اتوار، 29 مارچ، 2015

یاد عظیمؒ -- 7


                                     یاد عظیمؒ


مضمون :   کچھ یادیں کچھ باتیں
تحریر   :   احمد جمال عظیمی 
اشاعت  :    روحانی ڈائجسٹ   فروری 1993ء
                 ( حصہ اول ) 

انکی نسبت بھی ہے ، نام بھی ، افکار بھی عظیم 
گفتار بھی ،  اخلاق  بھی ،    کردار   بھی  عظیم 
روشن  روشن  راہوں  والی  سرکار  بھی   عظیم 
شمس  ہمارے  رہبر  ہیں  ،  دربار   بھی   عظیم 


1958ء کا ذکر ہے دفتر کے ایک ساتھی محترم یوسف علی خان ترین صاحب سے ان کی علالت کے دوران ربط ضبط بڑھا - ان کی بیگم صاحبہ نے ایک دن تذکرہ کیا کہ وہ لوگ ایک بڑے بزرگ کے پاس جاتے ہیں -
ترین صاحب کا مکان ناظم آباد کے بلاک نمبر تین میں تھا - قریب ہی ایک اور صاحب عین الدین رضوی رہتے تھے جو ان بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے - ترین صاحب کے  گھر میں ان بزرگ کا تذکرہ اکثر ہوا کرتا تھا جن کو وہ بھائی صاحب کہتے تھے -

 مجھے بھی ملنے کا اشتیاق ہوا چنانچہ ایک روز میں بھی ان لوگوں کے ہمراہ ان بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا - مجھے زندگی میں پہلے کسی بزرگ کی خدمت میں حاضری کی سعادت نصیب نہ ہوئی تھی - چنانچہ عجیب گو مگو کی حالت تھی کہ پتہ نہیں کیسے ہوں گے اور کیسے نہ ہوں گے -

گرمی کا زمانہ تھا - ون ڈی ون سیون کی پہلی منزل پر جہاں اب وقار یوسف عظیمی کا دفتر ہے وہاں دیوار کے پاس ایک لکڑی کے تخت پر جس پر نہ کوئی بستر تھا نہ چادر ، ایک صاحب تشریف فرما تھے - میرے ساتھیوں نے عرض سلام کے بعد مصافحہ کیا اور خاتون سلام کرکے ایک طرف بیٹھ گئیں -
 میں نے بھی سلام کیا اور مصافحہ کے بعد سامنے پڑی ہوئی ایک کرسی پر بیٹھ گیا - میرا تعارف کرایا گیا - سن کے تبسم فرمایا - بیگم ترین اپنے ہمراہ پان بنا کر لے گئیں تھیں - وہ ڈبیہ میں منتقل کئے - پھر آپ نے سب کی فرداً فرداً مزاج پرسی کی اب میں سمجھا کہ آپ ہی بھائی صاحب ہیں -

بیٹھنے کے بعد میں نے آپ کو دیکھا- آپ صرف لنگی پہنے ہوئے تھے - اوپر کے جسم پر کوئی لباس نہیں تھا - مجموعی تاثر ایک عام معمر شخصیت کا تھا - نہ کوئی طمطراق ، نہ کوئی تقدس صرف اور صرف محبت اور شفقت کا احساس - گفتگو میں دھیما لہجہ اور لبوں پر مسکراہٹ ، چہرہ پر سنجیدگی ، آنکھوں میں سوچ اور فکر کی گہرائی -
نشست میں انفرادیت تھی - دونوں پیروں کی ایڑیاں ران سے لگی ہوئی اور پنڈلیوں کے اوپر گھٹنوں سے نیچے دونوں ہاتھ اس طرح آئے ہوئے کہ دائیں ہاتھ کی پشت کو پکڑا ہوا - آپ کو بعد میں بھی ہمیشہ اسی نشست میں بیٹھے دیکھا - 

اس زمانہ میں آپ بیڑی پیتے تھے - جب بھی پان یا بیڑی استعمال کرتے حاضرین کو پہلے پیش فرماتے - چنانچہ میں نے پان بھی کھایا اور بیڑی بھی پی - اتنے میں کھانے کا وقت ہوگیا - کھانا آگیا اور ہم سب نے آپ کے ساتھ کھانا کھایا - تیسرے پہر اجازت طلب کرکے ہم لوگ واپس ہوئے -
اس کے بعد آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہوا - عظیمی صاحب اور بچوں سے مانوس ہوا - اگست 1960ء میں غلامی کی درخواست پیش کی - قبول فرمائی - حضرت خواجہ صاحب سے فرمایا کہ سبق دیدو - اس طرح مجھے غلامی کا شرف حاصل ہوا لیکن صورت یہ تھی کہ نہ میں آداب غلامی سے واقف اور نہ غلام سے کسی مشقت کا تقاضہ - صرف ذوق و شوق کے جذبے کی تزئیں پر زور -

بیعت کے بعد ایک خاص تعلق خاطر وجود میں آیا - مراقبہ ہمیشہ سے جمعہ کو ہوتا تھا - میں نے پہلا مراقبہ 2 ستمبر 1960ء کو کیا - اس کے بعد حاضری میں اضافہ ہوا اور حضور بھائی صاحب کے ارشادات سننے ، اوصاف حمیدہ دیکھنے اور ان کے معمولات کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا - 

آپ کی طبیعت میں حد درجہ نفاست اور انتظام تھا - سر کے بال اور داڑھی دس پندرہ روز میں ضرور ترشواتے - سر کے بال کبھی ایک انچ سے اور داڑھی کے بال نصف انچ سے بڑے نہ دیکھے - سر پر نہ کبھی استرا پھروایا اور نہ کبھی زلفیں رکھیں -
لباس عمدہ مگر سادہ استعمال کرتے تھے - قمیض میں کالر نہیں ہوتا تھا - پاجامہ چوڑے پائنچہ کا ، موری تقریباً چھ انگل لوٹی ہوئی - گرمی میں صرف قمیض پاجامہ میں لیکن سردیوں میں جب کہیں باہر تشریف لے جاتے تو شیروانی اور ٹوپی ضرور پہنتے -

جوتے ہمیشہ براؤن رنگ کے پہنتے - سیاہ رنگ جوتے استعمال نہیں کرتے تھے فرماتے کہ جو آفاقی  شعاعیں (Cosmic Rays ) دماغ پر وارد ہوتی ہیں -وہ جسم میں دور کرتے ہوئے پیروں کے راستے زمین میں جذب ہوجاتی ہیں لیکن اگر سیاہ رنگ جوتے پہنے جائیں تو سیاہ رنگ ان کو جذب کرکے زمین تک نہیں جانے دیتا جس سے جسم اور ذہن کو نقصان ہوتا ہے - 

استعمال کی ہر چیز کی ایک جگہ مقرر تھی - شیروانی ، دھل کر آئے ہوئے کپڑے ، بستر پر تکیہ ، پائنتی پر چادر ، تکیہ کے بائیں جانب ٹوپی ، زیر مطالعہ کتاب یا رسالہ ، قلم ، کتابوں کی الماری میں کتابوں کی ترتیب ایسی کہ فلاں خانے میں دائیں طرف تیسری کتاب یا بائیں جانب پانچویں کتاب فلاں مضمون پر ہے نکالو -
حتیٰ کہ جوتے اتارتے وقت اس التزام سے رکھتے کہ جوتے ایک سوت بھی آگے پیچھے نہ ہوتے - پان کھانے کی وجہ سے دانت لال ہوجاتے ، کوئلے سے دانت اچھی طرح صاف کرتے - صفائی کے بعد دانت ایسے چمکتے جیسے موتی - یہ کام اکثر عثمان آباد کے مکان میں ہوتا - 

 بات نہایت واضح اور نرم لہجے میں کرتے - مزاح خود بھی فرماتے اور دوسرے کی شگفتہ بات کو پسند فرماتے - تبسم فرماتے یا ہنستے لیکن کبھی قہقہہ نہیں لگایا - کھانے میں کبھی تکلف نہیں کیا جو سامنے آیا کھا لیا لیکن کبھی اچھے کھانے سے شوق بھی کرتے -  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں