منگل، 31 مارچ، 2015

یاد عظیمؒ -- 9




                                   یاد عظیمؒ 




مضمون :   کچھ یادیں کچھ باتیں
تحریر   :   احمد جمال عظیمی 
اشاعت  :    روحانی ڈائجسٹ   فروری 1993ء
                 ( حصہ سوم  )


اپریل  1964ء قبلہ حضور کا  بے انداز تکوینی مصروفیات کا زمانہ تھا - انتہا یہ کہ معلم کو اجازت نہ تھی کہ بات بھی کرے  ( معلم ایسے فرشتے کو کہا جاتا ہے جو حاملین عرش ، گروہ جبرئیل سے تعلق رکھتا ہے - پہلے وہ منتخبین کو الله تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ علوم سے روشناس کراتا ہے اور بعد میں جب وہ حضرات  حضورعلیہ الصلوة والسلام سے علم حاصل کرکے الله تعالیٰ کے حضور سے اپنے حصہ کا خصوصی علم حاصل کرلیتے تو یہی معلم فرشتہ ان حضرات کا کارندہ بن جاتا ہے )

13اپریل کو معلم نے اشارہ دیا کہ بڑے صاحبزادے آفتاب میاں حادثہ سے دوچار ہونے والے ہیں - آفتاب میاں اگلے روز اپنے دوستوں کے ہمراہ شکار کا پروگرام بنائے بیٹھے تھے - حضور قبلہ نے صاحبزادے کو بلا کر سمجھایا کہ ہمارے خاندان میں شکار پر پابندی ہے اس لئے تم کل صبح اپنے دوستوں کے ساتھ مت جانا - لیکن آنے والی گھڑی کو کون ٹال سکتا ہے -
 آفتاب میاں 14اپریل 1964ء کو اپنی والدہ سے اصرار کرکے فجر کے وقت گھر سے نکل کر دوستوں کے ساتھ ٹھٹھہ کی طرف روانہ ہوگئے - دس بجے جس گاڑی پریہ سب لڑکے بیٹھے تھے حادثہ کا شکار ہوگئی -

 جس وقت یہ حادثہ ہوا معلم نے ایک بار پھر خطرہ کا اشارہ دیا لیکن قبلہ حضور کو خیال گزرا کہ حضیرہ میں کہیں کوئی حادثہ ہوگیا ہے چنانچہ وہ پھر اپنی تکوینی مصروفیات میں لگ گئے- حادثہ میں صاحبزادے اور ان کے ایک دوست کا انتقال ہوگیا -
اتوار کا دن تھا اس خبر کا اس قدر اثر ہوا کہ کمر کے دو تین مہرے اپنی جگہ سے ہٹ گئے اور کمر جھک گئی اور ساتھ ہی دونوں آنکھوں کی بینائی جاتی رہی - ایک آنکھ کی بینائی تو تھوڑی دیر میں واپس آگئی لیکن آپ پھر سیدھے نہ چل سکے - آفتاب میاں کے لوح مزار پر بجا طور پر "نور بصر " لکھوایا - 
کچھ عرصہ کے بعد فرمایا کہ یہ واقعہ اس لئے ہوا کہ ایک دفعہ میرے ذہن میں خیال آیا کہ آفتاب اب بڑا ہوگیا ہے - میں اس کی شادی کردوں گا اور میری ذمہ داریاں ختم ہوجائیں گی - بس اس بات کی پکڑ ہوگئی کہ تو کون ہوتا ہے کہ کچھ کرسکے -  

الله اکبر بڑے لوگوں کے معاملات بھی بڑے نازک ہوتے ہیں جب کوئی الله کا ہوجاتا ہے تو ممکن ہی نہیں کہ وہ الله کی ایما کے بغیر کچھ کرنے کا ارادہ بھی کرسکے - آفتاب بھائی پر الله تعالیٰ نے بڑا کرم کیا - حادثہ اور موت کے درمیانی وقفہ میں ان کو ان مراحل سے گزار دیا جو جسم کی بندشوں میں رہتے ہوئے کوشش کے باوجود وہ حیات میں حاصل نہ کرسکے - 

1965ء کی جنگ ہوئی تو مشرقی پاکستان سے پان آنا بند ہوگئے - کراچی والوں نے پان کے بدلے بے شمار پتے آزمائے ، کبھی امرود کے تو کبھی پالک کے - قبلہ حضور اگر چاہتے تو ان کے لئے پان دستیاب ہونا مشکل نہیں تھا - لیکن آپ نے ہمیشہ عوامی قدریں اپنائیں - شہتوت کے پتوں پر کتھا چونا لگوا کر خود بھی کھایا اور آنے جانے والوں کو بھی بڑے شوق سے پیش کیا -
جنگ بندی ہونے تک تمام دن کراچی کی فضائیں نیوی کی توپوں سے لرزتی رہتی تھیں - شام کو بلیک آؤٹ ہوجاتا تھا اور رات کے سناٹے کو پاک فضائیہ کے طیارے چیرتے رہتے - کبھی کبھی آسمانوں پر فضائیہ اور دشمن کے طیاروں کے درمیان جھڑپ میں پھلجھڑیاں چھوٹتیں یا شعلے لپکتے لیکن قبلہ حضور کے چہرہ مبارک پر کبھی تردد نہ دیکھا -  

چنانچہ جنگ بندی ہونے تک قبلہ حضور اور ہم لوگوں کے معمولات میں کوئی فرق نہ آیا - اس زمانہ میں تکوینی نظامت کے ایک صاحب خدمت کو کراچی کی حفاظت کے لئے بطور خاص مقرر کردیا گیا تھا - ان کا قیام گاندھی گارڈن کے قریب تھا - 24 گھنٹوں میں ان کو صرف چند پیالی چائے پینے کی اجازت تھی وہ بھی اگر کوئی پلادے تو -
جس روز ہندوستانی ہوائی جہازوں کا حملہ کراچی پر ہوتا اس کے دوسرے روز صبح کے وقت وہ صاحب قبلہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوتے اور مٹھی بھر دانے حضور کی خدمت میں پیش کرتے -

1958ء میں شرف باریابی سے لے کر 26 جنوری 1979ءکی درمیانی شب تک کہ جب آپ نے اس دنیا سے پردہ فرمایا مہہ و سال کی گنتی میں اکیس سال کا عرصہ بنتا ہے لیکن اس دورانیہ کے واقعات ، معاملات ،  حضورعلیہ الصلوة والسلام و اہل بیتؓ، چاروں خلفائےراشدینؓ ، صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ اجمعین اور اولیائے کرامؒ سے متعلق ارشادات و تشریحات کا ایک سمندر ہے جس میں ،میں غرق ہوں کبھی کبھی کوئی موتی ہاتھ آجاتا ہے -


پیر، 30 مارچ، 2015

یاد عظیمؒ -- 8


                                    یاد عظیمؒ



مضمون :   کچھ یادیں کچھ باتیں
تحریر   :   احمد جمال عظیمی 
اشاعت  :    روحانی ڈائجسٹ   فروری 1993ء
                  ( حصہ دوم )



ارشادات اور واقعات تو بے شمار ہیں جو ذہن میں گردش کررہے ہیں - لیکن ان سب کو ترتیب دینا اور بیان کرنا مشکل ہے - صرف چند اہم واقعات ہدیہ قارئین کر رہا ہوں -

 ہمارے پیر و مرشد کا نام شمس الدین انصاری ہے - حضرت قلندر بابا اولیاء نے ہمارے پیر و مرشد کو خواجہ کا لقب عنایت فرمایا اور ہمیشہ اسی نام سے بلایا اور یاد کیا - سب سے پہلے ہمارے پیر و مرشد نے ہی اپنے پیر و مرشد کے نام نامی اسم گرامی " عظیم " کی نسبت سے عظیمی لکھا -
 پیر و مرشد کا انصاری ہونا اس طرح بھی مسلم اور معتبر ہے کہ جب آپ کو قلندر بابا اولیاء نے حضورعلیہ الصلوة والسلام کی خدمت اقدس میں پیش کیا تو آپؐ نے فرمایا " اے ابو ایوب انصاری کی بیٹے میں نے تجھے قبول کیا " -
قلندر بابا اولیاؒء فرمایا کرتے تھے کہ خواجہ صاحب کو میں نے تیار نہ کرنا ہوتا تو دنیا کو میرے روحانی علوم کے بارے میں ہوا بھی نہ لگتی -  

    1961ء  کے اواخر میں ساری دنیا میں شور برپا ہوا کہ آئندہ سال پتہ نہیں کیا ہونے والا ہے شاید قیامت ہی آجائے - تاریخ انسانی میں ایسی گھڑی کبھی نہ آئی تھی کہ سارے ستارے ایک ہی برج میں ایک قطار میں جمع ہوجائیں -
ہندوستان میں بڑے بڑے جیوتشی ، جوگی اور پنڈت اس گھڑی کو ٹالنے کے جتن کرنے کی تیاری میں مصروف ہوگئے - یورپ کے ممالک میں بھی کافی اضطراب پھیلا - لوگ قیامت کی تباہی سے محفوظ رہنے کے لئے پہاڑوں کی کھوئیں تلاش کرنے لگے -

 یہ سارا ہنگامہ 5 فروری 1962ء کے دن سے تعلق رکھتا تھا جب ستاروں کی یہ ترتیب رونما ہونے والی تھی - آشنائے راز ہائے کائنات قبلہ حضور بھائی صاحب ( قلندر بابا اولیاؒء ) نے فرمایا کہ تشویش کی کوئی بات نہیں ہے - اب ہماری کہکشاں ایک نئے کائناتی زون میں داخل ہوگئی ہے جس میں سرخی کا عنصر غالب ہے ، چنانچہ اب ایسے حالات رونما ہوں گے جو اس کرہ ارض کے لئے اجنبی ہیں -

١٥ شعبان ( شب برأت ) کے بعد قبلہ حضور کی مصروفیات میں بے اندازہ اضافہ ہوجاتا دراصل ١٥ شعبان کو پوری کائنات کا اگلے سال کا بجٹ الله تعالیٰ کے حضور پیش کیا جاتا ہے جو پالیسیوں کی شکل میں ہوتا ہے - قبلہ حضور قلندر بابا اولیاء بحیثیت صدرالصدور اپنے حضیرے کا بجٹ پیش فرماتے -  

ہمارے کہکشانی نظام میں ایک ارب سورج ، ایک ارب آباد کرے اور آٹھ ارب غیر آباد کرے ( یہ غیر آباد کرے اور ان کے ذیلی چاند آباد زمینوں کے اسٹور کا کام دیتے ہیں جہاں سے وسائل لہروں کی شکل میں آباد کروں یا زمینوں کی ضرورت کو پورا کرتے رہتے ہیں )

 شعبان میں ان پالیسیوں کی تفصیل ( جزئیات ) کا کام شروع ہوجاتا ہے جیسے جیسے یہ پالیسیاں نزول کرتیں تکوین کے صاحبان خدمت پروگراموں کو آخری شکل دیتے ہیں - جہاں مشکلات سے دوچار ہوتے وہ قبلہ حضور بھائی صاحب قلندر بابا اولیاء سے رجوع کرتے -
قبلہ فرمایا کرتے کہ چالیس سوالوں کو سننا ، سمجھنا اور فوراً جواب دینا ان کا معمول تھا - لیکن جب استفسارات بڑھ جاتے تو آہستہ آہستہ شعور کو سنبھالنا مشکل ہوتا جاتا یہاں تک کہ وہ سوجاتے ہیں اس دوران پنڈلیوں میں اتنی شدید تکلیف ہوتی کہ ان پر اپنی فوجی پیٹیاں کس کر باندھ لیتے -
اس دوران کمرے کا ماحول اس قدر چارج ہوجاتا کہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہماری آنکھیں بند ہونے لگتیں اور ہمیں جھونکے آنے لگتے -

 پیر و مرشد فرماتے ہیں کہ ایسی ہی کیفیت ان پر اس وقت طاری ہوتی جب حضور قبلہ ان کو " لوح و قلم " لکھواتے - اور اسی قسم کی کیفیت ہم دونوں پر اس وقت طاری ہوتی جب " لوح و قلم " کے مسودے کی دوسری کاپی بنانے کے لئے پیر و مرشد بولتے اور میں لکھتا یا میں بولتا اور پیر و مرشد لکھتے - اس دوران ہمیں غنودگی ختم کرنے کے لئے بار بار اٹھ کر منہ دھونا پڑتا -   






اتوار، 29 مارچ، 2015

یاد عظیمؒ -- 7


                                     یاد عظیمؒ


مضمون :   کچھ یادیں کچھ باتیں
تحریر   :   احمد جمال عظیمی 
اشاعت  :    روحانی ڈائجسٹ   فروری 1993ء
                 ( حصہ اول ) 

انکی نسبت بھی ہے ، نام بھی ، افکار بھی عظیم 
گفتار بھی ،  اخلاق  بھی ،    کردار   بھی  عظیم 
روشن  روشن  راہوں  والی  سرکار  بھی   عظیم 
شمس  ہمارے  رہبر  ہیں  ،  دربار   بھی   عظیم 


1958ء کا ذکر ہے دفتر کے ایک ساتھی محترم یوسف علی خان ترین صاحب سے ان کی علالت کے دوران ربط ضبط بڑھا - ان کی بیگم صاحبہ نے ایک دن تذکرہ کیا کہ وہ لوگ ایک بڑے بزرگ کے پاس جاتے ہیں -
ترین صاحب کا مکان ناظم آباد کے بلاک نمبر تین میں تھا - قریب ہی ایک اور صاحب عین الدین رضوی رہتے تھے جو ان بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے - ترین صاحب کے  گھر میں ان بزرگ کا تذکرہ اکثر ہوا کرتا تھا جن کو وہ بھائی صاحب کہتے تھے -

 مجھے بھی ملنے کا اشتیاق ہوا چنانچہ ایک روز میں بھی ان لوگوں کے ہمراہ ان بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا - مجھے زندگی میں پہلے کسی بزرگ کی خدمت میں حاضری کی سعادت نصیب نہ ہوئی تھی - چنانچہ عجیب گو مگو کی حالت تھی کہ پتہ نہیں کیسے ہوں گے اور کیسے نہ ہوں گے -

گرمی کا زمانہ تھا - ون ڈی ون سیون کی پہلی منزل پر جہاں اب وقار یوسف عظیمی کا دفتر ہے وہاں دیوار کے پاس ایک لکڑی کے تخت پر جس پر نہ کوئی بستر تھا نہ چادر ، ایک صاحب تشریف فرما تھے - میرے ساتھیوں نے عرض سلام کے بعد مصافحہ کیا اور خاتون سلام کرکے ایک طرف بیٹھ گئیں -
 میں نے بھی سلام کیا اور مصافحہ کے بعد سامنے پڑی ہوئی ایک کرسی پر بیٹھ گیا - میرا تعارف کرایا گیا - سن کے تبسم فرمایا - بیگم ترین اپنے ہمراہ پان بنا کر لے گئیں تھیں - وہ ڈبیہ میں منتقل کئے - پھر آپ نے سب کی فرداً فرداً مزاج پرسی کی اب میں سمجھا کہ آپ ہی بھائی صاحب ہیں -

بیٹھنے کے بعد میں نے آپ کو دیکھا- آپ صرف لنگی پہنے ہوئے تھے - اوپر کے جسم پر کوئی لباس نہیں تھا - مجموعی تاثر ایک عام معمر شخصیت کا تھا - نہ کوئی طمطراق ، نہ کوئی تقدس صرف اور صرف محبت اور شفقت کا احساس - گفتگو میں دھیما لہجہ اور لبوں پر مسکراہٹ ، چہرہ پر سنجیدگی ، آنکھوں میں سوچ اور فکر کی گہرائی -
نشست میں انفرادیت تھی - دونوں پیروں کی ایڑیاں ران سے لگی ہوئی اور پنڈلیوں کے اوپر گھٹنوں سے نیچے دونوں ہاتھ اس طرح آئے ہوئے کہ دائیں ہاتھ کی پشت کو پکڑا ہوا - آپ کو بعد میں بھی ہمیشہ اسی نشست میں بیٹھے دیکھا - 

اس زمانہ میں آپ بیڑی پیتے تھے - جب بھی پان یا بیڑی استعمال کرتے حاضرین کو پہلے پیش فرماتے - چنانچہ میں نے پان بھی کھایا اور بیڑی بھی پی - اتنے میں کھانے کا وقت ہوگیا - کھانا آگیا اور ہم سب نے آپ کے ساتھ کھانا کھایا - تیسرے پہر اجازت طلب کرکے ہم لوگ واپس ہوئے -
اس کے بعد آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہوا - عظیمی صاحب اور بچوں سے مانوس ہوا - اگست 1960ء میں غلامی کی درخواست پیش کی - قبول فرمائی - حضرت خواجہ صاحب سے فرمایا کہ سبق دیدو - اس طرح مجھے غلامی کا شرف حاصل ہوا لیکن صورت یہ تھی کہ نہ میں آداب غلامی سے واقف اور نہ غلام سے کسی مشقت کا تقاضہ - صرف ذوق و شوق کے جذبے کی تزئیں پر زور -

بیعت کے بعد ایک خاص تعلق خاطر وجود میں آیا - مراقبہ ہمیشہ سے جمعہ کو ہوتا تھا - میں نے پہلا مراقبہ 2 ستمبر 1960ء کو کیا - اس کے بعد حاضری میں اضافہ ہوا اور حضور بھائی صاحب کے ارشادات سننے ، اوصاف حمیدہ دیکھنے اور ان کے معمولات کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا - 

آپ کی طبیعت میں حد درجہ نفاست اور انتظام تھا - سر کے بال اور داڑھی دس پندرہ روز میں ضرور ترشواتے - سر کے بال کبھی ایک انچ سے اور داڑھی کے بال نصف انچ سے بڑے نہ دیکھے - سر پر نہ کبھی استرا پھروایا اور نہ کبھی زلفیں رکھیں -
لباس عمدہ مگر سادہ استعمال کرتے تھے - قمیض میں کالر نہیں ہوتا تھا - پاجامہ چوڑے پائنچہ کا ، موری تقریباً چھ انگل لوٹی ہوئی - گرمی میں صرف قمیض پاجامہ میں لیکن سردیوں میں جب کہیں باہر تشریف لے جاتے تو شیروانی اور ٹوپی ضرور پہنتے -

جوتے ہمیشہ براؤن رنگ کے پہنتے - سیاہ رنگ جوتے استعمال نہیں کرتے تھے فرماتے کہ جو آفاقی  شعاعیں (Cosmic Rays ) دماغ پر وارد ہوتی ہیں -وہ جسم میں دور کرتے ہوئے پیروں کے راستے زمین میں جذب ہوجاتی ہیں لیکن اگر سیاہ رنگ جوتے پہنے جائیں تو سیاہ رنگ ان کو جذب کرکے زمین تک نہیں جانے دیتا جس سے جسم اور ذہن کو نقصان ہوتا ہے - 

استعمال کی ہر چیز کی ایک جگہ مقرر تھی - شیروانی ، دھل کر آئے ہوئے کپڑے ، بستر پر تکیہ ، پائنتی پر چادر ، تکیہ کے بائیں جانب ٹوپی ، زیر مطالعہ کتاب یا رسالہ ، قلم ، کتابوں کی الماری میں کتابوں کی ترتیب ایسی کہ فلاں خانے میں دائیں طرف تیسری کتاب یا بائیں جانب پانچویں کتاب فلاں مضمون پر ہے نکالو -
حتیٰ کہ جوتے اتارتے وقت اس التزام سے رکھتے کہ جوتے ایک سوت بھی آگے پیچھے نہ ہوتے - پان کھانے کی وجہ سے دانت لال ہوجاتے ، کوئلے سے دانت اچھی طرح صاف کرتے - صفائی کے بعد دانت ایسے چمکتے جیسے موتی - یہ کام اکثر عثمان آباد کے مکان میں ہوتا - 

 بات نہایت واضح اور نرم لہجے میں کرتے - مزاح خود بھی فرماتے اور دوسرے کی شگفتہ بات کو پسند فرماتے - تبسم فرماتے یا ہنستے لیکن کبھی قہقہہ نہیں لگایا - کھانے میں کبھی تکلف نہیں کیا جو سامنے آیا کھا لیا لیکن کبھی اچھے کھانے سے شوق بھی کرتے -  

ہفتہ، 28 مارچ، 2015

یاد عظیمؒ -- 6



                                   یاد عظیمؒ 


قلندر بابا اولیاؒء کے دیرینہ دوست سے گفتگو


انٹرویو :  احمد جمال عظیمی -- فرخ اعظم 
راوی   :  محترم نثار علی بخاری صاحب 
اشاعت :  روحانی ڈائجسٹ --  جنوری 1995ء
              ( حصہ سوم )


جمال : آپ پاکستان کب تشریف لائے اور قلندر بابا اولیاء سے ملاقات کب اور کہاں ہوئی -

بخاری صاحب : میں بلند شہر سے میرٹھ اور انبالہ چھاؤنی مشرقی پنجاب ہوتا ہوا لاہور آیا - بھائی صاحب بمبئی سے پانی کے جہاز سے کراچی آگئے اور میں لاہور سے راولپنڈی چلا گیا - یہ شروع 48ء کا واقعہ ہے-
 یہاں کراچی میں ماسٹر فضل صاحب سے جو کہ ہمارے دوست تھے میری خط و کتابت ہوئی - انہوں نے بھائی محمّد عظیم کو بتایا تو انہوں نے خط لکھ کر مجھے کراچی بلایا - کچھ عرصہ بعد میں اپنا کام ختم کرکے راولپنڈی سے کراچی آگیا -

یہاں بڑے حضرت جی جن کا اسم گرامی ابوالفیض قلندر سہروردی تھا ان سے آپ نے بیعت فرمائی اور اس کے بعد انہوں نے مجھ سے دسمبر 55ء کے آخر میں کہا کہ بھائی شروع مئی میں ، میں ایک خوشخبری سناؤں گا - میں نے کہا ابھی سنا دیجئے - کہنے لگے نہیں کام ہونے کے بعد سنانا اچھا ہوتا - میں خاموش ہوگیا -
 چنانچہ جب مئی کا مہینہ آیا اور وہ پیر الہی بخش کالونی میں میرے پاس تشریف لائے تو میں خوشخبری سننے کے لئے بے چین تھا - میں نے کہا بھائی اب تو مئی کی تیسری یا چوتھی تاریخ ہوگئی ہے - تو کہنے لگے ہاں اب میری نئی زندگی شروع ہوئی ہے -
میں نے پوچھا وہ کیسے - کہنے لگے کہ پچھلی زندگی سب ختم ہوگئی ہے اور میں قلندر صاحب موصوف سے بیعت ہوگیا ہوں اور وہ جو تربیت دے رہے ہیں میں اس پر عمل کر رہا ہوں -  
بھائی صاحب نے رات میرے گھر قیام کیا بارہ ایک بجے کے قریب ایک جگہ دھوئی اور مجھ سے کہا آپ سوجائیں میں کچھ پڑھوں گا - وہ کھڑے کھڑے پڑھتے رہے لیکن مجھ کو نہیں معلوم وہ کیا پڑھ رہے تھے - 

جمال : کیا سلسلہ کے متعلق کبھی انہوں نے آپ سے کچھ فرمایا -

بخاری صاحب : یہ مجھے معلوم ہے کہ جب وہ کسی کو بیعت کرتے تھے تو وہ ضابطگیاں جو دوسرے سلسلوں میں ہوتی ہیں مثلا ہاتھ میں ہاتھ لینا ، رومال پکڑوانا یا کچھ اور اس قسم کی باتیں وہ کچھ نہیں ہوتی تھیں - بس یہ کہہ دیا کرتے تھے کہ آپ سلسلہ میں ہیں اور جو اسباق ہوتے تھے وہ پڑھنے کو بتا دیا کرتے تھے -
 ان کی محفل میں سب برابر کی حیثیت سے بیٹھتے تھے حتیٰ کہ وہ اپنی بھی کوئی مخصوص نشست نہیں رکھتے تھے - آپ اپنے مریدین کو جناب اور آپ کے سوا مخاطب نہیں کرتے تھے اور حفظ مراتب کا بھی بہت خیال رکھتے تھے - گفتگو بھی اس قسم کی کرتے کہ جس سے کسی کی دل شکنی نہ ہو - میرا خاص طور پر خیال رکھتے تھے -


روحانی ڈائجسٹ    جنوری 1995ء

جمعہ، 27 مارچ، 2015

یاد عظیمؒ -- 5



                                  یاد عظیمؒ 


قلندر بابا اولیاؒء کے دیرینہ دوست سے گفتگو

انٹرویو :  احمد جمال عظیمی -- فرخ اعظم 
راوی   :  محترم نثار علی بخاری صاحب 
اشاعت :  روحانی ڈائجسٹ --  جنوری 1995ء
              ( حصہ دوم )

جمال : انؒ ( حضور بابا صاحبؒ ) کے کچھ شوق بھی تھے ....  مثلاً پنجہ لڑانا اور جسم بھی بہت اچھا تھا -

جواب ( سید نثار علی بخاری صاحب ): پنجہ بہت اچھا لڑاتے تھے - کسرت کرتے تھے اور اکھاڑے بھی جاتے تھے - 

جمال : وہ شطرنج بھی بہت اچھی کھیلتے تھے - 

بخاری صاحب : شطرنج کبھی میرے ساتھ کھیلتے تھے تو کبھی آنے جانے والوں کے ساتھ لیکن کچھ عرصہ کے بعد یہ کہہ کر کھیلنا چھوڑ دیا کہ اس میں خواہ مخواہ وقت ضائع  ہوتا ہے - 

جمال : اس کے علاوہ ان کی زندگی کے کچھ اور واقعات جو آپ کو یاد ہوں -

بخاری صاحب : ان کو شاعری کا ذوق تھا - جب وہ بلند شہر میں میرے یہاں تشریف لاتے تھے تو  وہاں کے شعراء کے ساتھ رات کے بارہ ایک بجے تک شعر و شاعری کی محفل گرم رہتی تھی - شہر کے سارےشعراء آپ کو بہت عمدہ اور بلند پایہ شاعر تسلیم کرتے تھے - 

جمال : شاعری میں کیا صرف غزل کہتے تھے -

بخاری صاحب : غزل بھی کہتے تھے ، رباعیات بھی کہتے تھےلیکن کم اور قطعات بھی کہتے تھے - 

 جمال : زندگی کے کچھ اور واقعات جو آپ کے علم میں ہوں -

بخاری صاحب : بلند شہر کے کچھ ایسے حضرات جنہیں تصوف سے لگاؤ تھا وہ اکثر کسی بزرگ کے فارسی کے ملفوظات لے کر آجاتے تھے اور اس کا مفہوم دریافت کرتے تھے تو آپ اس طرح بےتکان لیکچر  دے کر انہیں سمجھا دیا کرتے تھے کہ جیسے کوئی پروفیسر تیاری کرکے کالج میں کلاس لیتا ہے - 

جمال : میں نے سنا ہے کہ آپ کسی مکان میں تھے جہاں آپ کو جن تنگ کیا کرتے تھے - وہ کیا معاملہ تھا -

بخاری صاحب : ہم گاؤں کی سکونت چھوڑ کر ایک مکان میں رہے - جہاں میری والدہ  اور میرے بڑے بھائی کا انتقال ہوا - گھر تباہ ہوگیا اور میں اکیلا رہ گیا - وہاں ایک کھنڈر پڑا ہوا تھا - مالک نے اس میں ایک مکان بنایا تو میں نے وہ کرائے پر لے لیا -
اس میں کچھ اثر تھا - وہ مجھے ایک سال تک ستاتا رہا لیکن میں اس سے ڈرا نہیں - کئی عامل اور جاننے والوں سے تذکرہ کیا تو وہ آئے - جس رات کو وہ میرے پاس ہوتے تو وہ جن مجھے چھوڑ دیتا اور ان کے سینے پر سوارہوجاتا اور وہ گھبرا کر بھاگ جاتےتھے -

 ایک مرتبہ دہلی سے بھائی محمّد عظیم صاحب میرے پاس تشریف لائے - اس روز شام کو ہم ٹہلنے کے ارادے سے مکان مقفل کرکے پارک گئے - وہاں سے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد  واپس آئے تو میں نے تالہ کھول کر بھائی صاحب سے عرض کیا کہ آپ تشریف رکھئے میں پان سگریٹ لے کر آتا ہوں - جب میں واپس آیا تو آپ صحن میں کھڑے ہنس رہے تھے - میں نے کہا بھائی صاحب یہ تنہائ میں ہنسنے کا کیا محل ہے - تو آپ نے کہا کہ نہیں کوئی بات نہیں ہے -
جب میں نے زیادہ اصرار کیا تو فرمایا آپ وہم میں  پڑ جائیں گےمیں نے کہا میں بھی آپ کو کچھ واقعات سناؤں گا -

تب انہوں نے کہا کہ جب میں اندر آیا تو صحن میں چارپائی پر دو آدمی بیٹھے ہوئے تھے - مجھے دیکھ کر انہوں نے قہقہہ لگایا اور ایک ادھر سے اور ایک ادھر سے چارپائی کے نیچے گھس گیا - اب جو میں نے جھک کر دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا - میں اس بات پر ہنس رہا ہوں کہ مجھے ڈرا رہے ہیں -
پھر میں نے اپنے  حالات بتائے کہ روزانہ رات کو سوتے وقت سینے پر کوئی نادیدہ شخص بیٹھ جاتا ہے - اگر کروٹ سے ہوتا ہوں تو پہلو پر بیٹھ جاتا ہے اور میری ٹانگیں پکڑ کر کھینچتا ہے - میں جب لات مارتا ہوں تو میری لات دیوار پر پڑتی ہے -
مسہری کے قریب میز پر لالٹین تھی جس کی روشنی میں میں قرآن شریف پڑھا کرتا تھا  نیند آتی تو سوجاتا لیکن جب تک پڑھتا رہتا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا - میں کہتا تھا بھئی جاگتے میں آؤ مجھے سوتے میں پریشان کرتے ہو یہ تو کوئی بہادری نہیں ہے - لیکن جاگتے میں وہ کبھی بھی نہیں آیا -

بھائی محمّد عظیم نے فرمایا کہ فکر کی کوئی بات نہیں ہے جمعرات آنے دو میں سب معلوم کرلوں گا کہ کیا بلا ہے - جمعرات کے آنے میں دو تین دن تھے - جب جمعرات آئی اور شعر و شاعری کی محفل ختم کرکے لوگ اپنے اپنے گھر چلے گئے تو آپ نے وضو کیا اور تخت پر مصلہ بچھا کر مجھ سے فرمایا کچھ بھی محسوس ہو ٹوکنا مت نہ بولنا نہ ڈرنا - 
 میں نے کہا کہ اگر میں ڈرتا تو آج مجھے پریشان ہوتے ایک ڈیڑھ سال ہوگیا کبھی کا مکان چھوڑ چکا ہوتا - چنانچہ انہوں نے کچھ پڑھا -

صبح کو مجھے بتایا کوئی بات نہیں جن ہے - میں نے کہا پھر کیا ھوگا - فرمایا آج وعدہ کرکے گیا ہے کہ اگلی جمعرات کو جواب دے گا - ایسا عمل کے کرنے اور اگلی جمعرات کے عرصہ میں نہ وہ جن آیا نہ میرے اوپر حملہ کیا اور نہ ہی پریشان کیا - ورنہ اس سے پہلے جتنے عامل کامل آئے مجھے چھوڑ کر انہیں پریشان کرتا تھا - 
جب دوسری جمعرات آئی تو صبح کو انہوں نے بتایا کہ وہ دو بھائی ہیں - اس کا بھائی بھی ساتھ آیا تھا - انہوں نے کہا ہے کہ اب یہ ہی رہیں ہم چھوڑے جاتے ہیں - میں نے کہا بھائی صاحب آپ نے کیا دباؤ ڈالا تھا -
فرمانے لگے میں نے کہا کہ آسانی سے چلے جاؤ ورنہ تم  جانتے ہو کہ میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں - وہ کہنے لگے آپ کی نسبت  اونچی ہے اب ہم ہی یہاں سے چلے جائیں گے - چنانچہ اس کے بعد مکان میں بارہ سال تک رہا لیکن پھرنہ کوئی گھبراہٹ ہوئی نہ کوئی میرے سینے پر بیٹھا - 

اس کے علاوہ ایک مولوی ظہور الحسن صاحب تھے - وہ ضلعی کورٹ میں منصرم تھے - وہ بڑے الله والے اور سیدھے آدمی تھے - ان کا معمول تھا کہ بلند شہر میں ایک بزرگ خواجہ لعل علی صاحب برنی کا مزار تھا جہاں وہ چاہے کتنا ہی موسم غیر موافق کیوں نہ ہو شام کو ضرور جایا کرتے تھے - کبھی کبھی میرے غریب خانے  پر بھی تشریف لے آتے تھے - بھائی صاحب بھی ان کو جانتے تھے -

مولوی صاحب ایک دن آئے اور پریشان سے بیٹھ گئے - میں نے کہا مولانا کیا بات ہے آپ کیوں پریشان ہیں - کہنے لگے کہ خواجہ صاحب کے مزار پر ایک ملنگ پڑا ہوا ہے جو اپنا نام بندہ شاہ بتاتا ہے - اس نے مجھ سے کہا کہ صاحب مزار نے مجھ سے ارشاد فرمایا ہے کہ تم ظہور الحسن کو بیعت کرلو - بظاہر بندہ شاہ کی ہئیت ایسی تھی کہ جیسے بھنگ چرس کا نشہ کرنے والوں کی ہوتی ہے -
اس لئے میری طبیعت گوارا نہیں کرتی کہ میں اس سے بیعت کروں لیکن جب یہ خیال آتا ہے کہ صاحب مزار نے حکم دیا ہے تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کروں -میں اس لئے پریشان ہوں -

میں ابھی اس کا کوئی جواب نہیں دے پایا تھا کہ بھائی صاحب بولے کہ آپ پریشان نہ ہوں کل صبح نماز پڑھ کے ادھر ہوتے ہوئے جائیے گا - میں بتادوں گا کہ صاحب مزار نے اس بندہ شاہ کو کوئی حکم دیا ہے کہ نہیں - آپ پریشان بالکل نہ ہوں - چنانچہ دوسری صبح جب مولوی ظہور الحسن صاحب تشریف لائے تو بھائی صاحب نے فرمایا کہ رات کو خواجہ لعل علی برنی سے ملاقات ہوئی تھی اور ان سے آپ کی بیعت کے بارے میں دریافت کیا تھا -
انہوں نے کہا ہے کہ ہم صاحب ارشاد نہیں ہیں ہم نے کسی کو بیعت کرنے کا حکم نہیں دیا -  

جمال : آپ نے ان کی شاعری کا تذکرہ فرمایا - آپ کو اگر کچھ اشعار یاد ہوں یا تحریری طور پر موجود ہوں تو عنایت فرمائیں -
بخاری صاحب : آپؒ ( حضوربابا صاحب ) نے جو کلام ہندوستان میں فرمایا وہ وہاں ایک لکڑی کے صندوق میں رکھا ہوا تھا - اس کے علاوہ ان کی تمام دیگر تصانیف بھی اس میں تھیں - وہ صندوق ان کے ننھیالی گھر میں رکھا ہوا تھا - تقسیم سے کچھ دن پہلے آپ کانپور گئے اور کانپور سے بمبئی اور وہاں سے پاکستان آگئے تو وہ تمام ذخیرہ وہیں تباہ ہوگیا - دو چار شعر یاد ہیں وہ سنائے دیتا ہوں -

ہائے اس رنگین چہرے کا نظام     بت کدے کی صبح میخانے کی شام  

   چاندنی تیری کلائی کی بہار    چاندنی تیری کف سیمیں کا جام 

 ہوگا تیری محفل میں کوئی اور بھی جلوہ    
                                         مجھ کو تو محبت ہی محبت نظر آئی    

ہر اک زبان پے تمہارا گلہ صحیح لیکن    
                                          مجھے یقین نہیں آتا کہ بےوفا ہو تم 


روحانی ڈائجسٹ    جنوری 1995ء

جمعرات، 26 مارچ، 2015

یاد عظیمؒ -- 4



                                   یاد عظیمؒ 


قلندر بابا اولیاؒء کے دیرینہ دوست سے گفتگو  


محترم نثارعلی بخاری مرحوم  قلندر بابا اولیاؒء کے بچپن کے دوست تھے - قلندر بابا اولیاؒء کے اس عالم رنگ و بو سے پردہ فرما لینے کے بعد نثار علی صاحب سے بابا صاحب کی زندگی سے متعلق جو گفتگو کی گئی وہ روحانی ڈائجسٹ قلندر بابا اولیاؒء نمبر جنوری 1995ء کے صفحات کی زینت بنائی جارہی ہے - 

محترم نثارعلی بخاری مرحوم قلندر بابا اولیاء کے بچپن کے دوست تھے - آپ (بابا صاحبؒ) اکثر بھائی نثار علی صاحب کے پاس شام کو جایا کرتے تھے -

 قلندر بابا اولیاء کے وصال کے بعد ایک مرتبہ میں( احمد جمال عظیمی ) اور فرخ اعظم ان کے پاس حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ آپ کو قلندر بابا اولیاء کی زندگی کے متعلق ایسی باتیں معلوم ہیں جو ہمارے علم میں نہیں ہیں - ہم چاہتے ہیں کہ آپ یادداشت تازہ کرکے کچھ واقعات ریکارڈ کرادیں - انہوں نے جو کچھ فرمایا وہ ہم نے ریکارڈ کرلیا - یہ گفتگو قارئین کی نذر ہے -

 جمال :   آج 20 جولائی  1985ء اور بارہ بجے دوپہر کا عمل ہے - میں اور فرخ اعظم آپ کی خدمت میں اس لئے حاضر ہوئے ہیں تاکہ قلندر بابا اولیاؒء کے متعلق آپ کی معلومات اور تاثرات ریکارڈ کریں - پہلے میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ ان کو کب سے جانتے ہیں ؟  

بخاری صاحب  : بھائی محمّد عظیم صاحب مرحوم سے میرے تعلقات پانچ چھ برس کی عمر سے تھے - خورجہ ، ضلع بلند شہر ، ہندوستان میں میری ننھیال کے تین مکانات تھے - ایک میں میرے ماموں زاد بھائی رہتے تھے اور دو بھائی محمّد عظیم صاحب کے والد صاحب نے کرایہ پر لے رکھے تھے - ایک مکان میں اہل خانہ رہتے تھے اور دوسرے کو وہ دفتر کے طور پر استعمال کرتے تھے -
مکان کے سامنے مسجد میں بھائی صاحب موصوف قرآن شریف پڑھا کرتے تھے - جب میں خورجہ جاتا تو قیام کے دوران میں بھی ان کے ساتھ مسجد چلا جاتا تھا - ان تینوں مکانات کے آگے ایک چبوترہ تھا - اس پر ہم بیٹھتے بھی تھے اور کبھی کوئی کھیل بھی کھیل لیتے تھے - یہ تقریباً پچھتر برس پہلے کی بات ہے - 

فرخ اعظم : آپ کی عمر اس وقت کتنی تھی ؟
 بخاری صاحب : میری بھی اتنی ہی تھی -  

فرخ اعظم : تو آپ دونوں حضرات ہم عمر ہیں - 
بخاری صاحب  : ہم دونوں تقریباً ہم عمر تھے لیکن میری عمر غالباً ایک یا سوا سال زیادہ تھی - اسی وجہ سے بھائی عظیم صاحب نے اپنے بچوں سے مجھے تایا کہلوایا -

جمال : آپ نے فرمایا کہ جب آپ خورجہ تشریف لے جاتے تھے تو اس وقت ان سے ملاقات ہوتی تھی گویا خورجہ میں آپ کا قیام مستقل نہیں تھا - تو پھر آپ کا مستقل قیام کہاں تھا ؟

بخاری صاحب  : اپنے والد صاحب کے انتقال کے بعد میں بلند شہر ہی میں رہا - خورجہ کبھی نہیں گیا - وہیں بھائی محمّد عظیم صاحب کے والد صاحب کا بھی تبادلہ ہوگیا - چونکہ میرا مکان مردانہ تھا اس لئے زیادہ تر بھائی صاحب ہی تشریف لایا  کرتے تھے -یہ سلسلہ برسوں رہا -
اس کے بعد آپ کی شادی ہوگئی تو کچھ عرصہ کے بعد آپ دہلی تشریف لے گئے - دہلی سے ہر سال بلند شہر آتے تھے تو دو مہینے اور کبھی تین مہینے غریب خانے پر ہی قیام رہتا تھا - جب آپ کے والد صاحب کا تبادلہ دوسرے شہروں میں ہوجاتا تو وہاں سے بھی آتے رہتے تھے - بہر حال ملاقات کا سلسلہ بالکل منقطع کبھی نہیں ہوا - زیادہ سے زیادہ چند مہینوں کا وقفہ ہوتا تھا -

جمال : اس پچھترسال کی رفاقت میں  ان کی شخصیت کی کتنی جہات آپ کے سامنے آئیں اور 1955ء میں جو روحانی تشخص اجاگر ہوا کیا اس کی جھلک ان کی گزشتہ زندگی میں کبھی آپ کو نظر آئی ؟

بخاری صاحب  : بھائی محمّد عظیم صاحب کا مجھ سے زیادہ پرانا دوست اور کوئی نہیں تھا - آپ کی بچپن سے یہ عادت تھی  کہ کبھی   بچوں کے ساتھ کوئی بیہودہ کھیل نہیں کھیلا - ہمیشہ تعلیم اور علم کی طرف توجہ رہتی تھی - جوان ہونے  پر آپ نے بلند شہر سے میٹرک کیا -
 اس کے بعد اپنے والد صاحب کے مشورہ پر علیگڑھ یونیورسٹی میں فرسٹ ائیر میں داخلہ لے لیا اور قیام کے لئے ترکمان دروازے پر ایک مکان کرایہ پر لیا -میں ایک مرتبہ ان سے ملنے علیگڑھ گیا - آپ گھر پر موجود نہیں تھے - معلوم ہوا کہ وہاں کے قبرستان میں ایک مسجد ہے - حجرہ وغیرہ بنا ہوا ہے -
آپ وہاں ایک بزرگ مولانا کابلیؒ کے پاس چلے جاتے ہیں اور شام کو واپس آتے ہیں - میں وہاں پہنچا تو حجرے کا دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا - اور آپ ان بزرگ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے - میں نے دروازے پر دستک دی تو آپ خود ہی اٹھ کر باہر آئے - مجھ سے بغلگیر ہوئے اور پوچھا کہ کب آئے - میں نے کہا کہ آج ہی آیا ہوں اور جب معلوم ہوا کہ آپ یہاں ہیں تو میں حاضر ہوگیا ہوں -

اتنے میں مولانا کابلیؒ نے فرمایا کہ جن کا ذکر رہتا ہے کیا وہی دوست آئے ہیں - آپ نے فرمایا جی ہاں - تو انہوں نے کہا کہ اندر کیوں نہیں بلا لیتے - جب میں اندر پہنچا تو ان بزرگ کو نہایت ادب سے سلام عرض کیا - وہاں ایک چٹائی بچھی ہوئی تھی اور ایک طرف پرانا سے گدا پڑا تھا جس پر ایک تکیہ رکھا ہوا تھا -
چند مٹی کے برتن تھے اور رسی پر ایک چادر اور دو تہہ بند ٹنگے ہوئے تھے - اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا -

مولانا نے بھائی عظیم سے  فرمایا کہ اگر کچھ انتظام ہو تو چائے بناؤ - بھائی صاحب نے فرمایا کہ چائے کا ہم دونوں میں سے کوئی بھی عادی نہیں  ہے - یہ سن کر انہوں نے مٹی کے ایک لوٹے میں سے مٹھی بھر چنے نکالے اور مٹی کی طشتری میں پیش فرمائے -
بھائی محمّد عظیم نے کہا کھا لو تبرک ہے -تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے کہا کہ میاں ان کو لے جا کر کھانا وغیرہ کھلاؤ اور مجھ سے پوچھا کہ میاں کب تک علیگڑھ میں رہو گے - میں نے عرض کیا کہ رات کو واپس چلا جاؤں گا - 
میں اس زمانے میں ملازمت کرتا تھا اور اتوار کی چھٹی میں گیا تھا - مولانا صاحب نے فرمایا جب تک تمہاری بھی چھٹی ہے عظیم میاں ان کو رخصت کرکے آنا -

میں نے علیگڑھ سے بلند شہر واپس آکر ان کے والد صاحب سے ذکر کیا بھائی عظیم صاحب اپنا سارا وقت ایک بزرگ مولانا کابلی کے پاس قبرستان کی مسجد کے حجرے میں گزارتے ہیں - والد صاحب نے فرمایا کہ میں نے تو کوشش کی تھی کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں لیکن وہ سمجھدار ہیں اپنا مستقبل خود بنائیں گے -
 چنانچہ کچھ دنوں بعد جب وہ بلند شہر تشریف لائے تو اپنے والد صاحب کے استفسار پر فرمایا میں تو کچھ اور ہی تعلیم حاصل  کر رہا ہوں - جب والد صاحب نے پوچھا کہ وہ کیا ہے تو انہوں نے کہا ، بھائی ( وہ اپنے والد صاحب کو بھائی کہا کرتے تھے ) وہ کچھ روحانیت سے تعلق رکھتی ہے -
 تو والد صاحب نے کہا تم سمجھدار ہواپنا راستہ خود بناؤ -

فرخ اعظم : مولانا کابلی سے عقیدتمندی اور ان کے پاس قبرستان کے حجرے میں جانے کا سلسلہ کتنے عرصے جاری رہا ؟

بخاری صاحب : یہ سلسلہ زیادہ سے زیادہ پانچ چھ ماہ رہا -

جمال : کیا آپ کی ملاقات کبھی بابا تاج الدین ناگپوری سے ہوئی ؟

بخاری صاحب : کبھی نہیں ہوئی اس لئے کہ وہ کبھی ناگپور سے ہماری طرف نہیں آئے اور میرا وہاں جانا نہیں ہوا -


  روحانی ڈائجسٹ    جنوری 1995ء

بدھ، 25 مارچ، 2015

یاد عظیمؒ -- 3




                                   یاد عظیمؒ 




محترم سلام عارف  ( خواجہ شمس الدین عظیمی کے صاحبزادے ) :


بحیثیت ایک بزرگ ، سرپرست میں نے انہیں بہت زیادہ شفیق اور بہت زیادہ مہربان پایا - جتنا عرصہ میری ان کے ساتھ قربت رہی ہے ، میں نے ایسی کوئی بات  نہیں دیکھی جس میں بچوں کی دل آزاری کا کوئی نکتہ ہو - انہوں نے بچوں کی خوشی کو ہمیشہ مقدم رکھا - اور کبھی بھی بحیثیت ایک بزرگ کے یہ برداشت نہیں کیا کہ ہمیں کوئی کسی قسم کی سخت بات کہہ دیں -
بابا صاحب طبعاً بہت خاموشی پسند واقع ہوئے تھے - کسی قسم کا شور شرابہ نہ ہو ، سکون پسند انسان ہونے کا علاوہ ایک روحانی انسان کے حوالے سے بھی خاموشی کا ہونا بہت ضروری تھا -  

 جب ہم بہن بھائی حیدری ان کے گھر جایا کرتے تھے تو ان کے کمرے میں جہاں ان کی نشست تھی - اس نشست کے برابر میں ایک تخت پر لحاف رکھے ہوئے ہوتے تھے - ہم ان لحافوں میں سے کچھ نیچے زمین پر گرا دیتے تھے اور اس طرح لحافوں کی دو تہیں بن جاتی تھیں - ایک چھوٹی تہہ اور ایک بڑی تہہ ہم ان تہوں کو سیڑھی کے طور پر استعمال کرتے تھے اور چھوٹی تہہ سے بڑی تہہ پر چڑھ کر نیچے کودتے تھے - اس طرح کمرے میں خوب شور ہوتا -

ان کی شخصیت کا جو رعب و دبدبہ تھا - اس کی وجہ سے ان کے سامنے کوئی آدمی زور سے بولنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا - اور جب ہم کودتے تھے تو شور ہوتا تھا - اکثر ایسا ہوتا کہ بابا صاحب کے پاس کوئی بیٹھا ہوا تھا تو وہ ہمیں ڈانٹ دیتا کہ شور مت کرو ، باہر جا کر کھیلو -
 تو اکثر ایسا ہوتا کہ جب کسی نے ہمیں ڈانٹا تو بابا صاحب ان سے فرماتے کہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں - آپ بچوں کی وجہ سے پریشان مت ہوں اور انہیں یہیں کھیلنے دیں جس طرح یہ کر رہے ہیں اسی طرح کرنے دیں -

ایک دفعہ میں ابّا کے ساتھ ان کے گھر گیا - وہاں کمرے میں ان کے صاحبزادے آفتاب بھائی کی تصویر لگی ہوئی تھی - یاد رہے ان کا انتقال ہوچکا تھا - اس تصویر پر ایک ہار لٹکا ہوا تھا - مجھے وہ بہت اچھا لگا - میں نے بابا صاحب سے کہا کہ مجھے بھی ایسا ہار چاہئیے -
تو بابا صاحب نے علی حسن صاحب کو بلوایا اور کہا کہ یہ ہار پرانا ہے اور اس کے لئے مناسب نہیں ہے -آپ گھر جائیں اسے اپنے ساتھ لے جائیے - اور اس کو ہار دلا کر گھر چھوڑ دیجئے گا - علی حسن صاحب نے فوراً ان ہدایات پر عمل کیا - مجھے مارکیٹ لے جا کر ہار خرید وایا ، پیکٹ بنوا کر مجھے گھر چھوڑا -
انہیں میری اس خواہش سے کتنی تکلیف ہوئی ہوگی اس بات کا مجھے اندازہ نہیں لیکن میرے دل میں جو خواہش ابھری تھی اس کا احترام بابا صاحب کی نظر میں کیا تھا اس کا مجھے اندازہ ہوا - میری نظر میں ان کی حیثیت ایک بزرگ کی ہے - ایک ایسے بزرگ کی کہ ان سے جو کچھ فرمائش کی جائے وہ پوری کردیں - مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے بابا صاحب سے کوئی کام کہا ہو اور وہ نہ ہوا ہو -
میں نے ان کے مزاج میں کبھی اونچ نیچ نہیں دیکھی -  بابا صاحب ٹائم کے بہت پابند تھے - اگر کہیں جانا ہوتا تو ایک مخصوص وقت ہوتا تھا - اور وہ اپنے ٹائم پر تیار ہوجاتے تھے - میں نے ان میں خاص طور سے ایک بات محسوس کی اور جس پر انہوں نے خصوصاً خفگی کا اظہار کیا کہ انتظامی امور میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہو -

بہت مہمان نواز تھے - انہوں نے اس بات کا بہت احساس رکھا کہ جب بھی کوئی شخص ان سے ملنے کے لئے آئے تو اسے کھانے یا پینے کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جائے - میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ انہیں ملنے کے لئے لوگ آئے ہوں اور انہیں کھانا یا چائے پیش نہ کی گئی ہو - چاہے ایک روز میں جتنے بھی مہمان آجائیں -
 چائے پلانے کے لئے اس وقت جو بھی موجود ہوتا اس سے فرماتے ... " بھئی ان کو چائے پلائیں " ...  ، یا کبھی فرماتے ان کے لئے بھی اور میرے لئے بھی لائیں یا انہیں بھی پلائیں اور مجھے بھی پلائیں -    جب بابا صاحب جذب کی کیفیت میں ہوتے تو اس وقت وہاں موجود افراد آنے والے مہمانوں سے چائے وغیرہ کا پوچھ لیا کرتے تھے - یعنی بابا صاحب نے عقیدت مندوں کے مزاج میں یہ بات شامل کردی تھی کہ مہمان داری کے اصول فراموش نہ ہوں - 

بابا صاحب بہت کم گو تھے - صرف اتنی بات کرتے جو سامنے والے کی ضرورت کے مطابق ہو - میں نے انہیں زیادہ بات کرتے نہیں دیکھا - جب میں ان کے کمرے میں جاتا تو ایک غیر معمولی کیفیت کا احساس ہوتا جیسے اس کمرے کی ہر چیز بول رہی ہے -اس سکوت میں پتہ نہیں کتنے سوال ہیں اور کتنے جواب ہیں -
کوئی آدمی آتا تھا اپنی غرض سے آتا تھا - وہ اس ماحول میں اپنی کیفیت کا کچھ اظہار نہیں کر رہا ہے اور نظر آرہا ہے کہ وہ مطمئن ہے - ایسا لگتا کہ وہ خاموشی میں سوال کر رہا ہے ، خاموشی میں جواب مل رہا ہے - 

صاحب پلک جھپکائے بغیر ایک سمت میں بہت دیر تک دیکھتے رہتے تھے - عموماً ان کی نظریں کھلے دروازے کی طرف ہوتی تھیں - بابا صاحب اس طرح نشست اختیار فرماتے تھے کہ لوگوں کو یہ احساس نہ ہو کہ آپ انہیں نظر انداز کر رہے ہیں - 1D ،1/7 میں تخت پر مراقبہ کی نشست میں بیٹھتے تھے اور حیدری کے مکان میں پلنگ پر اس طرح بیٹھتے تھے کہ جیسے ابھی اٹھیں گے - یعنی دونوں ٹانگیں لٹکا کر بیٹھتے تھے - جب ایک ہی نشست میں تھک جاتے تھے تو گاؤ تکیہ کا سہارا لے لیتے تھے -

جب ان کا وصال ہوا تو میری عمر سترہ سال تھی کافی دیر تک تو یقین ہی نہیں آیا کہ اس طرح بھی ہوسکتا ہے - کافی پریشانی اور مایوسی کی کیفیت طاری ہوگئی تھی - پھر محسوس ہوا جیسے بابا صاحب نے توجہ کی ہو - تصرف کیا ہو اور اس مایوسی اور پریشانی کی کیفیت پر سکون و اطمینان کی کیفیت غالب آگئی - باقاعدہ احساس ہوا کہ بابا صاحب میرے ساتھ ہیں - میری زندگی میں ان کے وصال سے لے کر اب تک ایسے بےشمار واقعات ہیں کہ جن سے میرا یقین پختہ ہوا کہ بابا صاحب ہماری طرف توجہ کرتے ہیں - 


محترمہ کنول ناز گل  ( عظیمی صاحب کی صاحبزادی ) : 


حضور قلندر بابا اولیاؒء جس دور میں ١- ڈی ، ٧\١ میں مقیم تھے میں اس وقت بہت چھوٹی تھی - میں نے انہیں بحیثیت ایک بزرگ بہت ہی شفیق اور محبت کرنے والی ہستی کے طور پر جانا ہے - والد اور والدہ کے علاوہ گھر میں کوئی بزرگ مثلا دادا یا نانا تو تھے نہیں اس لئے میں نے ان تمام رشتوں کو بابا صاحب کی ذات میں محسوس کیا ہے -
میں نے انہیں کبھی بھی کسی کو ڈانٹتے ہوئے نہیں دیکھا - بچوں سے وہ بہت شفقت کا برتاؤ فرماتے تھے - مجھے ان کی ذات پر اتنا اعتماد تھا کہ اس ہستی سے ہم اپنی ہر بات کہہ سکتے ہیں - عید کے موقع پر جب ہم ان سے ملنے ان کے گھر حیدری جایا کرتے تھے تو عیدی دینے کے بعد سر پر ہاتھ پھیرتے اور پھر فرماتے ... " اندر اماں جی ( زوجہ محترمہ بابا صاحب ) کے پاس جاؤ اور کچھ کھاؤ پیئو -" غرض کہ ان کی ذات بہت ہی چاہت اور محبت کرنے والی تھی ان کی شخصیت میں ایک رعب و دبدبہ تھا -   


روحانی ڈائجسٹ  --  جنوری 1997ء

پیر، 23 مارچ، 2015

یاد عظیمؒ -- 2




                                  یاد عظیمؒ 




محترم احمد جمال صاحب :
                                    یہ 1958ء کی بات ہے - ہمارے ایک  دوست تھے یوسف خان ترین صاحب - ان ہی کے ساتھ میں ایک دفتر میں کام کرتا تھا - رہائش بھی قریب قریب ہی تھی - ان کا اس زمانے میں بابا صاحبؒ کے ہاں آنا جانا تھا -انہوں نے ایک دفعہ بابا حضور کا تعارف اس طرح کروایا کہ ہمارے پیر و مرشد بہت بڑے بزرگ ہیں - میرے لئے یہ بڑی عجیب بات تھی -

اس زمانے میں اتوار کی چھٹی ہوا کرتی تھی - ایک دفعہ ترین صاحب مجھے ان سے ملوانے لے گئے - گرمی کا زمانہ تھا 1D ،1/7 میں دوسری منزل پر جہاں اس وقت ایڈیٹر روحانی ڈائجسٹ کا دفتر ہے -وہاں لکڑی کے تخت پر حضور بابا صاحبؒ  بیٹھے ہوئے تھے -
تخت بالکل کھرّا تھا یعنی اس پر کوئی چیز نہیں بچھی ہوئی تھی اور غالباً اس وقت تہمد باندھے ہوئے تھے - سلام کیا ، ہاتھ ملایا اور بیٹھ گئے - ان کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات میں ، میں نے ایک بات محسوس کی کہ انہوں نے کبھی بھی یہ تاثر نہیں دیا کہ وہ بہت بڑے آدمی ہیں - انہوں نے کبھی اس قسم کا رویہ اختیار نہیں کیا جس میں تقدس ہو - شروع سے لے کر آخر تک ایک ہی تاثر رہا -

 اس زمانے میں آپ بھائی صاحب کہلوایا کرتے تھے -  بھائی صاحب کہلوانے کی وجہ یہ تھی کہ ان کے چھوٹے بھائی انہیں بھائی صاحب کہا کرتے تھے - ان کے چھوٹے بھائی کے ایک دوست تھے وہ بھی اپنے دوست کی وجہ سے بابا حضور کو " بھائی صاحب " کہا کرتے تھے - چنانچہ اس لئے سب انہیں بھائی صاحب کہا کرتے تھے -
پھر ڈاکٹر عبدالقادر صاحب جو سہون میں مدفون ہیں انہوں نے بابا حضور کو حضور بھائی صاحب کہنا شروع کیا اس طرح آپ " حضور بھائی صاحب " کہلائے جانے لگے -  " قلندر بابا اولیاؒء " تو وصال کے بعد زبان زد عام ہوا -

 سلسلہ عظیمیہ میں بیعت ہونے کے سوال پر احمد جمال صاحب نے بتایا کہ بابا صاحب تو خاندانی طور سے مجھ سے واقف تھے یعنی میرے بزرگوں سے واقف تھے - 1958ء  کے بعد 1960ء اگست کے آخری ہفتے میں مجھے اندر سے بے چینی محسوس ہوئی میں بابا حضور کے پاس پہنچ گیا اور میں نے بیعت کی درخواست کردی - انہوں نے خواجہ صاحب سے کہا کہ انہیں سبق دے دیجئے - انہوں نے خواجہ صاحب کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ سلسلہ آپ نے چلانا ہے -

اس کے بعد میرا مسلسل 1D ،1/7 میں آنا جانا رہا - اس کا کوئی خاص وقت مقرر نہیں تھا - دفتر سے آکر چلے گئے - رات کو بیٹھے ہوئے ہیں ، شام کو بیٹھے ہوئے ہیں - کبھی دفتر جانے سے پہلے چلے گئے - جب بھی فرصت ملی -اس زمانے میں حضور بابا صاحبؒ جمعہ کی شام کو حیدری چلے جایا کرتے تھے اور پھر اتوار کی شام کو واپس 1D ،1/7 آیا کرتے تھے -
مراقبہ ہمیشہ انہوں نے خواجہ صاحب سے ہی کروایا - ان کی سربراہی میں اس زمانے میں 1D ،1/7 کی تیسری منزل پر مراقبہ ہوتا تھا - بابا صاحب سنجیدہ طبیعت کے مالک تھے - آپ کبھی زور سے نہیں ہنسے ، مسکراتے تھے -
 ان کی شخصیت کا ایک ممتاز پہلو یہ بھی تھا کہ عموماً کبھی ایسا ہوا کہ گھر سے سوال لے کر بابا حضور کے پاس گئے - ان کے پاس جا کر کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی ، کسی نہ کسی بات کے اندر جواب مل جاتا تھا -  

بابا حضورؒ نے اپنی رباعیات مجھ سے لکھوائیں - وہ کرتے یہ تھے کہ رباعیات کو تحریر کرنے کے بعد ان کی تصحیح کرتے اور تصحیح کے بعد اس کی Fair Copy مجھ سے کرواتے تھے - پھر ان کے ذہن میں خیال آیا ، یہ خواہش بیدار ہوئی کہ ان رباعیات کا تصویر نامہ بنوایا جائے - یعنی ان رباعیات کی تصویر کشی کی جائے جس سے ان کا مفہوم واضح ہو -
 مجھے اس وقت کے مشہور مصور آذر زوبی کے پاس بھیجا - میں نے ان سے بات کی اور ان رباعیات کی تصویریں بنوائیں - پھر انہیں محسن صاحب کے سپرد کیا کہ اس کی کتابت و پرنٹنگ کروائی جائے - ایک دفعہ ایسا ہوا کہ محسن صاحب ٹیکسی پر بیٹھ کر گھر پہنچے اور رباعیات مع تصاویر کے ٹیکسی میں ہی بھول گئے - یاد آنے پر فوراً نیچے آئے - لیکن ٹیکسی غائب -
اب جناب اس کی ڈھونڈائی مچی - کئی دن تک ایک ٹیکسی پر میں اور محسن صاحب پوری کراچی میں ڈھونڈتے رہے کہ کہیں وہ ٹیکسی ڈرائیور مل جائے - لیکن وہ نہ ملنا تھا نہ ملا -  
بابا صاحب کو اس مسودے اور تصاویر کی گمشدگی کا بہت افسوس ہوا لیکن انہوں نے اس کا زیادہ غم نہ کیا - ایک دفعہ انہوں نے بتایا کہ ، " الله تعالیٰ کو منظور نہیں تھا " -
انہوں نے بہت ہی Balance لائف گزاری ہے - ورنہ بابا حضور کے لئے کیا مسئلہ تھا ان رباعیات کا تلاش کرنا یا تخلیق کرنا -ایک دفعہ ایسا ہوا کہ بہت جذب کی کیفیت میں تھے تو طبیعت ناساز ہوگئی - ہسپتال میں داخل کروایا گیا - ایک دن اسی کیفیت میں چلتے چلتے دیوار میں سے دوسری طرف نکل گئے - جیسے ہی انہیں شعور کا احساس ہوا دیوار تو شعور ہے انہیں جھٹکا لگا  اور وہیں گرگئے -
 جب ہم عید کے موقع پر ان سے ملنے جایا کرتے تو وہ عید ملنے کے بعد تمام مہمانوں کو ایک روپے کا بالکل نیا نوٹ بطور عیدی دیا کرتے تھے -


محترم نسیم احمد صاحب : 
                                میں 1977ء سے حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کو جانتا ہوں - اور ان سے ملاقات میں ہوں - عظیمی صاحب کے ذریعے بابا صاحب کا غائبانہ تعارف تھا - ان دنوں عظیمی صاحب تقریباً روز صبح بابا صاحب کے پاس جایا کرتے تھے اور میں شام کو عظیمی صاحب کے پاس آیا کرتا تھا - اکثر ان سے بابا صاحب کے متعلق بات ہوتی تو انہوں نے کہا کہ کبھی آپ کو بھی لے جائیں گے - ایک روز عظیمی صاحب کہنے لگے کہ چلیں آپ کو بابا صاحب سے ملوا کر لاتے ہیں - 


میں ان کے ساتھ حیدری بابا صاحب کی رہائش گاہ پر گیا - بابا صاحب سے ملاقات ہوئی ، انہوں نے سر پر ہاتھ رکھا - اس وقت ان کے چہرے پر جو مسکراہٹ تھی میں اسے بیان نہیں کرسکتا - اس قدر شفقت اور اتنی محبت تھی اس میں کہ آج بھی میرے ذہن پر اس کا بہت گہرا Impression ہے -
انہوں نے عظیمی صاحب سے فرمایا ... " چائے ، نسیم صاحب کے لئے " مجھے بڑی شرم آئی کہ خدمت تو ہمیں ان کی کرنی چاہیئے - اس ملاقات کے دوران میں نے ان سے سوال کیا کہ تصوف کسے کہتے ہیں -
بابا صاحب نے جواب دیا ... " ایسا نور باطن ، ایسا خالص ضمیر ، جس میں آلائش قطعاً نہ ہو - "  ان کے ذہن کی خوبی تھی کہ سوال کرنے والے کی ذہنی سطح کو سامنے رکھ کر جواب دیا کرتے تھے - 

نسیم صاحب کا پامسٹری کی فیلڈ میں اچھا خاصا علم ہے - جب ان سے بابا صاحب کے ہاتھوں کی لکیروں کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ جب میں بابا صاحب سے ملنے گیا تو میری نشست اس طرح تھی کہ میں بآسانی بابا صاحب کے دونوں ہاتھوں کو دیکھ سکتا تھا اور بابا صاحب نے بھی دونوں ہاتھوں کو اس انداز میں پھیلا کر رکھ دیا کہ میں بآسانی ان کے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھ رہا تھا - 
اس وقت تو میرے ذہن میں نہیں آیا لیکن اب آتا ہے کہ اس دن خاص طور سے انہوں نے ہاتھوں کو میرے سامنے رکھا ورنہ اس نشست میں نہیں بیٹھا جاتا کہ آپ دونوں ہاتھوں کو پھیلا کر بیٹھیں -
  
پامسٹری میں بہت سی چیزیں ہوتی ہیں ، مسٹری کراس Mystery Cross ہوتے ہیں - سب سے اہم Brain Line  ہوتی ہے - بابا صاحب کے ہاتھ جیسی برین لائن میں نے آج تک نہیں دیکھی - بابا صاحب کی  برین لائن ہاتھ کی پشت کے وسط تک تھی - جو ظاہر کرتی تھی کہ ان کا  Extra Ordinary ذہن تھا -
انگلیوں کی ایک ساخت ہوتی ہے -  اس میں کچھ گرہیں ہوتی ہیں - یہ گرہیں سوچ کی علامت ، تفکر اور سوچ کی  گہرائی کے بارے میں بتاتی ہیں - بابا صاحب کی انگلیاں بتاتی تھیں کہ بہت اعلیٰ درجے کے منتظم ہیں - روحانی آدمی ہیں - کام لینے کی صلاحیت اور انتظامی امور میں عبور حاصل ہے -
ہاتھ کی لکیریں جتنی گہری ہوں گی ذہن میں بھی اتنی ہی گہرائی ہوتی ہے - میں نے ان کے ہاتھ میں بہت گہری اور چند لکیریں دیکھیں ہیں چند لکیروں کا مطلب ہوتا ہے کہ ذہن صاف ستھرا اور مطمئن اور پرسکون ہے - ان کے ہاتھ کی ساخت چوکور تھی - یعنی عملیت پسند Practical ہیں - 

جن آدمیوں کے ہاتھ پر مسٹری کراس ہوتا ہے ، وہ جس شعبے میں بھی ہوتے ہیں کلیدی پوسٹ پر ہوتے ہیں - اور یہ لاکھوں کے ہاتھ میں کسی ایک میں ہوتا ہے - اسی لئے پامسٹری کی عام کتابوں میں اس کا تذکره بھی کم ہے - میں نے بابا صاحب کے ہاتھ پر یہ کراس دیکھا ہے - 




روحانی ڈائجسٹ  --  جنوری 1997ء

جمعہ، 20 مارچ، 2015

یاد عظیمؒ -- 1






                                         یاد عظیمؒ 


 " یاد عظیمؒ "  ان خوش نصیب افراد کی یادداشتیں ہیں جنہیں حضور قلندر بابا اولیاؒء کی قربت کی سعادت میسر آئی -

ان افراد میں 

 زوجہ محترمہ قلندر بابا اولیاؒء ،

 شمشاد احمد صاحب ( حضور بابا صاحبؒ  کے بڑے صاحبزادے ) ،

 رؤف احمد صاحب (  بابا صاحبؒ کے چھوٹے صاحبزادے ) ، 

سید نثار علی بخاری صاحب (حضور بابا صاحبؒ کے بچپن کے دوست )

احمد جمال عظیمی صاحب ، نسیم احمد صاحب ، 

وقار یوسف عظیمی صاحب ( عظیمی صاحب کے صاحبزادے ) ،

سلام عارف عظیمی صاحب ( عظیمی صاحب کے صاحبزادے ) ،

 کنول ناز گل صاحبہ ( عظیمی صاحب کی صاحبزادی ) شامل ہیں -   


 زیر نظر مضمون  شہزاد احمد قریشی صاحب کی کاوش ہے جو جنوری 1997 کے روحانی ڈائجسٹ میں " کچھ یادیں کچھ باتیں " کے عنوان سے شائع ہوا - شہزاد احمد نے ان خوش نصیب افراد سے ملاقات کی جنہیں  حضور قلندر بابا اولیاؒء کی قربت کی سعادت میسر آئی اور دوران ملاقات ہونے والی گفتگو کو مضمون کی شکل میں ترتیب دیا -

زوجہ محترمہ قلندر بابا اولیاؒء :

بابا بڑے سیدھے سادھے آدمی تھے - ان میں نمود و نمائش بالکل نہیں تھی - سادگی پسند تھے - فضول خرچ نہیں تھے - ان کے والد صاحب تحصیل میں نوکر تھے - والدہ کا انقال ہوچکا تھا - یہ 6 بہنیں اور 2 بھائی تھے -
بہت اچھے شوہر تھے - بحیثیت والد کے بہت ہی مشفق اور محبت کرنے والے باپ تھے - کبھی بھی انہوں نے نہ بچوں کو مارا اور نہ گھرکی دی - سب سے کہتے تھے کہ بچوں کو مارو نہیں ، پیار سے کام لو - بچوں سے جھوٹ مت بولو - نہ بڑے جھوٹ بولیں نہ بچہ جھوٹ بولے -
میں اپنی بڑی لڑکی سے عموماً کہا کرتی تھی کہ روبینہ .. میں تجھے یہ چیز دوں گی - میرا یہ کام کردے تو بابا صاحبؒ  فوراً بولتے کہ یہ جھوٹ بولا ہے -   
کھانے میں کوئی خاص چیز پسند نہیں تھی ، سب کچھ کھا لیا کرتے تھے -
فوج کی ملازمت کے حوالے سے اماں جی نے بتایا کہ دہلی میں 4 مہینے کی ٹریننگ کے بعد 300 آدمیوں کی نفری کے ہمراہ بمبئی گئے اور وہاں سے پونا گئے - ایک دفعہ آرمی میں Duty کے سلسلے میں کولمبو گئے -
ایک دن اپنے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ وہاں ایک گولا آکر گرا - اس وقت بابا صاحب نے جو حفاظتی ٹوپی سر پر لی ہوئی تھی اس میں جو آنکھوں کی حفاظت کے لئے شیشہ تھا وہ دھماکے کی شدت سے ٹوٹ گیا اور کافی سارا دھواں مٹی سمیت سانس کے ذریعے اندر چلا گیا - اور پسلیاں اندر دھنس گئیں - بہت تکلیف ہوئی ، زخمی بھی ہوگئے -
آخر عمر تک ٹانگوں پر ان زخموں کے نشان موجود تھے - انہیں ہسپتال میں داخل کردیا گیا - نیند کے انجکشن وغیرہ لگائے گئے - ہمارے پاس ان کی کوئی خبر ہی نہیں تھی - دو ماہ سے ان کا کوئی خط ہی نہیں آیا تھا -
خیر ... ہسپتال سے فارغ ہوتے وقت ڈاکٹروں نے کہا کہ آپ پہاڑی علاقے میں چلے جائیں تاکہ مکمل صحت مند ہوجائیں - انہوں نے کہا ... " نہیں میں گھر جاؤں گا " .. ڈاکٹرز کہنے لگے کہ گھر جاؤ گے تو مر جاؤ گے - انہوں نے جواب میں کہا کہ ... " میں نہیں مرتا  " ... - دہلی میں آئے ، دہلی میں میری والدہ اور ان کی بہن کا گھر تھا -ان کے والد صاحب بہت ہی شریف النفس اور شفقت کرنے والی شخصیت کےحامل تھے -
انہوں نے بڑی شفقت اور توجہ کے ساتھ علاج کرایا اور تیمار داری کی - تکلیف کے باعث وہ کروٹ نہیں لے سکتے تھے - سارا دن کچھ نہ کچھ دوائی ملتی رہتی تھی - صحت مند ہونے کے بعد واپس اپنی ملازمت پر چلے گئے - جاپان کی جنگ میں بھیجنے کی بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ میرے والد بوڑھے ہیں - پہلے میں ان سے پوچھ لوں -

اپنے والد صاحب کا بہت ادب کیا کرتے تھے - ان کے سامنے بیٹھ کر بولا بھی نہیں کرتے تھے - انہوں نے شاعری کی ایک کتاب بھی لکھی اور اس کا مسودہ انہوں نے ایک شخص کو کتابت کے لئے دیا کہ اس کی کتابت کروا کر لے آئیں لیکن وہ اس سے گم ہوگیا اور اس طرح وہ شاعری منظر عام پر نہ آسکی - 

فرائض کی ادائیگی کے معاملے میں بابا صاحبؒ بہت پابند تھے - اور دوسروں کو بھی اس کی تاکید کرتے تھے کہ فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہو - ان کے ڈرائیور کی دیگر ذمہ داریوں میں ایک ذمہ داری یہ بھی تھی کہ وہ جمیل صاحب (   بابا صاحبؒ کے داماد ) کو گھر لایا کرتا تھا -
 ایک روز شمشاد ( بابا صاحبؒ کے صاحبزادے ) نے ڈرائیور سے گاڑی مانگی اور گاڑی لے کر چلا گیا ... اور ڈرائیور جمیل صاحب کو لانا بھول گیا - انہوں نے پوچھا کہ جمیل کہاں ہے ؟ ڈرائیور نے کہا بھائی شمشاد نے گاڑی مانگی تھی اس لئے میں جمیل صاحب کو نہیں لا سکا -  بابا صاحبؒ نے بہت خفگی کا اظہار کیا کہ تم نے اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتاہی کیوں کی - 


کئی سال تک بابا صاحبؒ ، خواجہ صاحب ( خانوادہ سلسلہ عظیمیہ ) کے ہاں رہے - اس دوران ان کی روٹین تھی کہ جمعہ کی شام کو آتے اور اتوار کی شام چلے جاتے - ایک دفعہ میں نے ان سے کہا کہ اپنے گھر میں رہیں تو انہوں نے کہا کہ ..." فقیر کو جہاں کا حکم ہوتا ہے ، فقیر وہاں رہتا ہے - "   


محترم شمشاد احمد صاحب :(حضور بابا صاحبؒ کے بڑے صاحبزادے) 


جب ابا کو ولایت ملی اس وقت میری عمر کوئی دس گیارہ سال کی تھی - اور ہم اس وقت عثمان آباد میں شو مارکیٹ کے پاس رہا کرتے تھے - ایک دن مجھے پتا چلا کہ ابّا دو تین روز ہوگئے اپنے کمرے میں ہیں - اس دوران وہ کسی سے بات بھی نہیں کر رہے -
اس دوران اماں دروازہ کھٹکھٹا کر کھانا یا پانی وغیرہ کمرے میں رکھ دیتی تھیں - ان تمام دنوں میں انہوں نے کمرے میں روشنی بھی نہیں کی - عثمان آباد والے گھر میں اس وقت بجلی نہیں تھی - مٹی کے تیل کی لالٹین استعمال ہوتی تھی - اور لالٹین صاف کرنا میری ذمہ داری تھی - نہ لالٹین کمرے سے باہر آئی اور نہ جلی -

چند روز کمرے میں تنہا رہنے کے بعد جب وہ باہر آئے تو ان کے چہرے پر ایک خاص کیفیت نظر آتی تھی - پھر کچھ لوگوں کی آمد و رفت شروع ہوئی جن سے ہم پہلے واقف نہیں تھے - ان لوگوں میں ایسے افراد کی تعداد زیادہ ہوتی تھی جو ابّا سے سوال و جواب کیا کرتے تھے -
بہت عرصے تک تو ہمیں پتا ہی نہیں چلا کہ ابّا روحانی شخصیت ہیں - ان لوگوں کے ذریعے جو ابّا سے ملنے آیا کرتے تھے ، بہت عرصے کے بعد پتا چلا - ابّا نے ہمیں یہ بات نہیں بتائی - روحانیت میں اتنا اہم مقام حاصل ہونے کے بعد بھی ان کے معمولات یا بول چال میں کسی قسم کی تبدیلی واقع نہیں ہوئی -

صبح ساڑھے سات بجے ماہنامہ نقاد کے دفتر جو مولوی مسافر خانہ کے پاس تھا ، چلے جاتے اور شام پانچ یا ساڑھے پانچ بجے واپس گھر آتے تھے - گھر سے دفتر تک پیدل جاتے اور آتے تھے - اس کے بعد کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کسی صاحب کے ساتھ گاڑی میں آئے - جو صاحب بھی گھر چھوڑنے آتے تھے ابّا ان سے باہر ہی گفتگو کرتے تھے - کبھی گھر میں نہیں لائے -
بعد میں پتا چلا کہ یہ تو روحانیت پر گفتگو ہوا کرتی تھی - ہم سمجھتے تھے کوئی دوست وغیرہ ہیں -انہوں نے اپنی روٹین کو برابر  جاری رکھا اور اپنے روحانی معاملات کو رات میں اپنے کمرے میں تنہائی میں کرتے - انہوں نے کبھی محسوس نہیں ہونے دیا کہ ان میں تبدیلی آرہی ہے -

ہمارے گھر کا ماحول کچھ ایسا تھا کہ ہم اپنے والد سے کوئی فرمائش نہیں کرسکے - ہمارے دادا نے اس طریقے سے ہمیں مصروف کردیا تھا نمازوں کی طرف ، قرآن کی طرف اور پڑھائی کی طرف - اس طرح ہمارے پاس دیگر کھیل کود میں حصہ لینے کا وقت نہیں تھا - اسی وجہ سے ہمارا  گھر سے باہر نکلنا نہیں ہوتا تھا - یعنی گھر سے اسکول اور مسجد کا آنا جانا تھا - گھر میں کیرم بورڈ یا لیڈو تھی - آفتاب بھائی ( بڑے بھائی ) کے ساتھ کھیل لیا کرتے تھے - 


ابّا چیخ کر بولنے کو سخت ناپسند کرتے تھے - ہمارے جاننے والوں میں کچھ عادتاً اونچی آواز میں بولتے تھے تو ابّا فرماتے ..." ارے بھئی ، آہستہ بولا کرو .. بلا وجہ کیا بلڈ پریشر ہائی کرنا -"
 اگر وہ کہتے کہ بھائی صاحب عادت بن گئی ہے ،
تو آپ کہتے ..." کیا عادت بن گئی ہے ؟ بنا لی ہے ، صحیح کرلو - کیا فائدہ ؟ اتنی زور سے کیوں بولتے ہو - "

 ان کی ایک نصیحت جو مجھے ابھی تک یاد ہے ان کے الفاظ تھے کہ ..." آواز کمرے سے باہر نہیں جانی چاہیئے - " 
دوسرے کمرے میں آواز سے کوئی پریشانی نہ ہو - یہ ہمیشہ سے ہی ہم نے دیکھا کہ وہ خود بھی اتنی آواز سے بولتے تھے کہ جو ذہن کو مرتعش نہ کرے - اگر کسی نے ان کے ساتھ غلط بات کی یا غلط رویہ اختیار کیا تو انہوں نے اپنی ناراضگی یا خفگی کا اظہار اپنی آواز سے نہیں کیا - کبھی درشت لہجہ اختیار نہیں کیا -   


اپنی روزمرہ کی چیزوں کو بہت ترتیب اور مقررہ جگہوں پر ہی رکھتے تھے -  مثلاً دفتر سے آکر اچکن کو جھاڑ کر ہینگر میں لٹکاتے تھے - اچکن کو کبھی کیل پر نہیں لٹکایا - جوتے اتارنے کے بعد جھاڑ کر برابر رکھتے تھے - جوتوں کو آگے پیچھے یا غیرمتوازن نہیں رکھتے تھے - پتلون کی کس جیب میں چابی ہوتی ہے ، ہاتھ لاشعوری طور پر اس جیب میں جاتا اگر چابی دوسری جیب سے ملتی تو خفگی سے اظہار کرتے کہ بھئی یہاں پرکیسے آگئی چابی -  



انہوں نے ہمیں سختی سے ہدایت کی تھی کہ اگر کسی کی کوئی بات سامنے آجائے تو اسے بیان نہ کیا جائے ، اور اس سے ذاتی فائدہ نہ اٹھایا جائے -
 ان کے الفاظ تھے ... " کبھی الله کے نام کو بیچنے کی کوشش نہیں کرنا - "
ایک دفعہ میں اکیلا ابّا کے پاس کمرے میں بیٹھا ہوا تھا تو میں نے ان سے  کہا کہ مجھے کوئی خاص بات ، باتیں یا نصیحت کریں - تو انہوں نے کہا کہ ... " کسی کو سینگ نہیں مارنا " ، میں نے کہا کہ میں سمجھا نہیں -
کہنے لگے ... " آدمی دو طرح کے ہوتے ہیں ، ایک وہ جو انسان ہوتے ہیں اور ایک وہ ہوتے ہیں جو لوگوں کو تنگ کرتے ہیں - تنگ کرنے والے جو ہوتے ہیں وہ سینگ مارتے ہیں - جیسے بیل خواہ مخواہ سینگ مارتا ہے اپنی غرض سے غرض رکھو - کسی کے کام میں دخل مت دو - کسی پر مسلط ہونے کی کوشش مت کرنا اور نہ اس کی ٹوہ کہ کوئی کیا کر رہا ہے - "


جب مجھے کار چلانے کا لائسنس مل گیا تو ابّا کی اجازت ملی کہ اب میں اکیلا گاڑی چلا سکتا ہوں - جب میں پہلی دفعہ اکیلا گاڑی چلانے کے لئے جانے لگا تو انہوں نے کہا کہ غور سے ایک بات سنو -
کبھی غصے کی حالت میں گاڑی نہیں چلانا - بالکل ذہن کو ٹھنڈا رکھ کر گاڑی چلانا - اور کچھ بھی ہوجائے گاڑی چلاتے ہوئے غصہ نہیں کرنا اور اگر کبھی غصہ آجائے تو گاڑی روک کر پانی پی لو اور لاحول پڑھ لو - تھوڑی دیر آرام کرلو - ٹہل لو - لیکن غصہ کی حالت میں گاڑی چلانا نہیں ہے -  



ہمارے بڑے بھائی آفتاب بھائی کا ستائیس سال کی عمر میں انتقال ہوا - اس وقت ابّا 1D ،1/7 میں تھے - میں یہ خبر دینے کے لئے ان کے پاس گیا - میں نے ان کے قریب ہی کھڑے ہوکر آہستہ سے کہا بھائی کا انتقال ہوگیا ہے - صرف اتنے ہی الفاظ تھے اور بس -
انہوں نے میری طرف دیکھا اور وہ نظر میں کبھی نہیں بھول سکتا - میں نے دیکھا کہ ان کی دونوں آنکھیں جو پوری طرح روشن تھیں ان کی روشنی اسی وقت ختم ہوگئی - دونوں آنکھوں میں پتلی کی جگہ سفیدی آگئی - اسی وقت سفیدی آگئی - دیر نہیں لگی تھی اس میں - بس انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا اچھا تم جاؤ ، میں آجاؤں گا -  بالکل نارمل لہجہ تھا اور میں واپس گھر آگیا -

تقریباً گھنٹہ سوا گھنٹہ کے بعد ابّا بھی گھر پہنچ گئے - بعد میں ان کی دونوں آنکھوں کا آپریشن ہوا تھا - لیکن ان کی آنکھیں نارمل نہیں ہوسکیں - عینک لگ گئی تھی - ان دونوں آنکھوں کو بےنور ہوتے ہوئے میں نے خود دیکھا ہے - آفتاب بھائی کی خبر سن کر انہوں نے کسی قسم کی Feeling حزن یا غم کا بالکل اظہار نہیں کیا - انہوں نے اس کا بھی اظہار نہیں کیا کہ انہیں نظر نہیں آرہا ہے -  


بابا صاحب کے وصال کی تفصیلات بتاتے ہوئے شمشاد صاحب نے بتایا کہ ... وصال کے چند ماہ پہلے سے ان کی طبیعت خراب رہنا شروع ہوگئی تھی - آہستہ آہستہ چلنا پھرنا پھر اٹھنا بیٹھنا اور پھر کھانا پینا بھی بند ہوگیا - آخری دنوں میں اپنے کمرے تک محدود ہوگئے تھے - نقاہت کے باعث ہاتھوں کی حرکت بھی ختم ہوچکی تھی - ساکت لیٹے رہتے تھے -
ستائیس رجب ( صفر ) یا ستائیس جنوری کو شام کو میں اپنی ڈیوٹی سے رات بارہ بجے کے بعد گھر پہنچا - ابّا کے کمرے میں جا کر انہیں دیکھا - انہوں نے آنکھوں کے اشارے سے بتایا کہ ٹھیک ہے - میں اپنے کمرے میں چلا گیا - پھر رات کو ایک بجے کے قریب ان کے کمرے میں گیا ، کچھ محسوس نہیں ہوا - عام روٹین کی طرح ساکت تھے -
رات ڈیڑھ بجے کے بعد مجھے بےچینی محسوس ہوئی تو میں ان کے کمرے میں گیا - جب میں ان کے کمرے میں داخل ہوا تو ان کی آنکھوں میں سے زندگی کی روشنی ختم ہوچکی تھی - وقت ختم ہوگیا تھا - میں ان کے قریب گیا ، سانس دیکھا ، دل کی دھڑکن دیکھی ، کلائی سے حرارت دیکھی -
جسم ٹھنڈا ہوچکا تھا - میں نے اماں کو بتایا ، پھر بہن کو بتایا - جس نوعیت کی بیماری تھی اس کے لئے ہم ذہنی طور پر تیار تھے - اس لئے اس وقت نارمل رہے - اور یہ ضبط کرنا ضروری  بھی تھا کیونکہ تربیت کا یہی تقاضا تھا - ابّا بین کو یا رونے پیٹنے کو ناپسند کرتے تھے -  



محترم رؤف احمد صاحب : ( بابا صاحب کے چھوٹے صاحبزادے ) 


میں نے کبھی ابّا سے ضد نہیں کی - وہ بہت ہی شفیق اور پیار کرنے والے تھے - بڑے آرام سے سمجھا دیا کرتے تھے اور ہم سمجھ بھی جایا کرتے تھے - جب وہ بیرون شہر جاتے تھے تو ہمارے لئے کھلونے وغیرہ لایا کرتے تھے - ایک دفعہ بس لائے تھے - ایک دفعہ اڑن طشتری لائے تھے -

اگر میں ان سے کوئی فرمائش کرتا تو فرماتے .. " ہاں صحیح ہے ، ٹھیک ہے ، جیسے ہی وقت ہوگا ہوجائے گا - "

انہیں غصہ تو آتا ہی نہیں تھا -    میں نے دیکھا کہ ان کے پاس ہر مکتبہ فکر کے لوگ آیا کرتے تھے - ابّا انہیں مطمئن کردیا کرتے تھے - میں نے ایسا نہیں دیکھا کہ کسی فرد کے سوال پر ابّا نے جھنجھلاہٹ کا اظہار کیا ہو - مقابل کی ذہنی سطح کے مطابق تسلی بخش جواب دیا کرتے تھے -

جب ابّا میرے لئے موٹر سائیکل لے کر آئے تو مجھے موٹر سائیکل چلانا نہیں آتی تھی - بہنوئی کے ساتھ لائے تھے - موٹر سائیکل جب گھر میں گیٹ سے اندر لائے تو اس وقت ابّا نے مجھ سے کہا تھا کہ دیکھو ہینڈل کی طرف کبھی بھی مت دیکھنا - سامنے دیکھنا - حالانکہ ہم نے اپنے ہوش میں ابّا کو کوئی سواری چلاتے ہوئے نہیں دیکھا - پیدل چلتے تھے یا کوئی گاڑی میں گھر چھوڑ دیتا تھا -

وہ زندگی میں حقیقت پسند تھے - جذباتی نہیں تھے - انہوں نے ایک دفعہ کہا کہ ... " اپنا حق لینے کے لئے اگر کسی کو کچھ دینا پڑتا ہے تو وہ اسے دیں - اس لئے کہ اگر آپ ابھی نہیں دیں گے تو آپ کو مطلوبہ چیز نہیں ملے گی اور آپ کا جو نقصان ہوجائے گا وہ اس سے بڑا ہوگا - "
ہمارے والد صاحب میں کسی قسم کی توقع یا غرض نہیں تھی - 

     روحانی ڈائجسٹ .. جنوری  1997ء