ہفتہ، 19 اکتوبر، 2013

سوچ

ارشادات ، واقعات ، تعلیمات  اور  طرز فکر 


 یہ مضمون حضرت  خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی جنبش قلم کا نتیجہ ہے جو جنوری 1990ء میں روحانی ڈائجسٹ کے صفحات کی زینت بنا -- اس مضمون میں سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں -- 

میرے مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیاؒء اکثر فرماتے تھے کہ .....


" انسان کی یہ عادت ہے کہ وہ گفتگو میں بہت زیادہ مبالغہ آرائی اور استعارے سے کام لیتا ہے یہاں تک کہ اگر کسی آدمی کی تعریف کرنا مقصود ہوگی تو اسے عرش تک پہنچا دے گا اور جب اس سے ناراض ہوجاۓ گا تو اسی آدمی کو فرش نہیں بلکہ تحت الثریٰ میں لے جانے کی کوسشش کرے گا "--

یہاں میں اپنا ایک واقعہ بیان کروں .....  میرے ایک پیر بھائی تھائی لینڈ میں مقیم ہوگئے اور انہوں نے وہاں سے  حضور قلندر بابا اولیاؒء کو اپنے پاس بلانے کے لئے ہوائی جہاز کا ٹکٹ بھیج دیا مجھے جب اس بات کا علم ہوا تو مجھے خدشہ لاحق ہوگیا کہ کہیں قلندر بابا اولیاؒء میرے پاس سے چلے نہ جائیں...
 اس خیال کے نتیجے میں مجھ پر بہت زیادہ رقت طاری ہوگئی اسی صدمے کی کیفیت میں میں نے انہی پیر بھائی کے متعلق چند سخت الفاظ کہے میں اس سوچ سے سخت تکلیف میں مبتلا تھا  کہ اگر   قلندر بابا اولیاؒء یہاں سے چلے جائیں گے تو ہم یہاں کیا کریں گے ... اسی رات میں نے ایک خواب دیکھا ...

دیکھا کہ میں  سیدنا حضورعلیہ الصلوة والسلام   کے دربار میں حاضر ہوں .. میں نے بارگاہ رسالت مآب میں ہدیہ درود و سلام پیش کیا -
سیدنا حضورعلیہ الصلوة والسلام  نے تھائی لینڈ میں مقیم پیر بھائی کا نام لے کر مجھ سے پوچھا ..." یہ کیسے آدمی ہیں ؟  میں نے کہا .. بہت اچھے آدمی ہیں ...  حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ....
            " بہت اچھا آدمی ، خراب آدمی کیسے ہو سکتا ہے "-- 

حضورصلیالله علیہ وسلّم   کے اس فرمان سے مجھ پر رعب کی کیفیت اتنی زیادہ طاری ہوئی کہ میں گھبرا کر بیدار ہوگیا - میرے ذہن پر اتنا وزن پڑا کہ میں پھر رات بھر سو نہ سکا - 


صبح سویرے مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیاؒء  کی خدمت میں حاضر ہونے کے بعد  انہیں رات کا خواب سنایا ... خواب سننے کے بعد مرشد کریم نے فرمایا ...
" ایک طرف تو آپ ان کو اچھا آدمی کہتے ہیں دوسری طرف آپ کہتے ہیں کہ انہوں نے اچھا نہیں کیا آپ کی کس بات کا یقین کیا جاۓ ...
 بھئی ایک بات ہونی چاہئیے  اگر آدمی اچھا ہے تو اچھا ہے اور اگر برا ہے تو پھر برا ہے ایک ہی آدمی اچھا اور برا کیسے ہو سکتا ہے ... اس خواب کے ذریعے سیدنا حضورعلیہ الصلوة والسلام  نے آپ کی اصلاح فرمائی ہے "--

مرشد کریم  حضور قلندر بابا اولیاؒء  فرمایا کرتے تھے کہ... "انسانی گفتگو میں مبالغہ بہت ہوتا ہے اور یہ ایسی بشری کمزوری ہے جس پر کوئی آدمی قابو نہیں پا سکتا " -
       
 بابا صاحب نے اس کمزوری سے بچنے کے لئے ایک طریقہ بتایا ہے کہ ..." کبھی کسی آدمی کو برا نہ کہو "-  اگر وہ برا بھی ہے تو وہ جانے اور ﷲ تعا لیٰ   جانے  اگر آپ کسی کو اچھا کہیں گے اور اس میں مبالغہ بھی شامل ہوگیا تو اس کی جزا نہیں ملی تو سزا بھی نہیں ملی-


اس لئے سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ کوئی آدمی برا ہو یا اچھا ہو اسے اچھا ہی سمجھا جاۓ  لیکن یہ بہت مشکل کام ہے کیونکہ کسی فرد کے ساتھ آپ نے خلوص ، محبت کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور اس کے کام آئے لیکن اس کے بدلے میں اس نے آپ کو پریشان کیا ، اب اس فرد کے اس سلوک پر آپ اسے برا کہتے ہیں لیکن یہ بھی تو سوچئے   کہ آپ اس سے قبل ایک مرتبہ اس کو اچھا کہہ  چکے ہیں --

یاد رکھئے کسی بھی مذہب کے بڑوں یا بزرگوں یا رہنماؤں کو کبھی برا نہ کہیں جب آپ کسی مذہب کے بڑوں کو برا نہیں کہیں گے تو ظاہر ہے اس مذہب کے افراد آپ کے مذہب کے بڑوں کو بھی برا نہیں کہیں گے ... یہی وہ اخلاق حسنہ ہے جس کی تعلیم سیدنا حضورعلیہ الصلوة والسلام  نے ہمیں دی ہے --

حضور قلندر بابا نے فرمایا ہے " انفرادی سوچ بے کار ہے جب کہ اجتماعی سوچ انسان کا حاصل ہے جس کے زریعے کوئی انسان Gravity کو توڑ سکتا ہے اس کے بر عکس انفرادی سوچ سے آدمی کشش ثقل کو نہیں توڑ سکتا "-
     
 مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیاؒء   نوع انسانی کے ہر فرد کو بالعموم اور سلسلہ عظیمیہ کے افراد کو بالخصوص یہ سبق اور پیغام دیتے ہیں کہ انفرادیت سے آزاد ہوجاؤ اور انفرادیت سے آزاد ہوکر اپنی فکر کو اجتماعی بنالو-
بابا صاحب فرماتے تھے .... 
" فقیر کی عجب شان ہے "  ...
میں نے عرض کیا ، حضور کیا شان ہے ؟ 
 فرمایا .." لوگ بے وقوف بناتے ہیں آخر تک بنتا رہتا ہے .. فقیر یہ سمجھتا ہے کہ مجھے بےوقوف بنا کر یہ خوش ہو رہا ہے تو چلو اسے خوش ہونے دو .. وہ بے وقوف بنتا چلا جاتا ہے تاوقتیکہ وہ بندہ خود ہی بھاگ جاۓ یا اسے اپنی غلطی کا احساس ہوجاۓ "-- 


پھر فرمایا .." سیدنا حضورعلیہ الصلوة والسلام  فرماتے ہیں..    

"مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ الله کے نور سے دیکھتا ہے "-


 مومن کا دیکھنا بھی عام انسانوں کی ہی طرح سے ہوتا ہے لیکن عام  انسان کی نگاہ پر محدود شعور کا چشمہ لگا ہوتا ہے اور مومن کی آنکھ پر الله کے نور کا چشمہ لگا ہوتا ہے لیکن وہ الله کے نور کے ذریعے جو کچھ دیکھتا ہے اس کا اظہار نہیں کرتا --



 قلندر بابا نے مزید فرمایا ..." عام حالات میں آدمی تمہاری تعریف اس لئے کرتا ہے کہ اسے تمہاری ذات سے کوئی توقع  ہے کہ اس کا کام ہوجاۓ ..
مثلا اس نے ایک توقع قائم کرلی ہے کہ مجھے اس آدمی سے کسی بھی وقت ایک ہزار روپے مل جائیں گے چونکہ اس نے توقع قائم کی ہوئی ہے لہٰذا اس بنیاد پر وہ موقع ملے تو خوشامد بھی کرلے گا ..

 بالفرض اگر اس کی توقع  پوری نہیں ہوتی  ہے تو وہی آدمی جو آپ کی تعریف کر رہا تھا برائی کرے گا "--


حضور قلندر بابا فرماتے ہیں  .." کسی کی تعریف سے کیا خوش ہونا اور کسی کی برائی سے کیا دل  برا کرنا "--

فرمایا .."  کوئی اچھا کہے یا برا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ فروعی چیزیں ہیں انہیں کبھی خاطر میں نہیں لانا چاہئے .. بس اپنی طرف سے جس کے ساتھ بھلائی کرنا ممکن ہو کرو ، اگر بھلائی نہ کرسکتے ہو تو کوئی مجبور تو نہیں کر رہا ..

 یہ  خدا کے اختیار میں ہے کہ وہ ایسے آدمی کو جو فٹ پاتھ پر پڑا ہے اسے محل دے دے .. اس بات سے صرف نظر کرتے ہوۓ لوگوں کے ساتھ آپ جو کچھ کرسکتے ہیں کردیں "-


اگر آدمی محدود سوچ سے آزاد ہوجاۓ تو اس کے اندر سے خوشی ، غم دونوں نکل جاتے ہیں -- خوشی ،غم کے بعد جو کیفیت ہوتی ہے اس کا نام لغت کی کتابوں میں نہیں ہے .. اسے سرور کہنا بھی اس لئے مناسب نہیں ہے  کہ سرور جب ٹوٹتا ہے  تو انسان کے اوپر اذیت ناک کیفیت ہوتی ہے .. لہٰذا اس کو ہم سرور نہیں کہہ سکتے ..


 حضور قلندر بابا اولیاؒء نے مجھ سے فرمایا کہ ...." اس کو " کیفیت " بھی نہیں کہہ سکتے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ خوشی ، غم دونوں سے نجات حاصل کرلیتا ہے .. اسے آپ لنگوٹی بندھوادیں تو مطمئن ہے .. اسے اطلس و کمخواب کے کپڑے پہنادیں تو ٹھیک ہے ..

 اسے مرغی کھلادیں تو بھی ٹھیک ہے اور روکھی روٹی کھلادیں تب بھی اطمینان ہے اس لئے کہ وہ خوشی اور غم دونوں سے ماوراء کیفیت میں ہے ... ایسے بندوں کو الله اپنے پاس سے کھلاتا ہے .. اپنے پاس سے پہناتا ہے اور وسائل کو اس کے تابع کردیتا ہے جبکہ بندہ وسائل کے تابع نہیں رہتا "--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں