حکایات عظیمؒ
سوداگر اور طوطا
خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں ایک روز حضور قلندر باباؒ نے شیخ سعدی کی روایت سے مجھے ایک قصہ سنایا فرمایا ...
" ایک تاجر تھا اس کے پاس ایک طوطا تھا جو انسانوں کی طرح باتیں کرتا تھا - تاجر کا دل اس کی باتوں سے خوش ہوتا تھا وہ طوطا اس کو بہت پیارا تھا - ایک روز وہ کاروبار کے سلسلے میں کہیں باہر جانے لگا تو اس نے طوطے سے پوچھا کہ میں کاروبار کے سلسلے میں ملک سے باہر جارہا ہوں واپسی میں تمہارے لئے کیا تحفہ لاؤں -
طوطے نے کہا کہ اگر تمہارا گزر کسی جنگل میں سے ہو اور تمہیں وہاں طوطوں کا کوئی غول نظر آئے تو انہیں میرا سلام کہہ دینا اور کہنا کہ تمہارا ایک ساتھی جو قفس میں بند زندگی کے دن گزار رہا ہے تمہیں سلام کہتا ہے -
سوداگر سفر پر چلا گیا - اس کا گزر ایک باغ سے ہوا تو اس میں بہت سارے طوطے ٹیں ٹیں کرتے موجود تھے ، طوطوں کا غول دیکھ کر اسے یاد آیا کہ طوطے کا پیغام پہنچانا ہے -
سوداگر نے طوطوں کو مخاطب کرکے پنجرے میں قید طوطے کا پیغام دیا ، پیغام کا سننا تھا کہ ایک طوطا پٹ سے زمین پر گرا اور مر گیا - تاجر کو اس بات کا بہت افسوس ہوا -
واپسی پر اس نے سارا ماجرا طوطے کے گوش گزار کردیا - اتنا سننا تھا کہ وہ طوطا بھی پنجرے میں گرا اور مر گیا - تاجر کو اس کا بہت ہی افسوس ہوا - اس نے پنجرے سے مردہ طوطا نکالا اور باہر پھینک دیا -
آناً فاناً مردہ طوطے نے حرکت کی اور اڑ کر ایک اونچی شاخ پر جا بیٹھا - تاجر نے جب یہ دیکھا تو حیران ہوا اور طوطے سے پوچھا کہ بھئی یہ تم نے کیا حرکت کی ہے ؟
طوطے نے جواب دیا کہ وہ طوطا جو پیغام سن کر گرا اور مر گیا اس نے مجھے پیغام بھیجا ہے ... مر کر ہی آزادی حاصل کی جاسکتی ہے -
یہ واقعہ سنانے کے بعد حضور قلندر بابا اولیاؒء نے فرمایا کہ ...
اس واقعہ میں یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ جب تک تم اپنی انا میں ابلیسیت کو مار نہیں دو گے تمہیں قید و بند کی زندگی سے آزادی نہیں ملے گی -
حضورعلیہ الصلوة والسلام کی حدیث مبارکہ مر جاؤ مرنے سے پہلے کا بھی یہی مفہوم ہے کہ جب تک تمہیں اپنے نفس کا عرفان نصیب نہیں ہوگا، جب تک تم اپنی انا اپنی ذات کی نفی نہیں کرو گے زمان و مکان سے آزاد نہیں ہوسکتے - بندہ جب اپنے شعوری علم کی نفی کر دیتا ہے تو اس پر لاشعوری دنیا کا دروازہ کھل جاتا ہے -
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں