پیر، 23 مارچ، 2015

یاد عظیمؒ -- 2




                                  یاد عظیمؒ 




محترم احمد جمال صاحب :
                                    یہ 1958ء کی بات ہے - ہمارے ایک  دوست تھے یوسف خان ترین صاحب - ان ہی کے ساتھ میں ایک دفتر میں کام کرتا تھا - رہائش بھی قریب قریب ہی تھی - ان کا اس زمانے میں بابا صاحبؒ کے ہاں آنا جانا تھا -انہوں نے ایک دفعہ بابا حضور کا تعارف اس طرح کروایا کہ ہمارے پیر و مرشد بہت بڑے بزرگ ہیں - میرے لئے یہ بڑی عجیب بات تھی -

اس زمانے میں اتوار کی چھٹی ہوا کرتی تھی - ایک دفعہ ترین صاحب مجھے ان سے ملوانے لے گئے - گرمی کا زمانہ تھا 1D ،1/7 میں دوسری منزل پر جہاں اس وقت ایڈیٹر روحانی ڈائجسٹ کا دفتر ہے -وہاں لکڑی کے تخت پر حضور بابا صاحبؒ  بیٹھے ہوئے تھے -
تخت بالکل کھرّا تھا یعنی اس پر کوئی چیز نہیں بچھی ہوئی تھی اور غالباً اس وقت تہمد باندھے ہوئے تھے - سلام کیا ، ہاتھ ملایا اور بیٹھ گئے - ان کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات میں ، میں نے ایک بات محسوس کی کہ انہوں نے کبھی بھی یہ تاثر نہیں دیا کہ وہ بہت بڑے آدمی ہیں - انہوں نے کبھی اس قسم کا رویہ اختیار نہیں کیا جس میں تقدس ہو - شروع سے لے کر آخر تک ایک ہی تاثر رہا -

 اس زمانے میں آپ بھائی صاحب کہلوایا کرتے تھے -  بھائی صاحب کہلوانے کی وجہ یہ تھی کہ ان کے چھوٹے بھائی انہیں بھائی صاحب کہا کرتے تھے - ان کے چھوٹے بھائی کے ایک دوست تھے وہ بھی اپنے دوست کی وجہ سے بابا حضور کو " بھائی صاحب " کہا کرتے تھے - چنانچہ اس لئے سب انہیں بھائی صاحب کہا کرتے تھے -
پھر ڈاکٹر عبدالقادر صاحب جو سہون میں مدفون ہیں انہوں نے بابا حضور کو حضور بھائی صاحب کہنا شروع کیا اس طرح آپ " حضور بھائی صاحب " کہلائے جانے لگے -  " قلندر بابا اولیاؒء " تو وصال کے بعد زبان زد عام ہوا -

 سلسلہ عظیمیہ میں بیعت ہونے کے سوال پر احمد جمال صاحب نے بتایا کہ بابا صاحب تو خاندانی طور سے مجھ سے واقف تھے یعنی میرے بزرگوں سے واقف تھے - 1958ء  کے بعد 1960ء اگست کے آخری ہفتے میں مجھے اندر سے بے چینی محسوس ہوئی میں بابا حضور کے پاس پہنچ گیا اور میں نے بیعت کی درخواست کردی - انہوں نے خواجہ صاحب سے کہا کہ انہیں سبق دے دیجئے - انہوں نے خواجہ صاحب کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ سلسلہ آپ نے چلانا ہے -

اس کے بعد میرا مسلسل 1D ،1/7 میں آنا جانا رہا - اس کا کوئی خاص وقت مقرر نہیں تھا - دفتر سے آکر چلے گئے - رات کو بیٹھے ہوئے ہیں ، شام کو بیٹھے ہوئے ہیں - کبھی دفتر جانے سے پہلے چلے گئے - جب بھی فرصت ملی -اس زمانے میں حضور بابا صاحبؒ جمعہ کی شام کو حیدری چلے جایا کرتے تھے اور پھر اتوار کی شام کو واپس 1D ،1/7 آیا کرتے تھے -
مراقبہ ہمیشہ انہوں نے خواجہ صاحب سے ہی کروایا - ان کی سربراہی میں اس زمانے میں 1D ،1/7 کی تیسری منزل پر مراقبہ ہوتا تھا - بابا صاحب سنجیدہ طبیعت کے مالک تھے - آپ کبھی زور سے نہیں ہنسے ، مسکراتے تھے -
 ان کی شخصیت کا ایک ممتاز پہلو یہ بھی تھا کہ عموماً کبھی ایسا ہوا کہ گھر سے سوال لے کر بابا حضور کے پاس گئے - ان کے پاس جا کر کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی ، کسی نہ کسی بات کے اندر جواب مل جاتا تھا -  

بابا حضورؒ نے اپنی رباعیات مجھ سے لکھوائیں - وہ کرتے یہ تھے کہ رباعیات کو تحریر کرنے کے بعد ان کی تصحیح کرتے اور تصحیح کے بعد اس کی Fair Copy مجھ سے کرواتے تھے - پھر ان کے ذہن میں خیال آیا ، یہ خواہش بیدار ہوئی کہ ان رباعیات کا تصویر نامہ بنوایا جائے - یعنی ان رباعیات کی تصویر کشی کی جائے جس سے ان کا مفہوم واضح ہو -
 مجھے اس وقت کے مشہور مصور آذر زوبی کے پاس بھیجا - میں نے ان سے بات کی اور ان رباعیات کی تصویریں بنوائیں - پھر انہیں محسن صاحب کے سپرد کیا کہ اس کی کتابت و پرنٹنگ کروائی جائے - ایک دفعہ ایسا ہوا کہ محسن صاحب ٹیکسی پر بیٹھ کر گھر پہنچے اور رباعیات مع تصاویر کے ٹیکسی میں ہی بھول گئے - یاد آنے پر فوراً نیچے آئے - لیکن ٹیکسی غائب -
اب جناب اس کی ڈھونڈائی مچی - کئی دن تک ایک ٹیکسی پر میں اور محسن صاحب پوری کراچی میں ڈھونڈتے رہے کہ کہیں وہ ٹیکسی ڈرائیور مل جائے - لیکن وہ نہ ملنا تھا نہ ملا -  
بابا صاحب کو اس مسودے اور تصاویر کی گمشدگی کا بہت افسوس ہوا لیکن انہوں نے اس کا زیادہ غم نہ کیا - ایک دفعہ انہوں نے بتایا کہ ، " الله تعالیٰ کو منظور نہیں تھا " -
انہوں نے بہت ہی Balance لائف گزاری ہے - ورنہ بابا حضور کے لئے کیا مسئلہ تھا ان رباعیات کا تلاش کرنا یا تخلیق کرنا -ایک دفعہ ایسا ہوا کہ بہت جذب کی کیفیت میں تھے تو طبیعت ناساز ہوگئی - ہسپتال میں داخل کروایا گیا - ایک دن اسی کیفیت میں چلتے چلتے دیوار میں سے دوسری طرف نکل گئے - جیسے ہی انہیں شعور کا احساس ہوا دیوار تو شعور ہے انہیں جھٹکا لگا  اور وہیں گرگئے -
 جب ہم عید کے موقع پر ان سے ملنے جایا کرتے تو وہ عید ملنے کے بعد تمام مہمانوں کو ایک روپے کا بالکل نیا نوٹ بطور عیدی دیا کرتے تھے -


محترم نسیم احمد صاحب : 
                                میں 1977ء سے حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کو جانتا ہوں - اور ان سے ملاقات میں ہوں - عظیمی صاحب کے ذریعے بابا صاحب کا غائبانہ تعارف تھا - ان دنوں عظیمی صاحب تقریباً روز صبح بابا صاحب کے پاس جایا کرتے تھے اور میں شام کو عظیمی صاحب کے پاس آیا کرتا تھا - اکثر ان سے بابا صاحب کے متعلق بات ہوتی تو انہوں نے کہا کہ کبھی آپ کو بھی لے جائیں گے - ایک روز عظیمی صاحب کہنے لگے کہ چلیں آپ کو بابا صاحب سے ملوا کر لاتے ہیں - 


میں ان کے ساتھ حیدری بابا صاحب کی رہائش گاہ پر گیا - بابا صاحب سے ملاقات ہوئی ، انہوں نے سر پر ہاتھ رکھا - اس وقت ان کے چہرے پر جو مسکراہٹ تھی میں اسے بیان نہیں کرسکتا - اس قدر شفقت اور اتنی محبت تھی اس میں کہ آج بھی میرے ذہن پر اس کا بہت گہرا Impression ہے -
انہوں نے عظیمی صاحب سے فرمایا ... " چائے ، نسیم صاحب کے لئے " مجھے بڑی شرم آئی کہ خدمت تو ہمیں ان کی کرنی چاہیئے - اس ملاقات کے دوران میں نے ان سے سوال کیا کہ تصوف کسے کہتے ہیں -
بابا صاحب نے جواب دیا ... " ایسا نور باطن ، ایسا خالص ضمیر ، جس میں آلائش قطعاً نہ ہو - "  ان کے ذہن کی خوبی تھی کہ سوال کرنے والے کی ذہنی سطح کو سامنے رکھ کر جواب دیا کرتے تھے - 

نسیم صاحب کا پامسٹری کی فیلڈ میں اچھا خاصا علم ہے - جب ان سے بابا صاحب کے ہاتھوں کی لکیروں کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ جب میں بابا صاحب سے ملنے گیا تو میری نشست اس طرح تھی کہ میں بآسانی بابا صاحب کے دونوں ہاتھوں کو دیکھ سکتا تھا اور بابا صاحب نے بھی دونوں ہاتھوں کو اس انداز میں پھیلا کر رکھ دیا کہ میں بآسانی ان کے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھ رہا تھا - 
اس وقت تو میرے ذہن میں نہیں آیا لیکن اب آتا ہے کہ اس دن خاص طور سے انہوں نے ہاتھوں کو میرے سامنے رکھا ورنہ اس نشست میں نہیں بیٹھا جاتا کہ آپ دونوں ہاتھوں کو پھیلا کر بیٹھیں -
  
پامسٹری میں بہت سی چیزیں ہوتی ہیں ، مسٹری کراس Mystery Cross ہوتے ہیں - سب سے اہم Brain Line  ہوتی ہے - بابا صاحب کے ہاتھ جیسی برین لائن میں نے آج تک نہیں دیکھی - بابا صاحب کی  برین لائن ہاتھ کی پشت کے وسط تک تھی - جو ظاہر کرتی تھی کہ ان کا  Extra Ordinary ذہن تھا -
انگلیوں کی ایک ساخت ہوتی ہے -  اس میں کچھ گرہیں ہوتی ہیں - یہ گرہیں سوچ کی علامت ، تفکر اور سوچ کی  گہرائی کے بارے میں بتاتی ہیں - بابا صاحب کی انگلیاں بتاتی تھیں کہ بہت اعلیٰ درجے کے منتظم ہیں - روحانی آدمی ہیں - کام لینے کی صلاحیت اور انتظامی امور میں عبور حاصل ہے -
ہاتھ کی لکیریں جتنی گہری ہوں گی ذہن میں بھی اتنی ہی گہرائی ہوتی ہے - میں نے ان کے ہاتھ میں بہت گہری اور چند لکیریں دیکھیں ہیں چند لکیروں کا مطلب ہوتا ہے کہ ذہن صاف ستھرا اور مطمئن اور پرسکون ہے - ان کے ہاتھ کی ساخت چوکور تھی - یعنی عملیت پسند Practical ہیں - 

جن آدمیوں کے ہاتھ پر مسٹری کراس ہوتا ہے ، وہ جس شعبے میں بھی ہوتے ہیں کلیدی پوسٹ پر ہوتے ہیں - اور یہ لاکھوں کے ہاتھ میں کسی ایک میں ہوتا ہے - اسی لئے پامسٹری کی عام کتابوں میں اس کا تذکره بھی کم ہے - میں نے بابا صاحب کے ہاتھ پر یہ کراس دیکھا ہے - 




روحانی ڈائجسٹ  --  جنوری 1997ء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں