ارشادات ، واقعات ، تعلیمات اور طرز فکر
خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں ایک مرتبہ حضور قلندر بابا اولیاؒء نے فرمایا ... " کسان جب کھیتی کاٹتا ہے تو جھاڑو سے ایک ایک دانہ سمیٹ لیتا ہے اور جو دانے خراب ہوجاتے ہیں یا گھن کھائے ہوئے ہوتے ہیں ان کو بھی اکھٹا کرکے جانوروں کے آگے ڈال دیتا ہے -
جس زمین پر گیہوں بالوں سے علیحدہ کرکے صاف کیا جاتا ہے وہاں اگر آپ تلاش کریں مشکل سے چند دانے نظر آئیں گے لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ الله تعالیٰ کی مخلوق پرندے اربوں اور کھربوں کی تعداد میں دانہ چگتے ہیں - ان کی غذا ہی دانہ ہے تو یہ معمہ حل نہیں ہوتا کہ کسان تو ایک دانہ نہیں چھوڑتا ، ان پرندوں کے لئے کوئی مخصوص کاشت نہیں ہوتی پھر یہ پرندے کہاں سے کھاتے ہیں " -
حضور قلندر بابا اولیاؒء نے فرمایا کہ..." قانون یہ ہے کہ پرندوں کا غول جب زمین پر اس ارادے سے اترتا ہے کہ ہمیں یہاں دانہ چگنا ہے ، اس سے پہلے کے ان کے پنجے زمین پر لگیں قدرت وہاں دانہ پیدا کردیتی ہے - اگر پرندوں کی غذا کا دارومدار حضرت انسان یعنی کسان پر ہوتا تو سارے پرندے بھوک سے مرجاتے " -
دوسری مثال حضور بابا صاحب نے یہ ارشاد فرمائی کہ
" چوپائے بہرحال انسانوں سے بہت بڑی تعداد میں زمین پر موجود ہیں -بظاھر وہ زمین پر اگی ہوئی گھاس کھاتے ہیں ، درختوں کے پتے چرتے ہیں لیکن جس مقدار میں گھاس اور درختوں کے پتے کھاتے ہیں زمین پر کوئی درخت نہیں رہنا چاہئے -
قدرت ان کی غذا کی کفایت پوری کرنے کے لئے اتنی بھاری تعداد میں درخت اور گھاس پیدا کرتی ہے کہ چرندے سیر ہوکر کھاتے رہتے ہیں - گھاس اور پتوں میں کمی واقع نہیں ہوتی ، یہ ان درختوں اور گھاس کا تذکرہ ہے جس میں انسان کا کوئی تصرف نہیں ہے قدرت اپنی مرضی سے پیدا کرتی ہے .. اپنی مرضی سے درختوں کی پرورش کرتی ہے اور اپنی مرضی سے انہیں سرسبز و شاداب رکھتی ہے -
یہ الله تعالیٰ کی نشانیاں ہیں جو زمین پر پھیلی ہوئی ہیں -ہر انسان کی زندگی میں دوچار واقعات ایسے ضرور پیش آتے ہیں جن کی وہ کوئی عملی ، عقلی ، سائنسی توجیہہ پیش نہیں کرسکتا -انہونی باتیں ہوتی رہتی ہیں ... آدمی اتفاق کہہ کر گزرتا رہتا ہے حالانکہ کائنات میں کسی اتفاق ، کسی حادثہ کو کوئی دخل نہیں ہے " -
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں