ہفتہ، 14 فروری، 2015

سلسلہ عظیمیہ -- تعارف


سلسلہ  عظیمیہ 


  تعارف ...
                 کفر و الحاد کی آندھیاں جب اپنے عروج پر ہوتی ہیں اور ہر طرف گھپ اندھیرے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تو الله تعالیٰ اپنی صفت رحمت سے اپنی مخلوق کا اضطراب اور بےچینی دور کرنے کے لئے پیغمبر مبعوث فرماتے ہیں - 

پیغمبر بتاتے ہیں کہ انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہدایت ربانی ہے - وہ توفیق ہے جو انسان کو بتاتی ہے کہ کائنات کیسے وجود میں آئی - اس کی تخلیق میں کون سے فارمولے کام کر رہے ہیں -
آدم کو خالق کائنات نے کس لئے پیدا کیا ہے - اس دنیا میں آنے سے پہلے وہ کہاں تھا اور دنیا کی چند روزہ زندگی گزار کر کہاں چلا جاتا ہے - چاند ، سورج اور کائنات کی تخلیق کس طرح ظہور پزیر ہوئی اور کہکشانی نظاروں کی سیر کے کیا طریقے ہیں - 

حضرت آدمؑ سے حضرت عیسیٰؑ تک شعورانسانی نے ارتقاء کا وہ مرحلہ طے کرلیا تھا جس میں وہ اخلاق ، تمدن ، معیشت اور سیاست کی گتھیوں کو سلجھانے کی اہمیت کو محسوس کر چکا تھا - مخلوق کی ذہنی افتاد جب ارتقائی مراحل سے ذرا آگے قدم بڑھانے کی طرف مائل ہوئی تو الله تعالیٰ نے ختم المرسلین صلّ الله علیہ وسلّم کو مبعوث فرمایا -

آپؐ  نے نوع انسانی کو اپنی حیات طیبہ کی روشن مثال کے ساتھ معاشرتی ، اخلاقی ، تاریخی اور تسخیری فارمولوں کی مستند کتاب قرآن سے استفادہ کرنے کی واضح ہدایات دیں اور بتایا کہ یہ کتاب بھٹکی ہوئی انسانیت کو صراط مستقیم پر گامزن کرتی ہے اور عزت و شرف کے اعلیٰ مقام پر فائز کرتی ہے -

سیدنا حضورعلیہ الصلوٰة والسلام کا ارشاد گرامی ہے :

"  الله تعالیٰ نے مجھے اس مشن پر بھیجا ہے کہ میں انسانوں کے درمیان عدل و احسان سے باہمی تعلقات قائم کردوں ، تمام بتوں کو توڑ دوں اور صرف ایک اللہ کی اطاعت و بندگی کا محور و مرکز بنادوں ، یہاں تک کہ کسی حیثیت سے کسی معاملہ میں کوئی الله کا شریک نہ رہے گا - "  

 ہر انسان دوسرے انسان سے ہم رشتہ ہے - ہر انسان دوسرے انسان سے اس لئے متعارف ہے کہ اس کے اندر زندگی بننے والی لہریں ایک دوسرے میں ردوبدل ہورہی ہیں - پرمسرت محفل میں جہاں سینکڑوں ہزاروں افراد آلام سے بے نیاز ، خوشیوں کے لطیف جذبات سے سرشار ہیں وہاں ایک فرد کی المناکی ساری محفل کو مغموم کردیتی ہے - آخر ایسا کیوں ہے ؟   


اس لئے کہ پوری نوع کے افراد زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ و پیوستہ ہیں - ایک کڑی کمزور ہوجائے تو ساری زنجیر کمزور ہوجاتی ہے - ایک کڑی ٹوٹ جائے تو زنجیر میں جب تک دوسری کڑی ہم رشتہ نہ ہوجائے زنجیر نہیں کہلائے گی - 


قرآن کریم کا ارشاد ہے :

واعتصموا بحبل الله جمیعا ولا تفرقوا   ( آل عمران )

" سب مل کر الله کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو - " 

اتحاد و یگانگت ماضی کو پروقار ، حال کو مسرور اور مستقبل کو روشن و تابناک بناتی ہے -  الله کی سنت میں نہ تبدیلی ہوتی ہے اور نہ تعطل واقع ہوتا ہے - اس قانون کے مطابق جب الله کے رسول صلّ الله علیہ وسلّم نے ہماری ظاہری آنکھ سے پردہ فرمالیا تو سنت کو جاری و ساری رکھنے کے لئے الله نے اپنے رسول صلّ الله علیہ وسلّم کے ورثاء کا ایک سلسلہ قائم کردیا -


 سلسلہ کیا ہے ؟ ان اولیاء الله کا گروہ ہے جن کے بارے میں قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد ربانی ہے :

الا ان اولیاء الله لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون 

" الله کے دوستوں کو خوف ہوتا ہے اور نہ وہ غم آشنا زندگی سے مانوس ہوتے ہیں - " 


علم حضوری سے مالامال اولیاء اللہ نے خاتم المرسلین صلّ الله علیہ وسلّم  کے مشن کی پیش رفت کے لئے ہدایت و رہنمائی کی ذمہ داری اپنے توانا کندھوں پر اٹھائی آج یہ جو توحید کا غلغلہ اورعلم حضوری کی جھلک نظر آتی ہے یہ سب حضور اکرم  صلّ الله علیہ وسلّم کے ان ہی ورثاء کی کوششوں کا ثمر ہے -   
    حضور قلندر بابا اولیاؒء فرماتے ہیں ...  
                                                      " حضورعلیہ الصلوة والسلام الله کے ایسے محبوب بندے ہیں کہ جتنی قربت الله نے انہیں عطا کی ہے کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی - جس قوم یا جس فرد پر حضور صلّ الله علیہ وسلّم کے اعلیٰ اوصاف اور روحانی اقدار کی چھاپ نہ ہو ، اس کا یہ کہنا کہ میں حضور صلّ الله علیہ وسلّم کا امتی ہوں حضور صلّ الله علیہ وسلّم کے ساتھ بے ادبی اور گستاخی ہے - " 

     جو خود عارف نہیں وہ کسی کو عارف کیسے بنا سکتا ہے ... جو خود قلاش اور مفلوک الحال ہے وہ کسی کو کیا خیرات دے گا   !

اس پاکیزہ کردار عارف حق نے ہمیں بتایا ہے کہ آج ہم کفر و شرک کے طوفان سے اگر بچے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ وہ آواز ہے جو پیدا ہوتے ہی ہم اپنے بچوں کی حق آشنا سماعت میں منتقل کردیتے ہیں - 
اذان کے معنی اور مفہوم پر تفکر کرنے سے یہ بات مشاہدہ میں آجاتی ہے کہ پیدا ہونے والے ہر بچے کےدماغ کی اسکرین (Screen ) پر پہلا نقش یہ مرتسم ہوتا ہے کہ ہمارا پیدا کرنے والا الله ہے - وہ الله جو ہمیں زندہ رکھتا ہے اور ہمارے لئے زندگی کے وسائل فراہم کرتا ہے - 

الله والوں کے اوپر رحمتوں کا نزول ہوتا ہے ، تجلیات کی بارش ہوتی ہے - ان کے فیوض و برکات کی روشن اور منور چادر ایک عالم پر سایہ فگن رہتی ہے - 

ہر زمانے میں طالب حق کسی عارف بزرگ سے بیعت ہونے کے بعد جب سلوک کی منزلیں طے کرتا ہے تو وہ بزرگ کسی نہ کسی راستے سے قدم بہ قدم چلا کر منزل مقصود یعنی عرفان خداوندی تک پہنچا دیتا ہے - یہ اصول و قوانین اور روحانی راستے سلسلے کا تعین کرتے ہیں -
 گروہ اولیاء الله میں سے منتخب اور اکابر لوگوں نے ہر زمانے میں طالبان حق کی عمومی حالت  کو پیش نظر رکھ کر ایسے اذکار و اسباق مرتب کئے ہیں جن پر عمل پیرا ہوکروہ عرفان خداوندی حاصل کرسکیں -

ہر زمانے میں نوع انسانی کی شعوری اور جسمانی صلاحیتوں میں فرق بھی واقع رہا ہے - ایک زمانہ میں لوگوں کے پاس جسمانی قوت کی فراوانی تھی لیکن ان کے شعور کی قوتیں اتنی مظبوط نہیں تھیں جتنی کہ آج دیکھنے میں آرہی ہیں -
فی زمانہ ماحول کے اثرات سے لوگوں کے اعصاب کمزور ہوگئے ہیں -ان کی مصروفیات میں حد درجہ اضافہ ہوگیا ہے - چنانچہ آج لوگوں کے لئے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ پرانے طریقہ ہائے ریاضت پر عمل کرسکیں - 

آج کے سائنسی دور میں کوئی بات اس وقت قابل قبول ہے جب اسے فطرت کے مطابق اور سائنسی توجیہات کے ساتھ پیش کیا جائے -

سلسلہ عظیمیہ کا مشن بھی یہی ہے کہ لوگوں کے اوپر تفکر کے دروازے کھول دیئے جائیں - چنانچہ حالات حاضرہ کے پیش نظر سلسلہ عظیمیہ کے اسباق و اذکار بہت ہی مختصر مرتب کئے گئے ہیں جن کے ذریعے رہروان سلوک کو عرفان خداوندی نصیب ہوتا ہے - 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں