پیر، 7 جولائی، 2025

یاد عظیمؒ -- 13


                                                                               یاد عظیمؒ 


مضمون  : اماں 

تحریر    : حنا عظیمی 

اشاعت   : روحانی ڈائجسٹ  جنوری 1993ء

ابدال حق قلندر بابا اولیاؒء آسمان رفعت کے کون سے نیر تاباں ہیں یہ بات وہی لوگ جانتے ہوں گے جو خود اس سفر پر نکلے ہوں یا ان کو ماورائی عالمین یا کچھ اتا پتا ملا ہو ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ کسی بڑے درخت کے نیچے کوئی درخت اگ تو جاتا ہے لیکن پروان نہیں چڑھتا -
 حضور قلندر بابا اولیاؒء جن کو ہم سب بہن بھائی اماں کہتے ہیں ، ہمارے باپ بھی ہیں اور ہماری ماں بھی - ہم نے ان کی گود کی لطافت محسوس کرکے اپنے لاشعور میں ذخیرہ کی ہے - ہم نے ان کی کون سی ادا نہیں دیکھی - دیکھا کہ اماں کی آنکھیں نور بن گئی ہیں - جہاں جہاں نظر ٹھہر جاتی تھی روشنی کے جھماکے ہونے لگتے تھے -

ہم نے اپنے ابا کو حضور قلندر بابا اولیاؒء کا مست اور دیوانہ دیکھا - ابا جی اماں کو دیکھ دیکھ کر جیتے تھے - لگتا تھا کہ ایک شمع ہے جس پر ابا جی پروانے کی طرح نثار ہونا چاہتے تھے -وارفتگی و بےخودی میں اماں کے قدموں پر سر رکھتے تھے ، پتہ نہیں سو جاتے تھے یا ہوش و حواس سے آزاد ہوجاتے تھے - ادب کا یہ عالم تھا کہ کچھ کہنا چاہتے تھے تو بول نہ پاتے تھے -
اماں کے التفات کی صورت یہ تھی کہ ابا کا کان گرم ہوجائے تو وہ تخت سے اتر کر صحن میں ٹہلنے لگتے تھے - ہم کیا بتائیں کیا ماحول تھا ، کیسی خوشی تھی - غم اور پریشانی غبار بن کر ہمارے گھر سے اڑ گئی تھی - ہر دن عید کا دن تھا اور رات شب برأت تھی - 

ہم یہ کیسے بھول جائیں کہ جب اماں چائے پیتے تھے اور ان کے پاس ہم میں سے کوئی بھی بچہ چلا جاتا تھا - وہ اپنا جھوٹا اپنے ہاتھ سے ہمارے منہ سے لگا دیتے تھے - عید  بقرعید ہر شخص کے لئے خوشیاں لاتی ہے مگر ہمارے بھاگ ایسے تھے کہ الله کا ایک ابدال ہمارے کپڑوں ، ہماری چوڑیوں اور ہمارے لئے مہندی کا اہتمام کرتا تھا -
 یہ نصیب کی بات ہے کہ ہم نے اپنے ابا کی دیوانگی ، ایثار اور مرشد کے عشق کی وجہ سے جنت کی بہاریں دیکھیں ہیں - حق کا ابدال ، نظام کائنات میں الله تعالیٰ کا نائب ، علوم کے خزانوں کا مالک ، رسول للہ صلی الله علیہ وآ له وسلّم کے وارث حضرت قلندر بابا اولیاء کے زیر سایہ ہم اس دنیا میں آئے - ان کی سرپرستی میں ہماری نشوونما ہوئی -
ان کی محبت و شفقت نے ہماری تربیت کی - کبھی ایسا نہیں ہوا کہ پریشانی لاحق ہوئی ہو اور میں نے اماں کو آواز دی ہو اور میری مراد پوری نہ ہوئی ہو - 1D ،1/7 ناظم آباد کا گھر بلا شک و شبہ ایک معجزاتی اور کراماتی گھر تھا - اس گھر کی فضا میں بچوں کو فرشتے اڑتے نظر آتے تھے ، انبیاء کی روحیں تشریف لاتی تھیں اور اولیاء الله کے مثالی اجسام اماں کے کمرے کو رونق بخشتے تھے - 

ہماری امی راشدہ عفت نے حضور قلندر باباؒ کی مثالی خدمت کی ہے - ہم نے دیکھا ہے کہ اماں کے اوپر استغراق غالب آجاتا اور کئی کئی دن لاشعوری کیفیات میں رہتے تھے - امی تسلہ میں پانی بھر کر ان کے پیر دھوتی تھیں اور ابا جی کے ساتھ ساتھ وہ بھی ان کی ضروریات کا خیال رکھتی تھیں - ابا جی کہتے ہیں کہ اگر تمہاری امی کا تعاون مجھے نہ ملتا تو روحانی سفر طے کرنا میرے لئے مشکل مرحلہ بن جاتا - 

ابا جی بتاتے ہیں ، ایک بار بھائی جان ( حکیم وقار یوسف عظیمی ) گھٹنوں چلتے اماں کے پاس آئے اور سالن میں ہاتھ ڈال دیا - اماں نے فوراً بھائی جان کا منا سا ہاتھ منہ میں لے کر چوسنا شروع کردیا کہ مبادا ہاتھ لگنے سے آنکھوں میں پانی نہ آجائے -  
ہم بہن بھائیوں کو یہ سعادت بھی نصیب ہے کہ ہم سب کا نام اماں نے رکھا ہے یعنی ہماری شناخت کا پہلا مرحلہ اماں کے ساتھ وابستہ ہے - میں سوچتی ہوں کہ یہ بزرگ اتنی محبتیں دے کر آخر چلے کیوں جاتے ہیں اور اس طرح چلے جاتے ہیں کہ نظر بھی نہیں آتے -

میرا دل اداس ہوتا ہے تو میں اماں کو یاد کرنے لگتی ہوں - وہ مجھے تسلی دیتے ہیں ، میرے سر پر دست شفقت پھیرتے ہیں -ان کے علم کی روشنی میرا سہارا بنتی ہے - یہ روشنی میرے اوپر بڑے عجیب راز افشاء کرتی ہے - 

کہتی ہے کہ : یہاں اس مادی دنیا میں ، مادی خول میں ، مادی حواس میں کچھ نہیں رکھا - جو آج ہے وہ کل نہیں ہوگا ، جو کل ہوگا وہ ماضی بن جائے گا -کون آتا ہے ، کون جاتا ہے ، کیوں آتا ہے ، کیوں جاتا ہے یہ سب کھیل تماشہ ہے - میری جان کے امین ، میری حیات ، میری ممات ، میری روح جنہوں نے ہمیں ماں کی طرح پالا پوسا ہے -

 حضرت قلندر بابا اولیاؒء کی تعلیمات بھی یہی ہیں کہ دنیا ... راستے میں عارضی قیام کے لئے ایک مقام ہے - جو آتا ہے وہ جائے گا اور جو ابھی نہیں آیا وہ آنے کی تیاری میں مصروف ہے - 

قلندر بابا فرماتے ہیں ...

             دنیا وہ نگر ہے کہ  جہاں کچھ  بھی نہیں 
            انسان وہ گھر ہے کہ جہاں کچھ بھی نہیں                
            وہ وقت کہ سب جس  کو  اہم  کہتے  ہیں 
            وہ وقت صفر ہے کہ جہاں کچھ بھی نہیں 

         جو اس خانہ خراب میں آگیا وہ اس غم میں ہراساں ہے کہ اگر میں نے دنیا میں دل نہیں لگایا تو زندگی کا مقصد پورا نہیں ہوگا - 
وہ اپنے عمل سے خود بھی پریشان ہوتا ہے دوسروں کو بھی برباد کرتا ہے - الفاظ کے نشتر سے خون جگر پیتا ہے اور دوسروں کو ان خون آمیز باتوں سے دکھ پہنچاتا ہے - قلندر بابا فرماتے ہیں ...

    کیا    بات    کو    تلوار   نہیں   کرسکتے  
   سرمد     کو      سردار     نہیں         کرسکتے
   منہ رکھتا  ہے انسان  جو چاہے کہہ دے
                      الفاظ           تو       انکار        نہیں       کرسکتے                     

*  *  *  *  *



یہاں آنے والا ہر فرد و بشر ، یہ سب جاہ و حشم ، کبر و نخوت ، جلال و کمال ، ایک روز زیر زمین ہوجائے گا - 

ہے    زیر   زمین  بھی  شہر  کی   آبادی 
مٹی کے صنم سے ہے وہاں آزادی 
ہے موت کا سایہ بھی وہاں پرممنوع 
ممکن    ہی   نہیں    حیات   کی   بربادی 

*  *  *  *  *


کچھ لوگ یہاں  ایسے ہیں کہ ان کی زندگی دوسروں کے ساتھ ( الله کے ساتھ نہیں ) توقعات قائم کرنے میں ختم ہوجاتی ہے جبکہ ہر آدمی جانتا ہے کہ ایک مجبور و بےبس انسان دوسرے آدمی کی توقعات کیسے پوری کرسکتا ہے -
جو آدمی خود پیدائش پر اختیار نہیں رکھتا ، موت سے پنجہ آزمائی نہیں کرسکتا ، سانس لینے پر اسے اختیار نہیں ہے ... وہ کسی کی توقع کیا پوری کرے گا - 

دنیا  سے   ہے  امید  وفا  کی  تجھ  کو 
کھائے  گی  قسم  فریب دے گی تجھ  کو
 دے   قرض   متاع   زیست , کر  نادانی 
لوٹا کے یہ کوڑی بھی نہ دے گی تجھ کو 

*  *  *  *  * 


ہم دیکھتے ہیں کہ اس دنیا میں ہر شخص خود فریبی خود نمائی اور انا کی تصویر بنا پھرتا ہے - کیا ہم یہ نہیں دیکھتے کہ بڑے سے بڑا سائنسدان بھی ایک فیلڈ کے علاوہ دوسری فیلڈ میں کم عقل بچے کی طرح ہے -
کبھی نہیں دیکھا گیا کہ کسی بڑے سائنسدان نے کپڑے سیئے ہوں - اگر اس بڑے سائنسدان کو کپڑے سینے کے لئے دے دیئے جائیں تو وہ لازماً کم عقلی کا مظاہرہ کرے گا - کسی شعبے میں تھوڑی سی شد بد ہوجانے سے آدمی سمجھتا ہے کہ میں عقل کل بن گیا ہوں -

 آئیے دیکھیں اس بارے میں حضور قلندر بابا اولیاؒء کا تفکر کیا ہے - 


انسان نے کھویا ہے نہ کچھ پایا ہے 
اک وہم ہے جو سود و زیاں لایا ہے 
کوئی     نہ    مفکر    نہ    مدبر   ہے     یہاں 
البتہ       دماغ     میں     خلل    آیا     ہے  

*  *  *  *  *


آدمی بھی عجیب گورکھ دھندہ ہے چاہتا ہے کہ کوئی تصویر اس سے محبت کرے - یہ بھی چاہتا ہے کہ وہ کسی تصویر سے محبت کرے - کیسی محبت کہاں کا عشق .. کیسی روشنی کیسی تاریکی ... کیسی خوشی کیسا غم -
 یہ سب عمر کے اک دور کی طوفان خیز کیفیات ہیں - آدم زاد آہ بھرتا ہے تو دھواں اٹھتا ہے مگر جگنو جب آہ بھرتا ہے تو اس کے اندر سے چنگاریاں نکلتی ہیں - 

اندھیر شب غم کا جہاں ہوتا ہے 
درد دل عاشق بھی وہاں ہوتا ہے 
فرہاد کے بدخواہ یہ لکھ لیں دل پر 
جگنو  بھی  چراغ  آشیاں ہوتا ہے 

*  *  *  *  *



جب آدمی اداس اور بدحواس ہو کر گھر سے بھاگتا ہے ، بستیوں شہروں سے فرار ہوکر جنگل جنگل پھرتا ہے ، باغوں میں بسیرا کرتا ہے تو وہاں بھی اسے قرار نہیں آتا - کہتا ہے کہ قرار آگیا مگر پھر بےقراری کے تالاب میں چھلانگ لگا دیتا ہے -ایسا کیوں ہے -
اس لئے کہ شہر ہو بستی ہو ، جنگل ہو ، ویرانہ ہو ، باغ ہو سب کو فنا ہے جہاں فنا ہے وہاں سکون نہیں ہے اور جہاں بقا ہے وہاں بےسکونی نہیں ہے - دنیا اک فریب ہے کہ جس کو آدمی فریب نہ سمجھ کر خود کو فریب دے رہا ہے - 

باغوں میں جو قمریاں ہیں سب مٹی ہیں 
پانی میں جو مچھلیاں ہیں سب مٹی ہیں 
آنکھوں  کا  فریب  ہے  یہ  ساری  دنیا 
پھولوں میں جو تتلیاں ہیں سب مٹی ہیں  


*  *  *  *  *



حضور قلندر بابا اولیاؒء کی تحریر کا یہ اعجاز ہے کہ جب وہ کوئی بات کرتے ہیں تو اس  بات کی گہرائی میں الله تعالیٰ کا قانون بولتا ہے - قدرت نے زندگی کو دو درجوں میں تقسیم کیا ہے - زندگی کا ایک درجہ یا ایک رخ آدمی کو اس کی ماورائیت سے دور کرتا ہے -

دوسرا درجہ یا دوسرا رخ آدمی پر ماورائی دنیا کا دروازہ کھولتا ہے - جو رخ ماورائی دنیا کا دروازہ بند کرتا ہے آدمی کو صعوبت میں مبتلا کردیتا ہے ... وہ دن ہے اور جس کو ہم رات کہتے ہیں وہ ماورائی دنیا کے دروازے کی کنجی ہے - 

ساقی  ہے  شب برات  پانے  کی  رات 
                                                                         یہ رات ہے سوتوں کو جگانے کی رات 
جو    مانگے  گا  سائل   وہ  ملے   گا بےشک 
یہ  رات  تو  ہے خاص پلانے کی رات 

*   *   *   *   *

آج کا بچہ کل جوان ہوجاتا ہے اور بوڑھا ہوکر مر جاتا ہے - کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ آدمی نے کیا کھویا ہے ، کیا پایا ہے - بارہ سال عمر تک شعور ہی نہیں آتا - شعور کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو والدین کو مستقبل کا فکر دامن گیر ہوگیا اور بچے کے اندر مستقبل کے عدم تحفظ کے احساس کو اجاگر کرنا شروع کردیا -

عدم تحفظ کے احساس میں سلگتے ہوئے بچہ جوان ہوگیا - جوانی بھری بھی نہیں تھی کہ والدین کی خدمت گزاری کا دور آگیا - ابھی خدمت کے ماہ و سال پورے بھی نہیں ہوئے تھے کہ شادی ہوگئی - شادی ہوئی تو بیوی کا اسیر بن گیا - بیوی کی زلفوں کی اسیری کا صلہ یہ ملا کہ باپ بن گیا - 
اب دو ذمہ داریاں سر پر ان پڑیں - بیگم کی خوشامد اور بچوں کی دیکھ بھال - شب و روز کی محنت ، دن رات کی کلکل جب عروج پر پہنچی تو سرخ شباب سفید بالوں میں منتقل ہوگیا - طنز بھری باتوں سے دل مغموم ہوگیا اور آنکھیں خشک ہوگئیں - ابھی سنبھلنے بھی نہ پایا تھا کہ حضرت ملک الموت تشریف لے آئے - 


اپنوں کی طرف دیکھ کے رہ جاتا ہوں 
                                                                         کتنی  ہی بڑی بات  ہو سہہ    جاتا ہوں 
اپنی ان ہی  خشک  آنکھوں  سے عظیم 
ویرانی     کا    اک    فسانہ    کہہ    جاتا   ہوں 


*  *  *  *  *
عمر اور وقت کیا ہے ، یہ بات صدیوں پہلے بھی ایک معمہ تھی اور آج کے سائنسی دور میں بھی ایک راز ہے - انسان عمر کے تین مدارج سے واقف ہے ... ماضی ، حال اور مستقبل -
جو چیز حال کہلاتی ہے وہ ماضی بن جاتی ہے اور آج جو لمحہ ،ستقبل تصور کیا جاتا ہے وہ بھی کل کا ماضی بن جاتا ہے - ایک بچہ جو آج معصومیت کی تصویر ہے جب جوانی میں داخل ہوتا ہے تو اس کا بچپن غائب ہوجاتا ہے - 

انسان کا ماضی اور مستقبل دونوں اس طرح نابود ہوجاتے ہیں کہ تلاش کرنے پر بھی نہیں ملتے - گردش دوراں قدرت کا ایسا راز ہے .. قدرت کی ایسی نشانی ہے جو آدمی کو فنا کا آئینہ دکھاتی ہے - وقت کی زبان بتاتی ہے کہ عمر گھٹتی بڑھتی ہے ، جسم پر فنا وارد ہوتی ہے وقت کبھی نہیں مرتا - 

معلوم نہیں اڑ کے کدھر جاتے ہیں 
پیچھا  نہیں ممکن یہ  جدھر جاتے  ہیں 
ہاں    اتنا   تو  اندازہ  ہوا  ہے  مجھ  کو 
اوراق ہیں عمر  کے  بکھر  جاتے  ہیں 


*  *  *  *  *

ایک وقت تھا کہ ہم اپنی آنکھوں سے اماں کو دیکھتے تھے ، اماں کے ہاتھوں کا لطیف اور نورانی لمس محسوس کرتے تھے - رحمت کا سائبان بن کر ہمیں سورج کی تمازت اور دھوپ کی تپش سے سایہ فراہم کرتے تھے -
وقت نے کروٹ بدلی .. ایسا لگا سر پر سے چھت اڑ گئی - دھوپ کی تپش نے پرسکون زندگی کو درہم برہم کردیا - بھرا پرا گھر خالی ہوگیا - آنکھیں بھیگ گئیں دل ڈوب گیا - جسم و جاں سے رشتہ ٹوٹتا محسوس ہوا - ایک دوسرے کو سہارا دینے کا حوصلہ بھی نہ رہا - قیامت کے بارے میں سنتے آئے تھے وہ آنکھوں سے دیکھ لی -

 ابا جی نے رسالے کے سرورق پر اپنے خون جگر سے لکھا :

واحسرتا کہ آج دنیا اس وجود سرمدی سے خالی ہوگئی جس کے بارے میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے  ... " میں اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہوں اور میں ان کے کان ، آنکھ اور زبان بن جاتا ہوں - پھر وہ میرے ذریعے سنتے ہیں ، میرے ذریعے بولتے ہیں اور میرے ذریعے چیزیں پکڑتے ہیں - " 


روحانی ڈائجسٹ کا یہ شمارہ چھپ کر تیار ہی ہوا تھا کہ روحانی ڈائجسٹ کے سرپرست اعلیٰ حضور حسن اخریٰ محمّد عظیم برخیا قلندر بابا اولیاء نے سفر آخرت کی تیاری کرلی اور دیکھتے ہی دیکھتے واصل بحق ہوگئے -

 جگر خون ہوگیا ، آنکھیں پانی ہوگئیں ، دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ، دماغ ماؤف ہوگئے - کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو نمناک نہ ہوئی ہو ، کوئی دل ایسا نہیں تھا جو بےقراری کے عمیق سمندر میں ڈوب نہ گیا ہو ایسا لگتا تھا کہ لوگوں کے جم غفیر پر سکتہ طاری ہوگیا ہے - 

ایسی برگزیدہ ہستی نے پردہ فرمالیا جس کی نماز جنازہ میں انسانوں کے علاوہ لاکھوں فرشتے صف بستہ تھے -
 حضور سرور کائنات صلّ الله علیہ وسلّم ، عاشق رسول حضرت اویس قرنیؓ ، اولیاء الله کے سرتاج حضرت غوث الا اعظمؒ  گرامی قدر اپنے معزز فرزند سعید کے استقبال کے لئے موجود تھے - حد نظر تک اولیاء الله کی ارواح کا ایک ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر تھا -   


 زمانے کے نشیب و فراز سے گزر کر ہم  بےقراری اور قرار کی ملی جلی کیفیت میں آگے بڑھتے رہے - اس طویل عرصے میں ہم نے دیکھا کہ ابا جی کی دیوانگی جو ہم نے بچپن میں دیکھی تھی بڑھتی گئی - بڑھتی گئی - بڑھتی گئی -


ہمارا باپ اپنے مرشد کی زندہ تصویر بن گیا - رات دن نہ رہا - دن رات نہ رہی - اس مرد مجاہد نے کھیتوں کھلیانوں میدانوں کانٹوں اور پھولوں میں سے گزر کر ایک کارواں بنایا اور اس کارواں کا میر کارواں بن کر کسی ماورائی انسان کی طرح زمین میں چل کر ہواؤں میں اڑ کر قلندر بابا اولیاؒء کی روشنی پھیلاتا رہا - 

   ہم نے دیکھا عاشق مرشد ہمارے باپ نے ہر اس جگہ قلندر بابا کی تعلیمات کو عام کیا جہاں وہ پہنچ سکتا تھا - یہ ٹھیک ہے کہ ہم جی بھر کر اپنے باپ کی صورت دیکھنے کو ترستے ہیں -
 یہ صحیح ہے کہ ہمارے باپ کی گھریلو لائف کچھ نہیں ہے - میں یہ بھی جانتی ہوں کہ میرے بھائیوں کو اپنے معاملات میں مشورہ کرنے کے لئے پندرہ پندرہ دن تک انتظار کرنا پڑتا ہے لیکن ہم سب خوش ہیں کہ ہمارے اوپر قلندر بابا کے جو احسانات ہیں ، ہمارے باپ نے ان احسانات کا شکر ادا کرنے کے لئے خود کو قلندر بابا اولیاء کے مشن کے لئے نہ صرف وقف کردیا ہے بلکہ اپنی ذات کو فنا کردیا ہے -

 قلندر بابا اولیاؒء ہمارے لئے کیا ہیں اس کے لئے نہ ہمارے پاس الفاظ ہیں اور نہ ہی ہماری زبان کو یارا ہے کہ وہ کچھ کہہ سکے بس حد ادب ہے -

 ابا جی اکثر یہ رباعی گنگناتے ہیں 

اب    عمر  ضعیفی   کی   ہے   میری  ساقی 
اب  کچھ نہیں  اعصاب  کے  اندر  باقی 
اب     خود   میری مٹی  کا   بنے    گا  ساغر 
ساغر میرے ہاتھ سے نہ چھین اے ساقی 

*  *  *  *  *

 قلندر بابا اولیاؒء کے دربار میں عاجزانہ مؤدبانہ ، دل کی گہرائیوں سے درخواست ہے کہ جس طرح ہمارے اوپر آپ کا کرم محیط ہے اور زیادہ محیط رہے - آپ جانتے ہیں کہ ابا جی ہمارے لئے ساغر ہیں اور آپ ہم سب کے ساقی - 

شخصیات اور مقامات -- 1




بلند شہر- یوپی - انڈیا 


                                                                                     بلند شہر- یوپی - انڈیا 


بلند شہر- یوپی - انڈیا 


بلند شہر- یوپی - انڈیا 



بلند شہر گیٹ  - یوپی - انڈیا  2013 ء 



  گھنٹہ گھر بلند شہر- یوپی - انڈیا  2013 ء 



اپر کوٹ  بلند شہر- یوپی - انڈیا  2013 ء 



بندر روڈ  کراچی  1952ء




لیاری مارکیٹ کراچی ( قبل ازتقسیم ہند )



لیاری مارکیٹ کراچی ( قبل ازتقسیم ہند )



میکلوڈ روڈ ( آئی - آئی - چندریگر روڈ ) 1950ء  



لارنس روڈ کراچی 2013ء


مولوی مسافر خانہ ، ایم اے جناح روڈ ، کراچی - 2013ء



1D ،1/7  ناظم آباد کراچی 


باب سرسید علیگڑھ مسلم یونیورسٹی  انڈیا 


قبر مبارک آفتاب احمد ( صاحبزادہ حضور قلندر بابا اولیاؒء ) - میوہ شاہ قبرستان ، کراچی 


قبر مبارک آفتاب احمد ( صاحبزادہ حضور قلندر بابا اولیاؒء ) - میوہ شاہ قبرستان ، کراچی 

قبر مبارک آفتاب احمد ( صاحبزادہ حضور قلندر بابا اولیاؒء ) - میوہ شاہ قبرستان ، کراچی 



مزار مبارک حضرت لوط علیہ السلام ، محلہ بنی نعیم ، فلسطین 


روضہ مبارک حضرت علی کرم اللہ وجہہ ، نجف اشرف ، عراق 



کاظمین شریف - بغداد ، عراق