منگل، 7 اپریل، 2015

یاد عظیمؒ -- 11



                                     یاد عظیمؒ


 مضمون : حسن اخریٰ سید محمّد عظیم برخیا 
  تحریر   : حکیم وقار یوسف عظیمی 
  اشاعت  :  روحانی ڈائجسٹ   فروری 1993ء
               حصہ  دوم )


جیسے جیسے وقت گزرتا رہا اماں کی عظمت و توقیر میرے دل میں بڑھتی رہی اور اب ایک نیا احساس دل میں جاگزیں ہوا وہ یہ کہ جس طرح اماں کو ہمارے ابا جانتے ہیں یا ہم چند لوگ جانتے ہیں اسی طرح انہیں سارا عالم جانے -
یہ خیال دل ہی دل میں پروان چڑھتا رہا لیکن اس خیال کو اماں کے سامنے براہ راست ظاہر کرنے کی کبھی ہمت نہ ہوئی - ہاں بالواسطہ طریقے سے اکثر ضرور اظہار کردیا کرتا تھا - کہتا اماں جس طرح نانا تاج الدین پر آپ نے کتاب لکھی ہے اسی طرح اور بھی کوئی کتاب لکھیں - وہ میری بات سن کر مسکراتے اور کہتے اچھا -

اب بات کو آگے بڑھانے کی میری ہمت نہ پڑتی کہ جب آپ نے حامی بھرلی ہے تو لکھوانا شروع کردیں بس یہیں تک بات ہوکر ختم ہوجاتی - اماں کے سامنے تو بات ختم ہوجاتی لیکن دل میں جو خواہش جڑ پکڑ چکی تھی اس کی شدت میں مزید اضافہ ہوجاتا -
جی چاہتا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اماں کی باتیں پہنچیں - لوگوں کو پتہ چلے کہ ان کے درمیان ایک ایسی ہستی موجود ہے جو الله تعالیٰ کے عطا کردہ علوم سے مالا مال ہے اور الله کی محبت اور حضورعلیہ الصلوة والسلام کے عشق میں سر تا پا ڈوبی ہوئی ہے -

اماں کا پیغام پھیلنا چاہیئے کہ محبت کا پیغام ہے - وہ الله کی محبت و چاہت کی باتیں کچھ اس طرح بتاتے ہیں جیسے الله نے ابھی انہیں اپنی گود میں بٹھا کر پیار کیا ہو - وہ کہتے ہیں کہ الله کے قریب ہوجاؤ الله سے محبت کرو الله تعالیٰ خالق ہیں ان کی ہر تخلیق محبت کی ساتھ تشکیل پائی ہے چنانچہ تم بھی ہر دوسرے فرد سے محبت کرو اسے اچھا جانو اس کا احترام کرو -
اگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں کسی دوسرے سے کوئی تکلیف نہ پہنچے تو پہلے اپنی ذات کو دوسروں کے لئے باعث راحت و سکون بناؤ - بہتر بات یہ ہے کہ تمہاری ذات  سے دوسروں کو فائدہ پہنچے لیکن اگر یہ کوئی نہیں کرسکتا تو اتنا ضرور کرے کہ اس کی ذات سے کسی کو کوئی نقصان نہ پہنچے - 

ہم سب بہن بھائیوں کے نام اماں نے رکھے ہیں - ہم سب کو انہوں نے اپنی گود میں پرورش کیا ہے اماں کی گود کی عظمت سے اماں کی طرزفکر ہمارے اندر منتقل ہوئی ہے - میں نے کائناتی نظام اور اس نظام پر مصروف عمل کارندوں کی بچپن میں باتیں سنیں ہیں - 
بچپن میں ہی میرے ذہن میں یہ بات راسخ ہوگئی تھی کہ الله کے بندے انسان بھی کائناتی نظام چلاتے ہیں - غوث - قطب - مدار - کوچک ابدال - ابدال کے عہدوں سے میں واقف ہوگیا تھا - لیکن میں اکثر یہ سوچتا تھا کہ یہ لوگ یہاں دنیا میں بیٹھے ہوئے آسمانی دنیاؤں میں کس طرح کام کرتے ہیں -

مجھے حیرت اس وقت ہوتی تھی کہ جب کوئی شخص اماں کے پاس آکر فریاد کرتا تھا تو اماں کہتے تھے جاؤ خوش ہوجاؤ تمہارا کام ہوگیا ہے - اور یہ کام ہوجاتا تھا - میں نے کبھی اماں کو وسائل کا پابند نہیں دیکھا - بس جو کہہ دیا ، جو سوچ لیا اس کے مطابق خود بخود وسائل مہیا ہوجاتے تھے بلکہ وسائل بن جاتے تھے -
کبھی ایسا بھی ہوتا کہ گھر میں ہم سب بچے اماں کے ساتھ بیٹھ کر چٹنی سے روٹی کھاتے تھے - اماں بہت خوش ہوکر کہتے ... " بچو خوش ہوکر کھاؤ ، آج الله کے یہاں ہماری خصوصیت ہے کہ ہم چٹنی سے روٹی کھا رہے ہیں اور دوسرے لوگ گوشت وغیرہ کھا رہے ہیں - "

میری یہ خواہش کہ اماں کا نام عالم میں پھیل جائے اس طرح پوری ہوئی ابا نے روحانی ڈائجسٹ اماں کی اجازت سے جاری کردیا - روحانی ڈائجسٹ کے سرورق پر جو تحریر مسلسل پندرہ سال سے چھپ رہی ہے - یہ اماں ہی کی لکھوائی ہوئی ہے - من و عن ان کے ہی الفاظ ہیں -

یہ پرچہ بندہ کو خدا تک لے جاتا ہے
   اور  بندہ  کو  خدا  سے ملا  دیتا  ہے   

آج ہزاروں لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ اماں کی اس تحریر نے لوگوں کے دلوں کو منور کردیا ہے اور لوگ واقعی خدا تک پہنچ گئے ہیں - انہیں خدا کا قرب نصیب ہوا ہے - 


اماں کی زندگی میں ابا نے دو پرچے نکالے - پہلا پرچہ تجربہ نہ ہونے کے باوجود اچھا تھا - مگر دوسرا شمارہ دیکھ کر اماں نے کہا مضامین کی ترتیب اچھی نہیں ہے - اور تیسرے پرچے میں اماں کے وصال کی خبر لگ گئی -انّا للّہ و انّا الیہ راجعون 


ہم بچوں کی اماں کو کتنی فکر تھی - یہ بات مجھے جناب بھائی نثار علی بخاری جو اماں کے گہرے دوست تھے سے معلوم ہوئی -
ایک روز انہوں نے فرمایا ... بھائی صاحب فرما رہے تھے میں نے بنیادی کام کردیئے ہیں - اب یہاں رہنا کوئی اتنا ضروری نہیں ہے - مجھے خواجہ صاحب کی فکر ہے کہ وہ عیال دار ہیں الله ان کی معاش کا بندوبست کردے - بس پھر میں فارغ ہوں - 

روحانی ڈائجسٹ نکلنے کے بعد ابا کی مصروفیت بےپناہ ہوگئی ، ہم دوستوں نے اپنی عمر اور اپنی عقل کے مطابق ان کا ہاتھ بٹایا - ان دوستوں میں جاوید احمد ، نسیم احمد ، حافظ ضیاء ، زبیر احمد ، انیس احمد ہیں - جیسے جیسے میری عمر کے مطابق میری صلاحیت میں اضافہ ہوا میرے ذمہ روحانی ڈائجسٹ کی خدمات زیادہ ہوتی رہیں - 
ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ  1D ،1/7 کے نیچے کے مکان کے صحن کی طرف برآمدہ میں اماں ہیں اور میں صحن میں ہوں - اماں نے کہا میں تم سے خوش ہوں تم نے خواجہ صاحب کی مصروفیت میں حصہ لیا -  اب میں سوچتا ہوں کہ یہ تو خود میری خواہش پوری ہوئی ہے کہ مجھے روحانی ڈائجسٹ کا کام مل گیا ہے -

میں بچپن سے ہی چاہتا ہوں کہ اماں کا نام اور اماں کے علوم عالم میں پھیل جائیں - کیا لکھوں کتنا لکھوں ، میرے سراپا کا ایک ایک رواں اماں کی شفقت ، عظمت ، محبت ، خلوص اور ایثار کا گواہ ہے -

اماں کہتے تھے کسی کو کچھ بنانے کے لئے اپنا بہت کچھ کھونا پڑتا ہے - فرماتے تھے  موم بتی اپنے وجود کو جلا کر پگھلا کر اور خود کو فنا کرکے دوسروں کو روشنی دیتی ہے - اماں میری شناخت ہیں مجھے ان کی گود کا لمس نہ ملتا تو میں کچھ بھی ہوسکتا تھا مگر وقار یوسف عظیمی نہ ہوتا -   

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں