جمعرات، 26 مارچ، 2015

یاد عظیمؒ -- 4



                                   یاد عظیمؒ 


قلندر بابا اولیاؒء کے دیرینہ دوست سے گفتگو  


محترم نثارعلی بخاری مرحوم  قلندر بابا اولیاؒء کے بچپن کے دوست تھے - قلندر بابا اولیاؒء کے اس عالم رنگ و بو سے پردہ فرما لینے کے بعد نثار علی صاحب سے بابا صاحب کی زندگی سے متعلق جو گفتگو کی گئی وہ روحانی ڈائجسٹ قلندر بابا اولیاؒء نمبر جنوری 1995ء کے صفحات کی زینت بنائی جارہی ہے - 

محترم نثارعلی بخاری مرحوم قلندر بابا اولیاء کے بچپن کے دوست تھے - آپ (بابا صاحبؒ) اکثر بھائی نثار علی صاحب کے پاس شام کو جایا کرتے تھے -

 قلندر بابا اولیاء کے وصال کے بعد ایک مرتبہ میں( احمد جمال عظیمی ) اور فرخ اعظم ان کے پاس حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ آپ کو قلندر بابا اولیاء کی زندگی کے متعلق ایسی باتیں معلوم ہیں جو ہمارے علم میں نہیں ہیں - ہم چاہتے ہیں کہ آپ یادداشت تازہ کرکے کچھ واقعات ریکارڈ کرادیں - انہوں نے جو کچھ فرمایا وہ ہم نے ریکارڈ کرلیا - یہ گفتگو قارئین کی نذر ہے -

 جمال :   آج 20 جولائی  1985ء اور بارہ بجے دوپہر کا عمل ہے - میں اور فرخ اعظم آپ کی خدمت میں اس لئے حاضر ہوئے ہیں تاکہ قلندر بابا اولیاؒء کے متعلق آپ کی معلومات اور تاثرات ریکارڈ کریں - پہلے میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ ان کو کب سے جانتے ہیں ؟  

بخاری صاحب  : بھائی محمّد عظیم صاحب مرحوم سے میرے تعلقات پانچ چھ برس کی عمر سے تھے - خورجہ ، ضلع بلند شہر ، ہندوستان میں میری ننھیال کے تین مکانات تھے - ایک میں میرے ماموں زاد بھائی رہتے تھے اور دو بھائی محمّد عظیم صاحب کے والد صاحب نے کرایہ پر لے رکھے تھے - ایک مکان میں اہل خانہ رہتے تھے اور دوسرے کو وہ دفتر کے طور پر استعمال کرتے تھے -
مکان کے سامنے مسجد میں بھائی صاحب موصوف قرآن شریف پڑھا کرتے تھے - جب میں خورجہ جاتا تو قیام کے دوران میں بھی ان کے ساتھ مسجد چلا جاتا تھا - ان تینوں مکانات کے آگے ایک چبوترہ تھا - اس پر ہم بیٹھتے بھی تھے اور کبھی کوئی کھیل بھی کھیل لیتے تھے - یہ تقریباً پچھتر برس پہلے کی بات ہے - 

فرخ اعظم : آپ کی عمر اس وقت کتنی تھی ؟
 بخاری صاحب : میری بھی اتنی ہی تھی -  

فرخ اعظم : تو آپ دونوں حضرات ہم عمر ہیں - 
بخاری صاحب  : ہم دونوں تقریباً ہم عمر تھے لیکن میری عمر غالباً ایک یا سوا سال زیادہ تھی - اسی وجہ سے بھائی عظیم صاحب نے اپنے بچوں سے مجھے تایا کہلوایا -

جمال : آپ نے فرمایا کہ جب آپ خورجہ تشریف لے جاتے تھے تو اس وقت ان سے ملاقات ہوتی تھی گویا خورجہ میں آپ کا قیام مستقل نہیں تھا - تو پھر آپ کا مستقل قیام کہاں تھا ؟

بخاری صاحب  : اپنے والد صاحب کے انتقال کے بعد میں بلند شہر ہی میں رہا - خورجہ کبھی نہیں گیا - وہیں بھائی محمّد عظیم صاحب کے والد صاحب کا بھی تبادلہ ہوگیا - چونکہ میرا مکان مردانہ تھا اس لئے زیادہ تر بھائی صاحب ہی تشریف لایا  کرتے تھے -یہ سلسلہ برسوں رہا -
اس کے بعد آپ کی شادی ہوگئی تو کچھ عرصہ کے بعد آپ دہلی تشریف لے گئے - دہلی سے ہر سال بلند شہر آتے تھے تو دو مہینے اور کبھی تین مہینے غریب خانے پر ہی قیام رہتا تھا - جب آپ کے والد صاحب کا تبادلہ دوسرے شہروں میں ہوجاتا تو وہاں سے بھی آتے رہتے تھے - بہر حال ملاقات کا سلسلہ بالکل منقطع کبھی نہیں ہوا - زیادہ سے زیادہ چند مہینوں کا وقفہ ہوتا تھا -

جمال : اس پچھترسال کی رفاقت میں  ان کی شخصیت کی کتنی جہات آپ کے سامنے آئیں اور 1955ء میں جو روحانی تشخص اجاگر ہوا کیا اس کی جھلک ان کی گزشتہ زندگی میں کبھی آپ کو نظر آئی ؟

بخاری صاحب  : بھائی محمّد عظیم صاحب کا مجھ سے زیادہ پرانا دوست اور کوئی نہیں تھا - آپ کی بچپن سے یہ عادت تھی  کہ کبھی   بچوں کے ساتھ کوئی بیہودہ کھیل نہیں کھیلا - ہمیشہ تعلیم اور علم کی طرف توجہ رہتی تھی - جوان ہونے  پر آپ نے بلند شہر سے میٹرک کیا -
 اس کے بعد اپنے والد صاحب کے مشورہ پر علیگڑھ یونیورسٹی میں فرسٹ ائیر میں داخلہ لے لیا اور قیام کے لئے ترکمان دروازے پر ایک مکان کرایہ پر لیا -میں ایک مرتبہ ان سے ملنے علیگڑھ گیا - آپ گھر پر موجود نہیں تھے - معلوم ہوا کہ وہاں کے قبرستان میں ایک مسجد ہے - حجرہ وغیرہ بنا ہوا ہے -
آپ وہاں ایک بزرگ مولانا کابلیؒ کے پاس چلے جاتے ہیں اور شام کو واپس آتے ہیں - میں وہاں پہنچا تو حجرے کا دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا - اور آپ ان بزرگ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے - میں نے دروازے پر دستک دی تو آپ خود ہی اٹھ کر باہر آئے - مجھ سے بغلگیر ہوئے اور پوچھا کہ کب آئے - میں نے کہا کہ آج ہی آیا ہوں اور جب معلوم ہوا کہ آپ یہاں ہیں تو میں حاضر ہوگیا ہوں -

اتنے میں مولانا کابلیؒ نے فرمایا کہ جن کا ذکر رہتا ہے کیا وہی دوست آئے ہیں - آپ نے فرمایا جی ہاں - تو انہوں نے کہا کہ اندر کیوں نہیں بلا لیتے - جب میں اندر پہنچا تو ان بزرگ کو نہایت ادب سے سلام عرض کیا - وہاں ایک چٹائی بچھی ہوئی تھی اور ایک طرف پرانا سے گدا پڑا تھا جس پر ایک تکیہ رکھا ہوا تھا -
چند مٹی کے برتن تھے اور رسی پر ایک چادر اور دو تہہ بند ٹنگے ہوئے تھے - اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا -

مولانا نے بھائی عظیم سے  فرمایا کہ اگر کچھ انتظام ہو تو چائے بناؤ - بھائی صاحب نے فرمایا کہ چائے کا ہم دونوں میں سے کوئی بھی عادی نہیں  ہے - یہ سن کر انہوں نے مٹی کے ایک لوٹے میں سے مٹھی بھر چنے نکالے اور مٹی کی طشتری میں پیش فرمائے -
بھائی محمّد عظیم نے کہا کھا لو تبرک ہے -تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے کہا کہ میاں ان کو لے جا کر کھانا وغیرہ کھلاؤ اور مجھ سے پوچھا کہ میاں کب تک علیگڑھ میں رہو گے - میں نے عرض کیا کہ رات کو واپس چلا جاؤں گا - 
میں اس زمانے میں ملازمت کرتا تھا اور اتوار کی چھٹی میں گیا تھا - مولانا صاحب نے فرمایا جب تک تمہاری بھی چھٹی ہے عظیم میاں ان کو رخصت کرکے آنا -

میں نے علیگڑھ سے بلند شہر واپس آکر ان کے والد صاحب سے ذکر کیا بھائی عظیم صاحب اپنا سارا وقت ایک بزرگ مولانا کابلی کے پاس قبرستان کی مسجد کے حجرے میں گزارتے ہیں - والد صاحب نے فرمایا کہ میں نے تو کوشش کی تھی کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں لیکن وہ سمجھدار ہیں اپنا مستقبل خود بنائیں گے -
 چنانچہ کچھ دنوں بعد جب وہ بلند شہر تشریف لائے تو اپنے والد صاحب کے استفسار پر فرمایا میں تو کچھ اور ہی تعلیم حاصل  کر رہا ہوں - جب والد صاحب نے پوچھا کہ وہ کیا ہے تو انہوں نے کہا ، بھائی ( وہ اپنے والد صاحب کو بھائی کہا کرتے تھے ) وہ کچھ روحانیت سے تعلق رکھتی ہے -
 تو والد صاحب نے کہا تم سمجھدار ہواپنا راستہ خود بناؤ -

فرخ اعظم : مولانا کابلی سے عقیدتمندی اور ان کے پاس قبرستان کے حجرے میں جانے کا سلسلہ کتنے عرصے جاری رہا ؟

بخاری صاحب : یہ سلسلہ زیادہ سے زیادہ پانچ چھ ماہ رہا -

جمال : کیا آپ کی ملاقات کبھی بابا تاج الدین ناگپوری سے ہوئی ؟

بخاری صاحب : کبھی نہیں ہوئی اس لئے کہ وہ کبھی ناگپور سے ہماری طرف نہیں آئے اور میرا وہاں جانا نہیں ہوا -


  روحانی ڈائجسٹ    جنوری 1995ء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں