اتوار، 13 اکتوبر، 2013

استغراق


ارشادات ، واقعات ، تعلیمات  اور  طرز فکر 


حضور مرشد کریم  خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں ......  
 حضور قلندر بابا اولیاؒء پہ استغراق کی کیفیت اس قدر طاری رہتی تھی اور آخر میں تو یہ حال ہوگیا تھا کہ بیٹھے ہیں اور چیونٹیاں ان کے پیروں سے گوشت نوچتی رہتیں اور انہیں خبر ہی نہ ہوتی .....  ہم  آتے  اور دیکھتے اور گھبرا کر چیونٹیاں جھاڑتے....   " کیا ہے ؟  کیا ہے بھئی ؟ "   وہ ہماری گھبراہٹ سے چونک جاتے ....

 ہم کہتے حضور چیونٹیاں  ہیں آپ کے پیر زخمی کردئیے ہیں تو فرماتے ......" اچھا ، خیر ویسے بھی یہ جسم انہی کی خوراک ہے "-   جانے اس وقت وہ کہاں چلے جاتے تھے -   
             
 قدرے توقف کے بعد خواجہ صاحب نے فرمایا.....  

 یہ کیفیت بے کیف ہونے سے پیدا ہوتی ہے... بے کیف ہونا  ہی اصل زندگی ہے  آپ چوبیس گھنٹوں میں چوبیس منٹ بے کیف ہوگئے تو یہ چوبیس منٹ آپ کی اصل زندگی ہے باقی سب ضایع  ہوگیا....

بے کیفی درحقیقت رنج و خوشی سے بے نیاز ہوجانا ہے ---

 فرمایا کہ ایک بار   حضور قلندر بابا اولیاؒء نے مجھ سے کہا ....." دیکھنا بھئی میرے کرتے میں کوئی  مکھی یا کھٹمل وغیرہ تو نہیں گھس آیا "-   میں نے کرتا اٹھا کر دیکھا تو وہاں ایک چھپکلی جانے کب سے گری ہوئی تھی اس نے باہر نکلنے کی راہ نہ پا کر پنجے مار مار کر انہیں کھرچ کے رکھ  دیا تھا -

یہ بے حسی نہیں بلکہ کمال کی انتہا ہے .. مرجاؤ مرنے سے پہلے کی عملی تفسیر ہے .. اگر آپ ہر وقت بے کیفی کے عالم میں  رہیں گے تو یہ جذب کی حالت ہوئی -

جذب اور بے کیفی کی مزید وضاحت کو ارشاد فرمایا .....     

حضور قلندر بابا اولیاؒء کو جب ان کی بیگم کھانے پر بلاتیں تو وہ کھانے کے لئے آکر بیٹھ جاتے اور دس منٹ بعد اگر کھانا نہ بھی آیا ہوتا تو اٹھ جاتے اور یوں ہاتھ دھوتے گویا انہوں نے کھانا کھا لیا ہو ......  

جب اماں جی کھانا لاتیں اور اصرار کرتیں  کہ آکر کھانا کھائیں تو ناراض ہوتے ..." میرا پیٹ خراب کردوگی  دو دو بار کھلاتی ہو "-  بھئی وہ تو کھانا صرف اس لئے کھاتے تھے کہ مادی جسم کو اتنی خوراک مل جاۓ کہ اس کا کام ہوتا رہے - 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں