ارشادات ، واقعات ، تعلیمات اور طرز فکر
حضور قلندر بابا اولیاؒء سے اپنی پہلی ملاقات کا تذکرہ فرماتے ہوئے حضرت عظیمی صاحب ارشاد فرماتے ہیں کہ ... سن 1950ء کی بات ہے میرے بڑے بھائی مولانا ادریس انصاری انڈیا میں ایک ماہنامہ " آفتاب نبوت " نکالتے تھے - پاکستان میں انہوں نے میرا پتہ دیدیا تھا-
ان دنوں معاشی حالات کمزور تھے لیکن الله تعالیٰ کے کرم سے جب بھی پیسوں کی ضرورت ہوتی ، رسالہ کی رقم منی آرڈر کے ذریعے آجاتی تھی - ایک مرتبہ ڈرافٹ آگیا - مجھے بینکنگ وغیرہ کا کچھ پتہ نہیں تھا - میرے ایک بڑے اچھے دوست رشید صاحب تھے - ہم انہیں ڈاکٹر رشید کہا کرتے تھے-
میں نے ان سے ڈرافٹ کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا ڈرافٹ مجھے دے دو میں اکاؤنٹ میں ڈال دونگا - میں نے ڈرافٹ ان کو دے دیا - تین چار دن نہیں آئے - مجھے اتنا پتہ تھا کہ وہ ڈان اخبار میں سرکولیشن منیجر ہیں - میں وہاں پتہ کرنے چلا گیا -
رشید صاحب تو ملے نہیں حضور سے ملاقات ہوگئی - ان سے پتہ چلا کہ رشید صاحب ان کے بھی بڑے اچھے دوست ہیں اور تین چار روز سے بیمار ہیں دفتر آ نہیں رہے - حضور نے مجھے بٹھایا ، چائے پلائی ، پان کھلایا - ایک دو شعر بھی سنائے - میں بڑا متاثر ہوا کہ دوست کا دوست ہونے کی بناء پر اتنا احترام کیا ہے -
بعد میں رشید صاحب سے ان کے متعلق پوچھا ، انہوں نے بتایا کہ بہت اچھے بہت محترم اور نہایت معتبر انسان ہیں بھائی عظیم نام ہے ان کا ، سب لوگ ادب کرتے ہیں اور نام سے نہیں پکارتے " بھیا " کہہ کہ مخاطب کرتے ہیں - اس کے بعد 1953ء میں ملاقات ہوئی اور ہم دونوں ایک دوسرے کے ہوکر رہ گئے -
حضور قلندر بابا اولیاؒء کے قرب میں گزرے ہوئے سنہری ایام میں سے ایک دفعہ کا واقعہ سناتے ہوئے حضرت عظیمی صاحب فرماتے ہیں ...
" میرے ذہن میں یہ خیال بار بار آنے لگا کہ مجھے اپنے پیر و مرشد سے بڑی محبت ہے - جتنی محبت میں اپنے پیر و مرشد سے کرتا ہوں ، میرے برابر اتنی محبت کوئی نہیں کرسکتا - "
ایک روز حضور قلندر بابا اولیاؒء نے مجھ سے فرمایا ... "
خواجہ صاحب ! آپ نے Magnet دیکھا ہے ؟ "
میگنٹ لوہے کو کھینچتا ہے لوہا سمجھ رہا ہے میں اپنے قدم سے چل کر میگنٹ کی طرف جارہا ہوں - پیر و مرشد مرید سے محبت کرتا ہے ، ایثار کرتا ہے ، مرید یہ سمجھتا ہے کہ میں پیر و مرشد کی طرف بھاگا چلا جا رہا ہوں -
حضرت عظیمی صاحب نے فرمایا کہ حضور قلندر بابا کا ارشاد ہے ...
" الله ایک ایسی اعلیٰ و ارفع ذات ہے کہ اگر الله کے ساتھ بندہ روزانہ ایک لاکھ خواہشات وابستہ کرلے تو الله کے لئے بالکل یہ معمولی بات ہے کہ روزانہ مخلوق کی ایک لاکھ خواہشات پوری کرے -"
یہ اتنی بڑی نعمت ہے کہ یہ ہر ایرے غیرے کو نہیں ملتی - اس کے لئے منتخب بندوں کا انتخاب ہوتا ہے - کون سے منتخب بندے ؟ وہ منتخب بندے کہ جو الله تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کریں -"
ارشاد ہوا کہ مجھے میرے پیر و مرشد حضور قلندر بابا اولیاؒء نے یہ نصیحت فرمائی کہ ...
حضور قلندر بابا اولیاؒء فرمایا کرتے تھے کہ ...
الله کی شان تو یہ ہے کہ الله زمین پر پڑے ہوئے ایک تنکے کو پھونک مار دے تو وہ ولی بن جائے - یہ صرف اور صرف الله تعالیٰ کی رحمت اور انعام ہے اور الله تعالیٰ کی یہ بخشش ہے کہ الله تعالیٰ نے لاکھوں بندوں میں سے چند بندوں کا انتخاب کرلیا ہے اور اس میں ہمارا نام بھی شامل ہے ..." ( الحمد لِلَہ ) -
حضور بابا صاحب کی قربت میں گزرے لمحات میں سے ایک لمحہ کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ...
میں نے ایک بار حضور قلندر بابا اولیاؒء سے سوال کیا کہ صاحب انبیاء سارے معصوم ہوتے ہیں - حضور پاک صلّ الله علیہ وسلّم بھی معصوم ہیں - الله کے محبوب بندے بھی ہیں دوست بھی ہیں - حضورعلیہ الصلوٰة والسلام اپنی زندگی میں ٧٢ ( بہتر ) بار روزانہ استغفار کیوں پڑھتے تھے -
فرمایا ... " خواجہ صاحب بڑا عجیب حال ہے رسول الله صلّ الله علیہ وسلّم کی ظاہر زندگی میں ہر روز ٧٢ ( بہتر ) بار الله سے ملاقات ہوتی تھی الله کو ہر دفعہ نئے روپ اور نئے جلوے میں دیکھتے تھے اور جب حضور پاک صلّ الله علیہ وسلّم الله تعالیٰ کی تجلیات کا مشاہدہ کرتے تو فرماتے کہ اب میں نے الله کو دیکھ لیا ہے -
لیکن اگلی دفعہ الله نئے روپ میں جلوہ افروز ہوتے تو حضورعلیہ الصلوٰة والسلام اپنی پہلی قائم کی ہوئی رائے پر استغفار کرتے - "
حضورعلیہ الصلوٰة والسلام نے عالم ناسوت سے پردہ فرماتے ہوئے جو دعا مانگی کہ
اے الله تو مجھے رفیق اعلیٰ سے ملا دے
یہ اسی بات کی طرف اشارہ ہے - " حضور قلندر بابا اولیاؒء نے بڑی ہی عجیب بات یہ بتائی کہ ٧٢ ( بہتر) بار استغفار کا یہ سلسلہ چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی جاری ہے -
حضور قلندر بابا اولیاؒء کے قرب میں گزرے ہوئے سنہری ایام میں سے ایک دفعہ کا واقعہ سناتے ہوئے حضرت عظیمی صاحب فرماتے ہیں ...
" میرے ذہن میں یہ خیال بار بار آنے لگا کہ مجھے اپنے پیر و مرشد سے بڑی محبت ہے - جتنی محبت میں اپنے پیر و مرشد سے کرتا ہوں ، میرے برابر اتنی محبت کوئی نہیں کرسکتا - "
ایک روز حضور قلندر بابا اولیاؒء نے مجھ سے فرمایا ... "
خواجہ صاحب ! آپ نے Magnet دیکھا ہے ؟ "
میں نے کہا جی ہاں! دیکھا ہے -
کہنے لگے " لوہا دیکھا ہے ؟ "
عرض کیا جی ہاں دیکھا ہے -
اور یہ بھی دیکھا ہے کہ لوہے نے Magnet کھینچ لیا ہو -
عرض کیا نہیں!
پھر مرید پیر سے محبت کیسے کرسکتا ہے ؟
کہنے لگے " لوہا دیکھا ہے ؟ "
عرض کیا جی ہاں دیکھا ہے -
اور یہ بھی دیکھا ہے کہ لوہے نے Magnet کھینچ لیا ہو -
عرض کیا نہیں!
پھر مرید پیر سے محبت کیسے کرسکتا ہے ؟
محبت کا دعویٰ کیسے کرسکتا ہے اصل بات یہ ہے کہ پیر مرید سے محبت کرتا ہے اس محبت کا جب عکس مرید کے اندر داخل ہوتا ہے مرید یہ سمجھتا ہے میں محبت کرتا ہوں -
میگنٹ لوہے کو کھینچتا ہے لوہا سمجھ رہا ہے میں اپنے قدم سے چل کر میگنٹ کی طرف جارہا ہوں - پیر و مرشد مرید سے محبت کرتا ہے ، ایثار کرتا ہے ، مرید یہ سمجھتا ہے کہ میں پیر و مرشد کی طرف بھاگا چلا جا رہا ہوں -
حضرت عظیمی صاحب نے فرمایا کہ حضور قلندر بابا کا ارشاد ہے ...
" الله ایک ایسی اعلیٰ و ارفع ذات ہے کہ اگر الله کے ساتھ بندہ روزانہ ایک لاکھ خواہشات وابستہ کرلے تو الله کے لئے بالکل یہ معمولی بات ہے کہ روزانہ مخلوق کی ایک لاکھ خواہشات پوری کرے -"
فرمایا کہ سرمد ایک بزرگ ہیں قلندر بابا اولیاء ان کی ایک رباعی اکثر پڑھا کرتے تھے اور بڑا خوش ہوکر پڑھتے تھے کہ ...
" سرمد غم عشق بو لہوس را نہ دہند
سرمد عشق کا غم بولہوس لوگوں کو نہیں ملتا ، یہ تو انہی لوگوں کو ملتا ہے جو ایثار کرتے ہیں - مخلوق سے توقعات قائم کرنے والے بندے کو غم عشق نہیں ملتا -
سوز دل پروانہ مگس را نہ دہند
پروانے کی دل میں جو سوز ہے ، پروانے کے اندر شمع کے اوپر قربان ہونے کا جو جذبہ ہے وہ مکھیوں کے نصیب میں نہیں ہوتا -
عمرے باید کہ یار آید بہ کنار
کہ یہ کہ محبوب سے وصال کے لئے کئی عمریں درکار ہوتی ہیں -
ایں دولت سرمد ہمہ کس را نہ دہند
" سرمد غم عشق بو لہوس را نہ دہند
سرمد عشق کا غم بولہوس لوگوں کو نہیں ملتا ، یہ تو انہی لوگوں کو ملتا ہے جو ایثار کرتے ہیں - مخلوق سے توقعات قائم کرنے والے بندے کو غم عشق نہیں ملتا -
سوز دل پروانہ مگس را نہ دہند
پروانے کی دل میں جو سوز ہے ، پروانے کے اندر شمع کے اوپر قربان ہونے کا جو جذبہ ہے وہ مکھیوں کے نصیب میں نہیں ہوتا -
عمرے باید کہ یار آید بہ کنار
کہ یہ کہ محبوب سے وصال کے لئے کئی عمریں درکار ہوتی ہیں -
ایں دولت سرمد ہمہ کس را نہ دہند
یہ اتنی بڑی نعمت ہے کہ یہ ہر ایرے غیرے کو نہیں ملتی - اس کے لئے منتخب بندوں کا انتخاب ہوتا ہے - کون سے منتخب بندے ؟ وہ منتخب بندے کہ جو الله تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کریں -"
ارشاد ہوا کہ مجھے میرے پیر و مرشد حضور قلندر بابا اولیاؒء نے یہ نصیحت فرمائی کہ ...
" بحث کسی سے نہیں کرنا - بحث کرنے والا آدمی کبھی کسی بات کو نہیں سمجھتا - بحث کرنے والے بندے کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ دوسرے آدمی کو نیچا دکھا دیا جائے - وہ آپ سے بحث اس لئے نہیں کرتا کہ وہ کچھ سمجھنا چاہتا ہے وہ آپ سے بحث اس لئے کرتا ہے کہ خود کو برتر سمجھتا ہے -"
حضور قلندر بابا اولیاؒء فرمایا کرتے تھے کہ ...
" اس بات پہ کبھی نہیں اترانا کہ میں الله کا بہت برگزیدہ بندہ ہوگیا ہوں - میرے اوپر الله کے بڑے انعامات ہیں مجھے کشف ہوگیا ہے - مجھے سچے خواب نظر آتے ہیں - یہ سب کچھ بھی نہیں ہے -
الله کی شان تو یہ ہے کہ الله زمین پر پڑے ہوئے ایک تنکے کو پھونک مار دے تو وہ ولی بن جائے - یہ صرف اور صرف الله تعالیٰ کی رحمت اور انعام ہے اور الله تعالیٰ کی یہ بخشش ہے کہ الله تعالیٰ نے لاکھوں بندوں میں سے چند بندوں کا انتخاب کرلیا ہے اور اس میں ہمارا نام بھی شامل ہے ..." ( الحمد لِلَہ ) -
حضور بابا صاحب کی قربت میں گزرے لمحات میں سے ایک لمحہ کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ...
میں نے ایک بار حضور قلندر بابا اولیاؒء سے سوال کیا کہ صاحب انبیاء سارے معصوم ہوتے ہیں - حضور پاک صلّ الله علیہ وسلّم بھی معصوم ہیں - الله کے محبوب بندے بھی ہیں دوست بھی ہیں - حضورعلیہ الصلوٰة والسلام اپنی زندگی میں ٧٢ ( بہتر ) بار روزانہ استغفار کیوں پڑھتے تھے -
لیکن اگلی دفعہ الله نئے روپ میں جلوہ افروز ہوتے تو حضورعلیہ الصلوٰة والسلام اپنی پہلی قائم کی ہوئی رائے پر استغفار کرتے - "
حضورعلیہ الصلوٰة والسلام نے عالم ناسوت سے پردہ فرماتے ہوئے جو دعا مانگی کہ
اے الله تو مجھے رفیق اعلیٰ سے ملا دے
یہ اسی بات کی طرف اشارہ ہے - " حضور قلندر بابا اولیاؒء نے بڑی ہی عجیب بات یہ بتائی کہ ٧٢ ( بہتر) بار استغفار کا یہ سلسلہ چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی جاری ہے -
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں