کشف و کرامات
مجھے ( خواجہ شمس الدین عظیمی ) کبوتر پالنے کا شوق تھا - ایک مرتبہ ایک فاختہ آکر کبوتروں کے ساتھ دانہ چگنے لگی - ایک کبوتر کے ساتھ اس کا جوڑ ملا دیا گیا - اس کے انڈوں سے جو دو بچے نکلے وہ اپنی خوبصورتی میں یکتا اور منفرد تھے - پروں کا رنگ گہرا سیاہ اور باقی جسم سفید تھا -
ان کے اندر اس قدر کشش تھی کہ جو دیکھتا تعریف کئے بغیر نہ رہتا - شامت اعمال ، ایک روز صبح سویرے بلی نے ایک کبوتر کو پکڑا اور چھت پر لے گئی - میں نے جب بلی کے منہ میں یہ کبوتر دیکھا تو میں اس کے پیچھے دوڑا -
اوپر پہنچ کر میں نے دیکھا کہ بلی نے کبوتر کے بال و پر الگ کردئیے ہیں اور بیٹھی اسے کھا رہی ہے - غصّہ تو بہت آیا مگر پھر سوچا کہ کبوتر تو اب مر ہی چکا ہے ، بلی کو ہی پیٹ بھرنے دیا جائے اور جب یہ کبوتر کھا چکے گی تو اسے سزا دوں گا -
یہ خیال آتے ہی میں نیچے چلا گیا - لیکن مجھے اتنا شدید صدمہ تھا کہ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے - حضور بابا صاحب قبلہؒ پہلی منزل کے کمرے میں تخت پر تشریف فرما تھے -
میں نے حضرت سے احتجاجاً عرض کیا کہ بلی نے میرا کبوتر مار دیا ہے - حضور بابا صاحبؒ نے فرمایا ایسا ہی ہوتا ہے میں نے جواباً عرض کیا کہ آپ کے ہوتے ہوئے بلی میرا کبوتر لے جائے ، یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی -
میں نے حضرت سے احتجاجاً عرض کیا کہ بلی نے میرا کبوتر مار دیا ہے - حضور بابا صاحبؒ نے فرمایا ایسا ہی ہوتا ہے میں نے جواباً عرض کیا کہ آپ کے ہوتے ہوئے بلی میرا کبوتر لے جائے ، یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی -
یہ کہنے کے بعد میں دل برداشتہ باورچی خانے میں جا کر ناشتہ تیار کرنے لگا - میرے حضور بابا جیؒ نے مجھے آواز دی لیکن غصے نے مجھے گستاخی پر مجبور کردیا اور میں نے کوئی جواب نہیں دیا - دوبارہ آواز دی - وہ بھی میں نے ان سنی کردی -
یہ اس زمانہ کا واقعہ ہے جب بھائی محسن صاحب بھی میرے ساتھ رہتے تھے - حضور بابا صاحبؒ نے بھائی محسن کو آواز دی اور میرے بارے میں دریافت کیا - انہوں نے کہا کہ خواجہ صاحب کو کبوتر کے مرنے کا بہت صدمہ ہے اور وہ باورچی خانے میں بیٹھے رو رہے ہیں -
حضور بابا صاحبؒ ان کی اس بات سے متاثر ہوئے اور فرمایا ...
" خواجہ صاحب کو بلاؤ اور ان سے کہو کہ ان کا کبوتر آگیا ہے -"
بھائی محسن صحن میں آئے تو دیکھا کہ وہ کبوتر دوسرے کبوتروں کے ساتھ موجود تھا - بھائی محسن نے یہ بات مجھے بتائی تو میں نے اس کو مذاق پر محمول کیا اور سمجھا کہ یہ بات میری دل جوئی کے لئے کہہ رہے ہیں - لیکن جب انہوں نے سنجیدگی سے کہا کہ آپ باہر جا کر دیکھیں تو سہی تو میں بے یقینی کے عالم میں اٹھ کر صحن میں آیا -
دیکھا تو کبوتر موجود تھا - کبوتر کو دیکھتے ہی میں دوبارہ دوڑا ہوا چھت پر گیا اور تخت کے نیچے دیکھا تو وہاں خون کے دھبے اور کچھ پر پڑے ہوئے تھے - یہ دیکھ کر مجھے ندامت اور شرمندگی ہوئی - میں نے نیچے آکر حضور بابا صاحبؒ کے پیر پکڑ لئے اور اپنی گستاخی کی معافی چاہی - شام ہونے سے پہلے پہلے سارے کبوتر تقسیم کر دیئے -
کتاب ... تذکرہ قلندر بابا اولیاؒء ... مصنف ... خواجہ شمس الدین عظیمی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں