یاد عظیمؒ
قلندر بابا اولیاؒء کے دیرینہ دوست سے گفتگو
انٹرویو : احمد جمال عظیمی -- فرخ اعظم
راوی : محترم نثار علی بخاری صاحب
اشاعت : روحانی ڈائجسٹ -- جنوری 1995ء
( حصہ دوم )
جمال : انؒ ( حضور بابا صاحبؒ ) کے کچھ شوق بھی تھے .... مثلاً پنجہ لڑانا اور جسم بھی بہت اچھا تھا -
جواب ( سید نثار علی بخاری صاحب ): پنجہ بہت اچھا لڑاتے تھے - کسرت کرتے تھے اور اکھاڑے بھی جاتے تھے -
جمال : وہ شطرنج بھی بہت اچھی کھیلتے تھے -
بخاری صاحب : شطرنج کبھی میرے ساتھ کھیلتے تھے تو کبھی آنے جانے والوں کے ساتھ لیکن کچھ عرصہ کے بعد یہ کہہ کر کھیلنا چھوڑ دیا کہ اس میں خواہ مخواہ وقت ضائع ہوتا ہے -
جمال : اس کے علاوہ ان کی زندگی کے کچھ اور واقعات جو آپ کو یاد ہوں -
بخاری صاحب : ان کو شاعری کا ذوق تھا - جب وہ بلند شہر میں میرے یہاں تشریف لاتے تھے تو وہاں کے شعراء کے ساتھ رات کے بارہ ایک بجے تک شعر و شاعری کی محفل گرم رہتی تھی - شہر کے سارےشعراء آپ کو بہت عمدہ اور بلند پایہ شاعر تسلیم کرتے تھے -
جمال : شاعری میں کیا صرف غزل کہتے تھے -
بخاری صاحب : غزل بھی کہتے تھے ، رباعیات بھی کہتے تھےلیکن کم اور قطعات بھی کہتے تھے -
جمال : زندگی کے کچھ اور واقعات جو آپ کے علم میں ہوں -
بخاری صاحب : بلند شہر کے کچھ ایسے حضرات جنہیں تصوف سے لگاؤ تھا وہ اکثر کسی بزرگ کے فارسی کے ملفوظات لے کر آجاتے تھے اور اس کا مفہوم دریافت کرتے تھے تو آپ اس طرح بےتکان لیکچر دے کر انہیں سمجھا دیا کرتے تھے کہ جیسے کوئی پروفیسر تیاری کرکے کالج میں کلاس لیتا ہے -
جمال : میں نے سنا ہے کہ آپ کسی مکان میں تھے جہاں آپ کو جن تنگ کیا کرتے تھے - وہ کیا معاملہ تھا -
بخاری صاحب : ہم گاؤں کی سکونت چھوڑ کر ایک مکان میں رہے - جہاں میری والدہ اور میرے بڑے بھائی کا انتقال ہوا - گھر تباہ ہوگیا اور میں اکیلا رہ گیا - وہاں ایک کھنڈر پڑا ہوا تھا - مالک نے اس میں ایک مکان بنایا تو میں نے وہ کرائے پر لے لیا -
اس میں کچھ اثر تھا - وہ مجھے ایک سال تک ستاتا رہا لیکن میں اس سے ڈرا نہیں - کئی عامل اور جاننے والوں سے تذکرہ کیا تو وہ آئے - جس رات کو وہ میرے پاس ہوتے تو وہ جن مجھے چھوڑ دیتا اور ان کے سینے پر سوارہوجاتا اور وہ گھبرا کر بھاگ جاتےتھے -
ایک مرتبہ دہلی سے بھائی محمّد عظیم صاحب میرے پاس تشریف لائے - اس روز شام کو ہم ٹہلنے کے ارادے سے مکان مقفل کرکے پارک گئے - وہاں سے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد واپس آئے تو میں نے تالہ کھول کر بھائی صاحب سے عرض کیا کہ آپ تشریف رکھئے میں پان سگریٹ لے کر آتا ہوں - جب میں واپس آیا تو آپ صحن میں کھڑے ہنس رہے تھے - میں نے کہا بھائی صاحب یہ تنہائ میں ہنسنے کا کیا محل ہے - تو آپ نے کہا کہ نہیں کوئی بات نہیں ہے -
جب میں نے زیادہ اصرار کیا تو فرمایا آپ وہم میں پڑ جائیں گےمیں نے کہا میں بھی آپ کو کچھ واقعات سناؤں گا -
تب انہوں نے کہا کہ جب میں اندر آیا تو صحن میں چارپائی پر دو آدمی بیٹھے ہوئے تھے - مجھے دیکھ کر انہوں نے قہقہہ لگایا اور ایک ادھر سے اور ایک ادھر سے چارپائی کے نیچے گھس گیا - اب جو میں نے جھک کر دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا - میں اس بات پر ہنس رہا ہوں کہ مجھے ڈرا رہے ہیں -
پھر میں نے اپنے حالات بتائے کہ روزانہ رات کو سوتے وقت سینے پر کوئی نادیدہ شخص بیٹھ جاتا ہے - اگر کروٹ سے ہوتا ہوں تو پہلو پر بیٹھ جاتا ہے اور میری ٹانگیں پکڑ کر کھینچتا ہے - میں جب لات مارتا ہوں تو میری لات دیوار پر پڑتی ہے -
مسہری کے قریب میز پر لالٹین تھی جس کی روشنی میں میں قرآن شریف پڑھا کرتا تھا نیند آتی تو سوجاتا لیکن جب تک پڑھتا رہتا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا - میں کہتا تھا بھئی جاگتے میں آؤ مجھے سوتے میں پریشان کرتے ہو یہ تو کوئی بہادری نہیں ہے - لیکن جاگتے میں وہ کبھی بھی نہیں آیا -
بھائی محمّد عظیم نے فرمایا کہ فکر کی کوئی بات نہیں ہے جمعرات آنے دو میں سب معلوم کرلوں گا کہ کیا بلا ہے - جمعرات کے آنے میں دو تین دن تھے - جب جمعرات آئی اور شعر و شاعری کی محفل ختم کرکے لوگ اپنے اپنے گھر چلے گئے تو آپ نے وضو کیا اور تخت پر مصلہ بچھا کر مجھ سے فرمایا کچھ بھی محسوس ہو ٹوکنا مت نہ بولنا نہ ڈرنا -
میں نے کہا کہ اگر میں ڈرتا تو آج مجھے پریشان ہوتے ایک ڈیڑھ سال ہوگیا کبھی کا مکان چھوڑ چکا ہوتا - چنانچہ انہوں نے کچھ پڑھا -
صبح کو مجھے بتایا کوئی بات نہیں جن ہے - میں نے کہا پھر کیا ھوگا - فرمایا آج وعدہ کرکے گیا ہے کہ اگلی جمعرات کو جواب دے گا - ایسا عمل کے کرنے اور اگلی جمعرات کے عرصہ میں نہ وہ جن آیا نہ میرے اوپر حملہ کیا اور نہ ہی پریشان کیا - ورنہ اس سے پہلے جتنے عامل کامل آئے مجھے چھوڑ کر انہیں پریشان کرتا تھا -
جب دوسری جمعرات آئی تو صبح کو انہوں نے بتایا کہ وہ دو بھائی ہیں - اس کا بھائی بھی ساتھ آیا تھا - انہوں نے کہا ہے کہ اب یہ ہی رہیں ہم چھوڑے جاتے ہیں - میں نے کہا بھائی صاحب آپ نے کیا دباؤ ڈالا تھا -
فرمانے لگے میں نے کہا کہ آسانی سے چلے جاؤ ورنہ تم جانتے ہو کہ میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں - وہ کہنے لگے آپ کی نسبت اونچی ہے اب ہم ہی یہاں سے چلے جائیں گے - چنانچہ اس کے بعد مکان میں بارہ سال تک رہا لیکن پھرنہ کوئی گھبراہٹ ہوئی نہ کوئی میرے سینے پر بیٹھا -
اس کے علاوہ ایک مولوی ظہور الحسن صاحب تھے - وہ ضلعی کورٹ میں منصرم تھے - وہ بڑے الله والے اور سیدھے آدمی تھے - ان کا معمول تھا کہ بلند شہر میں ایک بزرگ خواجہ لعل علی صاحب برنی کا مزار تھا جہاں وہ چاہے کتنا ہی موسم غیر موافق کیوں نہ ہو شام کو ضرور جایا کرتے تھے - کبھی کبھی میرے غریب خانے پر بھی تشریف لے آتے تھے - بھائی صاحب بھی ان کو جانتے تھے -
مولوی صاحب ایک دن آئے اور پریشان سے بیٹھ گئے - میں نے کہا مولانا کیا بات ہے آپ کیوں پریشان ہیں - کہنے لگے کہ خواجہ صاحب کے مزار پر ایک ملنگ پڑا ہوا ہے جو اپنا نام بندہ شاہ بتاتا ہے - اس نے مجھ سے کہا کہ صاحب مزار نے مجھ سے ارشاد فرمایا ہے کہ تم ظہور الحسن کو بیعت کرلو - بظاہر بندہ شاہ کی ہئیت ایسی تھی کہ جیسے بھنگ چرس کا نشہ کرنے والوں کی ہوتی ہے -
اس لئے میری طبیعت گوارا نہیں کرتی کہ میں اس سے بیعت کروں لیکن جب یہ خیال آتا ہے کہ صاحب مزار نے حکم دیا ہے تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کروں -میں اس لئے پریشان ہوں -
میں ابھی اس کا کوئی جواب نہیں دے پایا تھا کہ بھائی صاحب بولے کہ آپ پریشان نہ ہوں کل صبح نماز پڑھ کے ادھر ہوتے ہوئے جائیے گا - میں بتادوں گا کہ صاحب مزار نے اس بندہ شاہ کو کوئی حکم دیا ہے کہ نہیں - آپ پریشان بالکل نہ ہوں - چنانچہ دوسری صبح جب مولوی ظہور الحسن صاحب تشریف لائے تو بھائی صاحب نے فرمایا کہ رات کو خواجہ لعل علی برنی سے ملاقات ہوئی تھی اور ان سے آپ کی بیعت کے بارے میں دریافت کیا تھا -
انہوں نے کہا ہے کہ ہم صاحب ارشاد نہیں ہیں ہم نے کسی کو بیعت کرنے کا حکم نہیں دیا -
جمال : آپ نے ان کی شاعری کا تذکرہ فرمایا - آپ کو اگر کچھ اشعار یاد ہوں یا تحریری طور پر موجود ہوں تو عنایت فرمائیں -
بخاری صاحب : آپؒ ( حضوربابا صاحب ) نے جو کلام ہندوستان میں فرمایا وہ وہاں ایک لکڑی کے صندوق میں رکھا ہوا تھا - اس کے علاوہ ان کی تمام دیگر تصانیف بھی اس میں تھیں - وہ صندوق ان کے ننھیالی گھر میں رکھا ہوا تھا - تقسیم سے کچھ دن پہلے آپ کانپور گئے اور کانپور سے بمبئی اور وہاں سے پاکستان آگئے تو وہ تمام ذخیرہ وہیں تباہ ہوگیا - دو چار شعر یاد ہیں وہ سنائے دیتا ہوں -
ہائے اس رنگین چہرے کا نظام بت کدے کی صبح میخانے کی شام
چاندنی تیری کلائی کی بہار چاندنی تیری کف سیمیں کا جام
ہوگا تیری محفل میں کوئی اور بھی جلوہ
مجھ کو تو محبت ہی محبت نظر آئی
ہر اک زبان پے تمہارا گلہ صحیح لیکن
مجھے یقین نہیں آتا کہ بےوفا ہو تم
روحانی ڈائجسٹ جنوری 1995ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں