بدھ، 18 ستمبر، 2013

پِیش لفظ


بسم الله الر حمن الر حیم  

الحمد للہ ر ب العالمین و الصلوة و السلام علی ٰ سید المر سلین محمّد و علیٰ آ له و اصحابه اجمعین  ૦

 امّابعد 

الا ان اولیا ٕ الله لا خوف علیھم و لاهم یحز نون ۃ 


ﷲ تعا لیٰ نے آدم اور حوا کو پیدا کیا   پھر نسل آدم پھیلا نے کے لۓ زمین پر بھیج دیا -اس رب زولجلال کی مرضی اور منشا کے مطابق آدمی کی تخلیق کا سلسلہ برابر جاری ہے-

 

 جیسے جیسے آبادیاں اور گروہ بڑھتے گیۓ آدمی کی ضرورتوں میں اضافہ ہوتا رہا -دن مہینے اور سال گزرتے  گزرتے صدیاں اور قرن بننے لگے-لوگوں کی ہدایت کے لئے نبیوں پر صحیفے آنے لگے -جب یہ قافلے اور قبیلے زیادہ پھیل گۓ تو توریت ،زبور ،انجیل  اور سب سے آخر  میں قرآن مجید فرقان حمید کا نزول ہوا اور خداوندی ہدایت کا سلسلہ مکمّل ہوگیا -

روایت ہے کہ دنیا میں اب تک کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آ چکے ہیں -سب سے آخری نبی حضرت محمّد مصطفیٰ صلی الله علیہ وآ له وسلّم ،دونوں جہاں کے سردار ،ہادی دین مبین صلّ الله علیہ وسلّم  کی آمد،بعثت ،خدمت ،رہبری اور تکمیل انسانیت کے عمل پر دفتر کے دفتر  لکھے جا چکے ہیں لیکن وجد اور کیفیت اور معرفت اور روحانیت کی گلیوں کے باسی اپنی زبان سے یہی کہ رہے ہیں

                 ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی است           


 یہ کیا ہے ؟

مقام ادب ہے -مقام عجز ہے -انکساری کا اظہار ہے -اپنی بندگی اور بندگی کی بےبسی کا اقرار ہے -ان لوگوں کے دلوں پر انتہاۓ محبّت کا جذبہ سوار ہے-اس راہ میں گزرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں -


عشق کی ان پیچیدہ گھاٹیوں میں جو بھی جس کو گھمادے پھرادے ،در حبیب   صلی الله علیہ وآ له وسلّم کا جلوہ دکھا دے مرشد بزرگ آثار ہے اور جو عقیدت مند اپنی ارادت کا کشکول ان کے آگے رکھ کر پھر نہ ہلے ،نہ ٹلے ،لئے بغیر نہ رہے ،چھینےبغیر سانس نہ لے ،اپنی  ہر آس کو اپنے مرشد کی ہر سانس پر تج نہ  دے ،اس کی ہر ادا اور صدا کو اپنے دل کی قبا میں ٹانک نہ لے اور یقین کی عبا میں ڈھانک نہ لے وہ کیسے باز رہ سکتا ہے -


الله تعالیٰ واحد ہے ،احد ہے ،صمد ہے ،لم یلد ہے ولم یولد ہے اس کی اسی وحدانیت کا ہر مذھب نے راگ الاپا ہے-زمین پر کسی ایسے مذھب کا وجود نہیں ہے جس نے حق تعالیٰ کی وحدانیت سے منہ موڑا ہو یا اس کے وجود سے انکار کیا ہو-

صوفیاۓکرام اور اولیاۓعظام نے اس احدیت،صمدیت ،حقانیت اور وحدانیت کو سمجھانے اور سمجھنے کے لئے مختلف راستے اور طریقے اختیار کئیے ہیں-عام فہم انداز میں توحید اورمسٔلہ توحید،شریعت ،طریقت،حقیقت اور معرفت پر مشتمل ہے -رہبر جن و انس ،ہادی کون و مکان ،سرکار دو جہاں  صلی الله علیہ وآ له وسلّم فرماتےہیں 
                 
                من عرف نفسہ فقد عرف ربه 

 جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا 


اس عرفان نفس میں خواہشات کی معرفت نہیں ہے،بدن کی معرفت نہیں ہے ،اپنے عزیز و اقارب کی پہچان نہیں ہے،اپنے ماں باپ کی پہچان نہیں ہے،ساری دنیا کے علم کی پہچان نہیں ہے بلکہ یہ پہچان کرنی اور سمجھنی ہے کہ قدرت نے تجھے کیوں پیدا کیا ؟



تیرے اندر اس نے کون سا جوہر واحد چھپا کر تجھے عدم سے وجود میں بھیجا ہے مشیت  نے اپنے ارادوں میں تیرے اندر کون کون سی ہوشمندیاں ،دانیٔاں اور پیشوائیاں سجا بنا کر رکھی ہیں -کیا تجھے محض تیری اپنی ہی اکلوتی ذات کے لئے پیدا کیا ہے ؟

اگر ایک بندہ اپنی اس حقیقت کو جان لے کہ وہ خود اپنی ذات میں کیا کچھ ہے تو یہ سمجھ لو کہ اس بندہ نے خود کو پالیا ،پہچان لیا-اس وجدان کے میسّر آتے ہی شان رب ذوالجلال پورے جاہ و جلال کے ساتھ کارفرما نظر آنے لگے گی-   جب جزو نے کل کا مقصد حکم پالیا تو وہ جزو کہاں رہا -اس مقام پر جا پہنچا جس کا اخفا م میں رکھنا بیان کر دینے سے زیادہ ارفع ہے -
وحدت ربّانی اور وحدانیت یزدانی کے بارے میں ارشاد باری ہے


ترجمہ :     اور تمہارا رب اکیلا رب ہے ،کسی کی عبادت نہیں کرنا سواۓ اس کے وہ بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے اور بندگی کسی کو نہیں مگر ایک معبود کو -  (سورہ البقرہ-آیت ١٦٣ )



اس کے سوا کسی کو بندگی نہیں ،وہ زندہ ہے اور قائم رہنے والا ہے -   (سورہ آل عمران -آیت ٢ )



 حضرت جنید بغدادؒی فرماتے ہیں کہ علم توحید اس کے وجود سے جدا ہے اور اس کا وجود علم سے الگ -یعنی رب ذوالجلال علم کی حد سے باہر ہے  اتنا وسیع ہے کہ کوئی علم اس کا احاطہ یا اندازہ نہیں کرسکتا -



حضرت ابوبکر واسطیؒ  کا قول ہے کہ راہ خلق میں حق نہیں اور راہ حق میں خلق نہیں  یعنی یہ بندے جو اس کے ادراک کا دعویٰ کرنے لگتے ہیں ،اس کی ذات بشریت کے ادراک سے زیادہ ارفع و اعلیٰ ہے جس تک پہنچنا ناممکن ہے -




ایک مومن بننے کے لئے ہادئ برحق  صلی الله علیہ وآ له وسلّم کے بعد صحابہ کرام ،تابعین ،تبع تابعین اور پھر اولیاۓ کرام ہدایت اور رہبری کا ذریعہ رہے ہیں -



حضرت اویس قرنیؓ   کے بعد    شیخ محی الدین عبدالقادر 

جیلانیؓ،    حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ،      حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ،  حضرت بابا فرید گنج شکرؒ،    حضرت نظام الدین اولیاء محبوب الہیؒ،    حضرت صابر کلیریؒ،   حضرت بو علی شاہ قلندرؒ،   حضرت شیخ احمد سرہندی فاروقی مجدد الف ثانیؒ،   حضرت حافظ عبدالرحمن جامیؒ،   ملنگ باباؒ،   حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائیؒ،   حضرت سچل سرمستؒ،   حضرت لعل شہباز قلندرؒ اور بیشمار اولیاالله  دعوت حق دیتے رہے  ہیں   -


جنوبی ایشیا میں ان اولیاۓ کرام کی دینی اور روحانی خدمات وقت کے ساتھ ساتھ اور زیادہ روشن تر ہوتی چلی جارہی ہیں -ان بزرگوں کا  روحانی مشن مذھب و ملّت اور عقیدے کی حد بندیوں سے بلند  ہے-ہر مذھب اور ملّت کے لوگ اپنی اپنی ضرورتیں لے کر حاضری دیتے ہیں اور جب تک انہیں کامیابی کا اشارہ نہ مل جاۓ وہ جانے کا نام نہیں لیتے-



ان بزرگوں کو اس دنیا سے جدا ہوئے اگرچہ کئی صدیاں گزر گئی ہیں لیکن ان کے مزارات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی دفن     بھی نہیں ہوئے ہیں -  

  قدرت اپنے پیغام کو پہنچانے کے لئے دئیے سے دیا جلاتی رہتی ہے-معرفت کی مشعل ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوتی رہتی ہے -آخر یہ قطب،غوث ،ولی ،ابدال ،صوفی ،مجذوب اور قلندر سب کیا ہیں -
یہ قدرت کے وہ ہاتھ ہیں جو روحانی روشنی کی مشعل کو لے کر چلتے رہتے ہیں -اس روشنی سے اپنی ذات کو بھی روشن رکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی روشنی کا  انعکاس دیتے ہیں -
صرف تاریخ نہیں بلکہ لوگوں کے دلوں پر ان بزرگوں کی ایسی ایسی داستانیں اور چشم دید باتیں اب تک زندہ اور محفوظ ہیں جن کی دعاؤں سے مردوں کو زندگی ،بیماروں کو شفا ،بھوکوں کو غذا،دکھیوں کو عطا ،غریبوں کو زر،بےحال لوگوں کو بال و پر ،بے سہارا اور بےکس لوگوں کو اولاد اور مال و متاع کے انعامات ملتے رہتے ہیں-
       
 قرآن پاک میں بیان کیا گیا ہے کہ الله کی سنّت میں نہ تبدیلی ہوتی ہے اور نہ تعطل واقع ہوتا ہے -اس قانون کے تحت ازل سے ابد تک الله کی سنّت کا جاری رہنا ضروری ہے -چونکہ حضور خاتم النبیین  صلی الله علیہ وآ له وسلّم پر پیغمبری ختم ہو چکی ہے ،اس لئے فیضان نبوت کو جاری و ساری رکھنے کے لئے سیدنا حضور علیہ الصلوة والسلام کے وارث اولیااللہ کا ایک سلسلہ قائم ہوا جن کے بارے میں قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد ہے 
         
    الا ان اولیا ءالله لا خوف علیھم و لا ھم یحزنون ૦      
 
  اللّہ کے دوستوں کو خوف ہوتا ہے اور نہ وہ غم آشنا زندگی سے مانوس ہوتے ہیں -(سورة یونس -آیت ٦٢ )


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں