پیر، 25 اگست، 2014

حکایات عظیمؒ -- 4


 حکایات عظیمؒ  

پیر بنا دیجئے  

 ایک بزرگ تھے - ان کا ایک مرید ان سے بار بار کہتا حضرت مجھے پیر بنا دیجئے - وہ عرصے تک ٹالتے رہے لیکن وہ پکا تھا کہ اس مطالبہ سے دست بردار نہیں ہوا - ایک روز جب وہ بزرگ کے پاس حاضر ہوا تو کیا دیکھتا ہے کہ ان کے ہاتھ میں خون آلود چھری ہے اور کپڑوں پر بھی خون کے چھینٹے پڑے ہوئے ہیں -

مرید نے پوچھا کہ حضرت یہ کیا ہوا - فرمانے لگے اب میری عزت تمہارے ہاتھ میں ہے - مجھ سے ایک قتل ہوگیا ہے اور میں نے اس کو فلاں جگہ دفن کردیا ہے - مرید کہنے لگا آپ فکر نہ کریں - میں یہ بات کسی کو نہیں کہوں گا - لیکن ہوا اس کے بر خلاف -

 اس نے بے شمار لوگوں سے کہا کہ پیر صاحب سے قتل ہوگیا ہے لیکن تم کسی کو بتانا نہیں - شدہ شدہ یہ خبر کوتوال کو ہوگئی - پولیس تفتیش کے لئے آئی جب قبر کو کھودا تو اس میں سے بکری کا پنجر ملا -

 لوگوں نے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے تو پیر صاحب نے بتایا کہ یہ شخص پیر بننے کے لئے میرے پیچھے پڑا ہوا تھا - اس کو پرکھنے کے لئے میں نے یہ کام کیا - اب آپ ہی بتائیں کہ اس سے اتنی سی بات ہضم نہ ہوئی ، یہ الله کے رازوں کی کیا پردہ داری کرے گا -



تخریب پسند بیویاں

  ایک بندر جنگل سے کسی انسانی آبادی میں نکل آیا - وہ کچھ عرصہ انسانوں میں ہی رہا اور انسانی بود و باش کو دیکھ کر واپس جنگل میں چلا گیا - برادری میں پہنچتے ہی سارے جنگل کے بندروں نے اسے ایک اونچے درخت پر بٹھایا اور کہا کہ انسانی آبادی کے بارے میں کچھ بتاؤ -

اس بندر نے اپنی روداد سناتے ہوئے کہا کہ شہر میں جہاں پر میں ٹھہرا ہوا تھا وہاں ایک انسان بندر رہتا تھا - اس کی بیوی اور بچے بھی تھے - انسان بندر صبح سویرے روزی کی تلاش میں نکلتا اور رات کو واپس آتا مگر وہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوتا اس کی مادہ خو خو کرتی ہوئی اس کے پیچھے پڑجاتی اور جھگڑتی رہتی -

صبح کو وہ انسان بندر پھر روزی کی تلاش میں چلا جاتا اور جو کچھ کھانے کو ملتا واپس لا کر اپنی مادہ کو دیتا مگر گھر لوٹتے ہی مادہ خو خو کرکے اس کے پیچھے پڑجاتی -

 یہ بات سن کر دوسرے بندر حیران رہ گئے اور سیاح بندر سے پوچھا کیا اس بندر کی مادہ نے اس کے گلے میں رسی ڈال رکھی تھی کہ وہ رات کو واپس آجاتا تھا - سیاح بندر نے کہا نہیں ، اس کے گلے میں رسی نہیں تھی بس وہ پاگل خود ہی واپس آجاتا تھا -

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں