جمعرات، 26 ستمبر، 2013

ملاقات

حضرت سید محمّد عظیم برخیاؒ سے شمس الدین انصاری 

(خواجہ صاحب )کی ملاقات 


شمس الدین انصاری (خواجہ صاحب) جب 1950ء میں کراچی 
پہنچے تو آپ کے معاشی حالات کمزور تھے -آپ کےبڑے بھائی صاحب نے ماہنامہ "آفتاب نبوت " کی  رقم کے لئے پاکستان میں آپ کا پتہ دے دیا تھا -الله تعالیٰ کے کرم سے جب بھی پیسوں کی  ضرورت ہوتی رسالہ کی رقم منی آرڈر کے ذریعے آجاتی تھی -

ایک مرتبہ رسالہ کی رقم منی آرڈر کے بجاۓ ڈرافٹ کی صورت میں آئی ،اس وقت آپ کو بینکنگ وغیرہ کا کچھ زیادہ تجربہ نہیں تھا -آپ کے ایک دوست ڈاکٹر رشید صاحب ڈان اخبار میں سرکولیشن منیجر تھے -آپ نے ان سے ڈرافٹ کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا ڈرافٹ مجھے دے دیں ،میں اکاونٹ میں ڈال دوں  گا -

آپ نے ڈرافٹ ان کو دے دیا -جب رشید صاحب تین چار دن نہیں آئے تو اپ ان سے ملنے ڈان اخبار میں چلے گئے -رشید صاحب سیٹ پر موجود نہیں تھے -
ایک صاحب نے شیریں مگر مردانہ بھاری آواز میں کہا "آئیے تشریف رکھیں کیا کام  ہے آپ نے سوال کیا ڈاکٹر رشید صاحب کہاں ہیں -انہوں نے جواب دیا ان کی طبیعت ٹھیک نہیں اور وہ   تین چار روز سے دفتر نہیں آرہے  انہوں نے آپ کے لئے چاۓ منگوائی اور پھر گفتگو کا سلسلہ چل نکلا   انہوں نے آپ کی عمر اور جذبات کی مناسبت سے دو شعر سناۓ -

خواجہ صاحب کی آنکھوں میں چمک اور خمار کے سرخ ڈورے دیکھ کر  انہوں نے دل پر نشتر رکھ دیا  "محبّت کرتے ہو ،بے وفائی کے ساتھ بے وفا بننا ،محبت کے ساتھ اس دنیا کی ریت ہے "-  خواجہ صاحب ان کی شخصیت سے بہت متاثر ہوئے -آپ نے زندگی میں پہلی مرتبہ اتنا پرسکون چہرہ دیکھا تھا -

جب آپ نے رشید صاحب سے ان صاحب کا تذکرہ کیا تو انہوں نے بتایا  اچھا بھائی عظیمؒ سے ملے ہوگے یہاں سب ایڈیٹر ہیں ،بہت اچھے اور شفیق انسان ہیں ،بہت عالم فاضل ہیں -

 یہ عظیمی صاحب کی بابا صاحبؒ سے پہلی ملاقات تھی -دوسری ملاقات چار سال بعد 1954ء میں ہوئی -عظیمی صاحب کے ایک دوست طفیل احمد چغتائی ملٹری میں لیفٹننٹ تھے ، وہ اکثر تذکرہ کیا کرتے تھے کہ میرے ایک دوست تھے محمّد عظیمؒ معلوم نہیں وہ اب کہاں ہیں-بہت تلاش کیا لیکن نہیں مل سکے - 

 ایک دن انہوں نے خواجہ صاحب کو بتایا میرے وہ دوست مل گئے ہیں اور آج کل ماہنامہ نقاد میں کام کرتے ہیں -آپ ان کے ہمراہ جب ماہنامہ نقاد کے دفتر پہنچے تو وہاں شگفتہ ،شاداب اور پرسکون چہرہ ،مردانہ وجاہت کی مکمل تصویر دیکھ کر چار سال پہلے کی ملاقات ذہن میں گھوم گئی -آپ کو دیکھتے ہی محمّد عظیم صاحب نے آپ کو سینے سے لگالیا  پیشانی پر بوسہ دیا اور آنکھوں کو چوما- آپ پہلی مرتبہ وصال کی لذت سے آشنا ہوئے -

اس ملاقات کے بعد مستقل ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا -خواجہ صاحب مصروفیات سے فارغ ہونے کے بعد روزانہ شام کو دفتری اوقات کے ختم ہونے سے کچھ منٹ پہلے ماہنامہ نقاد کے دفتر کے سامنے ان کے انتظار میں کھڑے ہوجاتے -وہاں سے دونوں رتن تالاب صدر جاتے -رتن تالاب صدر کراچی میں علم دوست حضرات جمع ہوتے تھے -روحانیت پر سیر حاصل گفتگو ہوتی اور مغرب کی نماز کے بعد آپ دونوں وہاں سے بس میں بیٹھ کر  1 ڈ ی 1 /7     ناظم آباد آجاتے تھے - 



1 تبصرہ:

  1. "محبّت کرتے ہو ،بے وفائی کے ساتھ بے وفا بننا ،محبت کے ساتھ اس دنیا کی ریت ہے "

    punctuation se sense badal jata hai...mere khyal mein ye baat kuch istarha hai shayad...

    "محبّت کرتے ہو بے وفائی کے ساتھ ، بے وفا بننا محبت کے ساتھ اس دنیا کی ریت ہے."

    may be i am wrong but shayad ye yun ho...is tarteeb se kuch asani se samajh ata hai.

    جواب دیںحذف کریں