پیر، 7 جولائی، 2025

یاد عظیمؒ -- 13


                                                                               یاد عظیمؒ 


مضمون  : اماں 

تحریر    : حنا عظیمی 

اشاعت   : روحانی ڈائجسٹ  جنوری 1993ء

ابدال حق قلندر بابا اولیاؒء آسمان رفعت کے کون سے نیر تاباں ہیں یہ بات وہی لوگ جانتے ہوں گے جو خود اس سفر پر نکلے ہوں یا ان کو ماورائی عالمین یا کچھ اتا پتا ملا ہو ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ کسی بڑے درخت کے نیچے کوئی درخت اگ تو جاتا ہے لیکن پروان نہیں چڑھتا -
 حضور قلندر بابا اولیاؒء جن کو ہم سب بہن بھائی اماں کہتے ہیں ، ہمارے باپ بھی ہیں اور ہماری ماں بھی - ہم نے ان کی گود کی لطافت محسوس کرکے اپنے لاشعور میں ذخیرہ کی ہے - ہم نے ان کی کون سی ادا نہیں دیکھی - دیکھا کہ اماں کی آنکھیں نور بن گئی ہیں - جہاں جہاں نظر ٹھہر جاتی تھی روشنی کے جھماکے ہونے لگتے تھے -

ہم نے اپنے ابا کو حضور قلندر بابا اولیاؒء کا مست اور دیوانہ دیکھا - ابا جی اماں کو دیکھ دیکھ کر جیتے تھے - لگتا تھا کہ ایک شمع ہے جس پر ابا جی پروانے کی طرح نثار ہونا چاہتے تھے -وارفتگی و بےخودی میں اماں کے قدموں پر سر رکھتے تھے ، پتہ نہیں سو جاتے تھے یا ہوش و حواس سے آزاد ہوجاتے تھے - ادب کا یہ عالم تھا کہ کچھ کہنا چاہتے تھے تو بول نہ پاتے تھے -
اماں کے التفات کی صورت یہ تھی کہ ابا کا کان گرم ہوجائے تو وہ تخت سے اتر کر صحن میں ٹہلنے لگتے تھے - ہم کیا بتائیں کیا ماحول تھا ، کیسی خوشی تھی - غم اور پریشانی غبار بن کر ہمارے گھر سے اڑ گئی تھی - ہر دن عید کا دن تھا اور رات شب برأت تھی - 

ہم یہ کیسے بھول جائیں کہ جب اماں چائے پیتے تھے اور ان کے پاس ہم میں سے کوئی بھی بچہ چلا جاتا تھا - وہ اپنا جھوٹا اپنے ہاتھ سے ہمارے منہ سے لگا دیتے تھے - عید  بقرعید ہر شخص کے لئے خوشیاں لاتی ہے مگر ہمارے بھاگ ایسے تھے کہ الله کا ایک ابدال ہمارے کپڑوں ، ہماری چوڑیوں اور ہمارے لئے مہندی کا اہتمام کرتا تھا -
 یہ نصیب کی بات ہے کہ ہم نے اپنے ابا کی دیوانگی ، ایثار اور مرشد کے عشق کی وجہ سے جنت کی بہاریں دیکھیں ہیں - حق کا ابدال ، نظام کائنات میں الله تعالیٰ کا نائب ، علوم کے خزانوں کا مالک ، رسول للہ صلی الله علیہ وآ له وسلّم کے وارث حضرت قلندر بابا اولیاء کے زیر سایہ ہم اس دنیا میں آئے - ان کی سرپرستی میں ہماری نشوونما ہوئی -
ان کی محبت و شفقت نے ہماری تربیت کی - کبھی ایسا نہیں ہوا کہ پریشانی لاحق ہوئی ہو اور میں نے اماں کو آواز دی ہو اور میری مراد پوری نہ ہوئی ہو - 1D ،1/7 ناظم آباد کا گھر بلا شک و شبہ ایک معجزاتی اور کراماتی گھر تھا - اس گھر کی فضا میں بچوں کو فرشتے اڑتے نظر آتے تھے ، انبیاء کی روحیں تشریف لاتی تھیں اور اولیاء الله کے مثالی اجسام اماں کے کمرے کو رونق بخشتے تھے - 

ہماری امی راشدہ عفت نے حضور قلندر باباؒ کی مثالی خدمت کی ہے - ہم نے دیکھا ہے کہ اماں کے اوپر استغراق غالب آجاتا اور کئی کئی دن لاشعوری کیفیات میں رہتے تھے - امی تسلہ میں پانی بھر کر ان کے پیر دھوتی تھیں اور ابا جی کے ساتھ ساتھ وہ بھی ان کی ضروریات کا خیال رکھتی تھیں - ابا جی کہتے ہیں کہ اگر تمہاری امی کا تعاون مجھے نہ ملتا تو روحانی سفر طے کرنا میرے لئے مشکل مرحلہ بن جاتا - 

ابا جی بتاتے ہیں ، ایک بار بھائی جان ( حکیم وقار یوسف عظیمی ) گھٹنوں چلتے اماں کے پاس آئے اور سالن میں ہاتھ ڈال دیا - اماں نے فوراً بھائی جان کا منا سا ہاتھ منہ میں لے کر چوسنا شروع کردیا کہ مبادا ہاتھ لگنے سے آنکھوں میں پانی نہ آجائے -  
ہم بہن بھائیوں کو یہ سعادت بھی نصیب ہے کہ ہم سب کا نام اماں نے رکھا ہے یعنی ہماری شناخت کا پہلا مرحلہ اماں کے ساتھ وابستہ ہے - میں سوچتی ہوں کہ یہ بزرگ اتنی محبتیں دے کر آخر چلے کیوں جاتے ہیں اور اس طرح چلے جاتے ہیں کہ نظر بھی نہیں آتے -

میرا دل اداس ہوتا ہے تو میں اماں کو یاد کرنے لگتی ہوں - وہ مجھے تسلی دیتے ہیں ، میرے سر پر دست شفقت پھیرتے ہیں -ان کے علم کی روشنی میرا سہارا بنتی ہے - یہ روشنی میرے اوپر بڑے عجیب راز افشاء کرتی ہے - 

کہتی ہے کہ : یہاں اس مادی دنیا میں ، مادی خول میں ، مادی حواس میں کچھ نہیں رکھا - جو آج ہے وہ کل نہیں ہوگا ، جو کل ہوگا وہ ماضی بن جائے گا -کون آتا ہے ، کون جاتا ہے ، کیوں آتا ہے ، کیوں جاتا ہے یہ سب کھیل تماشہ ہے - میری جان کے امین ، میری حیات ، میری ممات ، میری روح جنہوں نے ہمیں ماں کی طرح پالا پوسا ہے -

 حضرت قلندر بابا اولیاؒء کی تعلیمات بھی یہی ہیں کہ دنیا ... راستے میں عارضی قیام کے لئے ایک مقام ہے - جو آتا ہے وہ جائے گا اور جو ابھی نہیں آیا وہ آنے کی تیاری میں مصروف ہے - 

قلندر بابا فرماتے ہیں ...

             دنیا وہ نگر ہے کہ  جہاں کچھ  بھی نہیں 
            انسان وہ گھر ہے کہ جہاں کچھ بھی نہیں                
            وہ وقت کہ سب جس  کو  اہم  کہتے  ہیں 
            وہ وقت صفر ہے کہ جہاں کچھ بھی نہیں 

         جو اس خانہ خراب میں آگیا وہ اس غم میں ہراساں ہے کہ اگر میں نے دنیا میں دل نہیں لگایا تو زندگی کا مقصد پورا نہیں ہوگا - 
وہ اپنے عمل سے خود بھی پریشان ہوتا ہے دوسروں کو بھی برباد کرتا ہے - الفاظ کے نشتر سے خون جگر پیتا ہے اور دوسروں کو ان خون آمیز باتوں سے دکھ پہنچاتا ہے - قلندر بابا فرماتے ہیں ...

    کیا    بات    کو    تلوار   نہیں   کرسکتے  
   سرمد     کو      سردار     نہیں         کرسکتے
   منہ رکھتا  ہے انسان  جو چاہے کہہ دے
                      الفاظ           تو       انکار        نہیں       کرسکتے                     

*  *  *  *  *



یہاں آنے والا ہر فرد و بشر ، یہ سب جاہ و حشم ، کبر و نخوت ، جلال و کمال ، ایک روز زیر زمین ہوجائے گا - 

ہے    زیر   زمین  بھی  شہر  کی   آبادی 
مٹی کے صنم سے ہے وہاں آزادی 
ہے موت کا سایہ بھی وہاں پرممنوع 
ممکن    ہی   نہیں    حیات   کی   بربادی 

*  *  *  *  *


کچھ لوگ یہاں  ایسے ہیں کہ ان کی زندگی دوسروں کے ساتھ ( الله کے ساتھ نہیں ) توقعات قائم کرنے میں ختم ہوجاتی ہے جبکہ ہر آدمی جانتا ہے کہ ایک مجبور و بےبس انسان دوسرے آدمی کی توقعات کیسے پوری کرسکتا ہے -
جو آدمی خود پیدائش پر اختیار نہیں رکھتا ، موت سے پنجہ آزمائی نہیں کرسکتا ، سانس لینے پر اسے اختیار نہیں ہے ... وہ کسی کی توقع کیا پوری کرے گا - 

دنیا  سے   ہے  امید  وفا  کی  تجھ  کو 
کھائے  گی  قسم  فریب دے گی تجھ  کو
 دے   قرض   متاع   زیست , کر  نادانی 
لوٹا کے یہ کوڑی بھی نہ دے گی تجھ کو 

*  *  *  *  * 


ہم دیکھتے ہیں کہ اس دنیا میں ہر شخص خود فریبی خود نمائی اور انا کی تصویر بنا پھرتا ہے - کیا ہم یہ نہیں دیکھتے کہ بڑے سے بڑا سائنسدان بھی ایک فیلڈ کے علاوہ دوسری فیلڈ میں کم عقل بچے کی طرح ہے -
کبھی نہیں دیکھا گیا کہ کسی بڑے سائنسدان نے کپڑے سیئے ہوں - اگر اس بڑے سائنسدان کو کپڑے سینے کے لئے دے دیئے جائیں تو وہ لازماً کم عقلی کا مظاہرہ کرے گا - کسی شعبے میں تھوڑی سی شد بد ہوجانے سے آدمی سمجھتا ہے کہ میں عقل کل بن گیا ہوں -

 آئیے دیکھیں اس بارے میں حضور قلندر بابا اولیاؒء کا تفکر کیا ہے - 


انسان نے کھویا ہے نہ کچھ پایا ہے 
اک وہم ہے جو سود و زیاں لایا ہے 
کوئی     نہ    مفکر    نہ    مدبر   ہے     یہاں 
البتہ       دماغ     میں     خلل    آیا     ہے  

*  *  *  *  *


آدمی بھی عجیب گورکھ دھندہ ہے چاہتا ہے کہ کوئی تصویر اس سے محبت کرے - یہ بھی چاہتا ہے کہ وہ کسی تصویر سے محبت کرے - کیسی محبت کہاں کا عشق .. کیسی روشنی کیسی تاریکی ... کیسی خوشی کیسا غم -
 یہ سب عمر کے اک دور کی طوفان خیز کیفیات ہیں - آدم زاد آہ بھرتا ہے تو دھواں اٹھتا ہے مگر جگنو جب آہ بھرتا ہے تو اس کے اندر سے چنگاریاں نکلتی ہیں - 

اندھیر شب غم کا جہاں ہوتا ہے 
درد دل عاشق بھی وہاں ہوتا ہے 
فرہاد کے بدخواہ یہ لکھ لیں دل پر 
جگنو  بھی  چراغ  آشیاں ہوتا ہے 

*  *  *  *  *



جب آدمی اداس اور بدحواس ہو کر گھر سے بھاگتا ہے ، بستیوں شہروں سے فرار ہوکر جنگل جنگل پھرتا ہے ، باغوں میں بسیرا کرتا ہے تو وہاں بھی اسے قرار نہیں آتا - کہتا ہے کہ قرار آگیا مگر پھر بےقراری کے تالاب میں چھلانگ لگا دیتا ہے -ایسا کیوں ہے -
اس لئے کہ شہر ہو بستی ہو ، جنگل ہو ، ویرانہ ہو ، باغ ہو سب کو فنا ہے جہاں فنا ہے وہاں سکون نہیں ہے اور جہاں بقا ہے وہاں بےسکونی نہیں ہے - دنیا اک فریب ہے کہ جس کو آدمی فریب نہ سمجھ کر خود کو فریب دے رہا ہے - 

باغوں میں جو قمریاں ہیں سب مٹی ہیں 
پانی میں جو مچھلیاں ہیں سب مٹی ہیں 
آنکھوں  کا  فریب  ہے  یہ  ساری  دنیا 
پھولوں میں جو تتلیاں ہیں سب مٹی ہیں  


*  *  *  *  *



حضور قلندر بابا اولیاؒء کی تحریر کا یہ اعجاز ہے کہ جب وہ کوئی بات کرتے ہیں تو اس  بات کی گہرائی میں الله تعالیٰ کا قانون بولتا ہے - قدرت نے زندگی کو دو درجوں میں تقسیم کیا ہے - زندگی کا ایک درجہ یا ایک رخ آدمی کو اس کی ماورائیت سے دور کرتا ہے -

دوسرا درجہ یا دوسرا رخ آدمی پر ماورائی دنیا کا دروازہ کھولتا ہے - جو رخ ماورائی دنیا کا دروازہ بند کرتا ہے آدمی کو صعوبت میں مبتلا کردیتا ہے ... وہ دن ہے اور جس کو ہم رات کہتے ہیں وہ ماورائی دنیا کے دروازے کی کنجی ہے - 

ساقی  ہے  شب برات  پانے  کی  رات 
                                                                         یہ رات ہے سوتوں کو جگانے کی رات 
جو    مانگے  گا  سائل   وہ  ملے   گا بےشک 
یہ  رات  تو  ہے خاص پلانے کی رات 

*   *   *   *   *

آج کا بچہ کل جوان ہوجاتا ہے اور بوڑھا ہوکر مر جاتا ہے - کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ آدمی نے کیا کھویا ہے ، کیا پایا ہے - بارہ سال عمر تک شعور ہی نہیں آتا - شعور کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو والدین کو مستقبل کا فکر دامن گیر ہوگیا اور بچے کے اندر مستقبل کے عدم تحفظ کے احساس کو اجاگر کرنا شروع کردیا -

عدم تحفظ کے احساس میں سلگتے ہوئے بچہ جوان ہوگیا - جوانی بھری بھی نہیں تھی کہ والدین کی خدمت گزاری کا دور آگیا - ابھی خدمت کے ماہ و سال پورے بھی نہیں ہوئے تھے کہ شادی ہوگئی - شادی ہوئی تو بیوی کا اسیر بن گیا - بیوی کی زلفوں کی اسیری کا صلہ یہ ملا کہ باپ بن گیا - 
اب دو ذمہ داریاں سر پر ان پڑیں - بیگم کی خوشامد اور بچوں کی دیکھ بھال - شب و روز کی محنت ، دن رات کی کلکل جب عروج پر پہنچی تو سرخ شباب سفید بالوں میں منتقل ہوگیا - طنز بھری باتوں سے دل مغموم ہوگیا اور آنکھیں خشک ہوگئیں - ابھی سنبھلنے بھی نہ پایا تھا کہ حضرت ملک الموت تشریف لے آئے - 


اپنوں کی طرف دیکھ کے رہ جاتا ہوں 
                                                                         کتنی  ہی بڑی بات  ہو سہہ    جاتا ہوں 
اپنی ان ہی  خشک  آنکھوں  سے عظیم 
ویرانی     کا    اک    فسانہ    کہہ    جاتا   ہوں 


*  *  *  *  *
عمر اور وقت کیا ہے ، یہ بات صدیوں پہلے بھی ایک معمہ تھی اور آج کے سائنسی دور میں بھی ایک راز ہے - انسان عمر کے تین مدارج سے واقف ہے ... ماضی ، حال اور مستقبل -
جو چیز حال کہلاتی ہے وہ ماضی بن جاتی ہے اور آج جو لمحہ ،ستقبل تصور کیا جاتا ہے وہ بھی کل کا ماضی بن جاتا ہے - ایک بچہ جو آج معصومیت کی تصویر ہے جب جوانی میں داخل ہوتا ہے تو اس کا بچپن غائب ہوجاتا ہے - 

انسان کا ماضی اور مستقبل دونوں اس طرح نابود ہوجاتے ہیں کہ تلاش کرنے پر بھی نہیں ملتے - گردش دوراں قدرت کا ایسا راز ہے .. قدرت کی ایسی نشانی ہے جو آدمی کو فنا کا آئینہ دکھاتی ہے - وقت کی زبان بتاتی ہے کہ عمر گھٹتی بڑھتی ہے ، جسم پر فنا وارد ہوتی ہے وقت کبھی نہیں مرتا - 

معلوم نہیں اڑ کے کدھر جاتے ہیں 
پیچھا  نہیں ممکن یہ  جدھر جاتے  ہیں 
ہاں    اتنا   تو  اندازہ  ہوا  ہے  مجھ  کو 
اوراق ہیں عمر  کے  بکھر  جاتے  ہیں 


*  *  *  *  *

ایک وقت تھا کہ ہم اپنی آنکھوں سے اماں کو دیکھتے تھے ، اماں کے ہاتھوں کا لطیف اور نورانی لمس محسوس کرتے تھے - رحمت کا سائبان بن کر ہمیں سورج کی تمازت اور دھوپ کی تپش سے سایہ فراہم کرتے تھے -
وقت نے کروٹ بدلی .. ایسا لگا سر پر سے چھت اڑ گئی - دھوپ کی تپش نے پرسکون زندگی کو درہم برہم کردیا - بھرا پرا گھر خالی ہوگیا - آنکھیں بھیگ گئیں دل ڈوب گیا - جسم و جاں سے رشتہ ٹوٹتا محسوس ہوا - ایک دوسرے کو سہارا دینے کا حوصلہ بھی نہ رہا - قیامت کے بارے میں سنتے آئے تھے وہ آنکھوں سے دیکھ لی -

 ابا جی نے رسالے کے سرورق پر اپنے خون جگر سے لکھا :

واحسرتا کہ آج دنیا اس وجود سرمدی سے خالی ہوگئی جس کے بارے میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے  ... " میں اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہوں اور میں ان کے کان ، آنکھ اور زبان بن جاتا ہوں - پھر وہ میرے ذریعے سنتے ہیں ، میرے ذریعے بولتے ہیں اور میرے ذریعے چیزیں پکڑتے ہیں - " 


روحانی ڈائجسٹ کا یہ شمارہ چھپ کر تیار ہی ہوا تھا کہ روحانی ڈائجسٹ کے سرپرست اعلیٰ حضور حسن اخریٰ محمّد عظیم برخیا قلندر بابا اولیاء نے سفر آخرت کی تیاری کرلی اور دیکھتے ہی دیکھتے واصل بحق ہوگئے -

 جگر خون ہوگیا ، آنکھیں پانی ہوگئیں ، دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ، دماغ ماؤف ہوگئے - کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو نمناک نہ ہوئی ہو ، کوئی دل ایسا نہیں تھا جو بےقراری کے عمیق سمندر میں ڈوب نہ گیا ہو ایسا لگتا تھا کہ لوگوں کے جم غفیر پر سکتہ طاری ہوگیا ہے - 

ایسی برگزیدہ ہستی نے پردہ فرمالیا جس کی نماز جنازہ میں انسانوں کے علاوہ لاکھوں فرشتے صف بستہ تھے -
 حضور سرور کائنات صلّ الله علیہ وسلّم ، عاشق رسول حضرت اویس قرنیؓ ، اولیاء الله کے سرتاج حضرت غوث الا اعظمؒ  گرامی قدر اپنے معزز فرزند سعید کے استقبال کے لئے موجود تھے - حد نظر تک اولیاء الله کی ارواح کا ایک ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر تھا -   


 زمانے کے نشیب و فراز سے گزر کر ہم  بےقراری اور قرار کی ملی جلی کیفیت میں آگے بڑھتے رہے - اس طویل عرصے میں ہم نے دیکھا کہ ابا جی کی دیوانگی جو ہم نے بچپن میں دیکھی تھی بڑھتی گئی - بڑھتی گئی - بڑھتی گئی -


ہمارا باپ اپنے مرشد کی زندہ تصویر بن گیا - رات دن نہ رہا - دن رات نہ رہی - اس مرد مجاہد نے کھیتوں کھلیانوں میدانوں کانٹوں اور پھولوں میں سے گزر کر ایک کارواں بنایا اور اس کارواں کا میر کارواں بن کر کسی ماورائی انسان کی طرح زمین میں چل کر ہواؤں میں اڑ کر قلندر بابا اولیاؒء کی روشنی پھیلاتا رہا - 

   ہم نے دیکھا عاشق مرشد ہمارے باپ نے ہر اس جگہ قلندر بابا کی تعلیمات کو عام کیا جہاں وہ پہنچ سکتا تھا - یہ ٹھیک ہے کہ ہم جی بھر کر اپنے باپ کی صورت دیکھنے کو ترستے ہیں -
 یہ صحیح ہے کہ ہمارے باپ کی گھریلو لائف کچھ نہیں ہے - میں یہ بھی جانتی ہوں کہ میرے بھائیوں کو اپنے معاملات میں مشورہ کرنے کے لئے پندرہ پندرہ دن تک انتظار کرنا پڑتا ہے لیکن ہم سب خوش ہیں کہ ہمارے اوپر قلندر بابا کے جو احسانات ہیں ، ہمارے باپ نے ان احسانات کا شکر ادا کرنے کے لئے خود کو قلندر بابا اولیاء کے مشن کے لئے نہ صرف وقف کردیا ہے بلکہ اپنی ذات کو فنا کردیا ہے -

 قلندر بابا اولیاؒء ہمارے لئے کیا ہیں اس کے لئے نہ ہمارے پاس الفاظ ہیں اور نہ ہی ہماری زبان کو یارا ہے کہ وہ کچھ کہہ سکے بس حد ادب ہے -

 ابا جی اکثر یہ رباعی گنگناتے ہیں 

اب    عمر  ضعیفی   کی   ہے   میری  ساقی 
اب  کچھ نہیں  اعصاب  کے  اندر  باقی 
اب     خود   میری مٹی  کا   بنے    گا  ساغر 
ساغر میرے ہاتھ سے نہ چھین اے ساقی 

*  *  *  *  *

 قلندر بابا اولیاؒء کے دربار میں عاجزانہ مؤدبانہ ، دل کی گہرائیوں سے درخواست ہے کہ جس طرح ہمارے اوپر آپ کا کرم محیط ہے اور زیادہ محیط رہے - آپ جانتے ہیں کہ ابا جی ہمارے لئے ساغر ہیں اور آپ ہم سب کے ساقی - 

شخصیات اور مقامات -- 1




بلند شہر- یوپی - انڈیا 


                                                                                     بلند شہر- یوپی - انڈیا 


بلند شہر- یوپی - انڈیا 


بلند شہر- یوپی - انڈیا 



بلند شہر گیٹ  - یوپی - انڈیا  2013 ء 



  گھنٹہ گھر بلند شہر- یوپی - انڈیا  2013 ء 



اپر کوٹ  بلند شہر- یوپی - انڈیا  2013 ء 



بندر روڈ  کراچی  1952ء




لیاری مارکیٹ کراچی ( قبل ازتقسیم ہند )



لیاری مارکیٹ کراچی ( قبل ازتقسیم ہند )



میکلوڈ روڈ ( آئی - آئی - چندریگر روڈ ) 1950ء  



لارنس روڈ کراچی 2013ء


مولوی مسافر خانہ ، ایم اے جناح روڈ ، کراچی - 2013ء



1D ،1/7  ناظم آباد کراچی 


باب سرسید علیگڑھ مسلم یونیورسٹی  انڈیا 


قبر مبارک آفتاب احمد ( صاحبزادہ حضور قلندر بابا اولیاؒء ) - میوہ شاہ قبرستان ، کراچی 


قبر مبارک آفتاب احمد ( صاحبزادہ حضور قلندر بابا اولیاؒء ) - میوہ شاہ قبرستان ، کراچی 

قبر مبارک آفتاب احمد ( صاحبزادہ حضور قلندر بابا اولیاؒء ) - میوہ شاہ قبرستان ، کراچی 



مزار مبارک حضرت لوط علیہ السلام ، محلہ بنی نعیم ، فلسطین 


روضہ مبارک حضرت علی کرم اللہ وجہہ ، نجف اشرف ، عراق 



کاظمین شریف - بغداد ، عراق 


جمعہ، 28 اگست، 2015

بدھ، 8 اپریل، 2015

یاد عظیمؒ -- 12


                                      یاد عظیمؒ 



مضمون : عالی مرتبت بادشاہ 
تحریر   : نسیم احمد 
اشاعت  : روحانی ڈائجسٹ جنوری 1992ء 


8 اگست 1978ء کی وہ مبارک گھڑی مجھ کو آج بھی یاد ہے جب میرے آقا و مولا حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے مجھ سے فرمایا کہ آئیے آج آپ کو حضور قلندر بابا اولیاؒء سے ملوائیں - میں بصد شوق تیار ہوگیا اور ہم حضور قلندر بابا اولیاؒء کے آستانے کی طرف روانہ ہوئے -
 میں راستے بھر اپنے ذہن میں طرح طرح کے تصور قائم کرتا رہا کہ قلندر بابا ایسے ہوں گے ان کی اتنی بڑی داڑھی ہوگی - اس لئے کہ بچپن ہی سے ہمارے ذہن میں یہ بات تھی کہ بزرگ لوگ بہت موٹے ہوتے ہیں جتنی بڑی ان کی داڑھی ہوتی ہے اتنے ہی بزرگ ہوتے ہیں -

غرض یہ کہ قصہ مختصر ہم حضور قلندر بابا اولیاؒء کے آستانے پہنچے -وہاں پہنچ کر میرے ذہن کو ایک زبردست جھٹکا لگا - میرے تصور کے بالکل برعکس دبلے پتلے ، نورانی چہرہ سفید مگر چھوٹی داڑھی -
ایک شاہانہ انداز سے پلنگ کے اوپر میرے حضور قلندر بابا اولیاؒء جلوہ افروز تھے - چہرے سے بےپناہ نرمی اور شفقت ٹپکتی تھی - میرے پیر و مرشد نے فرمایا کہ حضور یہ ہی ہیں ہمارے نسیم صاحب - حضور قلندر بابا اولیاؒء نے انتہائی پیار بھری مسکراہٹ سے مجھے دیکھا اور نہایت شفقت سے میرے سر پر ہاتھ رکھا  اور دعا فرمائی - آپ کی مسکراہٹ اتنی حسین اور پرشفیق تھی کہ وہ ہمیشہ کے لئے میرے ذہن میں نقش ہوگئی - میں آج بھی گاہے گاہے اس مسکراہٹ کے تصور سے ان کے پیار کا رس نچوڑتا رہتا ہوں -

میرے بابا جی تو اندر چلے گئے اماں جی سے ملنے اور قلندر بابا کے حضور میں اکیلا رہ گیا - میں نے حضور سے سوال کیا کہ تصوف کا کیا مطلب ہے ؟  آپ نے قدرے توقف کے بعد فرمایا ... " تصوف دراصل نور باطن ہے یعنی ایسا خالص ضمیر جس میں آلائش قطعاً نہ ہو ... " -  

حضور قلندر بابا اولیاؒء کے اس فرمان پر جب غور کیا تو الله کی طرف سے جو رہنمائی حاصل ہوئی وہ یہ ہے کہ ہر انسان کے اندر نور کا ایک نقطہ ہوتا ہے جو نوع انسانی کے لئے مشعل راہ ہے -
لیکن جب ہم دنیا کے اندر مستغرق ہوجاتے ہیں اور دنیا کی آلائشیں اپنے اندر بھرنا شروع کرتے ہیں تو یہ آلائشیں اس نقطہ نور کے سامنے ایک دبیز پردے کی شکل اختیار کرلیتی ہیں چونکہ آلائش نور کے اندر شامل نہیں ہوسکتی اس لئے نور اپنی جگہ برقرار رہتا ہے  اور برابر رہنمائی کرتا ہے - لیکن ہم صحیح رہنمائی حاصل نہیں کرپاتے کیونکہ ہماری سوچ اور ہماری فکر تک میں یہ آلائش شامل ہوچکی ہوتی ہے اس لئے ضمیر کی رہنمائی ہم تک اس آلائش میں سے آلودہ ہوکر پہنچتی ہے نتیجتاً ہم زندگی بھر بھٹکتے رہتے ہیں - 

ایک اور سوال کے جواب میں حضور قلندر بابا اولیاؒء نے فرمایا کہ ... " انسان کی یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ وہ پیچھے پلٹ پلٹ کر دیکھتا رہتا ہے وہ یہ نہیں سوچتا کہ الله تعالیٰ نے آنکھیں اس کی پیشانی پر سامنے کی طرف کیوں دی ہیں - اگر پیچھے دیکھنا مقصود ہوتا تو الله کے لئے کیا مشکل تھا کہ وہ آنکھیں سر کے پچھلے حصے پر ہی لگا دیتے ... " - 


حضور قلندر بابا اولیاؒء کے اس فرمان کی وسعتیں اتنی ہیں کہ انہیں چند اوراق میں نہیں سمیٹا جاسکتا - مختصراً یہ کہ ہمارے سامنے تاریخ بکھری پڑی ہے - تمام انبیاء متقدمین جب تشریف لائے اور قوموں کو ہدایت دی تو سب نے پلٹ کر یہی جواب دیا کہ ہم آپ کی بات کیسے مان لیں جبکہ ہمارے بڑوں نے اس کے برعکس کہا اور کیا ہے -

یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ وہ پیچھے پلٹ کر اپنے بزرگوں کی ہی نقش پا دیکھتے رہے انہوں نے اپنے سامنے سچائی کے اس پیکر کو نہیں دیکھا اس کی بزرگی اس کے اعمال کو نہیں دیکھا - نتیجتاً وہ خسارے میں رہے - لیکن جنہوں نے ماضی میں دیکھنے کے بجائے اپنے آپ کو حال سے منسلک کرلیا وہ فائدے میں رہے -  

میں ضمناً اس بات کا تذکرہ کرتا چلوں کہ مجھے پامسٹری کا بہت شوق تھا اور میں نے بےشمار ہاتھ دیکھے تھے لہٰذا حضور کا ہاتھ دیکھنے کی خواہش ایک قدرتی بات تھی - لیکن میں یہ گستاخی کیسے کرسکتا تھا - میری کسی طور ہمت نہیں پڑی کہ میں اپنی اس خواہش کا اظہار کرسکتا -
 لیکن میں نے دیکھا کہ حضور قلندر باباؒ نے پہلو بدلا اور اپنے دونوں ہاتھ اس انداز سے گود میں رکھ لئے کہ میں انہیں بآسانی پڑھ سکتا تھا - میں دور ہی سے اپنے شوق کی تسکین کرتا رہا - ایسا ہاتھ میں نے کبھی نہیں دیکھا بلا شک و شبہہ وہ ایک عالی مرتبت شہنشاہ کا ہاتھ تھا ایسا شہنشاہ جس کی حکومت کی حدود ایک حضیرے تک پھیلی ہوئی تھیں -   

 ان کے ہاتھ میں دماغ کی لکیر ایک مثالی لکیر تھی ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلی ہوئی ، انتہائی گہری - ہاتھ میں  Mystic کراس اس بات کا اعلان ہے کہ روحانیت کاملیت کی حدوں کو چھو رہی ہے - ہاتھ میں دل کی لکیر کی لمبائی اور ساخت اس بات کا اشارہ ہے کہ دل کسی کے عشق میں گم ہے مدہوش ہے -

میرا یہ مشاہدہ ہے کہ یہ وصف دراصل عطا ہے اور ایسے لوگ الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وآ له وسلّم کے ہی نہیں بلکہ اس کی مخلوق کے بھی عاشق ہوتے ہیں - یہ لوگ محبت وعشق کا پیکر ہوتے ہیں - ان کی محبت سے حجر ، شجر ، چرند ، پرند اور جن و انس سب یکساں طور پر مستفیض ہوتے ہیں -     

منگل، 7 اپریل، 2015

یاد عظیمؒ -- 11



                                     یاد عظیمؒ


 مضمون : حسن اخریٰ سید محمّد عظیم برخیا 
  تحریر   : حکیم وقار یوسف عظیمی 
  اشاعت  :  روحانی ڈائجسٹ   فروری 1993ء
               حصہ  دوم )


جیسے جیسے وقت گزرتا رہا اماں کی عظمت و توقیر میرے دل میں بڑھتی رہی اور اب ایک نیا احساس دل میں جاگزیں ہوا وہ یہ کہ جس طرح اماں کو ہمارے ابا جانتے ہیں یا ہم چند لوگ جانتے ہیں اسی طرح انہیں سارا عالم جانے -
یہ خیال دل ہی دل میں پروان چڑھتا رہا لیکن اس خیال کو اماں کے سامنے براہ راست ظاہر کرنے کی کبھی ہمت نہ ہوئی - ہاں بالواسطہ طریقے سے اکثر ضرور اظہار کردیا کرتا تھا - کہتا اماں جس طرح نانا تاج الدین پر آپ نے کتاب لکھی ہے اسی طرح اور بھی کوئی کتاب لکھیں - وہ میری بات سن کر مسکراتے اور کہتے اچھا -

اب بات کو آگے بڑھانے کی میری ہمت نہ پڑتی کہ جب آپ نے حامی بھرلی ہے تو لکھوانا شروع کردیں بس یہیں تک بات ہوکر ختم ہوجاتی - اماں کے سامنے تو بات ختم ہوجاتی لیکن دل میں جو خواہش جڑ پکڑ چکی تھی اس کی شدت میں مزید اضافہ ہوجاتا -
جی چاہتا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اماں کی باتیں پہنچیں - لوگوں کو پتہ چلے کہ ان کے درمیان ایک ایسی ہستی موجود ہے جو الله تعالیٰ کے عطا کردہ علوم سے مالا مال ہے اور الله کی محبت اور حضورعلیہ الصلوة والسلام کے عشق میں سر تا پا ڈوبی ہوئی ہے -

اماں کا پیغام پھیلنا چاہیئے کہ محبت کا پیغام ہے - وہ الله کی محبت و چاہت کی باتیں کچھ اس طرح بتاتے ہیں جیسے الله نے ابھی انہیں اپنی گود میں بٹھا کر پیار کیا ہو - وہ کہتے ہیں کہ الله کے قریب ہوجاؤ الله سے محبت کرو الله تعالیٰ خالق ہیں ان کی ہر تخلیق محبت کی ساتھ تشکیل پائی ہے چنانچہ تم بھی ہر دوسرے فرد سے محبت کرو اسے اچھا جانو اس کا احترام کرو -
اگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں کسی دوسرے سے کوئی تکلیف نہ پہنچے تو پہلے اپنی ذات کو دوسروں کے لئے باعث راحت و سکون بناؤ - بہتر بات یہ ہے کہ تمہاری ذات  سے دوسروں کو فائدہ پہنچے لیکن اگر یہ کوئی نہیں کرسکتا تو اتنا ضرور کرے کہ اس کی ذات سے کسی کو کوئی نقصان نہ پہنچے - 

ہم سب بہن بھائیوں کے نام اماں نے رکھے ہیں - ہم سب کو انہوں نے اپنی گود میں پرورش کیا ہے اماں کی گود کی عظمت سے اماں کی طرزفکر ہمارے اندر منتقل ہوئی ہے - میں نے کائناتی نظام اور اس نظام پر مصروف عمل کارندوں کی بچپن میں باتیں سنیں ہیں - 
بچپن میں ہی میرے ذہن میں یہ بات راسخ ہوگئی تھی کہ الله کے بندے انسان بھی کائناتی نظام چلاتے ہیں - غوث - قطب - مدار - کوچک ابدال - ابدال کے عہدوں سے میں واقف ہوگیا تھا - لیکن میں اکثر یہ سوچتا تھا کہ یہ لوگ یہاں دنیا میں بیٹھے ہوئے آسمانی دنیاؤں میں کس طرح کام کرتے ہیں -

مجھے حیرت اس وقت ہوتی تھی کہ جب کوئی شخص اماں کے پاس آکر فریاد کرتا تھا تو اماں کہتے تھے جاؤ خوش ہوجاؤ تمہارا کام ہوگیا ہے - اور یہ کام ہوجاتا تھا - میں نے کبھی اماں کو وسائل کا پابند نہیں دیکھا - بس جو کہہ دیا ، جو سوچ لیا اس کے مطابق خود بخود وسائل مہیا ہوجاتے تھے بلکہ وسائل بن جاتے تھے -
کبھی ایسا بھی ہوتا کہ گھر میں ہم سب بچے اماں کے ساتھ بیٹھ کر چٹنی سے روٹی کھاتے تھے - اماں بہت خوش ہوکر کہتے ... " بچو خوش ہوکر کھاؤ ، آج الله کے یہاں ہماری خصوصیت ہے کہ ہم چٹنی سے روٹی کھا رہے ہیں اور دوسرے لوگ گوشت وغیرہ کھا رہے ہیں - "

میری یہ خواہش کہ اماں کا نام عالم میں پھیل جائے اس طرح پوری ہوئی ابا نے روحانی ڈائجسٹ اماں کی اجازت سے جاری کردیا - روحانی ڈائجسٹ کے سرورق پر جو تحریر مسلسل پندرہ سال سے چھپ رہی ہے - یہ اماں ہی کی لکھوائی ہوئی ہے - من و عن ان کے ہی الفاظ ہیں -

یہ پرچہ بندہ کو خدا تک لے جاتا ہے
   اور  بندہ  کو  خدا  سے ملا  دیتا  ہے   

آج ہزاروں لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ اماں کی اس تحریر نے لوگوں کے دلوں کو منور کردیا ہے اور لوگ واقعی خدا تک پہنچ گئے ہیں - انہیں خدا کا قرب نصیب ہوا ہے - 


اماں کی زندگی میں ابا نے دو پرچے نکالے - پہلا پرچہ تجربہ نہ ہونے کے باوجود اچھا تھا - مگر دوسرا شمارہ دیکھ کر اماں نے کہا مضامین کی ترتیب اچھی نہیں ہے - اور تیسرے پرچے میں اماں کے وصال کی خبر لگ گئی -انّا للّہ و انّا الیہ راجعون 


ہم بچوں کی اماں کو کتنی فکر تھی - یہ بات مجھے جناب بھائی نثار علی بخاری جو اماں کے گہرے دوست تھے سے معلوم ہوئی -
ایک روز انہوں نے فرمایا ... بھائی صاحب فرما رہے تھے میں نے بنیادی کام کردیئے ہیں - اب یہاں رہنا کوئی اتنا ضروری نہیں ہے - مجھے خواجہ صاحب کی فکر ہے کہ وہ عیال دار ہیں الله ان کی معاش کا بندوبست کردے - بس پھر میں فارغ ہوں - 

روحانی ڈائجسٹ نکلنے کے بعد ابا کی مصروفیت بےپناہ ہوگئی ، ہم دوستوں نے اپنی عمر اور اپنی عقل کے مطابق ان کا ہاتھ بٹایا - ان دوستوں میں جاوید احمد ، نسیم احمد ، حافظ ضیاء ، زبیر احمد ، انیس احمد ہیں - جیسے جیسے میری عمر کے مطابق میری صلاحیت میں اضافہ ہوا میرے ذمہ روحانی ڈائجسٹ کی خدمات زیادہ ہوتی رہیں - 
ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ  1D ،1/7 کے نیچے کے مکان کے صحن کی طرف برآمدہ میں اماں ہیں اور میں صحن میں ہوں - اماں نے کہا میں تم سے خوش ہوں تم نے خواجہ صاحب کی مصروفیت میں حصہ لیا -  اب میں سوچتا ہوں کہ یہ تو خود میری خواہش پوری ہوئی ہے کہ مجھے روحانی ڈائجسٹ کا کام مل گیا ہے -

میں بچپن سے ہی چاہتا ہوں کہ اماں کا نام اور اماں کے علوم عالم میں پھیل جائیں - کیا لکھوں کتنا لکھوں ، میرے سراپا کا ایک ایک رواں اماں کی شفقت ، عظمت ، محبت ، خلوص اور ایثار کا گواہ ہے -

اماں کہتے تھے کسی کو کچھ بنانے کے لئے اپنا بہت کچھ کھونا پڑتا ہے - فرماتے تھے  موم بتی اپنے وجود کو جلا کر پگھلا کر اور خود کو فنا کرکے دوسروں کو روشنی دیتی ہے - اماں میری شناخت ہیں مجھے ان کی گود کا لمس نہ ملتا تو میں کچھ بھی ہوسکتا تھا مگر وقار یوسف عظیمی نہ ہوتا -   

ہفتہ، 4 اپریل، 2015

یاد عظیمؒ -- 10




                                    یاد عظیمؒ 


  مضمون : حسن اخریٰ سید محمّد عظیم برخیا 
   تحریر  : حکیم وقار یوسف عظیمی 
  اشاعت  :  روحانی ڈائجسٹ   فروری 1993ء
               ( حصہ اول )

       

قلندر بابا اولیاؒء یہ نام آج زبان زد خاص و عام ہے - جس مبارک و مسعود ہستی کا یہ خطاب ہے ہم اسے " اماں " کہہ کر پکارتے تھے - اس ہستی سے تعارف تو اول روز سے ہی ہے کہ ہم نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی اور جس ماحول میں پرورش پائی اس میں قلندر بابا اولیاء کی ہستی گھنے درخت کے سایہ کی طرح ہر طرف محیط تھی تاہم یہ نام قلندر بابا اولیاء میں نے پہلی مرتبہ سنا نہیں تھا بلکہ پڑھا تھا -


اس عالم فانی میں شاید میں اپنی عمر کی دوسری دہائی میں ہوں گا جب میں نے اماں کی ایک چھپی ہوئی تصویر دیکھی اس تصویر کے نیچے لکھا ہوا تھا قلندر بابا اولیاء -"اماں " کا یہ نام میرے لئے نیا تھا کیونکہ ہم خود انہیں اماں کہتے تھے ہمارے ماں باپ انہیں بھائی صاحب کہتے تھے -

بدر صاحب ، محسن صاحب ، جمال صاحب اور دیگر کئی حضرات انہیں حضور بھائی صاحب کہتے تھے - ڈاکٹر صاحب باوا کہتے تھے - ان کے صاحبزادے شمشاد بھائی ، رؤف بھائی اور صاحبزادیاں سلمیٰ باجی اور تسلیمہ باجی انہیں ابا کہتی تھیں -
بابا صاحب کی اہلیہ محترمہ ، ہماری سب کی اماں جی یا تو کوئی نام لئے بغیر ان کا ذکر کرتی تھیں یا تمہارے بھائی صاحب ، تمہارے ابا اور ہم بچوں سے مذاق میں تمہاری اماں کہہ کر ذکر کیا کرتی تھیں -


لیکن میرے سامنے کبھی کسی نے اماں کو قلندر بابا اولیاء کہہ کر نہیں پکارا تھا - تصویر ہمارے ابا نے مجھے دکھائی تھی میں ابا کے برابر میں بیٹھا ہوا تصویر دیکھ رہا تھا اس وقت اماں شاید ہمارے گھر میں نہیں تھے میں نے سر اٹھا کر ابا کی طرف دیکھا اور پوچھا یہ کیا لکھا ہوا ہے -

وہ مجھے دیکھ کر مسکرائے مجھے آج بھی یاد ہے کہ وہ کس پیار بھرے انداز میں مسکرائے تھے میں ان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتا رہا اور وہ مجھے دیکھ دیکھ کر مسکراتے رہے -
شاید میرا یہ سوال پوچھنا ان کے لئے بہت خوشی کا باعث تھا اور ان کی اندرونی پرمسرت کیفیات کا اظہار ان کی خوبصورت مسکراہٹ سے ہورہا تھا لیکن میں یہ سمجھا کہ شاید میں نے کوئی غلط سوال کرلیا ہے لہٰذا اپنی جھینپ مٹانے کو ادھر ادھر دیکھتے ہوئے میں بھی مسکرانے لگا اب وہ گویا ہوئے یہ اماں کا نام ہے - میں نے قدرے حیرت سے کہا یہ اماں کا نام ہے ؟ اماں کا نام تو عظیم ہے - انہوں نے کہا کہ یہ بھی اماں کا نام ہے -
بات آئی گئی ہوگئی اس کے بعد بھی جو بھی اماں سے ملنے آتا کہتا بھائی صاحب سے ملنا ہے یا حضور بھائی صاحب سے ملنا ہے -   کچھ عرصہ گزرنے کے بعد یہ تصویر کتاب تذکرہ بابا تاج الدین ناگپوری میں چھپی اب میں نے پھر اماں کی تصویر کے نیچے قلندر بابا اولیاء لکھا ہوا دیکھا - مجھے اچھی طرح یاد ہے ابا اور کبھی کبھار کوئی اور صاحب ساتھ بیٹھ کر کتاب " تذکرہ بابا تاج الدین ناگپوری " کا ڈکٹیشن اماں سے لیتے - اماں ناظم آباد کے مکان میں باہر صحن میں تخت پر کبھی بیٹھے ہوئے اور کبھی تکیہ سے ٹیک لگائے نیم دراز آہستہ آہستہ بولتے جاتے اور ابا لکھتے جاتے -


 ہم آتے جاتے یہ کاروائی دیکھتے تھے کبھی کبھار میں بھی تخت پر اماں کے پاس جا کر بیٹھ جاتا اور اماں کو بولتے ہوئے اور ابا کو لکھتے ہوئے دیکھتا رہتا - کبھی کبھی اماں کسی لفظ یا جملے سے مطمئن نہیں ہوتے تھے اور ایک لفظ یا جملے کو بار بار کٹوا کر لکھواتے - 

ڈکٹیشن کے دوران کبھی وہ اپنے نانا تاج الدین کے ساتھ گزارے ہوئے وقت کو یاد کرتے ہوئے گہری سوچ میں گم ہوجاتے - میں یہ سمجھتا کہ اماں شاید کوئی مناسب لفظ لکھوانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور یہ سوچتے ہوئے کبھی کبھی میں خود بیچ میں بول پڑتا - میرے بولنے سے ان کی محویت پر اثر پڑتا تھا لیکن اس طرح دخل در معقولات پر اماں نے کبھی مجھے ڈانٹا نہیں - 


ایک مرتبہ تو کمال ہی ہوگیا اماں بار بار کوئی لفظ کٹوا کر دوبارہ لکھوا رہے تھے کہ میں بیچ میں اپنی دانست میں کوئی متبادل لفظ بول پڑا اور اماں کہنے لگے ہاں یہ ٹھیک رہے گا - ابا نے لکھ لیا - اب مجھے یاد نہیں کہ وہ لفظ کیا تھا اور یہ کہ واقعی وہ لفظ کتاب میں شامل ہوا یا اس طرح محض ایک بچے کی دلجوئی مقصود تھی - 

لیکن میں تو اس وقت اماں کی اس بات سے بہت خوش ہوا ، خوشی میں دوڑتا ہوا اپنی امی کے پاس گیا اور انہیں اپنے اس کارنامے کے بارے میں بتایا - 


" تذکرہ بابا تاج الدین ناگپوریؒ " کے آخر میں ایک منقبت شائع ہوئی ہے - منقبت مکمل طور پر کس وقت لکھوائی گئی یہ تو یاد نہیں لیکن اس کا ایک مصرعہ میں نے اپنے سامنے بابا صاحب کو لکھواتے ہوئے دیکھا وہ تھا  



          یہ آپ ہی کا تو نواسہ ہے دریا پی کر جو پیاسا ہے 


شاید مزید اشعار بھی اسی نشست میں لکھوائے گئے ہوں لیکن مجھے صرف یہ ہی یاد ہے غالباً اس وجہ سے بھی یاد رہ گیا ہو کہ منقبت کے باقی اشعار کی نسبت اس وقت یہ مصرعہ میرے لئے زیادہ آسان تھا -

اس وقت بھی میں بیچ میں بولا اور اماں سے کہنے لگا اماں دریا تو بہت بڑا ہوتا ہے کوئی اس کا سارا پانی پی سکتا ہے ؟ اس وقت صحن میں اماں کے تخت کے گرد تین چار حضرات موجود تھے ایک ابا ایک جمال صاحب اور باقی یاد نہیں -
اماں میری بات سن کر مسکرائے باقی حضرات بھی مسکرانے لگے لیکن کوئی کچھ بولا نہیں پھر اماں ہنستے ہوئے کہنے لگے ..." بھئی ایک آدمی اپنی ساری عمر میں ایک دریا کے برابر پانی تو پی ہی لیتا ہوگا -" 


  بس اسی طرح ہنستے بولتے وقت گزرتا رہا - پھر ہم نے دیکھا کہ ہمارے ابا نے اخبار میں لکھنا شروع کیا - اس کی ابتداء بھی مجھے کچھ کچھ یاد ہے شروع میں ایسا ہوتا تھا کہ چند خطوط کے جواب تو ابا خود لکھ لیا کرتے تھے لیکن بعض خطوط الگ کرلیتے تھے اور بعد میں کسی وقت یہ خطوط اماں کو پڑھ کر سناتے اور اماں خود ان خطوط کے جواب ابا کو لکھواتے -
اس وقت ابا کا کالم دو طرح کے خطوط پر مشتمل ہوتا تھا ایک تو مسائل ، بیماریاں وغیرہ اور دوسرے خوابوں کی تعبیر - مسائل اور بیماریوں سے متعلق تو کسی خط کا جواب ابا خود لکھتے اور کوئی خط اماں کو دکھاتے لیکن کافی عرصہ تک یہ ہوتا رہا کہ خواب کی تعبیر کے لئے آنے والے ہر خط کا جواب اماں ہی لکھواتے تھے - 
اس کا طریقۂ کار یہ ہوتا کہ پہلے اماں خواب کی مجموعی تعبیر لکھواتے پھر تفصیلاً خواب میں دیکھی ہوئی باتوں کو بیان کرتے ہوئے ان کا تجزیہ لکھواتے رفتہ رفتہ اماں نے خواب کی تعبیر بھی ابا سے لکھوانی شروع کی اور انہیں ہدایت کی کہ جہاں کوئی بات سمجھ میں نہ آئے وہ مجھ سے پوچھ لیا کریں پھر کچھ عرصے  بعد فرمایا ... خواجہ صاحب اب آپ خود ہی لکھ لیا کریں -

 اماں کی شخصیت ہمارے لئے گھنے درخت کے سایہ کی طرح تھی - اماں ہمارے لئے محبتوں کا خزانہ تھے - ہمیں ان کی بات سن کر اور ان کا کہا مان کر بہت خوشی ہوتی - اگر وہ اپنے کسی کام کے لئے کہتے تو ہم بڑی خوشی خوشی وہ کام کیا کرتے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک عجیب سی بات یہ بھی تھی کہ اس وقت ہماری نظروں میں اماں کوئی خاص شخصیت نہ تھے -
اس بات کی وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ کوئی بھی فرد اپنے گھر میں اپنے بچوں کی نظر میں اپنے علمی مقام و مرتبہ یا اپنی سماجی حیثیت سے قطع نظر صرف ایک باپ ہوتا ہے یا کوئی بزرگ اپنے کم عمر پوتوں یا نواسوں کے لئے دادا یا نانا ہوتے ہیں - بچے ان کی بزرگی یا ان کے علمی مقام یا سماجی حیثیت سے مرعوب و متاثر نہیں ہوتے بلکہ بچے تو صرف  اور صرف اس  ہستی اور اپنے درمیان پائے جانے والے تعلق کے حوالے سے اس ہستی سے اپنا ذہنی یا قلبی ناطہ جوڑتے ہیں -
بالکل اسی طرح ہم بھی بچپن میں اماں کو صرف اماں  سمجھتے تھے ان کے بلند اور ارفع روحانی مقام کا کوئی ادراک تھا نہ شعور مگر اس کے ساتھ ساتھ شاید یہ اماں کی خصوصی توجہ کا اثر تھا کہ ہم اماں کو کوئی عام شخصیت بھی نہ سمجھتے تھے -

جب ہم کسی کے گھر ملنے جاتے اور وہاں بچوں کے نانا یا دادا کو دیکھتے اور ان سے ملتے تو دیکھنے میں تو وہ بھی اماں کی طرح بڑی عمر کے اور دھیمے دھیمے باتیں کرتے ہوئے اپنے پوتوں نواسوں سے پیار کرتے نظر آتے مگر اس وقت ایک بات ضرور ذہن میں آتی کہ اماں والی بات ان میں نہیں ہے - 
بچپن کی یہ بات  کہ اماں کوئی عام شخصیت نہیں ہیں رفتہ رفتہ گہری ہونا شروع ہوئی اور دل میں محبت کے ساتھ ساتھ عقیدت نے بھی گھر کرنا شروع کیا - حالانکہ بچپن میں نہ تو ہم نے کبھی ان کی کوئی خاص خدمت کی اور نہ کبھی اس طرح عقیدت و احترام کا مظاہرہ کیا جس طرح ہماری نظروں کے سامنے دوسرے لوگ کرتے تھے
بلکہ ہم تو اکثر ان کے کمرے میں شور  شرابہ کرتے رہتے تھے کبھی وہ ہمیں شور مچانے دیتے کبھی منع کرتے اور جب وہ منع کرتے تب بھی یہ ضروری نہیں تھا کہ ہم ان کی بات فوراً مان لیں بلکہ اکثر ہم بہن بھائی اپنی شرارتیں جاری رکھتے اور وہ کچھ نہ کہتے اگر کوئی مہمان آجاتے تو ہم ان کے کمرے سے نکل کر باہر صحن میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھتے - 

اس دوران کبھی اماں مجھے آواز دیتے - بھائی جان! میں ان کے کمرے میں جاتا وہاں کچھ لوگ موجود ہوتے اور اماں مجھ سے کہتے ... " بھائی جان! چائے لاؤ یا پانی لاؤ یا کھانا لاؤ - " مجھے اس طرح کے چھوٹے چھوٹے کام کرکے بہت خوشی ہوتی زیادہ خوشی اس بات سے ہوتی کہ کام کرنے پر اماں خود بہت زیادہ خوشی کا اظہار کرتے تھے اور مختلف اوقات میں کچھ اس طرح کہا کرتے بھئی واہ - بہت عمدہ - واہ بھئی واہ - بہت اچھا بچہ ہے - شاباش -



میں اسکول میں پڑھا کرتا تھا کہ اماں کے اندر چھپے ہوئے ایک بڑے آدمی کا وجود رفتہ رفتہ مجھ پر آشکار ہونا شروع ہوا - اب میری شرارتیں کم ہوگئیں اور اماں کے سامنے میں نے خاموشی اور ادب سے بیٹھنا شروع کردیا -
مختلف لوگ اماں سے مختلف موضوعات پر بات کرتے تھے اور میں دیکھتا تھا کہ اماں سوال سن کر اکثر برجستہ جواب دینا شروع کردیتے تھے - اب کبھی کبھی میں نے بھی اماں سے سوالات کرنا شروع کردیئے - اماں میری عمر اور میرے ذہن کے مطابق انتہائی محبت سے مجھے جواب دیتے اور پھر سمجھاتے میں کبھی اپنا کوئی خواب بھی انہیں سناتا تھا -  وہ بڑے غور سے سنتے اور پھر اس کا مطلب بتاتے -

میں اب سوچتا ہوں کہ اس زمانے میں میری باتوں پر اماں نے یہ سوچ کر یہ تو بچہ ہے کبھی بے توجہی نہیں برتی بلکہ ایک کم عمر بچے کی بات بھی وہ اسی توجہ اور انہماک سے سنتے تھے جس طرح بڑوں کی باتیں سنتے تھے - اور مجھے بھی اتنا ہی مفصل جواب دیتے تھے جتنا کہ دوسروں کو حتیٰ کہ میں مطمئن ہوجاتا - 

    تذکرہ بابا تاج الدین ناگپوری چھپ چکی تھی لیکن " لوح و قلم " کا مسودہ کئی برسوں سے ایک دراز میں پڑا ہوا تھا - میں کبھی کبھار دراز کھول کر فائل سے وہ مسودہ نکالتا اور اس کے شروع کے ایک دو صفحوں پر نظر ڈالتا اور پھر واپس رکھ دیتا -
اماں کے پاس بیٹھنا اور ان کی باتیں سننا بہت اچھا لگتا تھا - ذہن جیسے کہ کھل جاتا اور نئی نئی باتیں ذہن میں آنے لگتیں - اب ایک نئی بات یہ شروع ہوئی کہ جہاں کبھی کسی معاملے پر ذہن رکا ، فوراً دھیان اماں کی طرف گیا - خیال آیا کہ اماں سے پوچھ لیں گے - اماں کا خیال ہی مطمئن کردیتا تھا - اور بعد میں اماں سے وہ بات پوچھ لیا کرتا -

اماں سے بات کرنے کے لئے کسی موضوع کی کوئی ضرورت نہیں تھی - انہیں شعر و ادب سے خصوصی لگاؤ ضرور تھا لیکن ان سے مذہب و روحانیت کے علاوہ کیمسٹری اور جغرافیہ پر بھی بات کی جاسکتی تھی اور طب و حکمت پر بھی  -  
وہ علوم کے مختلف شعبوں کے بارے میں سوالوں کا جواب اتنی آسانی و برجستگی سے دیتے تھے کہ جیسے وہ اسی ایک شعبے کے ماہر ہوں - جینیٹکس کا نام شاید آج بھی بہت سارے لوگوں کے لئے نیا ہو لیکن ہم نے اماں سے آج سے 20 سال پہلے اس علم کی مبادیات پر گفتفو سنی ہے -

جب کبھی میں ان کی مجلسوں میں شریک ہوتا اور اس قسم کی باتیں سنتا تو دوران  گفتگو وہ کبھی کبھی مجھ سے بھی پوچھا کرتے کیوں بھئی بات سمجھ میں آرہی ہے نا میں اثبات میں سر ہلا دیتا اور واقعی وہ بات میری سمجھ میں آچکی ہوتی - ان کے ساتھ گزارے ہوئے وقت میں جو باتیں ہوئیں وہ سب کی سب الفاظ و جملوں کی شکل میں من و عن تو اب ذہن میں نہیں ہیں البتہ ان باتوں کا مفہوم اور تاثر ذہن میں رچ بس کر میری شخصیت کا حصہ بن گیا ہے -