منگل، 31 مارچ، 2015

یاد عظیمؒ -- 9




                                   یاد عظیمؒ 




مضمون :   کچھ یادیں کچھ باتیں
تحریر   :   احمد جمال عظیمی 
اشاعت  :    روحانی ڈائجسٹ   فروری 1993ء
                 ( حصہ سوم  )


اپریل  1964ء قبلہ حضور کا  بے انداز تکوینی مصروفیات کا زمانہ تھا - انتہا یہ کہ معلم کو اجازت نہ تھی کہ بات بھی کرے  ( معلم ایسے فرشتے کو کہا جاتا ہے جو حاملین عرش ، گروہ جبرئیل سے تعلق رکھتا ہے - پہلے وہ منتخبین کو الله تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ علوم سے روشناس کراتا ہے اور بعد میں جب وہ حضرات  حضورعلیہ الصلوة والسلام سے علم حاصل کرکے الله تعالیٰ کے حضور سے اپنے حصہ کا خصوصی علم حاصل کرلیتے تو یہی معلم فرشتہ ان حضرات کا کارندہ بن جاتا ہے )

13اپریل کو معلم نے اشارہ دیا کہ بڑے صاحبزادے آفتاب میاں حادثہ سے دوچار ہونے والے ہیں - آفتاب میاں اگلے روز اپنے دوستوں کے ہمراہ شکار کا پروگرام بنائے بیٹھے تھے - حضور قبلہ نے صاحبزادے کو بلا کر سمجھایا کہ ہمارے خاندان میں شکار پر پابندی ہے اس لئے تم کل صبح اپنے دوستوں کے ساتھ مت جانا - لیکن آنے والی گھڑی کو کون ٹال سکتا ہے -
 آفتاب میاں 14اپریل 1964ء کو اپنی والدہ سے اصرار کرکے فجر کے وقت گھر سے نکل کر دوستوں کے ساتھ ٹھٹھہ کی طرف روانہ ہوگئے - دس بجے جس گاڑی پریہ سب لڑکے بیٹھے تھے حادثہ کا شکار ہوگئی -

 جس وقت یہ حادثہ ہوا معلم نے ایک بار پھر خطرہ کا اشارہ دیا لیکن قبلہ حضور کو خیال گزرا کہ حضیرہ میں کہیں کوئی حادثہ ہوگیا ہے چنانچہ وہ پھر اپنی تکوینی مصروفیات میں لگ گئے- حادثہ میں صاحبزادے اور ان کے ایک دوست کا انتقال ہوگیا -
اتوار کا دن تھا اس خبر کا اس قدر اثر ہوا کہ کمر کے دو تین مہرے اپنی جگہ سے ہٹ گئے اور کمر جھک گئی اور ساتھ ہی دونوں آنکھوں کی بینائی جاتی رہی - ایک آنکھ کی بینائی تو تھوڑی دیر میں واپس آگئی لیکن آپ پھر سیدھے نہ چل سکے - آفتاب میاں کے لوح مزار پر بجا طور پر "نور بصر " لکھوایا - 
کچھ عرصہ کے بعد فرمایا کہ یہ واقعہ اس لئے ہوا کہ ایک دفعہ میرے ذہن میں خیال آیا کہ آفتاب اب بڑا ہوگیا ہے - میں اس کی شادی کردوں گا اور میری ذمہ داریاں ختم ہوجائیں گی - بس اس بات کی پکڑ ہوگئی کہ تو کون ہوتا ہے کہ کچھ کرسکے -  

الله اکبر بڑے لوگوں کے معاملات بھی بڑے نازک ہوتے ہیں جب کوئی الله کا ہوجاتا ہے تو ممکن ہی نہیں کہ وہ الله کی ایما کے بغیر کچھ کرنے کا ارادہ بھی کرسکے - آفتاب بھائی پر الله تعالیٰ نے بڑا کرم کیا - حادثہ اور موت کے درمیانی وقفہ میں ان کو ان مراحل سے گزار دیا جو جسم کی بندشوں میں رہتے ہوئے کوشش کے باوجود وہ حیات میں حاصل نہ کرسکے - 

1965ء کی جنگ ہوئی تو مشرقی پاکستان سے پان آنا بند ہوگئے - کراچی والوں نے پان کے بدلے بے شمار پتے آزمائے ، کبھی امرود کے تو کبھی پالک کے - قبلہ حضور اگر چاہتے تو ان کے لئے پان دستیاب ہونا مشکل نہیں تھا - لیکن آپ نے ہمیشہ عوامی قدریں اپنائیں - شہتوت کے پتوں پر کتھا چونا لگوا کر خود بھی کھایا اور آنے جانے والوں کو بھی بڑے شوق سے پیش کیا -
جنگ بندی ہونے تک تمام دن کراچی کی فضائیں نیوی کی توپوں سے لرزتی رہتی تھیں - شام کو بلیک آؤٹ ہوجاتا تھا اور رات کے سناٹے کو پاک فضائیہ کے طیارے چیرتے رہتے - کبھی کبھی آسمانوں پر فضائیہ اور دشمن کے طیاروں کے درمیان جھڑپ میں پھلجھڑیاں چھوٹتیں یا شعلے لپکتے لیکن قبلہ حضور کے چہرہ مبارک پر کبھی تردد نہ دیکھا -  

چنانچہ جنگ بندی ہونے تک قبلہ حضور اور ہم لوگوں کے معمولات میں کوئی فرق نہ آیا - اس زمانہ میں تکوینی نظامت کے ایک صاحب خدمت کو کراچی کی حفاظت کے لئے بطور خاص مقرر کردیا گیا تھا - ان کا قیام گاندھی گارڈن کے قریب تھا - 24 گھنٹوں میں ان کو صرف چند پیالی چائے پینے کی اجازت تھی وہ بھی اگر کوئی پلادے تو -
جس روز ہندوستانی ہوائی جہازوں کا حملہ کراچی پر ہوتا اس کے دوسرے روز صبح کے وقت وہ صاحب قبلہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوتے اور مٹھی بھر دانے حضور کی خدمت میں پیش کرتے -

1958ء میں شرف باریابی سے لے کر 26 جنوری 1979ءکی درمیانی شب تک کہ جب آپ نے اس دنیا سے پردہ فرمایا مہہ و سال کی گنتی میں اکیس سال کا عرصہ بنتا ہے لیکن اس دورانیہ کے واقعات ، معاملات ،  حضورعلیہ الصلوة والسلام و اہل بیتؓ، چاروں خلفائےراشدینؓ ، صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ اجمعین اور اولیائے کرامؒ سے متعلق ارشادات و تشریحات کا ایک سمندر ہے جس میں ،میں غرق ہوں کبھی کبھی کوئی موتی ہاتھ آجاتا ہے -


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں