جمعہ، 3 جنوری، 2014

ہمدم دیرینہ--22



مژدہ     ( خوش خبری )


ماہ جنوری 1956ء کی کسی تاریخ میں قلندر بابا نے مجھہ سے ارشاد فرمایا تھا کہ بھائی یکم مئی 1956ء  کو ایک خوش خبری سنیں گے .. میں نے عرض کیا اتنی طویل مدت انتظار کیوں کراتے ہو ، ابھی وہ تہنیت سنا دیجئے - لیکن آپ نے فرمایا کہ کام ہو جانے کے بعد ہی سنانا اچھا ہوتا ہے .. چنانچہ ماہ مئی 1956ء کے اوائل میں آپ نے مژدہ تہنیت  (خوش خبری ) سنایا کہ...

"اب میری از سر نو زندگی  کا آغاز ہوا ہے .. اس طرح کہ میں رتن تالاب والے مکان میں بیٹھا تھا کہ نانا تاج الدین اور دیگر چند بزرگ تشریف لائے .. ان کی آمد کی تاب بجلی نہ لا سکی .. بلب گل ہوگئے ..   .. ان بزرگوں نے فرمایا کہ عرصۂ دراز سے یہ معاملہ زیر بحث تھا کہ تم  کو کون سے سلسلہ سے منسلک کیا جائے ، الحمدللہ اب یہ بات طے ہوگئی ہے کہ تم کو سلسلہ سہروردیہ میں لے لیا گیا ہے ..

 یہ خوش خبری سنا کر مبارک باد دی اور ان سب  بزرگوں نے میرے حق میں دعا کر کے فرمایا کہ تیرا نصیبہ بڑے حضرت جی ابوالفیض قلندرعلی سہروردی قطب ارشاد کے پاس ہے .. وہ اسی سال کراچی میں تشریف لائیں گے ان کے ہاتھ پر بیعت ہونا -  

 میں وقت مقررہ پر گرانڈ ہوٹل واقع میکلوڈ روڈ کراچی بڑے حضرت جی کی خدمت با برکت میں حاضر ہوا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی سعادت حاصل کی ..

انہوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر تین مرتبہ دم فرمایا .. دم فرمانے سے میرا باطن روشن ہوگیا اور عالم ارواح  .. عالم ملکوت و جبروت منکشف ہوگئے حتیٰ کہ تشہید عرش اعلیٰ بھی ہوگئی "--

قلندر بابا اویسیہ ، سہروردیہ سلسلہ کے علاوہ دوسرے سلسلوں سے بھی وابستہ تھے اور بڑی نسبت رکھتے تھے .. آپ نے بڑے  بڑے بزرگوں سے روحانی تعلیم و فیض حاصل کیا .. غرضیکہ آپ ولئ کامل و قلندر ہوگئے اور آپ سے فیضان و تصرفات کے چشمے جاری ہوگئے -

 آپ نے جبّہ و دستار یا درویشانہ لباس کبھی نہیں پہنا .. نہایت سادہ مگر صاف شفاف لباس زیب تن فرماتے .. آپ کی اور عام آدمیوں کی زندگی میں کوئی نمایاں فرق یا امتیاز نظر نہیں آتا تھا اور بیعت کرنے کا طریقہ بھی دوسرے مروجہ سلسلوں سے مختلف تھا جس کا کوئی اہتمام نہیں ہوتا تھا -

آپ اپنے مریدوں اور ارادتمندوں کے ساتھ خلوص و محبت اور احترام کے ساتھ پیش آتے تھے اور منکسر المزاج اور تصنعات سے منزہ و پاک تھے ..  ہمیشہ آپ کی فکر بلند .. ارادہ راسخ اور اوالعزمی پائی جاتی تھی -  

 اے قلم ! اب زیادہ جولانیاں نہ دکھا .. یوں لکھنے کو تو ستّر سال کے ہزاروں واقعات ہیں جن کے لکھنے کے لئے ایک ضخیم کتاب چاہئے ..مختصرا یہ کہ آپ کو مشاطۂ فطرت نے خوب سنوارا تھا .. آپ کی ذات با برکات بے شمار خوبیوں ، خصائل اور کمالات سے مزین تھی ..

 آپ مجمع الصفات تھے اور دنیا و مافیہا کے امور میں ید طولیٰ رکھتے تھے - آپ کو خلافت و امامت ملنے کے بعد کے حالات و کرامات سلسلہ کے لوگ مجھہ سے زیادہ جانتے ہیں -

قلندر بابا کی صحت آپ کے بڑے صاحبزادہ آفتاب احمد کے جانکاہ حادثہ اپریل ١٩٦٣ میں شہید ہوجانے کے صدمہ سے رو بہ انحطاط ہونا شروع ہوگئی بالآخر 27 جنوری 1979ء جمعہ و ہفتہ کی درمیانی شب بوقت ایک بجے آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا اور ملاء اعلیٰ میں اپنے مالک حقیقی سے جا ملے -
  انا للہ و انا الیہ راجعون -  

                 مربوط ہیں یوں ہی شادی و غم
                 حضرت کو وصال  ہم  کو ماتم          

  اولیاء الله زندہ جاوید ہوتے ہیں .. الله جل و علیٰ کے کرم سے ان کا چشمۂ فیض پردہ کرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے .. خداوند قدوس اس سے مستفیض ہونے کی استطاعت آپ کے سلسلہ کے لوگوں اور عوام کو عطا فرمائے - ( آمین )                                                                  
                                                 ہیچمدان عالم                                                                        احقر سید نثار علی بخاری عارؔف   

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں