کشف و کرامات
جس زمانے میں حضور قلندر بابا اولیاؒء رسالہ نقاد ، کراچی میں کام کرتے تھے ، میرا یہ معمول تھا کہ شام کو چھٹی کے وقت حاضر خدمت ہوتا اور حضور بابا صاحبؒ قبلہ کو اپنے ساتھ لے کر نقاد کے دفتر سے کچھ دور رتن تالاب پر واقع اپنے جھونپڑے میں لے جاتا -
وہاں ایک بہت خوبصورت نشست ہوتی تھی - غیر تعلیم یافتہ مگر بہت مخلص ، تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے دوست تشریف لاتے تھے - ایک روز کا واقعہ ہے کہ میں دوپہر کو گھر آیا تو ایک صاحب جن کا نام زبیر احمد انصاری تھا ، مجھے ملے -
انہوں نے بتایا کہ حضور قلندر بابا صاحبؒ قبلہ اور دو اور بزرگ کمرے میں تشریف رکھتے ہیں اور اندر سے کنڈی لگا لی ہے - دروازے کے پاس میں نے بزرگوں کی سرگوشی سنی لیکن کوئی لفظ میرے کان میں نہیں اترا -
سوچا کہ بازار سے دودھ لے آؤں اور چائے بنا لوں - چولہا جلا کر پانی رکھا اور دودھ لینے چلا گیا - دودھ لے کر واپس آیا تو تینوں صاحبان تشریف لے جا چکے تھے - بہت افسوس ہوا - بہر حال ، شام کو جب میں حضور بابا صاحبؒ کو لینے کے لئے نقاد کے دفتر پہنچا تو میں نے پوچھا ...
" حضور! دوپہر کے وقت آپ چلے آئے - میں چائے پیش کرنا چاہتا تھا اور آپ کے ساتھ وہ بزرگ حضرات کون تھے ؟"
فرمایا ... " بوعلی شاہ قلندرؒ اور خواجہ معین الدین چشتیؒ تشریف لائے تھے - کچھ قانون کے اوپر تبادلۂ خیال کرنا تھا - "
مجھے آج تک اس بات کا ملال ہے کہ میں نے دودھ لینے کے لئے زبیر کو کیوں نہیں بھیج دیا کاش ایسا ہوجاتا اور اس خاکسار کو حضور خواجہ غریب نوازؒ اور بوعلی شاہ قلندرؒ کی جسمانی زیارت ہوجاتی -
کتاب ... تذکرہ قلندر بابا اولیاؒء ... مصنف --- خواجہ شمس الدین عظیمی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں