ہفتہ، 3 مئی، 2014

ارادہ


ارشادات ، واقعات ، تعلیمات  اور  طرز فکر 



امام سلسلہ عظیمیہ حضور قلندر بابا اولیاؒء فرماتے ہیں ...


   پانی کی ذاتی ایک  حرکت ہے اور ہمہ وقت موجود ہے - پانی میں حرکت اور لہر کا خاصہ موجود ہے -

✦  جب کنکر تہہ میں پہنچا تو پانی میں لہریں اٹھنا شروع ہوگئیں بشرطیکہ پانی کی وسعت اتنی ہو کہ وہ باطن کا مظاہرہ کرسکے -

✦ کنکر کے تصادم سے پانی اپنا باطن یعنی حرکت نمایاں کرتا ہے -

✦ جو چیز واقع ہوتی ہے وہ مظاہر قدرت کے باطن میں موجود ہے -اسی لئے واقع ہوتی ہے - البتہ اس کے واقع ہونے کا ایک محل ہے -

✦ کنکر ارادہ کی جگہ ہے یا ارادہ کا مقام رکھتا ہے اور کنکر کا پانی سے تصادم " توجہ " کا قائم مقام ہے - دراصل کنکر ہی ارادہ کا تمثل ہے اور پانی میں حرکت پیدا ہونا توجہ کا تمثل ہے - یعنی جب ارادہ میں تکرار واقع ہوئی تو توجہ کا عمل شروع ہوگیا - ارادہ کی تکرار کو توجہ کہتے ہیں -

اکثر ارادہ لاشعوری طور پر تکرار کرتا ہے اور وہ توجہ بالکل لاشعوری ہوتی ہے - لیکن اس کا نتیجہ لازم ہے - نتائج کی دونوں صورتوں میں اہمیت ہے - یکساں طور پر دونوں اثر انداز ہوتے ہیں - یعنی مظاہر کی دنیا میں دونوں کی حیثیت ایک ہے - دونوں کا اثر ایک ہے - خواب کی بھی یہی حالت ہے اور کیفیت بھی یہی معنی رکھتی ہے -

✦ کنکر ہی جو لاشعوری ہے وہ کائناتی ذہن کا ارادہ ہے - یہی الله تعالیٰ کا امر ہے - امر میں یعنی کائناتی ذہن میں برابر تکرار ہوتی رہتی ہے یہ کبھی بغیر تکرار کے نہیں ہوتا - یہ کنکر یعنی امر کی تکرار ہی کتاب المبین ہے - کتاب المبین ہی کی تکرار سے مظاہر قدرت یا کائنات رونما ہوئی - تکرار کتاب المبین ہی میں واقع ہوتی ہے لیکن تکرارکے نتائج کتاب المرقوم کہلاتے ہیں - دراصل کائنات کتاب المرقوم ہے -

تکرار کبھی ذہن کی اوپری سطح پر واقع نہیں ہوتی بلکہ ذہن کی گہرائی میں واقع ہوتی ہے - جب کنکر پانی کی گہرائی میں پہنچتا ہے تو لہریں اٹھنے لگتی ہیں - گویا پانی کا باطن مظاہر کی صورت اختیار کرلیتا ہے -

یہ مظاہر پانی کے باطن میں موجود ہیں - لیکن تکرار واقع نہیں ہوئی تھی - وہ باطن جس میں تکرار واقع نہیں ہوئی ، صرف مفرد حرکت ہے - اسی ہی کو غیب کہتے ہیں - اگر اس میں تکرار واقع ہوجائے تو مظاہر قدرت بن جائے گی - صوفی کی توجہ اسی میں تکرار پیدا کرتی ہے اور جب صوفی توجہ کرتا ہے تو اس کی توجہ اس مطلوب کی شکل و صورت اختیار کرلیتی ہے جو صوفی کے ذہن میں ہے -

پہلے سے جو شکل و صورت وہاں موجود تھی وہ سادہ ، مفرد، بےرنگ شکل و صورت تھی - یہ شکل و صورت وہی ہے جو کائناتی ذہن کی ہے لیکن جب صوفی کی توجہ اس میں داخل ہوگئی تو وہ شکل و صورت بھی داخل ہوگئی جو صوفی کا مطلوب ہے -

اگرعارف کی توجہ شامل نہیں ہوتی تو پانی کی اندر جوخواص موجود ہیں ان کا عمل ہوتا رہتا -اس سے کسی بھی مخلوق  کا کوئی واسطہ یا تعلق ہوتا مگر خواص کی شکل و صورت اسی شخص سے بے نیاز ہوتی جس سے اس کا تعلق ہوتا - پانی کے خواص ایک شخص کو ڈوبنے کے اور دوسرے کو تیرنے کے اسباب پیدا کردیتے ہیں -


✦ ارادہ کی تکرار ارادہ کی قوت ہے - یہ ضروری نہیں کہ ارادہ سوا لاکھ بار ہی دہرایا جائے لیکن ارادہ میں اتنی قوت ہونی چاہئیے جو سوا لاکھ بار دہرانے سے پیدا ہوتی ہے - اگر وہ قوت موجود ہے تو ایک حرکت کافی ہے -

کبھی ایسا ہوتا ہے ، اور زیادہ تر اس زمانے میں ٩٩٩ فی ہزار ایسا ہی ہوتا ہے کہ سوا لاکھ دہرایا ہوا ارادہ بھی ایک بار کی قوت سے آگے نہیں بڑھتا -
دراصل ارادہ دہرایا ہی نہیں جاتا کیونکہ جن الفاظ کے ذریعے ارادے کو دہرانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ الفاظ دہرانے والے انسان کے ذہن میں اپنی کوئی تصویر یعنی معنی کی خدوخال پیدا نہیں کرتے -


 ✦ ارادہ دراصل کوئی شکل و صورت رکھتا ہے  - جس مطلب کا ارادہ ہو ، مطلب اپنی پوری شکل و صورت کے ساتھ ارادہ میں مرکوز ہونا ضروری ہے - بغیر شکل و صورت کے کسی ارادہ کو ارادہ نہیں کہتے -  



تحریر ... پروفیسر فقیر محمّد       کتاب ... تذکرہ  قلندر بابا اولیاؒء 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں