ارشادات ، واقعات ، تعلیمات اور طرز فکر
جناب سہیل احمد کی یہ تحریر بعنوان
" عشق مجازی سے عشق حقیقی تک "
جنوری ١٩٨١ء کے روحانی ڈائجسٹ کی زینت بنی -
یہ سچا واقعہ حضور قلندر بابا اولیاؒء کے سامنے بیان کیا گیا اور حضور بابا صاحبؒ نے اس کی روحانی توجیہہ بیان فرمائی - یہاں اس مضمون کو مختصراً پیش کیا جارہا ہے -
✦... حسن نے ابھی جوانی میں قدم رکھا تھا کہ ان کی والدہ اس دنیا سے رخصت ہوگئیں - والدہ کے انتقال کے بعد چھوٹے بہن بھائیوں کی معصوم نگاہیں بھائی پر ٹک گئیں - کیوں کہ وہی اب ان لوگوں کی آنکھوں کا تارا تھا -
حسن نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی اور وہ ایک عمدہ شاعرانہ ذوق رکھنے کے ساتھ ساتھ بےحد حساس طبیعت کے مالک تھے - سنجیدگی ، بردباری ، معاملہ فہمی اور غور و فکر ان کی ذات کی نمایاں خصوصیات تھیں -
حسن نے بھائی بہنوں کی نگاہوں کو مایوس نہیں لوٹایا اور بلا تامل ان کی تمام ضروریات کی ذمہ داری اپنے کندھوں پرلےلی -انہوں نے بہن بھائیوں کو ماں بن کر اپنی آغوش شفقت میں لے لیا اور اپنی تمام توانائیاں ان کی تعلیم و تربیت کے لئے وقف کردیں -
حسن نے سلسلہ معاش جاری رکھنے کے لئے اپنی طبیعت کی مناسبت سے مختلف رسائل و جرائد کی صحافت اور شعراء کے دیوانوں کی اصلاح و ترتیب کا کام اپنے لئے منتخب کیا - یوں وقت گزرتا رہا اور حسن اپنی ذمہ داری پوری توجہ کے ساتھ پوری کرتے رہے -
ایک دن حسن دلّی کے چاندنی چوک بازار گئے اور وہاں کسی ضرورت کے تحت ایک بقّال ( پرچون فروش ) کی دکان پر جا کھڑے ہوئے - کچھ دیر بعد ایک پاکیزہ صورت اور معصوم شکل لڑکا اس دکان پر آیا -
حسن میاں نے اس لڑکے کے چہرے کو دیکھا تو نہ جانے کیا دیکھ کر دماغ کو برقی رو کی طرح کا جھٹکا لگا - اور لمحوں میں گرد و پیش سے بےنیاز ہوگئے - شاید دست قدرت نے لڑکے کے چہرے کی نقاب اٹھا کر عالم ملکوت کے حُسن کا پرتو دکھا دیا تھا -
دن کا وقت تھا ، سورج چمک رہا تھا ، دنیا کی رونق اور گہما گہمی روزانہ کے مطابق تھی لوگ حسب دستور اپنے اپنے خیالات میں مگن ادھر اُدھر آ جا رہے تھے لیکن حسن ہوش و خرد سے بیگانہ رام داس بقّال کی دکان کے آگے کھڑے تھے - انہیں ایک عجیب تجربہ ہوا تھا -
حسن ایک نیک نام اور معزز گھرانے کے نوجوان تھے - ان کی مثبت اور تعمیری سوچ میں منفیت اور کج روی کو کوئی دخل نہیں تھا - وہ اچھا برا خوب سمجھتے تھے - انہوں نے کیا دیکھا اور کیا محسوس کیا اس کو بیان کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے -
رام داس بقّال نے جب یہ دیکھا کہ ایک نوجوان اس کی دکان کے سامنے محو اور مستغرق کھڑا ہے تو فوراً اٹھا اور نہایت احترام کے ساتھ کہا ... کیا ہی اچھا ہو اگر آپ میری دکان پر تشریف رکھیں -
حسن اس درجہ محو تھے کہ بیرونی دنیا سے ان کا رابطہ وقتی طور پر منقطع ہوگیا تھا - یہ دیکھ کر رام داس نے ان کا ہاتھ تھام کر دکان پر بٹھا دیا - کافی دیر تک وہ گم سم بیٹھے رہے اور جب حواس میں جان آئی تو اٹھ کر گھر کی طرف چل دیئے -
گھر پہنچ کر چارپائی پر بیٹھ گئے - بھائی بہن جمع ہوکر باتیں کرنے لگے - کسی کو کچھ کہنے کی جلدی تھی اور کوئی کچھ بتانا چاہتا تھا - لیکن حسن کی ذہنی غیر حاضری نمایاں تھی -
بھائی کو کسی سوچ میں غرق پایا تو ان سب نے خیال کیا کہ شاید کام کی زیادتی سے ذہن تھک گیا ہے - چنانچہ وہ الگ ہٹ گئے - حسن کے آگے کھانا رکھا گیا لیکن ان کو احساس ہی نہیں ہوا - توجہ دلانے پر تھوڑا سا کھا لیا - اگلے دن سے حسن روزانہ رام داس بقال کی دکان پر جانے لگے - وہاں جا کر بیٹھ جاتے اور راستے پر اس طرح سے نظریں جما دیتے جیسے کسی کو تلاش کررہے ہوں - ہر آنے جانے والے کو غور سے دیکھتے -
ایک دن ان کی نگاہیں ٹھہر گئیں - وہی پاکیزہ اور معصوم صورت سامنے تھی جس کے دیدار کے بعد وہ ایک نئے احساس سے دوچار ہوئے تھے - اس چہرے کو دوبارہ سامنے دیکھ کر دل سے ایک آہ نکلی اور رگ و پے میں گداز سرایت کر گیا -
وہ لڑکا دکان کے سامنے سے گزر کر کچھ دور ایک دکان میں داخل ہوگیا - حسن کو پتہ چلا کہ وہ اسی دکان پر کام کرتا ہے چنانچہ وہ اکثر اسے وہاں دیکھتے اور طلب دیدار کو پورا کرتے -
حسن ایک دن رام داس بقال کی دکان پر بیٹھے تھے اور نگاہیں اس دکان پر مرکوز تھیں جہاں ان کا منظور نظر کام کرتا تھا - کئی دنوں سے اس کی صورت نظر نہیں آئی تھی - پہلے تو وہ اکثر نظر آجاتا تھا جس سے ان کے بے چین دل کو قرار آجاتا تھا لیکن ادھر کئی دنوں سے شوق دیدار کی آگ بدستور فروزاں تھی -
مضطرب ہو کر رام داس سے پوچھ بیٹھے ... " کئی دنوں سے وہ لڑکا نظر نہیں پڑتا جو سامنے والی دکان پر کام کرتا ہے ؟ "
رام داس نے بتایا ..." ابھی کچھ دیر پہلے اطلاع ملی ہے کہ اس کا انتقال ہوگیا ہے - بیچارہ ! موت کے بےرحم ہاتھوں نے چھوٹی سی عمر میں آن دبوچا -"
یہ سننا تھا کہ حسن کا دماغ سن ہوگیا - اس غیر متوقع خبر نے ان کے سوچنے سمجھنے کی قوتیں ختم کرکے رکھ دیں - چند لمحوں کے لئے وہ یہ فراموش کر بیٹھے کہ وہ کہاں ہیں - غیر اختیاری طور پر اٹھ کر چل دیئے - وہ خالی ذہن کے ساتھ مشینی انداز میں چل رہے تھے -
ان کے قدم مرگھٹ جا کر رکے - نگاہیں ارتھی کی راکھ پر مرکوز تھیں ، جس کے اندر وہ چہرہ موجود تھا جس کو وہ ایک نظر دیکھنے کے لئے بے چین تھے - آج دست قدرت کا وہ شاہکار راکھ کا ایک ڈھیر تھا - موت نے ایک فصیل کھینچ دی تھی -
انہوں نے خود سے جواب طلب کیا ... " آج کیا وجہ ہے کہ میں اس چہرہ کو دیکھنے کا طلب گار نہیں ؟ " اندر سے جواب ملا ... " تو جسم فانی کا پجاری نہیں بلکہ اس حُسن لازوال کا پرستار ہے جس نے جسم پر سے اپنا سایہ ہٹا لیا ہے - " آواز کا سننا تھا کہ بند ٹوٹ گیا اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے -
دعائیہ کلمات پڑھے اور تھکے قدموں اور بجھے دل سے گھر روانہ ہوگئے -
اس حادثہ نے حسن کے دل و دماغ کو حد درجہ متاثر کردیا تھا - ان پر بار بار گہری سوچ کا غلبہ ہوجاتا - دوست احباب اور رشتہ دار حیران تھے کہ یہ ہنستا مسکراتا چہرہ یاس و حسرت کی تصویر کیوں بن گیا ہے - جب کسی طرح دل کو چین نہیں آیا تو حسن نے فوج میں ملازمت اختیار کرلی - ان ہی دنوں دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا اور جنگ کے شعلے بڑھتے ہی چلے گئے - حسن برما کے محاذ پر متعین ہوئے -
لڑائی کے دوران ایک بم ان کے قریب پھٹا اور اس کے ٹکڑے جسم میں پیوست ہوگئے - وہ سخت زخمی حالت میں ہسپتال میں داخل کر دیئے گئے لیکن علالت کے سلسلے نے طول پکڑا اور با لآخر فوج کی ملازمت کو خیرباد کہنا پڑا -
جسمانی قوت میں کمی کی وجہ سے بخار نے آلیا - مسلسل بیماریوں نے حسن کی نقاہت میں بے حد اضافہ کردیا تھا - اور وہ اپنے گھر میں بستر تک محدود ہو کر رہ گئے تھے - ایک دن کسی کام کے لئے بستر سے اٹھے لیکن چند قدم چل کر یکایک غشی سی آگئی -
توازن کھو بیٹھے اور قریب رکھی ہوئی میز سے ٹکرائے - میز الٹ گئی اور اس پر رکھا ہوا گلاس بھی فرش پر گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ، ساتھ ہی حسن بھی فرش پر گرے اور ہاتھ کانچ کے ٹکڑے پر پڑا - ہاتھ میں گہرا زخم پڑ گیا - خون تیزی سے بہنے لگا -
حواس مجتمع ہوئے تو حسن نے دیکھا کہ زخمی ہاتھ سے خون ٹپک رہا ہے - پلنگ کا کونا پکڑ کر اٹھنا ہی چاہتے تھے کہ کمرے کا دروازہ کھلا اور کوئی تیزی سے اندر داخل ہوا - سر اٹھا کر دیکھا تو ایک لڑکی دروازے پر کھڑی تھی -
دوپٹے کے پیچھے سے اس کا چہرہ چاند کی طرح دمک رہا تھا - بڑی بڑی گہری غلافی آنکھیں حسن پر مرکوز تھیں - حسن کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں اور مبہوت ہوکر دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے -
لڑکی نے حسن کے ہاتھ سے خون بہتے دیکھا تو اس کا چہرہ بجھ گیا - " آپ کا ہاتھ زخمی ہوگیا ہے " حسن کو گویا ہوش آگیا اور انہوں نے کہا .. " جی ہاں ، گلاس کا ٹکڑا چبھ گیا ہے " حسن کی نظریں دوبارہ لڑکی کی طرف اٹھیں -
اس کے چہرے پر حوروں کا تقدس اور مریم کی معصومیت تھی اور اس کی نگاہیں اب بھی زخم پر لگی ہوئی تھیں - " زخم کا کچھ کیجئے نا ، کتنا خون بہہ رہا ہے " لڑکی نے کہا - " ٹھیک ہے " حسن نے مختصر جواب دیا -
" میں نے کسی چیز کے گرنے کی آواز سنی تو یہاں آگئی کہ خدا نخواستہ کیا بات ہوگئی ہے " لڑکی نے سر جھکا کر کہا -
یہ لڑکی کوثر تھی جو حسن کے پڑوس میں نئی نئی آئی تھی اور حسن کی بہن سے اس کی گہری دوستی تھی -کوثر نے پانی میں بھیگی ہوئی پٹی باندھی اور جس تیزرفتاری سے آئی تھی اسی تیزی سے واپس چلی گئی -
کوثر کے جانے کے بعد حسن اپنے بستر پر لیٹ گئے - لیکن بار بار کی کوشش کے باوجود خیالات کا طوفان تھم نہ سکا - ان کا ذہن بار بار کوثر کی طرف چلا جاتا تھا - کوثر جس تیزی سے کمرے میں داخل ہوئی تھی اسی تیزی سے ان کے خیالات میں جگہ بنا چکی تھی -
دروازہ کھلنا ، اندر داخل ہونا ، اس کا بے مثال حُسن اور ہاتھ کے زخم کو دیکھ کر بے ساختہ چہرے پر تکلیف کے نقوش نمودار ہونا یہ سب مناظر حسن کے ذہن پر نقش ہوچکے تھے -
بہن نے بھائی کو ایک کاپی اٹھا کر دی - کاپی میں ایک طرف کوثر کے کہے ہوئے اشعار اور دوسری طرف منتخب اشعار لکھے ہوئے تھے - کاپی کے رکھ رکھاؤ اور طرز تحریر سے نفاست اور پاکیزگی جھلک رہی تھی - حسن نے اشعار پڑھے اور جہاں مناسب سمجھا اصلاح کی -
دن گزرتے رہے ، حسن اور کوثر کے درمیان اجنبیت کی دیواریں گرتی رہیں - یوں تو حسن نے کوثر کو پہلے دن ہی اپنے لئے اجنبی نہیں پایا تھا - حسن کے دل میں عشق کا بیج پرورش پا کر کونپل بن چکا تھا اور اس کی جڑیں دل کے اندر پھیل رہی تھیں -
کوثر حسن کے لئے خوشبو تھی ، روشنی تھی - کوثر نے شمع بن کر دل کے نہاں خانے کو روشن کر دیا تھا - حسن اپنے دل کو ٹٹولتے تو اس کو کوثر کے لئے ایک ناقابل بیان جذبہ سے سرشار پاتے تھے - نہ چاہنے کے باوجود کبھی کبھی وہ بے ساختہ اپنی پسندیدگی کا اظہار کر بیٹھتے تھے - حال دل بالواسطہ الفاظ میں زبان پر آجاتا تھا -
عشق صادق کا معاملہ آکاس بیل کا سا ہے - آکاس بیل کسی درخت میں پیدا ہو کر اس کے وجود پر اس طرح پھیل جاتی ہے کہ درخت چھپ جاتا ہے - درخت کی ساری توانائی آکاس بیل کے لئے وقف ہوجاتی ہے - اسی طرح عشق کی بیل سچے عاشق کے وجود پر چھا جاتی ہے تو عشق اور اس کی صفات باقی رہتی ہیں عاشق کی ہستی فنا ہو کر عشق میں تحلیل ہو جاتی ہے -
حسن کو احساس ہوا کہ کوثر ان کی روح کا حصّہ بن چکی ہے - رات ہو یا دن کسی وقت بھی اس کا خیال ذہن سے جدا نہیں ہوتا - کوثر کا خیال مقناطیس کی طرح ذہن کی سوئی کا رخ اپنی طرف رکھتا ہے - اٹھتے بیٹھتے ، کام کرتے ، چلتے پھرتے اس کا طواف کرتا ہے -
کہتے ہیں عشق اور مشک کی خوشبو چھپی نہیں رہتی ، چنانچہ حسن اور کوثر کی ذہنی اور جذباتی وابستگی لوگوں کی زبانوں پر آنے لگی - ایک دن حسن پر یہ خبر بجلی بن کر گری کہ کوثر کے گھر والے خاموشی سے کسی اور گھر میں منتقل ہوگئے ہیں -
اس لئے کہ جب لوگوں کی سرگوشیاں ان کے کانوں میں پہنچیں تو انہوں نے یہی مناسب سمجھا کہ وہ یہ گھر چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں -
دوری اور فاصلے عشق کی آگ کو اور زیادہ بھڑکا دیتے ہیں کوثر سے دوری عشق کی بھٹی کے لئے ایندھن ثابت ہوئی - شاید عشق میں جو کمی باقی رہ گئی تھی وہ جدائی نے پوری کردی -اس دور میں حسن عجیب واردات و کیفیات سے گزرے - کوثر سے ذہنی ربط اور پھر جدائی نے ان کے دل کو سوز و گداز سے معمور کردیا -
ایک دفعہ حسن کو کسی تقریب میں شرکت کی دعوت ملی - یہ ایک ایسی تقریب تھی جس میں ان کا موجود ہونا ضروری تھا - وہاں پہنچے اور تقریب کے انتظامات میں مشغول ہوگئے - کچھ دیر بعد ان کا گزر مہمان خواتین کے کمرے کے پاس سے ہوا -
اندر نظر پڑی تو مبہوت ہوگئے ... ان کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا ... سامنے کوثر بیٹھی تھی ... وہی معصومانہ چہرہ ، وہی نازک سراپا ، جس کو دیکھنے کے لئے آنکھیں ترس گئیں تھیں -
کوثر پوری محفل میں چاند کی طرح تھی - جس کی روشنی کے آگے ستاروں کا حُسن ماند پڑ جاتا ہے - حُسن کو سامنے پا کر عشق بے خود ہوگیا - آج وہ حُسن کی بارگاہ میں سر جھکا کر اپنی کامل سپردگی کا اظہار کرنا چاہتا تھا - اپنے تمام تر عجز کو حُسن کے قدموں میں نچھاور کر دینا چاہتا تھا -
کوثر کو دیکھ کر حسن کے دل کی آگ اتنے زور سے بھڑکی کہ وہ خود کو فراموش کر بیٹھے اور اسی عالم میں کمرے میں داخل ہو کر بے اختیار کوثر کے قدموں پر سر رکھ دیا - چند لمحوں کے لئے پوری محفل پر سکوت چھا گیا اور اس سے پہلے کہ کوئی کچھ کہتا ، حسن نے کوثر کے سینڈل کو چوما ، سر پر رکھا اور اس محفل سے چلے آئے -
اس واقعہ کے کچھ دنوں بعد ہندوستان کی تقسیم عمل میں آگئی .. فسادات پھوٹ پڑے .. دھرتی انسانی لہو سے سرخ ہوگئی - حسن اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان چلے آئے - فسادات کی ہولناکیاں اور زمانے کے نشیب و فراز بھی حسن کے دل سے کوثر کی یاد کو نہ مٹا سکے -
رفتہ رفتہ حسن کے اندر ایک عجیب تبدیلی پیدا ہونے لگی - وہ بار بار خودی کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے تھے اور اس طرح گم سم ہوجاتے کہ کسی طرح بھی ان کا انہماک نہیں ٹوٹتا تھا - بے خودی کے بعد وہ خود بخود ہوش کی طرف مائل ہوجاتے لیکن اس دوران ان کی حالت پورے طور پر معمول پر نہیں آتی - گفتگو بھی بے ربط کرتے تھے -
جذب کی یہ کیفیت حسن پر کئی کئی گھنٹے طاری رہتی تھی - پھر حسن کی شخصیت میں ایک حیرت انگیز انقلاب برپا ہوا کہ وہ جو کچھ کہہ دیتے وہ پورا ہو جاتا تھا - اب وہ لوگوں میں ایک صاحب کرامت بزرگ کی حیثیت سے پہچانے جانے لگے -
اس زمانے میں ایک صاحب حسن کی خدمت میں آئے - حسن پر جذب کی کیفیت طاری تھی - کچھ دیر انتظار کے بعد حسن نیم ہوش میں آئے تو اس شخص نے کہا ... " میں آپ کے پاس جس مقصد سے حاضر ہوا ہوں اس کے لئے آپ کے ماضی کا سہارا لینا ضروری ہے - میں آپ کے ماضی میں سے کوثر کے نام کو سامنے لانا چاہتا ہوں جس کا آپ کی زندگی میں شاید کوئی بڑا مقام رہ چکا ہے -"
وہ صاحب رک کر حسن کی طرف دیکھنے لگے لیکن حسن خاموش بیٹھے انہیں مخمور نگاہوں سے دیکھ رہے تھے - ان صاحب نے سلسلۂ کلام دوبارہ جاری کرتے ہوئے کہا ... " میں کوثر کا شوہر ہوں - جب سے ہماری شادی ہوئی ہے میں نے ہمیشہ کوثر کو بے اطمینان دیکھا - کوئی بات ایسی ضرور تھی جو خلش بن کر اسے بے چین رکھتی تھی - پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا اس کی یہ حالت کم ہونے کی بجائے ترقی کرتی رہی -
اب حال یہ ہے کہ وہ تقریباً ہوش و حواس گم کرچکی ہے اور اس کی زبان پر صرف آپ کا نام ہے - وہ آپ کو ایک نظر دیکھ لے تو ٹھیک ہوجائے گی - مہینوں بھٹکتا رہا ہوں پھر بڑی مشکلوں سے آپ کا پتہ معلوم کیا ہے -
خدارا میرے حال پر رحم کیجئے - مجھ پر نہیں تو اس کے معصوم بچوں کے حال پر ترس کھا کر میرے ساتھ چلئے یا پھر مجھے اجازت دیجئے کہ میں کوثر کو آپ کے قدموں میں لا ڈالوں -"
حسن پر سرشاری طاری ہوگئی اور انہوں نے ہاتھ جھٹک کر کہا ... " نہیں ہم تیرے ساتھ نہیں جائیں گے ، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ہم اس کے قاتل کہلائیں - اب ہم وہ نہیں ہیں جو تم سمجھ رہے ہو - اب ہمارے دل پر کسی کی محبت غالب آجائے تو اس کا وجود باقی نہیں رہے گا -"
یہ کہہ کر حسن پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا ... " اے خدا میرے اوپر رحم فرما -"
ایک صاحب جو اس واقعہ کے چشم دید گواہ ہیں انہوں نے حضور قلندر بابا اولیاؒء سے جب اس واقعہ کی علمی توجیہہ دریافت کی تو قلندر بابا اولیاؒء نے فرمایا ...
✦..." کیا آپ نے حضرت ابراہیم ادھم کی سیرت کا مطالعہ نہیں کیا ؟ حضرت ابراہیم ادھم ایک عرصہ بعد اپنے بیٹے کو سامنے دیکھتے ہیں - بیٹا لڑکپن کی حدود عبور کرکے جوانی میں قدم رکھ چکا ہے - جوان بیٹے کو سامنے پا کر یکایک ان کے دل میں بیٹے کی محبت غالب آجاتی ہے اور وہ دوڑ کر اسے سینے سے لگا لیتے ہیں -
اسی وقت ندائے غیبی آتی ہے ... " ابراہیم ! دعویٰ ٖٔ دوستی تو ہم سے اور یہ کیا ؟ "
حضرت ابراہیم کانپ جاتے ہیں ، چہرہ فق ہوجاتا ہے -
الله سے فریاد کرتے ہیں ... " اے الله میری مدد فرما .. اے الله میری مدد فرما " -
بیٹا جھرجھری لیتا ہے اور دوسرے ہی لمحے بے جان ہو کر زمین پر گر جاتا ہے - لوگ آگے بڑھ کر دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس کی روح پرواز کر چکی ہے -
بے شک الله کی سنت میں تبدیلی ہوتی ہے اور نہ تعطل واقع ہوتا ہے "...✦
محبوبہ کے پیر چومنے اور جوتے سر پر رکھنے کے بارے میں ارشاد کیا
مشیت نے ایسے لوگوں کی افتاد طبیعت یہ بنائی ہے کہ وہ لوگوں کے کام آئیں ، ان کی خدمت کریں ، ان کے ساتھ عجز و انکساری کے ساتھ پیش آئیں ان کی طبیعت میں یہ نقش اتنا گہرا ہوتا ہے کہ جب بندہ کو الله تعالیٰ کے حضور حاضری کا شرف نصیب ہوتا ہے تو اس کے اوپر یہ احساس محیط ہوتا ہے ... میرا سر خالق کائنات کے قدموں میں ہے ... "...✦
حواس مجتمع ہوئے تو حسن نے دیکھا کہ زخمی ہاتھ سے خون ٹپک رہا ہے - پلنگ کا کونا پکڑ کر اٹھنا ہی چاہتے تھے کہ کمرے کا دروازہ کھلا اور کوئی تیزی سے اندر داخل ہوا - سر اٹھا کر دیکھا تو ایک لڑکی دروازے پر کھڑی تھی -
دوپٹے کے پیچھے سے اس کا چہرہ چاند کی طرح دمک رہا تھا - بڑی بڑی گہری غلافی آنکھیں حسن پر مرکوز تھیں - حسن کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں اور مبہوت ہوکر دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے -
لڑکی نے حسن کے ہاتھ سے خون بہتے دیکھا تو اس کا چہرہ بجھ گیا - " آپ کا ہاتھ زخمی ہوگیا ہے " حسن کو گویا ہوش آگیا اور انہوں نے کہا .. " جی ہاں ، گلاس کا ٹکڑا چبھ گیا ہے " حسن کی نظریں دوبارہ لڑکی کی طرف اٹھیں -
اس کے چہرے پر حوروں کا تقدس اور مریم کی معصومیت تھی اور اس کی نگاہیں اب بھی زخم پر لگی ہوئی تھیں - " زخم کا کچھ کیجئے نا ، کتنا خون بہہ رہا ہے " لڑکی نے کہا - " ٹھیک ہے " حسن نے مختصر جواب دیا -
" میں نے کسی چیز کے گرنے کی آواز سنی تو یہاں آگئی کہ خدا نخواستہ کیا بات ہوگئی ہے " لڑکی نے سر جھکا کر کہا -
یہ لڑکی کوثر تھی جو حسن کے پڑوس میں نئی نئی آئی تھی اور حسن کی بہن سے اس کی گہری دوستی تھی -کوثر نے پانی میں بھیگی ہوئی پٹی باندھی اور جس تیزرفتاری سے آئی تھی اسی تیزی سے واپس چلی گئی -
کوثر کے جانے کے بعد حسن اپنے بستر پر لیٹ گئے - لیکن بار بار کی کوشش کے باوجود خیالات کا طوفان تھم نہ سکا - ان کا ذہن بار بار کوثر کی طرف چلا جاتا تھا - کوثر جس تیزی سے کمرے میں داخل ہوئی تھی اسی تیزی سے ان کے خیالات میں جگہ بنا چکی تھی -
دروازہ کھلنا ، اندر داخل ہونا ، اس کا بے مثال حُسن اور ہاتھ کے زخم کو دیکھ کر بے ساختہ چہرے پر تکلیف کے نقوش نمودار ہونا یہ سب مناظر حسن کے ذہن پر نقش ہوچکے تھے -
بہن نے بھائی کو ایک کاپی اٹھا کر دی - کاپی میں ایک طرف کوثر کے کہے ہوئے اشعار اور دوسری طرف منتخب اشعار لکھے ہوئے تھے - کاپی کے رکھ رکھاؤ اور طرز تحریر سے نفاست اور پاکیزگی جھلک رہی تھی - حسن نے اشعار پڑھے اور جہاں مناسب سمجھا اصلاح کی -
دن گزرتے رہے ، حسن اور کوثر کے درمیان اجنبیت کی دیواریں گرتی رہیں - یوں تو حسن نے کوثر کو پہلے دن ہی اپنے لئے اجنبی نہیں پایا تھا - حسن کے دل میں عشق کا بیج پرورش پا کر کونپل بن چکا تھا اور اس کی جڑیں دل کے اندر پھیل رہی تھیں -
کوثر حسن کے لئے خوشبو تھی ، روشنی تھی - کوثر نے شمع بن کر دل کے نہاں خانے کو روشن کر دیا تھا - حسن اپنے دل کو ٹٹولتے تو اس کو کوثر کے لئے ایک ناقابل بیان جذبہ سے سرشار پاتے تھے - نہ چاہنے کے باوجود کبھی کبھی وہ بے ساختہ اپنی پسندیدگی کا اظہار کر بیٹھتے تھے - حال دل بالواسطہ الفاظ میں زبان پر آجاتا تھا -
عشق صادق کا معاملہ آکاس بیل کا سا ہے - آکاس بیل کسی درخت میں پیدا ہو کر اس کے وجود پر اس طرح پھیل جاتی ہے کہ درخت چھپ جاتا ہے - درخت کی ساری توانائی آکاس بیل کے لئے وقف ہوجاتی ہے - اسی طرح عشق کی بیل سچے عاشق کے وجود پر چھا جاتی ہے تو عشق اور اس کی صفات باقی رہتی ہیں عاشق کی ہستی فنا ہو کر عشق میں تحلیل ہو جاتی ہے -
حسن کو احساس ہوا کہ کوثر ان کی روح کا حصّہ بن چکی ہے - رات ہو یا دن کسی وقت بھی اس کا خیال ذہن سے جدا نہیں ہوتا - کوثر کا خیال مقناطیس کی طرح ذہن کی سوئی کا رخ اپنی طرف رکھتا ہے - اٹھتے بیٹھتے ، کام کرتے ، چلتے پھرتے اس کا طواف کرتا ہے -
کہتے ہیں عشق اور مشک کی خوشبو چھپی نہیں رہتی ، چنانچہ حسن اور کوثر کی ذہنی اور جذباتی وابستگی لوگوں کی زبانوں پر آنے لگی - ایک دن حسن پر یہ خبر بجلی بن کر گری کہ کوثر کے گھر والے خاموشی سے کسی اور گھر میں منتقل ہوگئے ہیں -
اس لئے کہ جب لوگوں کی سرگوشیاں ان کے کانوں میں پہنچیں تو انہوں نے یہی مناسب سمجھا کہ وہ یہ گھر چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں -
دوری اور فاصلے عشق کی آگ کو اور زیادہ بھڑکا دیتے ہیں کوثر سے دوری عشق کی بھٹی کے لئے ایندھن ثابت ہوئی - شاید عشق میں جو کمی باقی رہ گئی تھی وہ جدائی نے پوری کردی -اس دور میں حسن عجیب واردات و کیفیات سے گزرے - کوثر سے ذہنی ربط اور پھر جدائی نے ان کے دل کو سوز و گداز سے معمور کردیا -
ایک دفعہ حسن کو کسی تقریب میں شرکت کی دعوت ملی - یہ ایک ایسی تقریب تھی جس میں ان کا موجود ہونا ضروری تھا - وہاں پہنچے اور تقریب کے انتظامات میں مشغول ہوگئے - کچھ دیر بعد ان کا گزر مہمان خواتین کے کمرے کے پاس سے ہوا -
اندر نظر پڑی تو مبہوت ہوگئے ... ان کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا ... سامنے کوثر بیٹھی تھی ... وہی معصومانہ چہرہ ، وہی نازک سراپا ، جس کو دیکھنے کے لئے آنکھیں ترس گئیں تھیں -
کوثر پوری محفل میں چاند کی طرح تھی - جس کی روشنی کے آگے ستاروں کا حُسن ماند پڑ جاتا ہے - حُسن کو سامنے پا کر عشق بے خود ہوگیا - آج وہ حُسن کی بارگاہ میں سر جھکا کر اپنی کامل سپردگی کا اظہار کرنا چاہتا تھا - اپنے تمام تر عجز کو حُسن کے قدموں میں نچھاور کر دینا چاہتا تھا -
کوثر کو دیکھ کر حسن کے دل کی آگ اتنے زور سے بھڑکی کہ وہ خود کو فراموش کر بیٹھے اور اسی عالم میں کمرے میں داخل ہو کر بے اختیار کوثر کے قدموں پر سر رکھ دیا - چند لمحوں کے لئے پوری محفل پر سکوت چھا گیا اور اس سے پہلے کہ کوئی کچھ کہتا ، حسن نے کوثر کے سینڈل کو چوما ، سر پر رکھا اور اس محفل سے چلے آئے -
اس واقعہ کے کچھ دنوں بعد ہندوستان کی تقسیم عمل میں آگئی .. فسادات پھوٹ پڑے .. دھرتی انسانی لہو سے سرخ ہوگئی - حسن اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان چلے آئے - فسادات کی ہولناکیاں اور زمانے کے نشیب و فراز بھی حسن کے دل سے کوثر کی یاد کو نہ مٹا سکے -
رفتہ رفتہ حسن کے اندر ایک عجیب تبدیلی پیدا ہونے لگی - وہ بار بار خودی کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے تھے اور اس طرح گم سم ہوجاتے کہ کسی طرح بھی ان کا انہماک نہیں ٹوٹتا تھا - بے خودی کے بعد وہ خود بخود ہوش کی طرف مائل ہوجاتے لیکن اس دوران ان کی حالت پورے طور پر معمول پر نہیں آتی - گفتگو بھی بے ربط کرتے تھے -
جذب کی یہ کیفیت حسن پر کئی کئی گھنٹے طاری رہتی تھی - پھر حسن کی شخصیت میں ایک حیرت انگیز انقلاب برپا ہوا کہ وہ جو کچھ کہہ دیتے وہ پورا ہو جاتا تھا - اب وہ لوگوں میں ایک صاحب کرامت بزرگ کی حیثیت سے پہچانے جانے لگے -
اس زمانے میں ایک صاحب حسن کی خدمت میں آئے - حسن پر جذب کی کیفیت طاری تھی - کچھ دیر انتظار کے بعد حسن نیم ہوش میں آئے تو اس شخص نے کہا ... " میں آپ کے پاس جس مقصد سے حاضر ہوا ہوں اس کے لئے آپ کے ماضی کا سہارا لینا ضروری ہے - میں آپ کے ماضی میں سے کوثر کے نام کو سامنے لانا چاہتا ہوں جس کا آپ کی زندگی میں شاید کوئی بڑا مقام رہ چکا ہے -"
وہ صاحب رک کر حسن کی طرف دیکھنے لگے لیکن حسن خاموش بیٹھے انہیں مخمور نگاہوں سے دیکھ رہے تھے - ان صاحب نے سلسلۂ کلام دوبارہ جاری کرتے ہوئے کہا ... " میں کوثر کا شوہر ہوں - جب سے ہماری شادی ہوئی ہے میں نے ہمیشہ کوثر کو بے اطمینان دیکھا - کوئی بات ایسی ضرور تھی جو خلش بن کر اسے بے چین رکھتی تھی - پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا اس کی یہ حالت کم ہونے کی بجائے ترقی کرتی رہی -
اب حال یہ ہے کہ وہ تقریباً ہوش و حواس گم کرچکی ہے اور اس کی زبان پر صرف آپ کا نام ہے - وہ آپ کو ایک نظر دیکھ لے تو ٹھیک ہوجائے گی - مہینوں بھٹکتا رہا ہوں پھر بڑی مشکلوں سے آپ کا پتہ معلوم کیا ہے -
خدارا میرے حال پر رحم کیجئے - مجھ پر نہیں تو اس کے معصوم بچوں کے حال پر ترس کھا کر میرے ساتھ چلئے یا پھر مجھے اجازت دیجئے کہ میں کوثر کو آپ کے قدموں میں لا ڈالوں -"
حسن پر سرشاری طاری ہوگئی اور انہوں نے ہاتھ جھٹک کر کہا ... " نہیں ہم تیرے ساتھ نہیں جائیں گے ، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ہم اس کے قاتل کہلائیں - اب ہم وہ نہیں ہیں جو تم سمجھ رہے ہو - اب ہمارے دل پر کسی کی محبت غالب آجائے تو اس کا وجود باقی نہیں رہے گا -"
یہ کہہ کر حسن پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا ... " اے خدا میرے اوپر رحم فرما -"
ایک صاحب جو اس واقعہ کے چشم دید گواہ ہیں انہوں نے حضور قلندر بابا اولیاؒء سے جب اس واقعہ کی علمی توجیہہ دریافت کی تو قلندر بابا اولیاؒء نے فرمایا ...
✦..." کیا آپ نے حضرت ابراہیم ادھم کی سیرت کا مطالعہ نہیں کیا ؟ حضرت ابراہیم ادھم ایک عرصہ بعد اپنے بیٹے کو سامنے دیکھتے ہیں - بیٹا لڑکپن کی حدود عبور کرکے جوانی میں قدم رکھ چکا ہے - جوان بیٹے کو سامنے پا کر یکایک ان کے دل میں بیٹے کی محبت غالب آجاتی ہے اور وہ دوڑ کر اسے سینے سے لگا لیتے ہیں -
اسی وقت ندائے غیبی آتی ہے ... " ابراہیم ! دعویٰ ٖٔ دوستی تو ہم سے اور یہ کیا ؟ "
حضرت ابراہیم کانپ جاتے ہیں ، چہرہ فق ہوجاتا ہے -
الله سے فریاد کرتے ہیں ... " اے الله میری مدد فرما .. اے الله میری مدد فرما " -
بیٹا جھرجھری لیتا ہے اور دوسرے ہی لمحے بے جان ہو کر زمین پر گر جاتا ہے - لوگ آگے بڑھ کر دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس کی روح پرواز کر چکی ہے -
بے شک الله کی سنت میں تبدیلی ہوتی ہے اور نہ تعطل واقع ہوتا ہے "...✦
غیبی دنیا میں سفر کرنے والے اکثر و بیشتر سالکین کے حالات زندگی کو کھنگالا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انہوں نے عشق مجازی سے گزر کر عشق حقیقی کی منزل میں قدم رکھا - اس کی وجہ کیا ہے ؟
بابا صاحبؒ نے فرمایا ✦..." عرفان نفس حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان کے اندر ذوق طبیعت اور عشق موجود ہو - عشق کیا ہے ؟ اس کے بارے میں مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک ایسا جذبہ ہے جس کی بنیاد انسان کو ایسے نقطہ پر لے آتی ہے جہاں وہ براہ راست قانون قدرت کی گہرائیوں سے ہم رشتہ ہوجاتا ہے ...
قانون قدرت کی گہرائیوں سے ہم رشتہ ہونے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کی افتاد طبع ایسی ہو کہ وہ اپنے ارادے اوراختیار کے تحت ذہنی یکسوئی حاصل کر سکے- ذہنی یکسوئی حاصل کرنے کا ایک مؤثر راستہ کسی کے ساتھ ذہنی وابستگی ہے ...
جب یہ ذہنی وابستگی کسی انسان کے ساتھ ہوتی ہے تو یہ عشق مجازی کا روپ دھار لیتی ہے اور جب یہ ذہنی مرکزیت خالق کائنات کے ساتھ ہم رشتہ ہوجاتی ہے تو اس کا نام عشق حقیقی ہے - تاریخ کے اوراق پلٹنے سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ عشق مجازی عشق حقیقی کے لئے پہلا قدم ثابت ہوتا ہے -
عشق مجازی کی دو قسمیں ہیں - ایک قسم یہ ہے کہ آدمی کے تمام ذہنی رشتے اپنے ہم جنس کے ساتھ استوار ہوجائیں - سرمد کی مثال ہمارے سامنے ہے - اس کے برخلاف عشق مجازی کی دوسری قسم یہ ہے کہ کوئی بندہ صنف نازک کی زلف کا اسیر ہوجائے اور شمع کے لئے پروانہ بن جائے صنف نازک کے ساتھ ذہنی وابستگی آدمی کو اس حد تک فراموش کر دیتی ہے کہ وہ غیر اختیاری طور پر اپنی نفی کر دیتا ہے ...
ہم جنس کے ساتھ ذہنی وابستگی رکھنے والا کوئی شخص جب عشق حقیقی میں قدم رکھتا ہے تو عام طور سے مجذوب ہوجاتا ہے
اور صنف نازک سے عشق کرنے والا کوئی بندہ اگر ہوس اور جنسی جذبات کے دھاروں میں خود کو نہ بہنے دے تو اس کی شعوری صلاحیتیں سہہ چند ( تین گنا ) ہوجاتی ہیں - اس لئے کہ صنف نازک کے اندر الله تعالیٰ کے انوار کی دو لہریں ہمہ وقت اور ہر آن جاری و ساری ہیں جب کہ مرد کے اندر ایک لہر کام کرتی ہے ...
قانون قدرت کی گہرائیوں سے ہم رشتہ ہونے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کی افتاد طبع ایسی ہو کہ وہ اپنے ارادے اوراختیار کے تحت ذہنی یکسوئی حاصل کر سکے- ذہنی یکسوئی حاصل کرنے کا ایک مؤثر راستہ کسی کے ساتھ ذہنی وابستگی ہے ...
جب یہ ذہنی وابستگی کسی انسان کے ساتھ ہوتی ہے تو یہ عشق مجازی کا روپ دھار لیتی ہے اور جب یہ ذہنی مرکزیت خالق کائنات کے ساتھ ہم رشتہ ہوجاتی ہے تو اس کا نام عشق حقیقی ہے - تاریخ کے اوراق پلٹنے سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ عشق مجازی عشق حقیقی کے لئے پہلا قدم ثابت ہوتا ہے -
عشق مجازی کی دو قسمیں ہیں - ایک قسم یہ ہے کہ آدمی کے تمام ذہنی رشتے اپنے ہم جنس کے ساتھ استوار ہوجائیں - سرمد کی مثال ہمارے سامنے ہے - اس کے برخلاف عشق مجازی کی دوسری قسم یہ ہے کہ کوئی بندہ صنف نازک کی زلف کا اسیر ہوجائے اور شمع کے لئے پروانہ بن جائے صنف نازک کے ساتھ ذہنی وابستگی آدمی کو اس حد تک فراموش کر دیتی ہے کہ وہ غیر اختیاری طور پر اپنی نفی کر دیتا ہے ...
ہم جنس کے ساتھ ذہنی وابستگی رکھنے والا کوئی شخص جب عشق حقیقی میں قدم رکھتا ہے تو عام طور سے مجذوب ہوجاتا ہے
اور صنف نازک سے عشق کرنے والا کوئی بندہ اگر ہوس اور جنسی جذبات کے دھاروں میں خود کو نہ بہنے دے تو اس کی شعوری صلاحیتیں سہہ چند ( تین گنا ) ہوجاتی ہیں - اس لئے کہ صنف نازک کے اندر الله تعالیٰ کے انوار کی دو لہریں ہمہ وقت اور ہر آن جاری و ساری ہیں جب کہ مرد کے اندر ایک لہر کام کرتی ہے ...
محبوبہ کے پیر چومنے اور جوتے سر پر رکھنے کے بارے میں ارشاد کیا
مشیت نے ایسے لوگوں کی افتاد طبیعت یہ بنائی ہے کہ وہ لوگوں کے کام آئیں ، ان کی خدمت کریں ، ان کے ساتھ عجز و انکساری کے ساتھ پیش آئیں ان کی طبیعت میں یہ نقش اتنا گہرا ہوتا ہے کہ جب بندہ کو الله تعالیٰ کے حضور حاضری کا شرف نصیب ہوتا ہے تو اس کے اوپر یہ احساس محیط ہوتا ہے ... میرا سر خالق کائنات کے قدموں میں ہے ... "...✦
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں