اتوار، 31 اگست، 2014

تعبیرعظیمؒ --2


                              تعبیر عظیمؒ  


ہر انسان عالم رویاء سے تعلق رکھتا ہے لیکن وہ اس تعلق کو ایک علم کی صورت میں نہیں سمجھ سکتا - علم لدنی کے حامل افراد اس تعلق کے فارمولوں کا مشاہدہ کرنے کی قوت رکھتے ہیں اور کسی شخص کو عالم رویاء سے کیا اطلاعات ملتی ہیں اس کا ٹھیک ٹھیک ادراک و شہود ایسے بندوں کو حاصل ہوتا ہے -

 وہ خواب کی تعبیر کی صورت میں ان اطلاعات کی وضاحت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو کسی شخص کو خواب کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں - حضور قلندر بابا اولیاؒء بھی تعبیر خواب پر خصوصی دسترس رکھتے تھے -
تعبیر خواب بیان کرنے کے ساتھ ساتھ جب کبھی کوئی قاری تعبیر خواب کی علمی جزئیات کو سمجھنا چاہتا تو حضور قلندر بابا اولیاؒء خواب اور تعبیر خواب کے بارے میں بہت سی باتیں اختصار سے بیان کردیتے تھے -     

اگلی سطورمیں بابا صاحبؒ کی بعض ایسی تحریروں سے اقتباس اور خوابوں کی تعبیریں مختلف عنوان کے تحت جمع کرکے قارئین کے سامنے پیش کی جارہی ہیں -

خواب یا عالم رویاء کے بارے میں  قلندر بابا اولیاؒء ارشاد فرماتے ہیں ...
           
..."  نوع انسانی آفرینش سے آج تک بیداری اور خواب کے مظاہر کو الگ الگ کرنے کے لئے امتیازی خط نہیں کھینچ سکی - ذرا خواب کی علمی توجیہہ پر غور کیجیئے .... خیال ، تصور ، احساس اور تفکر ذہن کے نقوش ہیں ...

 یہی وہ نقوش ہیں جو اندرونی دنیا کہلاتے ہیں - ان ہی نقوش کی روشنی میں بیرونی دنیا کو پہچانا جاتا ہے - اس حقیقت سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے کہ اندرونی اور بیرونی دنیا کے نقوش مل کر ایک ایسی دنیا بنتے ہیں جس کو ہم واقعاتی دنیا سمجھتے ہیں ...

انسان عالم خواب میں چلتا پھرتا ، کھاتا پیتا ہے - من و عن انہی کیفیات سے گزرتا ہے جن سے عالم بیداری میں گزرتا ہے - وہ جس چیز کو جسم کہتا ہے اس کی حرکت عالم خواب اور عالم بیداری دونوں میں مشترک ہے - عالم بیداری میں بار بار واپس آنے کا سراغ انسانی حافظے سے ملتا ہے لیکن انسانی حافظہ خود دور ابتلاء سے گزرتا رہتا ہے - یہ کبھی کمزور ہوجاتا ہے کبھی معمول پر آجاتا ہے ...

حافظے کا ذرا سا تجزیہ کیجئے تو پس پردہ ایک ایجنسی ایسی ملے گی جو دیدہ و دانستہ حافظہ کی روئیداد میں فقط اس لئے کمی بیشی  کرتی رہتی ہے کہ انسانی کردار کو نمایاں اور غیر معمولی بنا کر پیش کر سکے - یہیں سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ عالم بیداری سے متعلق انسانی حافظے کا بیان مستند نہیں ہوسکتا ...
 یہ صحیح ہے کہ انسانی حافظہ عالم خواب کی روئیداد بہت ہی کم محفوظ کرتا ہے تا ہم حافظے کے اس طرز عمل سے عالم بیداری کی روئداد کو امتیاز حاصل نہیں ہوتا - حافظہ تنہا کبھی کام نہیں کرتا - اس کے ساتھ تراش خراش کرنے والی ایجنسی ضرور لگی رہتی ہے اور حافظے کی دلچسپی اس ہی روئداد سے وابستہ رہتی ہے جس میں تراش خراش کرنے والی ایجنسی کی کارپردازی زیادہ ہو ... 

شاذ ہی ہوتا ہے کہ حافظہ عالم خواب کا تذکرہ کرے - وجہ ظاہر ہے کہ تراش خراش کرنے والی ایجنسی کی دلچسپی عالم خواب میں نہ ہونے کے برابر ہے - ایسا نہ ہوتا تو انسانی حافظہ عالم خواب کو رد کرنے کا عادی نہ ہوتا - اب سنجیدگی کا فتویٰ بجز اس کے کچھ نہیں ہوسکتا کہ عالم خواب زیادہ مستند ہے ...

اس کا تجزیہ حافظے کے اسلوب کار کو سمجھنے سے بآسانی ہوجاتا ہے - حافظہ چند باتوں کو رد کرتا ہے اور چند باتوں کو دہراتا ہے - رد کی ہوئی باتیں بھول کے خانے میں جا پڑتی ہیں اور شعور ان سے بے خبر رہتا ہے - روزمرہ کی مثال ہمارے سامنے ہے - ہم اخبار پڑھتے ہیں ، چند باتیں یاد رکھتے ہیں اور باقی بھول جاتے ہیں ...

 انسان کی آفرینش ہی سے حافظے کا یہ طرز عمل اس کے اطوار میں داخل رہا ہے - اسی لئے عالم خواب کی علمی تشکیل اور توجیہہ فکر انسانی نے اب تک نہیں کی ہے - کشف و الہام عالم خواب ہی سے شروع ہوتے ہیں -  "...✦  




 خواب روح کی زبان ہے ...    

  حضور بابا صاحبؒ کا اعجاز تھا کہ وہ خواب کی تعبیر کے ساتھ ساتھ جہاں ضرورت ہوتی خواب کے علم کی جزئیات اور اس کی تشریحات بھی بیان فرما دیتے تھے - ان تشریحات و توجیہات سے علم تعبیر خواب کی وہ عظمت و وسعت سامنے آئی کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے -


ایک ایسا ہی خواب اور اس کی تعبیر ہم درج کرتے ہیں جس میں قلندر باباؒ نے اس بات کیاجمالاً  وضاحت فرمائی ہے کہ شعور انسان کو خواب میں اطلاعات کیوں موصول ہوتی ہیں -   

 کراچی سے رفعت جہاں صاحبہ نے اپنا خواب یوں لکھا ... 


" میں نے دیکھا کہ میں چار پانچ سال کی بچی ہوں اور اپنے اسکول کی چھت پر کھڑی ہوں - آسمان صاف شفاف ہے جیسے بارش کے بعد گرد و غبار دھل جانے کے بعد آسمان کا رنگ نکھر جاتا ہے - کسی طرف سے بادل کا ایک دبیز ٹکڑا آسمان پر آگیا اور اس بادل کے ٹکڑے پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے ...
یہ بادل کسی فلمی منظر کی طرح گزر گیا - اس کے پیچھے بادل کے بڑے بڑے ٹکڑے آئے - ان پر قرآن کریم کی مختلف آیات لکھی ہوئی ہیں - یہ بادل بھی ہوا کے دوش پر بہت دور چلے گئے پھر ایسا ہوا کہ دو بادل کے ٹکڑے نظر کے سامنے آکر ٹھہر گئے - ان دونوں کے درمیان ایک بزرگ صورت انسان کا چہرہ نمودار ہوا - یہ بزرگ مسکرا کر میری طرف دیکھ رہے ہیں - "

درخواست ہے کہ خواب کی تعبیر کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی وضاحت فرما دیں کہ خواب کیوں نظر آتے ہیں -

جواب میں  قلندر بابا اولیاؒء نے یوں تحریر فرمایا ...
          
 ..."     خواب کو اختصار میں سمجھنے کے لئے چند باتیں پیش نظر رکھنا ضروری ہیں - 


1- انسانی زندگی کے تمام کاموں کا دارومدار حواس پر ہے - یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا کہ حواس کیا ہیں اور کس طرح مرتب ہوتے ہیں تفصیل طلب ہے - صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ ہمارے تجربے میں حواس کا زندگی سے کیا تعلق ہے ...

حواس کو زیادہ تر اسٹف Stuff  بصارت سے ملتا ہے - اس اسٹف کی مقدار  % 95  یا اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے - باقی اسٹف جو تقریباً  % 4  ہے بقیہ چار حصوں کے ذریعے ملتا ہے - دراصل یہ اسٹف کوڈ  Code یا استعارے کی صورت اختیار کرلیتا ہے ...

ہم استعارے کو اپنی زندگی کی حدود میں اس کی ضروریات اور اس کے متعلقات کے دائرے میں سمجھتے اور بیان کرتے ہیں - انہی استعاروں کے اجتماعی نتیجے سے  ہماری زندگی کی میکانیکی تحریکات اور اعمال و وظائف اعضاء بنتے ہیں ...
ان اعمال و وظائف میں ایک ترتیب ہوتی ہے - ترتیب کو قائم رکھنے کے لئے ذات انسانی میں ایک تفکر پایا جاتا ہے یہ تفکر جسے روح کہہ سکتے ہیں شعور سے ماوراء ہے چاہے اس کو لاشعور کہیئے ، یہی تفکر شعور کو ترتیب دیتا ہے - ان میں زیادہ سے زیادہ استعارے محدود ضرورتوں اور محدود عقل ، محدود اعمال و وظائف کے دائروں سے باہر ہوتے ہیں ...

اب جو کم سے کم استعارے باقی رہے - ترتیب میں آئے اور شعورکا نام  پاگئے  ان کو بیداری کی زندگی کہا جاتا ہے اور کثیر المقدار استعارے خواب کے لا محدود ذخیروں میں منتقل ہو جاتے ہیں -


2 -  کبھی کبھی ذات انسانی ، انا ، روح یا لاشعور کو ان لامحدود ذخیروں میں سے کسی جزو کی ضرورت پڑجاتی ہے - اس کے دو اہم مندرجات ہوتے ہیں - ایک وہ جو بیداری کی زندگی سے متعلق مستقبل میں کام کرتے ہیں - دوسرے وہ جو شعور کے کسی تجربے کو یاد دلاتے ہیں تاکہ شعور اس کا فائدہ اٹھا سکے ...

جب روح ان ذخیروں میں سے کسی جزو کو استعمال کرتی ہے تو اس جزو کا تمام اسٹف نہ شعور حافظہ میں رکھ سکتا ہے نہ سنبھال سکتا ہے بلکہ خال خال حافظہ میں رہ جاتا ہے - اسی کو شعور خواب کا نام دیتا ہے ...


اس تشریح کی روشنی میں خواب کا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے ... جو استعارے بچپن میں بصورت عقائد فہم میں نہیں سما سکتے ، اب وہ خواب میں اس لئے دہرائے گئے ہیں کہ شعور ان کو تشریح اور تفصیل کے ساتھ سمجھے - ساتھ ہی اعتماد اور یقین کی پختگی حاصل کرے ...

 ایک بزرگ کا چہرہ اس امر کا تمثل ہے کہ ابھی شعور میں یہ چیزیں ناپختہ ہیں - ذہن ڈگمگاتا ہے - اور یقین کی وہ قوت طبیعت کو حاصل نہیں ہے جو مستقبل کے محرکات اور اعمال و وظائف بنتے ہیں - طبیعت نے انتباہ کیا ہے کہ اس قوت کا حاصل کرنا زندگی کے لائحہ عمل میں استحکام پیدا کرنے کے لئے اور فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے ...


 روح نے یہ بتایا کہ بہتر اور کامیاب زندگی اس طرح حاصل ہوسکتی ہے کہ یقین کی قوت سے کام لیا جاتا ہے - یہ قوت ہی منزل تک پہنچا سکتی ہے - دوسرا خواب بھی اسی خواب کا اعادہ ہے - استعارے معکوس ہیں -  "...✦ 

اولاد کی خوش خبری ... 


کراچی کے شاہد صاحب نے اپنا خواب یوں لکھا ...  میں نے دیکھا کہ میں اپنی بیوی کے پاس بیٹھا ہوں کچھ فاصلے پر ایک عورت بیٹھی توے پر گھی پگھلا رہی ہے - میں اس عورت کے پاس گیا اور ڈرتے ڈرتے گلاب کا پھول اسے پیش کیا - عورت نے مسکرا کے اسے قبول کیا اور میں نے گلاب کا پھول توے پر موجود گھی میں ڈال دیا -


حضور قلندر بابا اولیاؒء نے بذریعہ تعبیر اولاد کی بشارت ان الفاظ میں دی - 

..."  دونوں عورتوں کے چہرے بیوی ہی کے دو چہرے ہیں - کسی دوسریعورت کا چہرہ نہیں ہے - گلاب کی پیشکش پر اظہار خوشی اولاد نرینہ کی خوش خبری ہے - "...✦    

امتحان میں کامیابی کی نوید ...

  شہباز خان نے اپنا خواب ان الفاظ میں بیان کیا ...   " میں اردو اور معاشرتی علوم کا پرچہ حل کر رہا ہوں - اردو کے پرچے میں دو گھنٹے لگ جاتے ہیں پھر جلدی جلدی دوسرا پرچہ حل کرتا ہوں - میرے بعد دو اور لڑکوں نے استاد صاحب کو حل شدہ پرچے دیئے ...


میں کلاس میں بیٹھا ہوں کہ میرا دوست گاجریں لایا ہے - یہ گاجریں وہ استاد صاحب کو دینا چاہتا ہے لیکن میں اسے منع کر دیتا ہوں اور خود ایک صاف ستھری گاجر استاد کو دینا چاہتا ہوں لیکن وہ انکار کردیتے ہیں - "

بابا صاحبؒ نے تعبیر خواب میں یہ خوشخبری عنایت فرمائی ...

..." آئندہ ہونے والے امتحان میں ایک پرچے کے نمبر زیادہ ، ایک پرچے کے نمبر کم اور باقی مضامین میں نمبر اچھے حاصل ہوں گے - مجموعی طور پر ڈویژن مل جائے گی - "...✦  


مرتبہ ... سہیل احمد    روحانی ڈائجسٹ .. جنوری  1995ء 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں