء نے ارشاد فرمایا ... 

" خواجہ صاحب ! اس دنیا سے جب بھی کوئی جاتا ہے تو کچھ بھی ساتھ نہیں لے جاتا - وہاں جو چیز ساتھ جاتی ہے وہ خوشی ہے - اگر آپ اس دنیا میں خوش ہیں تو وہاں بھی خوشی آپ کا استقبال کرے گی -"

    فرمایا کہ ... " خوشی اس وقت حاصل ہوتی ہے جب آدمی ہر حال میں الله کا شکر ادا کرے - جو حاصل ہے اس پر صبر و شکر کے ساتھ قناعت کرے اور جو چیز میسر نہیں اس کا شکوہ نہ کرے الله کی نعمتوں کے حصول کے لئے بھرپور جدوجہد کرے ہر حالت میں خوش رہنے سے بندہ راضی برضا ہوجاتا ہے - "

حضور قلندر بابا اولیاؒء کی طبیعت مبارک میں عوام الناس کے لئے کس قدر نرم گوشہ  موجود تھا اس کا تذکرہ کرتے ہوئے عظیمی صاحب فرماتے ہیں ...
   " ایک مرتبہ ایک صاحب حضور قلندر بابا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سوئٹر کا تحفہ پیش کیا - وہ سوئٹر حضور کی جسامت سے دگنا بڑا تھا میں نے حضور کی طرف دیکھا تو انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے خاموش رہنے کا حکم دیا -
جب وہ صاحب چلے گئے تو حضور نے فرمایا ...

" خواجہ صاحب !  ان  صاحب کے ذہن میں جو میرا Image تھا وہ اس امیج کے مطابق سوئٹر لے آئے - اگر آپ کچھ کہہ دیتے تو ان کا دل ٹوٹ جاتا اب جب کہ انہوں نے مجھے دیکھ لیا ہے تب بھی ان کے ذہن میں یہ بات نہیں آئی کہ یہ سوئٹر میری جسامت کے لحاظ سے بڑا ہے - وہ اسی امیج کے زیر اثر رہے - کبھی ان کے ذہن میں یہ بات آئے گی بھی نہیں - "

اپنے محبوب پیر و مرشد سے ذہنی و قلبی ربط اور ہم آہنگی کو بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ایک روز دوپہر کا وقت تھا - میں اپنے محبوب مرشد کریم قلندر بابا کے پاس موجود تھا - 

حضور نے فرمایا ... " خواجہ صاحب !  کیسی اندھیری رات ہے ؟

 یک بیک میری نگاہوں کے سامنے سے جیسے کوئی پردہ ہٹا اور میں نے دیکھا کہ ہر سو کالی اندھیری رات پھیلی ہوئی ہے -

تھوڑی دیر بعد حضور قلندر بابا اولیاؒء نے فرمایا ... " اوہ !  یہ تو دن ہے "  
فرمایا چونکہ میرا ذہن اپنے پیر و مرشد کے ذہن میں جذب ہوچکا تھا لہٰذا اگلے ہی لمحے میں نے دیکھا کہ دن کی روشنی ہر طرف پھیل چکی ہے - "
اس واقعہ کی توجیہہ بیان کرتے ہوئے حضرت عظیمی صاحب نے فرمایا ... میں نے جب اس بات پر غور کیا تو دو باتیں  میری سمجھ میں آئیں -

ایک تو یہ کہ حضور چونکہ بیک وقت کئی عالمین میں مصروف رہتے تھے - بہت ممکن ہے کہ جس وقت انہوں نے یہ بات کہی کہ کیسی اندھیری رات ہے اس وقت وہ کسی ایسے عالم میں موجود ہوں جہاں رات کا وقت ہو-

دوسری بات جو میرے ذہن میں آئی وہ یہ تھی کہ ہوسکتا ہے حضور نے یہ چیک کرنا چاہا ہو کہ میرا یہ مرید میرا تصرف کس حد تک قبول کرتا ہے اور انہوں نے ارادتاً یہ بات کہی ہو - جس کا میں نے کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا -

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں