منگل، 24 ستمبر، 2013

قلندر

قبل اس کے ہم حضور قلندر بابا اولیاؒ کے حالات اور کشف و کرامات پیش کریں مناسب ہے کہ لفظ " قلندر " کی وضاحت کردی جاۓ تاکہ ان کے مقام کا اندازہ ہو جاۓ اور ان سے وقوع میں آنے والے واقعات سمجھ لینے اور ان پریقین کرلینے میں ذہن وخیال ،ارادے اور نیّت کو یکسوئی حاصل ہوجاۓ-
         
  ایسا انسان جس کے دیدۂ اعتبار اور چشم حقیقت کے سامنے ہر شے کی شیٔت آٹھ گئی ہو اور وہ مراتب وجود کو سمجھ کر ان میں عروج کرتا رہے ،یہاں تک کہ عالم تکوین سے بالا قدم رکھے اور مقام وحدانیت کے مشاہدے میں غرق رہ کر احدیت کی تفصیل میں عین وحدت کا جمال مشاہدہ کر کے مقام وحدت کی مستی اور بےکیفی میں گم رہتے ہوئے مرتبہ احدیت پر واپس آجاۓ -اس کے بعد اپنے مراتب سے جدا ہوئے بغیر احدیت کے مشاہدے میں محو رہے پھر انسانی مرتبے پر پہنچ کر عبودیت کا مقام حاصل کرے یہاں تک کہ اس کا عروج و زوال ایک ہوجاۓ -جزو میں کل اور کل میں جزو کو دیکھے -پھر ان تمام سے مستغنی ہو کہ حیرت محمودہ یعنی سرور میں رہے   تو اس کو " قلندر " کہتے ہیں-


یہ قلندر کا مقام محبوبیت کے مقام سے بھی اعلیٰ ہے کیونکہ محبوبیت کے مقام میں پھر بھی دوئی باقی رہتی ہے کہ ایک عاشق ،دوسرا معشوق ہوتا ہے لیکن قلندری کا مقام یہ ہے کہ یہاں دوئی بلکل نہیں رہتی-

                               من تو شدم تو من شدی 
کا معاملہ بن جاتا ہے -الله تعالیٰ نے کلام مجید فرقان حمید میں ہادیٔ کونین  محمّد مصطفیٰ صلی الله علیہ وآ له وسلّم کے اس مقام کی خبر دی ہے -چنانچہ ایک موقع پر ارشاد فرمایا ہے :
                     
                        ید الله فوق ایدیھم 


ان کے ہاتھوں پر الله کا ہاتھ ہے  ( سوره فتح -آیت -١٠ )



حالانکہ بیعت کے وقت صحابہ کرامؓ کے ہاتھ پر نبی صلی الله علیہ وآ له وسلّم کا ہاتھ تھا -وحدت کے لحاظ سے یعنی دوئی باقی نہ رهنے کے اعتبار سے نبی  صلی الله علیہ وآ له وسلّم کے ہاتھ کو رب ذوالجلال نے اپنا ہاتھ قرار دیا ہے -ایک اور جگہ حضرت حق جل جلالہ   فرماتے ہیں :


  ترجمہ :   اے نبی  صلی الله علیہ وآ له وسلّم ! آپ نے جب خاک اٹھا کر پھینکی تو وہ آپ نے خاک اٹھا کر نہیں پھینکی بلکہ وہ  الله نے خاک اٹھا کر پھینکی تھی -( سوره الانفال -آیت-١٧ )


یہاں پر بھی الله تعالیٰ نے نبی صلی الله علیہ وآ له وسلّم  کے فعل کو اپنا فعل قرار دیا ہے -

الله تعالیٰ اپنے جس بندے کو قلندری کا مقام عطا کرتا ہے تو وہ زمان و مکان (Time & Space) کی قید سے آزاد ہوجاتا ہے اور سارے ذی حیات اس کے ماتحت کردیے جاتے ہیں اور کائنات کا زرہ زرہ اس کے تابع فرمان ہوتا ہے لیکن الله کے یہ نیک بندے غرض ،حرص اور لالچ سے تو کب کے رخصت ہوچکے ہوتے ہیں اس لئے جب خدا کی مخلوق ان کی خدمت میں کوئی گزارش پیش کرتی ہے تو اس کو سنتے بھی ہیں اور اس کا تدارک بھی کرتے ہی کیوں کہ انہیں قدرت نے اسی کام کے لئے  مقرر کیا ہے -   
یہی وہ پاکیزہ اور قدسی نفس الله کے بندے ہیں جن کے بارے میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے :



 " میں اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہوں اور ان کے کان ،آنکھ اور زبان بن جاتا ہوں -پھر وہ میرے ذریعے سنتے  ہیں اور   میرے ذریعے   بولتے ہیں اور میرے ذریعے چیزیں پکڑتے ہیں -" (صحیح بخاری -حدیث -1422 )


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں