جمعہ، 20 مارچ، 2015

یاد عظیمؒ -- 1






                                         یاد عظیمؒ 


 " یاد عظیمؒ "  ان خوش نصیب افراد کی یادداشتیں ہیں جنہیں حضور قلندر بابا اولیاؒء کی قربت کی سعادت میسر آئی -

ان افراد میں 

 زوجہ محترمہ قلندر بابا اولیاؒء ،

 شمشاد احمد صاحب ( حضور بابا صاحبؒ  کے بڑے صاحبزادے ) ،

 رؤف احمد صاحب (  بابا صاحبؒ کے چھوٹے صاحبزادے ) ، 

سید نثار علی بخاری صاحب (حضور بابا صاحبؒ کے بچپن کے دوست )

احمد جمال عظیمی صاحب ، نسیم احمد صاحب ، 

وقار یوسف عظیمی صاحب ( عظیمی صاحب کے صاحبزادے ) ،

سلام عارف عظیمی صاحب ( عظیمی صاحب کے صاحبزادے ) ،

 کنول ناز گل صاحبہ ( عظیمی صاحب کی صاحبزادی ) شامل ہیں -   


 زیر نظر مضمون  شہزاد احمد قریشی صاحب کی کاوش ہے جو جنوری 1997 کے روحانی ڈائجسٹ میں " کچھ یادیں کچھ باتیں " کے عنوان سے شائع ہوا - شہزاد احمد نے ان خوش نصیب افراد سے ملاقات کی جنہیں  حضور قلندر بابا اولیاؒء کی قربت کی سعادت میسر آئی اور دوران ملاقات ہونے والی گفتگو کو مضمون کی شکل میں ترتیب دیا -

زوجہ محترمہ قلندر بابا اولیاؒء :

بابا بڑے سیدھے سادھے آدمی تھے - ان میں نمود و نمائش بالکل نہیں تھی - سادگی پسند تھے - فضول خرچ نہیں تھے - ان کے والد صاحب تحصیل میں نوکر تھے - والدہ کا انقال ہوچکا تھا - یہ 6 بہنیں اور 2 بھائی تھے -
بہت اچھے شوہر تھے - بحیثیت والد کے بہت ہی مشفق اور محبت کرنے والے باپ تھے - کبھی بھی انہوں نے نہ بچوں کو مارا اور نہ گھرکی دی - سب سے کہتے تھے کہ بچوں کو مارو نہیں ، پیار سے کام لو - بچوں سے جھوٹ مت بولو - نہ بڑے جھوٹ بولیں نہ بچہ جھوٹ بولے -
میں اپنی بڑی لڑکی سے عموماً کہا کرتی تھی کہ روبینہ .. میں تجھے یہ چیز دوں گی - میرا یہ کام کردے تو بابا صاحبؒ  فوراً بولتے کہ یہ جھوٹ بولا ہے -   
کھانے میں کوئی خاص چیز پسند نہیں تھی ، سب کچھ کھا لیا کرتے تھے -
فوج کی ملازمت کے حوالے سے اماں جی نے بتایا کہ دہلی میں 4 مہینے کی ٹریننگ کے بعد 300 آدمیوں کی نفری کے ہمراہ بمبئی گئے اور وہاں سے پونا گئے - ایک دفعہ آرمی میں Duty کے سلسلے میں کولمبو گئے -
ایک دن اپنے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ وہاں ایک گولا آکر گرا - اس وقت بابا صاحب نے جو حفاظتی ٹوپی سر پر لی ہوئی تھی اس میں جو آنکھوں کی حفاظت کے لئے شیشہ تھا وہ دھماکے کی شدت سے ٹوٹ گیا اور کافی سارا دھواں مٹی سمیت سانس کے ذریعے اندر چلا گیا - اور پسلیاں اندر دھنس گئیں - بہت تکلیف ہوئی ، زخمی بھی ہوگئے -
آخر عمر تک ٹانگوں پر ان زخموں کے نشان موجود تھے - انہیں ہسپتال میں داخل کردیا گیا - نیند کے انجکشن وغیرہ لگائے گئے - ہمارے پاس ان کی کوئی خبر ہی نہیں تھی - دو ماہ سے ان کا کوئی خط ہی نہیں آیا تھا -
خیر ... ہسپتال سے فارغ ہوتے وقت ڈاکٹروں نے کہا کہ آپ پہاڑی علاقے میں چلے جائیں تاکہ مکمل صحت مند ہوجائیں - انہوں نے کہا ... " نہیں میں گھر جاؤں گا " .. ڈاکٹرز کہنے لگے کہ گھر جاؤ گے تو مر جاؤ گے - انہوں نے جواب میں کہا کہ ... " میں نہیں مرتا  " ... - دہلی میں آئے ، دہلی میں میری والدہ اور ان کی بہن کا گھر تھا -ان کے والد صاحب بہت ہی شریف النفس اور شفقت کرنے والی شخصیت کےحامل تھے -
انہوں نے بڑی شفقت اور توجہ کے ساتھ علاج کرایا اور تیمار داری کی - تکلیف کے باعث وہ کروٹ نہیں لے سکتے تھے - سارا دن کچھ نہ کچھ دوائی ملتی رہتی تھی - صحت مند ہونے کے بعد واپس اپنی ملازمت پر چلے گئے - جاپان کی جنگ میں بھیجنے کی بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ میرے والد بوڑھے ہیں - پہلے میں ان سے پوچھ لوں -

اپنے والد صاحب کا بہت ادب کیا کرتے تھے - ان کے سامنے بیٹھ کر بولا بھی نہیں کرتے تھے - انہوں نے شاعری کی ایک کتاب بھی لکھی اور اس کا مسودہ انہوں نے ایک شخص کو کتابت کے لئے دیا کہ اس کی کتابت کروا کر لے آئیں لیکن وہ اس سے گم ہوگیا اور اس طرح وہ شاعری منظر عام پر نہ آسکی - 

فرائض کی ادائیگی کے معاملے میں بابا صاحبؒ بہت پابند تھے - اور دوسروں کو بھی اس کی تاکید کرتے تھے کہ فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہو - ان کے ڈرائیور کی دیگر ذمہ داریوں میں ایک ذمہ داری یہ بھی تھی کہ وہ جمیل صاحب (   بابا صاحبؒ کے داماد ) کو گھر لایا کرتا تھا -
 ایک روز شمشاد ( بابا صاحبؒ کے صاحبزادے ) نے ڈرائیور سے گاڑی مانگی اور گاڑی لے کر چلا گیا ... اور ڈرائیور جمیل صاحب کو لانا بھول گیا - انہوں نے پوچھا کہ جمیل کہاں ہے ؟ ڈرائیور نے کہا بھائی شمشاد نے گاڑی مانگی تھی اس لئے میں جمیل صاحب کو نہیں لا سکا -  بابا صاحبؒ نے بہت خفگی کا اظہار کیا کہ تم نے اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتاہی کیوں کی - 


کئی سال تک بابا صاحبؒ ، خواجہ صاحب ( خانوادہ سلسلہ عظیمیہ ) کے ہاں رہے - اس دوران ان کی روٹین تھی کہ جمعہ کی شام کو آتے اور اتوار کی شام چلے جاتے - ایک دفعہ میں نے ان سے کہا کہ اپنے گھر میں رہیں تو انہوں نے کہا کہ ..." فقیر کو جہاں کا حکم ہوتا ہے ، فقیر وہاں رہتا ہے - "   


محترم شمشاد احمد صاحب :(حضور بابا صاحبؒ کے بڑے صاحبزادے) 


جب ابا کو ولایت ملی اس وقت میری عمر کوئی دس گیارہ سال کی تھی - اور ہم اس وقت عثمان آباد میں شو مارکیٹ کے پاس رہا کرتے تھے - ایک دن مجھے پتا چلا کہ ابّا دو تین روز ہوگئے اپنے کمرے میں ہیں - اس دوران وہ کسی سے بات بھی نہیں کر رہے -
اس دوران اماں دروازہ کھٹکھٹا کر کھانا یا پانی وغیرہ کمرے میں رکھ دیتی تھیں - ان تمام دنوں میں انہوں نے کمرے میں روشنی بھی نہیں کی - عثمان آباد والے گھر میں اس وقت بجلی نہیں تھی - مٹی کے تیل کی لالٹین استعمال ہوتی تھی - اور لالٹین صاف کرنا میری ذمہ داری تھی - نہ لالٹین کمرے سے باہر آئی اور نہ جلی -

چند روز کمرے میں تنہا رہنے کے بعد جب وہ باہر آئے تو ان کے چہرے پر ایک خاص کیفیت نظر آتی تھی - پھر کچھ لوگوں کی آمد و رفت شروع ہوئی جن سے ہم پہلے واقف نہیں تھے - ان لوگوں میں ایسے افراد کی تعداد زیادہ ہوتی تھی جو ابّا سے سوال و جواب کیا کرتے تھے -
بہت عرصے تک تو ہمیں پتا ہی نہیں چلا کہ ابّا روحانی شخصیت ہیں - ان لوگوں کے ذریعے جو ابّا سے ملنے آیا کرتے تھے ، بہت عرصے کے بعد پتا چلا - ابّا نے ہمیں یہ بات نہیں بتائی - روحانیت میں اتنا اہم مقام حاصل ہونے کے بعد بھی ان کے معمولات یا بول چال میں کسی قسم کی تبدیلی واقع نہیں ہوئی -

صبح ساڑھے سات بجے ماہنامہ نقاد کے دفتر جو مولوی مسافر خانہ کے پاس تھا ، چلے جاتے اور شام پانچ یا ساڑھے پانچ بجے واپس گھر آتے تھے - گھر سے دفتر تک پیدل جاتے اور آتے تھے - اس کے بعد کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کسی صاحب کے ساتھ گاڑی میں آئے - جو صاحب بھی گھر چھوڑنے آتے تھے ابّا ان سے باہر ہی گفتگو کرتے تھے - کبھی گھر میں نہیں لائے -
بعد میں پتا چلا کہ یہ تو روحانیت پر گفتگو ہوا کرتی تھی - ہم سمجھتے تھے کوئی دوست وغیرہ ہیں -انہوں نے اپنی روٹین کو برابر  جاری رکھا اور اپنے روحانی معاملات کو رات میں اپنے کمرے میں تنہائی میں کرتے - انہوں نے کبھی محسوس نہیں ہونے دیا کہ ان میں تبدیلی آرہی ہے -

ہمارے گھر کا ماحول کچھ ایسا تھا کہ ہم اپنے والد سے کوئی فرمائش نہیں کرسکے - ہمارے دادا نے اس طریقے سے ہمیں مصروف کردیا تھا نمازوں کی طرف ، قرآن کی طرف اور پڑھائی کی طرف - اس طرح ہمارے پاس دیگر کھیل کود میں حصہ لینے کا وقت نہیں تھا - اسی وجہ سے ہمارا  گھر سے باہر نکلنا نہیں ہوتا تھا - یعنی گھر سے اسکول اور مسجد کا آنا جانا تھا - گھر میں کیرم بورڈ یا لیڈو تھی - آفتاب بھائی ( بڑے بھائی ) کے ساتھ کھیل لیا کرتے تھے - 


ابّا چیخ کر بولنے کو سخت ناپسند کرتے تھے - ہمارے جاننے والوں میں کچھ عادتاً اونچی آواز میں بولتے تھے تو ابّا فرماتے ..." ارے بھئی ، آہستہ بولا کرو .. بلا وجہ کیا بلڈ پریشر ہائی کرنا -"
 اگر وہ کہتے کہ بھائی صاحب عادت بن گئی ہے ،
تو آپ کہتے ..." کیا عادت بن گئی ہے ؟ بنا لی ہے ، صحیح کرلو - کیا فائدہ ؟ اتنی زور سے کیوں بولتے ہو - "

 ان کی ایک نصیحت جو مجھے ابھی تک یاد ہے ان کے الفاظ تھے کہ ..." آواز کمرے سے باہر نہیں جانی چاہیئے - " 
دوسرے کمرے میں آواز سے کوئی پریشانی نہ ہو - یہ ہمیشہ سے ہی ہم نے دیکھا کہ وہ خود بھی اتنی آواز سے بولتے تھے کہ جو ذہن کو مرتعش نہ کرے - اگر کسی نے ان کے ساتھ غلط بات کی یا غلط رویہ اختیار کیا تو انہوں نے اپنی ناراضگی یا خفگی کا اظہار اپنی آواز سے نہیں کیا - کبھی درشت لہجہ اختیار نہیں کیا -   


اپنی روزمرہ کی چیزوں کو بہت ترتیب اور مقررہ جگہوں پر ہی رکھتے تھے -  مثلاً دفتر سے آکر اچکن کو جھاڑ کر ہینگر میں لٹکاتے تھے - اچکن کو کبھی کیل پر نہیں لٹکایا - جوتے اتارنے کے بعد جھاڑ کر برابر رکھتے تھے - جوتوں کو آگے پیچھے یا غیرمتوازن نہیں رکھتے تھے - پتلون کی کس جیب میں چابی ہوتی ہے ، ہاتھ لاشعوری طور پر اس جیب میں جاتا اگر چابی دوسری جیب سے ملتی تو خفگی سے اظہار کرتے کہ بھئی یہاں پرکیسے آگئی چابی -  



انہوں نے ہمیں سختی سے ہدایت کی تھی کہ اگر کسی کی کوئی بات سامنے آجائے تو اسے بیان نہ کیا جائے ، اور اس سے ذاتی فائدہ نہ اٹھایا جائے -
 ان کے الفاظ تھے ... " کبھی الله کے نام کو بیچنے کی کوشش نہیں کرنا - "
ایک دفعہ میں اکیلا ابّا کے پاس کمرے میں بیٹھا ہوا تھا تو میں نے ان سے  کہا کہ مجھے کوئی خاص بات ، باتیں یا نصیحت کریں - تو انہوں نے کہا کہ ... " کسی کو سینگ نہیں مارنا " ، میں نے کہا کہ میں سمجھا نہیں -
کہنے لگے ... " آدمی دو طرح کے ہوتے ہیں ، ایک وہ جو انسان ہوتے ہیں اور ایک وہ ہوتے ہیں جو لوگوں کو تنگ کرتے ہیں - تنگ کرنے والے جو ہوتے ہیں وہ سینگ مارتے ہیں - جیسے بیل خواہ مخواہ سینگ مارتا ہے اپنی غرض سے غرض رکھو - کسی کے کام میں دخل مت دو - کسی پر مسلط ہونے کی کوشش مت کرنا اور نہ اس کی ٹوہ کہ کوئی کیا کر رہا ہے - "


جب مجھے کار چلانے کا لائسنس مل گیا تو ابّا کی اجازت ملی کہ اب میں اکیلا گاڑی چلا سکتا ہوں - جب میں پہلی دفعہ اکیلا گاڑی چلانے کے لئے جانے لگا تو انہوں نے کہا کہ غور سے ایک بات سنو -
کبھی غصے کی حالت میں گاڑی نہیں چلانا - بالکل ذہن کو ٹھنڈا رکھ کر گاڑی چلانا - اور کچھ بھی ہوجائے گاڑی چلاتے ہوئے غصہ نہیں کرنا اور اگر کبھی غصہ آجائے تو گاڑی روک کر پانی پی لو اور لاحول پڑھ لو - تھوڑی دیر آرام کرلو - ٹہل لو - لیکن غصہ کی حالت میں گاڑی چلانا نہیں ہے -  



ہمارے بڑے بھائی آفتاب بھائی کا ستائیس سال کی عمر میں انتقال ہوا - اس وقت ابّا 1D ،1/7 میں تھے - میں یہ خبر دینے کے لئے ان کے پاس گیا - میں نے ان کے قریب ہی کھڑے ہوکر آہستہ سے کہا بھائی کا انتقال ہوگیا ہے - صرف اتنے ہی الفاظ تھے اور بس -
انہوں نے میری طرف دیکھا اور وہ نظر میں کبھی نہیں بھول سکتا - میں نے دیکھا کہ ان کی دونوں آنکھیں جو پوری طرح روشن تھیں ان کی روشنی اسی وقت ختم ہوگئی - دونوں آنکھوں میں پتلی کی جگہ سفیدی آگئی - اسی وقت سفیدی آگئی - دیر نہیں لگی تھی اس میں - بس انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا اچھا تم جاؤ ، میں آجاؤں گا -  بالکل نارمل لہجہ تھا اور میں واپس گھر آگیا -

تقریباً گھنٹہ سوا گھنٹہ کے بعد ابّا بھی گھر پہنچ گئے - بعد میں ان کی دونوں آنکھوں کا آپریشن ہوا تھا - لیکن ان کی آنکھیں نارمل نہیں ہوسکیں - عینک لگ گئی تھی - ان دونوں آنکھوں کو بےنور ہوتے ہوئے میں نے خود دیکھا ہے - آفتاب بھائی کی خبر سن کر انہوں نے کسی قسم کی Feeling حزن یا غم کا بالکل اظہار نہیں کیا - انہوں نے اس کا بھی اظہار نہیں کیا کہ انہیں نظر نہیں آرہا ہے -  


بابا صاحب کے وصال کی تفصیلات بتاتے ہوئے شمشاد صاحب نے بتایا کہ ... وصال کے چند ماہ پہلے سے ان کی طبیعت خراب رہنا شروع ہوگئی تھی - آہستہ آہستہ چلنا پھرنا پھر اٹھنا بیٹھنا اور پھر کھانا پینا بھی بند ہوگیا - آخری دنوں میں اپنے کمرے تک محدود ہوگئے تھے - نقاہت کے باعث ہاتھوں کی حرکت بھی ختم ہوچکی تھی - ساکت لیٹے رہتے تھے -
ستائیس رجب ( صفر ) یا ستائیس جنوری کو شام کو میں اپنی ڈیوٹی سے رات بارہ بجے کے بعد گھر پہنچا - ابّا کے کمرے میں جا کر انہیں دیکھا - انہوں نے آنکھوں کے اشارے سے بتایا کہ ٹھیک ہے - میں اپنے کمرے میں چلا گیا - پھر رات کو ایک بجے کے قریب ان کے کمرے میں گیا ، کچھ محسوس نہیں ہوا - عام روٹین کی طرح ساکت تھے -
رات ڈیڑھ بجے کے بعد مجھے بےچینی محسوس ہوئی تو میں ان کے کمرے میں گیا - جب میں ان کے کمرے میں داخل ہوا تو ان کی آنکھوں میں سے زندگی کی روشنی ختم ہوچکی تھی - وقت ختم ہوگیا تھا - میں ان کے قریب گیا ، سانس دیکھا ، دل کی دھڑکن دیکھی ، کلائی سے حرارت دیکھی -
جسم ٹھنڈا ہوچکا تھا - میں نے اماں کو بتایا ، پھر بہن کو بتایا - جس نوعیت کی بیماری تھی اس کے لئے ہم ذہنی طور پر تیار تھے - اس لئے اس وقت نارمل رہے - اور یہ ضبط کرنا ضروری  بھی تھا کیونکہ تربیت کا یہی تقاضا تھا - ابّا بین کو یا رونے پیٹنے کو ناپسند کرتے تھے -  



محترم رؤف احمد صاحب : ( بابا صاحب کے چھوٹے صاحبزادے ) 


میں نے کبھی ابّا سے ضد نہیں کی - وہ بہت ہی شفیق اور پیار کرنے والے تھے - بڑے آرام سے سمجھا دیا کرتے تھے اور ہم سمجھ بھی جایا کرتے تھے - جب وہ بیرون شہر جاتے تھے تو ہمارے لئے کھلونے وغیرہ لایا کرتے تھے - ایک دفعہ بس لائے تھے - ایک دفعہ اڑن طشتری لائے تھے -

اگر میں ان سے کوئی فرمائش کرتا تو فرماتے .. " ہاں صحیح ہے ، ٹھیک ہے ، جیسے ہی وقت ہوگا ہوجائے گا - "

انہیں غصہ تو آتا ہی نہیں تھا -    میں نے دیکھا کہ ان کے پاس ہر مکتبہ فکر کے لوگ آیا کرتے تھے - ابّا انہیں مطمئن کردیا کرتے تھے - میں نے ایسا نہیں دیکھا کہ کسی فرد کے سوال پر ابّا نے جھنجھلاہٹ کا اظہار کیا ہو - مقابل کی ذہنی سطح کے مطابق تسلی بخش جواب دیا کرتے تھے -

جب ابّا میرے لئے موٹر سائیکل لے کر آئے تو مجھے موٹر سائیکل چلانا نہیں آتی تھی - بہنوئی کے ساتھ لائے تھے - موٹر سائیکل جب گھر میں گیٹ سے اندر لائے تو اس وقت ابّا نے مجھ سے کہا تھا کہ دیکھو ہینڈل کی طرف کبھی بھی مت دیکھنا - سامنے دیکھنا - حالانکہ ہم نے اپنے ہوش میں ابّا کو کوئی سواری چلاتے ہوئے نہیں دیکھا - پیدل چلتے تھے یا کوئی گاڑی میں گھر چھوڑ دیتا تھا -

وہ زندگی میں حقیقت پسند تھے - جذباتی نہیں تھے - انہوں نے ایک دفعہ کہا کہ ... " اپنا حق لینے کے لئے اگر کسی کو کچھ دینا پڑتا ہے تو وہ اسے دیں - اس لئے کہ اگر آپ ابھی نہیں دیں گے تو آپ کو مطلوبہ چیز نہیں ملے گی اور آپ کا جو نقصان ہوجائے گا وہ اس سے بڑا ہوگا - "
ہمارے والد صاحب میں کسی قسم کی توقع یا غرض نہیں تھی - 

     روحانی ڈائجسٹ .. جنوری  1997ء                 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں