منگل، 12 اگست، 2014

لوح و قلم



علمی سرمایہ 

 حضور قلندر بابا اولیاؒء کے نثری اور شعری علمی سرمایہ کا تعارف یہاں پیش کیا جا رہا ہے - 


✦  لوح و قلم   

  یہ زمانہ جس میں ہم اور آپ یکساں طور پر کشمکش اور ابتلا کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور جہاں ہر طرف مادیت کی یلغار ہے بتدریج اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ہے - مادیت کی تیز روشنی میں بصارت کی خیرگی اور دل سوز جلن ہے مگر روح کی لطافت اور بصیرت کی نمی نہیں ہے -

جس طرح مادیت کو قرار و دوام نہیں ہے اسی طرح مادیت کی بنیاد پر جو عمارت تعمیر ہوگی وہ دیر یا سویر ضرور زمین بوس ہوجائے گی - یہ نظام قدرت ہے اور اٹل ہے - 

1957ء میں جب حضور قلندر بابا اولیاؒء  1D ،1/7  ناظم آباد میں مقیم تھے اس دوران عموماً ہر روز شام کے بعد عقیدت مند اور احباب حاضر خدمت ہوکر حضور قلندر بابا اولیاؒء کے ارشادات اور تعلیمات سے استفادہ کرتے جس میں عالم روحانیت کے اسرار و رموز بھی بیان ہوتے اور حاضرین کی مشکلات اور مسائل کا حل بھی پیش کیا جاتا -

انہی نشستوں میں  حضور قلندر بابا اولیاؒء موجودہ دور کے لوگوں کی خاص طور پر مسلمانوں کی زبوں حالی ، مرکز گریزی اور فکری انتشار پر اپنے احساسات کا اظہار فرماتے - 

حضور بابا صاحبؒ نے 81 سال کی عمر طبعی پائی - ان کی بصیرت پرور نگاہوں کے سامنے موجودہ صدی کے روح فرسا حادثات اور انقلابات رونما ہوئے تھے - انہوں نے مادی قوتوں کو پروان چڑھتے دیکھا اور اپنی گہری مگر حزن و ملال سے بھری نگاہوں سے مشاہدہ فرمایا کہ انسانیت کس طرح باوجود فراوانی علم و دانش پامال اور درماندہ ہورہی ہے -  

بابا صاحب کا اصرار تھا بلکہ ان کا مشن تھا کہ مسلمان دنیاوی علوم و فنون سے بلند مقام حاصل کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں مگر اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی فراموش نہ کی جائے کہ یہ معاشی اور مادی ترقی اور خوش حالی ہی زندگی کا مقصد نہیں ہے بلکہ الله تعالیٰ کا عرفان ہی کسی انسان کی زندگی کا بلند ترین مقصد ہوسکتا ہے - 

حضور بابا صاحبؒ  فرمایا کرتے تھے کہ چودہ سو سال گزر جانے کے بعد بھی روحانی شعبہ حیات میں ماورائی علوم کے سمجھنے اور اس پر دسترس حاصل کرنے کی غرض سے سلسلہ وار اسباق و ہدایات ایک جامع شکل میں پیش نہ کئیے جا سکے -
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ روحانیت کے متلاشی افراد کے لئے کوئی ایسی کتاب موجود نہیں ہے جس میں تخلیق و تکوین کائنات کے اسرار و رموز اور مقامات کی عام فہم زبان میں نشاندہی کی گئی ہو اور جس کے توسط سے اہل عقیدت صحیح روحانی اور ماورائی علوم سے آگاہی حاصل کرسکیں -

انہی احساسات و جذبات کے تحت حضور قلندر بابا اولیاؒء نے اہل بصیرت اور حقیقت کے متلاشی افراد کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے ایک جامع اور قابل عمل مجموعہ علوم کو کتابی شکل میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا -

مجوزہ کتاب کو ضبط تحریر میں لانے کے لئے حضور بابا صاحبؒ  نے اپنے خاص شاگرد  خواجہ شمس الدین عظیمی  صاحب کا انتخاب کیا -
" لوح و قلم " کا ابتدائی مسودہ 1957ء کے دوران حضور قلندر بابا اولیاؒء نے لکھوانا شروع کیا اور کم و بیش دو سال میں تھوڑا تھوڑا کرکے مکمل ہوا تھا - 


یہ اعزاز و شرف محترم خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کو حاصل ہے کہ اس کتاب کا ایک ایک لفظ ان کے قلم سے ضبط تحریر میں آیا ہے -
جب تحریر و تذکیر کا پروگرام طے پا گیا تو ٹھیک ساڑھے تین بجے شب حضور قلندر بابا اولیاؒء اور خواجہ صاحب دیگر محو خواب اہل خانہ سے علیحدہ ہوکر ایک کمرہ میں بیٹھ جاتے -
دوران املا نویسی حضور بابا صاحبؒ جو نکتہ بھی بیان فرماتے اس کی تشریح و وضاحت مثالوں اور نقشوں کے ذریعے کرتے جاتے تھے ، جس میں ملاء اعلیٰ کے مقامات ، تجلیات و انوار کا محل وقوع اور ان کے توسط سے مرتب ہونے والے اثرات شامل تھے -   

تقریباً دو گھنٹے کی املا نویسی اور وضاحت و اشارت کے بعد اگلی شب اسی وقت پھر نشست ہوتی اور اس نشست کا معین حصہ مکمل کرلیا جاتا - کبھی کبھی مصروفیت یا دن بھر کے کام کاج کے سبب نیند کا غلبہ ہوجاتا اور خواجہ صاحب کی مقررہ وقت پر آنکھ نہ کھلتی یا بعض اوقات دوران تحریر نیند آجاتی تو حضور قلندر بابا اولیاؒء آہستگی سے ہوشیار کردیتے تھے لیکن کسی حالت میں بھی اس پروگرام میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی گئی -  

کم و بیش دو سال پر پھیلی ہوئی اس نشست میں موسم کی گرمی اور سردی بھی آڑے نہ آئی - خواجہ صاحب جب ان روح پرور اور دل کشا لمحوں کو یاد کرتے ہیں تو ان پر کیف و سرور کی لہر چھا جاتی ہے - وہ بتاتے ہیں تقریباً دو سال پر پھیلے ہوئے طویل لمحات اتنی تیزی سے بیت گئے کہ گویا ایک ہی نشست تھی جو پلک جھپکنے پر برخاست ہوگئی -

اس طرح کائنات کی تخلیق و تکوین کے اسرار و رموز پر مشتمل یہ معرکتہ الآراء تصنیف وجود میں آگئی - اس کام میں  بابا صاحبؒ کے ایک اور شاگرد سید احمد جمال کی معاونت بھی شامل رہی - 

 جسیا کہ بابا صاحبؒ خود فرمایا کرتے تھے ، روحانی علوم و کوائف پر مشتمل یہ پہلی مربوط تصنیف ہے اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں پیش کردہ رموز و حقائق انتہائی سادہ اور ذہن نشین پیرایہ میں بیان کیئے گئے ہیں

حضور قلندر بابا اولیاؒء کا یہ گراں بہا عطیہ رہتی دنیا تک مشعل ہدایت اور مینارہ نور کا کام دے گا - وہ زمانہ گو ہماری آنکھوں سے لاکھ اوجھل سہی عالم غیب میں ضرور پرورش پا رہا ہے جو لوح و قلم کے اسرار و رموز سے روشناس ہوگا 

اور جب دنیا میں ایک روحانی انقلاب برپا ہوگا اور یقیناً ہوگا تو یہی حاملان علوم سماوی اس انقلاب کے نقیب ہوں گے اس دور کے یہ عظیم قائدین اپنی نورانی اور روحانی قیادت و رہنمائی سے انسانی دل و دماغ کو ایک نئی روشنی اور قوت عطا کریں گے ،ان کی شخصیت کی فیض رسانی کے ذریعے ایک ایسا نظام عالم تشکیل پائے گا جس میں موجودہ زمانہ کی نفسا نفسی اور خود فریبی کا گزر نہ ہوگا -

حضور قلندر بابا اولیاؒء اس کتاب لوح و قلم کے متعلق واضح انداز میں فرماتے تھے کہ جو شخص کھلے اور بےلوث ذہن و قلب کے ساتھ خدا رسائی کی پر خلوص نیت سے اس کتاب کا مطالعہ جاری رکھے گا تو الله تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے غیبی اسباب پیدا کردے گا جن کے طفیل اس کا دل دنیاوی ضرورتوں سے بے نیاز اور اس کی روح کشف و شہود کی روحانی دولت سے مالامال ہوجائے گی -






ذیل میں حضور قلندر بابا اولیاؒء کی مایہ ناز تصنیف" لوح و قلم " کے چند اقتباسات پیش کئے جا رہے ہیں - 

..."  


لطائف ستہ

  مخلوق کی ساخت میں روح کے تین حصے ہوتے ہیں -  روح اعظم ، روح انسانی ، روح حیوانی - 

روح اعظم علم واجب کے اجزاء سے مرکب ہے -

روح انسانی علم وحدت کے اجزاء سے بنتی ہے - اور 

روح حیوانی " جو " کے اجزائے ترتیبی پر مشتمل ہے -    

روح اعظم کی ابتدا لطیفہ اخفیٰ اور انتہا لطیفہ خفی ہے - یہ روشنی کا ایک دائرہ ہے جس میں کائنات کی تمام غیب کی معلومات نقش  ہوتی ہیں - یہ وہی معلومات ہیں جو ازل سے ابد تک کے واقعات کے متن حقیقی کی حیثیت رکھتی ہیں - اس دائرے میں مخلوق کی مصلحتوں اور اسرار کا ریکارڈ محفوظ ہے - اس دائرہ کو ثابتہ کہتے ہیں -    

روح انسانی کی ابتدا لطیفہ سری ہے اور انتہا لطیفہ روحی ہے - یہ بھی روشنی کا ایک دائرہ ہے - اس دائرے میں وہ احکامات نقش ہوتے ہیں جو زندگی کا کردار بنتے ہیں - اس دائرے کا نام اعیان ہے - 

روح حیوانی کی ابتدا لطیفہ قلبی اور انتہا لطیفہ نفسی ہے - یہ روشنی کا تیسرا دائرہ ہے - اس کا نام جویہ ہے - اس دائرے میں زندگی کا ہر عمل ریکارڈ ہوتا ہے - عمل کے وہ دونوں حصے جن میں الله تعالیٰ کے احکام کے ساتھ جن و انس کا اختیار بھی شامل ہے جزو در جزو نقش ہوتے ہیں - 

روشنی کے یہ تینوں دائرے تین اوراق کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہوتے ہیں - ان کا مجموعی نام روح ، امر ربّی ، جزو لا تجزاء یا انسان ہے -  


 حضور قلندر بابا اولیاؒء" علم لا اور علم الا " کے بیان میں ارشاد فرماتے ہیں ... 

لا کے انوار الم ( الف لام میم ) کے انوار کا جزو ہیں - الم کے انوار کو سمجھنے کے لئے لا کے انوار کا تعین اور ان کی تحلیل ذہن میں رکھنا ضروری ہے -
 لا کے انوار الله تعالیٰ کی ایسی صفات ہیں جو وحدانیت کا تعارف کراتی ہیں -
 کئی مرتبہ لوگ یہ سوال کر بیٹھتے ہیں کہ الله تعالیٰ سے پہلے کیا تھا ؟
 ایک صوفی کے یہاں جب سلوک کا ذہن پوری طرح تربیت پاجاتا ہے اور لا کے انوار کی صفت سے واقف ہوجاتا ہے تو پھر اس کے ذہن سے اس سوال کا خانہ حذف ہوجاتا ہے کیوں کہ صوفی الله تعالیٰ کی صفت لا سے واقف ہونے کے بعد اس خیال کو بھول جاتا ہے کہ الله تعالیٰ کی موجودگی سے پہلے بھی کسی موجودگی کا امکان ہے ..

 لا کے انوار سے واقف ہونے کے بعد سالک کا ذہن پوری طرح وحدانیت کے تصور کو سمجھ لیتا ہے - یہی وہ نقطۂ اول ہے جس سے ایک صوفی یا سالک الله تعالیٰ کی معرفت میں پہلا قدم رکھتا ہے - اس قدم کے حدود اور دائرے میں پہلے پہل اسے اپنی ذات سے روشناس ہونے کا موقع ملتا ہے ..

یعنی وہ تلاش کرنے کے باوجود خود کو کہیں نہیں پاتا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا صحیح احساس اور معرفت کا صحیح مفہوم اس کے احساس میں کروٹیں بدلنے لگتا ہے - یہی وہ مقام ہے جس کو فنائیت کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے - اس کو بعض لوگ فناء الہیت بھی کہتے ہیں - 


سالک مجذوب ، مجذوب سالک

  القاء دو علم پر مشتمل ہے - تصوف میں ایک کا نام حضوری اور دوسرے کا نام علم حصولی ہے -
جب کوئی امر عالم تحقیق یعنی واجب ، کلیات یا جو کے مرحلوں میں ہوتا ہے اس وقت اس کا نام علم حضوری ہے - علم حضوری قرب فرائض اور قرب نوافل دونوں صورتوں میں سالک یا مجذوب کی منزل ہے -

اکثر اہل تصوف کو سالک اور مجذوب کے معنی میں دھوکا ہوتا ہے - سالک کسی ایسے شخص کو سمجھا جاتا ہے جو ظاہری اعمال یا ظاہری لباس سے مزین ہو - یہ غلط ہے - کسی شخص کا واجبات اور مستحبات ادا کرلینا جن میں فرائض اور سنتیں بھی شامل ہیں ، سالک ہونے کے لئے بالکل ناکافی ہے - 
صاحب سلوک ہونے کے لئے باطنی کیفیات کو بصورت افتاد طبعی طور پر موجود ہونا یا بصورت اکتساب لطائف کا رنگ محبت اور توحید افعالی کا رنگ قبول کرنا شرط اول ہے - اگر کسی شخص کے لطائف میں حرکت نہیں ہے اور وہ توحید افعالی سے رنگین نہیں ہوئے ہیں تو اس کا نام سالک نہیں رکھا جا سکتا -

 کوئی شخص یہ سوال کرسکتا ہے کہ یہ رنگینی اور کیفیت کسی کے اپنے اختیار کی بات نہیں ہے - ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ چیز اختیاری نہیں - اس لئے جو لوگ سلوک کو اختیاری چیز سمجھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں - البتہ سلوک کی راہوں میں کوشش امر اختیاری ہے - بادی النظر میں اپنی کوشش کا نام سلوک رکھا جاتا ہے -

لوگ اس شخص کو سالک کہتے ہیں جو اس راہ میں کوشاں ہو - فی الواقع سالک وہی ہے جس کے لطائف رنگین ہوچکے ہیں - اگر کسی کے لطائف رنگین نہیں ہوئے ہیں ، اس کا نام سالک رکھنا صرف اشارہ ہے -

 لوگ منزل رسیدہ کو شیخ اور صاحب ولایت کہتے ہیں - حالانکہ منزل رسیدہ وہ ہے جس کے لطائف رنگین ہوچکے ہیں اور جس کے لطائف رنگین ہوچکے ہیں ، وہ صرف سالک کہلانے کا مستحق ہے - ایسا شخص شیخ یا صاحب ولایت کہلانے کا حق ہرگز نہیں رکھتا - شیخ یا صاحب ولایت اس شخص کو کہتے ہیں جو توحید افعالی سے ترقی کرکے توحید صفاتی کی منزل تک پہنچ چکا ہو - 

لفظ مجذوب کے استعمال میں اور اس کی معنویت اور تفہیم میں بھی اس ہی قسم کی شدید غلطیاں واقع ہوتی ہیں - لوگ پاگل اور بدحواس کو مجذوب کہتے ہیں - دوسرے الفاظ میں کسی پاگل یا دیوانہ کا نام ہی غیر مکلف اور مجذوب ہے - یہ ایسی غلطی ہے جس کا ازالہ القاء کے تذکرے میں کردینا نہایت ضروری ہے -

عام طور سے لوگ مجذوب سالک یا سالک مجذوب کے بارے میں بحث و تمحیص کرتے ہیں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مجذوب سالک سے افضل اور اولیٰ ہے لیکن وہ یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ مجذوب سالک کون ہے اور سالک مجذوب کون ہے - یہاں اس کی شرح بھی ضروری ہے - 

مجذوب صرف اس شخص کو کہتے ہیں جسے  الله تعالیٰ نے اپنی طرف کھینچ لیا ہو - مجذوب کو جذب کی صفت قرب فرائض یا قرب وجودی کے ذریعے حاصل ہوتی ہے - اس صفت کے حصول میں قرب نوافل کو ہرگز کوئی دخل نہیں - 

جذب کسی ایسے شخص کی ذات میں واقع  ہوتا ہے جو توحید افعالی یعنی لطائف کی رنگینی سے جست کرکے یک بیک توحید ذاتی کی حد میں داخل ہوجائے - اسے توحید صفاتی کی منزلیں طے کرنے اور توحید صفاتی سے روشناس ہونے کا موقع نہیں ملتا - 


جس شخص کی روح میں فطری طور پر انسلاخ واقع ہوتا ہے اس کو لطائف کے رنگین کرنے کی جدوجہد میں کوئی خاص کام نہیں کرنا پڑتا یعنی کسی خاص واقعہ یا حادثہ کے تحت جو محض ذہنی فکر کی حدود میں رونما ہوا ہے ، اس کے باطن میں توحید افعالی منکشف ہوجاتی ہے -

وہ ظاہری اور باطنی طور پر کسی علامت کے ذریعے یا کوئی نشانی دیکھ کر یہ سمجھ جاتا ہے کہ پس پردہ نور غیب میں ایک تحقق موجود ہے اور اس تحقق کے اشارے پر عالم مخفی کی دنیا کام کر رہی ہے اور اس عالم مخفی کے اعمال و حرکات و سکنات کا سایہ یہ کائنات ہے - قرآن پاک میں جہاں اس کا تذکرہ ہے کہ الله اسے اچک لیتا ہے وہ اس ہی کی طرف اشارہ ہے -     "...✦  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں