بدھ، 13 اگست، 2014

رباعیات




 علمی سرمایہ 

   
  رباعیات   

سرور کائنات فخر موجودات سیدنا حضورعلیہ الصلوٰة والسلام کے نور نظر ، حامل علم لدنی ، پیشوائے سلسلۂ عظیمیہ ، ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاؒء  کی ذات با برکات نوع انسان کے لئے علوم و عرفان کے ایک ایسا خزانہ ہے
کہ جب ہم تفکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ الله تعالیٰ نے جہاں آپ کو تخلیقی فارمولوں اور اسرار و رموز کے علوم سے منور کیا ہے وہاں علوم ادب اور شعر و سخن سے بھی بہرہ ور کیا ہے -

حضرت  قلندر بابا اولیاؒء نے نثر کے علاوہ نظم میں بھی صوفیانہ افکار کا اظہار کیا ہے - نظم میں اظہار کے لئے قلندر بابا اولیاؒء نے رباعی کی صنف کا انتخاب کیا ہے-

نظم کی صنف رباعی پر اردو زبان میں تو زیادہ کام نہیں ہوا لیکن فارسی میں کئی شعراء نے اس صنف میں خاطر خواہ کام کیا ہے - فارسی رباعی گو شعراء میں عمر خیام ، حافظ شیرازی اور سرمد شہیدؒ اپنے فن کی بلندیوں پر نظر آتے ہیں -  

  حضور بابا صاحبؒ  نے اپنی رباعیات میں بیشتر موضوعات پر روشنی ڈالی ہے ، کہیں بنی نوع انسانی کی فطرت اور حقیقی طرز فکر کو اجاگر کیا ہے ، کہیں مٹی کے ذرے کی حقیقت اور فنا و بقا پر روشنی ڈالی ہے - کہیں پروردگار کی شان و عظمت کا ذکر ہے -

کسی جگہ اس فانی دنیا کی بے ثباتی کا ذکر ہے ، کہیں معرفت و حقیقت کا تذکرہ کیا گیا ہے اور کہیں مشیت خداوندی پر راضی بہ رضا ہونے کا درس دیا جارہا ہے - غرضیکہ " رباعیات عظیم " علم و عرفان کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے -


قلندر بابا اولیاؒء کی یہ رباعیات کئی سال تک ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوتی رہیں - بعد میں ان رباعیات کی تشریح آپ کے شاگرد خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے تحریر کیں -
تشریح رباعیات بھی روحانی ڈائجسٹ کے شماروں میں ماہ بہ ماہ شائع ہوچکی ہیں - یہاں قلندر بابا اولیاؒء کی چند منتخب رباعیات پیش کی جارہی ہیں - 


اک   لفظ  تھا اک لفظ سے افسانہ   ہوا 
اک شہر تھا اک شہر سے  ویرانہ   ہوا 
گردوں نے ہزار عکس ڈالے ہیں عظیم 
میں   خاک  ہوا  خاک  سے  پیمانہ  ہوا 


اک   آن   کی   دنیا   ہے   فریبی   دنیا 
اک   آن   میں  ہے  قید  یہ  ساری   دنیا 
اک  آن  ہی  عاریت  ملی   ہے  تجھ  کو 
یہ   بھی    گزر   گئی   تو   گزری  دنیا 


ساقی  ترا   مخمور    پئے   گا   سو بار 
گردش میں ہے ساغر تو رہے گا سو بار 
سو  بار جو ٹوٹے تو مجھے کیا  غم  ہے 
ساغر مری  مٹی  سے  بنے  گا   سو بار 


اچھی   ہے   بری  ہے  دہر  فریاد  نہ  کر 
جو   کچھ   کہ   گزر  گیا  اسے  یاد  نہ  کر 
دو   چار   نفس   عمر  ملی   ہے  تجھ   کو 
دو   چار   نفس   عمر   کو   برباد   نہ   کر 


کیا    بات   کو   تلوار   نہیں   کر   سکتے 
سرمد     کو   سردار    نہیں    کر   سکتے 
منہ  رکھتا  ہے  انسان  جو  چاہے  کہہ  دے 
الفاظ    تو    انکار     نہیں     کر     سکتے 






کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں