پیر، 30 ستمبر، 2013

ارشادات .... تعارف

ارشادات .... واقعات .... تعلیمات .... اور طرز فکر


  اولیاۓ کرام اور عارف بالله کشف اور الہام سے وابستہ ہوتے ہیں -مراقبہ کے ذریعے کشف  اور الہام  کی طرزیں ان کے ذہنوں میں اتنی مستحکم ہوجاتی ہیں کہ وہ مظاہر کے پس پردہ کام  کرنے والے حقائق سمجھنے لگتے ہیں اور ان کا ذہن مشیت الہیہ کے اسرار و رموز کو براہ راست دیکھتا اور سمجھتا ہے اورپھر  وہ قدرت کے رازدار بن جاتے ہیں -


 ان روحانی مدارج کے دوران ایک مرحلہ ایسا آتا ہے کہ ان حضرات کا ذہن ، ان کی زندگی اور زندگی کا ایک ایک عمل مشیت اور رضاۓ الہیہ کے تابع ہوجاتا ہے - 



ایسے بزرگوں کی گفتگو اسرار و رموز اور علم و عرفان سے پر ہوتی ہے اور ان کی زبان سے نکلا ہوا کوئی لفظ معرفت اور حکمت سے خالی نھیں ہوتا - ان کے ملفوظات اور واردات روحانیت کے راستے پر چلنے والے سالکین کے لئے مشعل راہ ہوتے ہیں -


ان کی گفتگو اور ان کے الفاظ پر ذہنی مرکزیت کے ساتھ   تفکر کیا جاۓ تو کائنات کی ایسی مخفی حقیقتیں منکشف ہوتی ہیں جن کا انکشاف اور مشاہدہ انسان کو اس امانت سے روشناس کردیتا ہے جس کو سماوات ،ارض و جبال نے یہ کہہ کر قبول کرنے سے انکار کردیا کہ ہم اس امانت کے متحمل نہیں ہوسکتے  اس لئے کہ اس کے بار سے ہم ریزہ ریزہ ہوجائیں گے -


ابدال حق امام سلسلہ عظیمیہ حسن اخریٰ سید محمّد عظیم برخیؔا  المعروف حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی ذات گرامی علم و عرفان  کا ایسا  سمندر ہے جس کے کنارے نور نبوت سے جاملتے ہیں - آپ کی ہستی ایک ایسا ہیرا ہے جس کی تراش و خراش خاتم النبیین حضورعلیہ الصلوة والسلام   کے فیض و کرم سے عمل میں آئی ہے - آپ کی شخصیت ایک ایسا آفتاب ہے جس کی ضیا پاشی نور الہی اور نور نبوت کے فیضان سے قائم و دائم ہے -


جن لوگوں نے حضور بابا صاحب کو دیکھا ہے اور رموز و حکمت سے لبریز ان کے ارشادات سنے ہیں ، ان پر یہ حقیقت روشن ہے کہ حضور بابا صاحبؒ قدرت کے معاملے میں کتنا دخل رکھتے تھے - اکثر اوقات گفتگو کے دوران وہ ایسے بنیادی نکات بیان کر جاتے تھے جو براہ راست قوانین قدرت کی گہرائیوں سے متعلق ہیں اور جنہیں سن کر سننے والے کے ذہن میں کائنات میں جاری و ساری اصول و قوانین کا نقشہ آجاتا تھا -
       
 حضور قلندر بابا اولیاؒء جب کسے موضوع پر تبصرہ فرمایا کرتے تو ایسا معلوم ہوتا جیسے ان کا ذہن ایک دریاۓ ناپیدا کنار اور ذخیرہ انوار ہے اور یہ انوار الفاظ کے سانچے میں ڈھل کر  حضور بابا صاحب کی زبان سے ادا ہورہے ہیں -


حاضرین مجلس اکثر ان کی گفتگو سے مبہوت ہوجاتے تھے اور یہ کہا کرتے تھے کہ نظام کائنات سے متعلق قدرت کے قواعد و ضوابط اور ان پر عمل درآمد کے قانون کو عام فہم زبان میں اس طرح بیان کرنا حضور بابا صاحبؒ جیسے عالم لدنی ہی کا وصف ہوسکتا ہے -



خواجہ شمس الدین عظیمی  حضور قلندر بابا اولیاؒء کی خدمت میں تقریبا سولہ سال حاضر باش رہے -خواجہ شمس الدین عظیمی اپنی مختلف تحریروں اور تقاریر میں  حضور قلندر بابا اولیاؒء کے ارشادات اور ان سے متعلق واقعات وقتاً فوقتاً  بیان کرتے رہتے  ہیں -


 خواجہ صاحب کے علاوہ غلام رسول قادری العظیمی صاحب ، پروفیسر فقیر محمّد شیخ صاحب اور سید نثار علی بخاری صاحب نے بھی بابا صاحب کے ارشادات و واقعات قلمبند کئے ہیں -

ان ارشادات و واقعات سے ہمیں   قلندر بابا اولیاؒء کے علم و فضل اور فکر و فہم کو سمجھنے میں مدد ملے گی اور یہ حقیقت سامنے آجاۓ گی کہ اولیاءاللہ  کی طرز فکر کیا ہوتی ہے ، وہ کس طرح سوچتے ہیں اور ان کے روز و شب کس طرح گزرتے ہیں -

اتوار، 29 ستمبر، 2013

سنہرا اورا

ارشادات ، واقعات ، تعلیمات  اور  طرز فکر 


خواجہ صاحب سے دریافت کیا گیا کہ......حضور قلندر بابا اولیاؒء صابن سے ہاتھ کیوں نہیں دھوتے تھے ؟  فرمایا ان کی طبیعت میں نفاست بہت تھی ... صابن میں چربی ہوتی ہے اور وہ بھی جانے کس کس جانور کی - وہ گرم پانی سے ہاتھ دھو کر تولیے سے پونچھ لیتے تھے ہاتھ بھی کافی دیر تک دھوتے تھے ..... انھیں اچھا لگتا تھا ہاتھوں کو دھونا -

 مزید فرمایا ...... میرے اورا کا رنگ سنہرا ہے ،  جب میں نہا کر نکلتا تو حضور قلندر بابا اولیاء مجھے آواز دے کر بلاتے ..... خواجہ صاحب !  ادھر آئیے ......  یہاں بیٹھیں ....، میں ننگے بدن ان کے قریب بیٹھ جاتا اور وہ مجھے ٹکٹکی باندھے دیکھا کرتے -

 ایک مرتبہ خواجہ صاحب نے ڈاکٹر مقصود عظیمی کو بتایا کہ بابا صاحبؒ کے معتقد ، ایک صاحب تھائی لینڈ  گئے تو ایک بھکشو سے ملے -
جب اس کو انہوں نے حضور قلندر بابا اولیاؒء کا حوالہ دیا تو بھکشو نے بتایا کہ... اس وقت وہ  (بابا صاحبؒ )   دنیا کے سب سے زیادہ عظیم انسان ہیں  کیونکہ ان کے گرد روشنیوں میں دیگر رنگوں کے علاوہ سنہرا رنگ بہت نمایاں ہے جو سلطنت اور حکومت کا رنگ ہے -انھیں یہاں تک بتایا کہ آپ عظیمی  صاحب کے قریب ہیں -

استغفراللہ کا مطلب

ارشادات ، واقعات ، تعلیمات  اور  طرز فکر 


اس تمام تذکرہ میں  بابا صاحبؒ ، حضور بابا صاحبؒ ، قلندر باباؒ   سے مراد ہیں  ابدال حق امام سلسلہ عظیمیہ حضور قلندر بابا اولیاؒء 
جبکہ  خواجہ صاحب ،عظیمی صاحب ،مرشد کریم  اور حضور ابّا جی  سے مراد ہیں  خانوادہ سلسلہ عظیمیہ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب 





استغفراللہ کا مطلب:           


ایک مرتبہ سلسلہ عظیمیہ سے وابستہ ایک صاحب نے خواجہ صاحب سے سوال کیا .......  کہتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی الله علیہ وآ له وسلّم  دن میں ستر بار یا اس سے زائد مرتبہ استغفار کیا کرتے تھے ، جب انبیاء معصوم ہوتے ہیں تو پھر دن میں اتنی بار استغفار کا کیا مطلب ہوا ؟


   فرمایا ..... استغفراللہ کا مطلب مجھے حضور قلندر بابا اولیاؒء نے بتایا تھا ... کم مائیگی ، اے الله میں اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرتا ہوں -دراصل حضورعلیہ الصلوة والسلام  الله کے کسی نہ کسی نئے روپ کا مشاہدہ فرما رہے ہوتے تھے اور ابھی  ایک  روپ  کا  نظارہ  پوری  طرح  مکمل  نہیں           ہوتا تھا....... 

کہ وہاں نظارہ بدل جاتا تھا ، اس پر حضورعلیہ الصلوة والسلام  استغفار فرماتے تھے -  حضور نبی کریم صلی الله علیہ وآ له وسلّم نے اسی پر فرمایا تھا 

" میں دن میں ستر مرتبہ استغفار کرتا ہوں تم بھی کیا کرو "

ہفتہ، 28 ستمبر، 2013

بیعت


سلسلہ سہروردیہ کے بزرگ حضرت ابولفیض قلندر علی سہروردیؒ جنوری 1895ء بمقام موضع کوٹلی لوہاراں شرقی ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے -حضرت ابولفیضؒ نے سید مہر علی شاہ گولڑہ شریفؒ، میاں شیر محمّد شرقپوریؒ اور بابا غلام محمّد   سہروردیؒ سے فیض حاصل کیا-

آپ کے مرشد کریم بابا غلام محمّدؒ نے گجرات میں رشد و ہدایت اور تزکیہ کی تعلیم سے لوگوں کی خدمت فرمائی -   بابا غلام محمّدؒ کا مزار جلال پور سے ڈیڑھ کلومیٹر دور موضع حیات گڑھ میں واقع ہے - 


 حضرت ابولفیضؒ اپنے مرشد کریم کے حکم پر لاہور تشریف لاۓ اور تمام عمر لاہور میں بندگان خدا کی رہنمائی فرماتے رہے- آپ کا وصال 10 ستمبر 1958ء کو ہوا - حضرت ابولفیض قلندر علی سہروردیؒ کا مزار ہنجروال لاہور میں واقع ہے -آپ نے کئی کتابیں تحریر فرمائیں جس میں  "جمال الہی " ، "جمال رسول صلی الله علیہ وسلم "  اور  " الفقر فخری " زیادہ مقبول ہیں - 

  Hazrat Abulfaiz Qlandar Ali Soharwrdy



Baba Ghulam Mohammad Soharwrdy


















         Pir Mahar Ali Shah 
Mian Sher Mohammad Shrqpuri

















1956ء کے موسم سرما میں قطب ارشاد  حضرت ابولفیض قلندر علی سہروردیؒ صاحب کراچی تشریف لاۓ -خواجہ صاحب نے ان کی آمد کا تذکرہ سید محمّد عظیم صاحبؒ سے کیا تو انہوں نے فرمایا " ان سے میرا سلام عرض کیجیۓ گا "- اس غائبانہ تعارف کے بعد  سید محمّد عظیم صاحبؒ تک آپ کے توسط سے سہروردی صاحبؒ کی مصروفیات اور علمی نشستوں کی معلومات پہنچتی رہیں -

اسی دوران ایک روز سید محمّد عظیم صاحبؒ نے عظیمی صاحب  سے  فرمایا " میرے سینے میں دل کی جگہ چبھن ہوتی ہے -" جب عظیمی صاحب نے اس کا تذکرہ  سہروردی صاحبؒ سے کیا تو انہوں نے کہا " ٹھیک ہے ،ٹھیک ہوجاۓ گا -"

ایک روز خواجہ صاحب نے سہروردی صاحبؒ کی تحریر کردہ کتاب " جمال الہی "  سید محمّد عظیم صاحبؒ کو مطالعہ کے لئے دی تو انہوں نے نقشہ بنا کر آپ کو بتایا کہ اگر اس نقشے کی مدد سے کوئی کتاب پڑھی جاۓ تو پتا چل جاتا ہے کہ مصنف یا موَلف صاحب حال ہے یا نہیں اور اسی طرح اس کی لاشعوری کیفیات بھی اس کی تحریر میں ظاہر ہوجاتی ہیں -

           
 عظیمی صاحب نے یہ سارا واقعہ سہروردی صاحبؒ کو سنایا تو وہ بہت خوش ہوئے -ایک روز سید محمّد عظیم صاحبؒ نے  عظیمی صاحب سے کہا " ان سے پوچھئے گا ..... کیا وہ مجھے بیعت فرما لیں گے "- جب عظیمی صاحب نے بڑے حضرت جیؒ سے  سید محمّد عظیم صاحبؒ کے لئے عرض کیا تو انہوں نے آپ کو ملاقات کے لئے گرانڈ ہوٹل میں بلایا ،
 سہروردی صاحبؒ ان دنوں گرانڈ ہوٹل میکلوڈ روڈ میں مقیم تھے -

جب حضرت بابا تاج الدین اولیا ناگپوریؒ کے تربیت یافتہ سید محمّد عظیم برخیاؒ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو کچھ دیر کے بعد ابولفیض قلندر علی سہروردیؒ صاحب نے فرمایا ،"عظیم صاحب کے علاوہ سب تھوڑی دیر کے لئے کمرے سے باہر ٹہریں "-


ہیرے کی پہچان جوہری کو خوب ہوتی ہے -مردم شناس،صاحب اسرار حضرت ابولفیض قلندر علی سہروردیؒ نے  سید محمّد عظیم برخیاؒ کو دیکھا -آپ نے حضرت محمّد عظیؒم کے قلب کو نور الہی اور نور نبوت  صلی الله علیہ وسلم  سے منور پایا -بیعت کی درخواست کو منظور فرمایا -



ہوٹل سے واپسی پر سید محمّد عظیم صاحبؒ نے خواجہ صاحب کو بتایا کہ سہروردی صاحبؒ نے بیعت  کے لئے رات تین بجے کا وقت دیا ہے - سید محمّد عظیم صاحبؒ سخت سردی کے موسم میں ، رات دو بجے ہی  سے ہوٹل کی سیڑھیوں پر جا کر بیٹھ گئے-



ٹھیک تین بجے بڑے حضرت جؒی نے دروازہ کھولا اور اندر بلا لیا- انہیں اپنے سامنے بٹھا کر پیشانی پر تین پھونکیں ماریں ،  پہلی پھونک میں عالم ارواح منکشف ہو گیا ، دوسری  پھونک میں عالم ملکوت و جبروت سامنے آگئے اور تیسری پھونک میں حضور بابا صاحب نے عرش معلیٰ کا مشاہدہ کیا -




 حضرت ابولفیض قلندر علی سہروردیؒ نے قطب ارشاد کی تعلیمات تین ہفتہ میں مکمل کرکے خلافت عطا فرمادی -بڑے حضرت جیؒ کے  بعد شیخ نجم الدین کبریٰؒ کی روح پر فتوح نے آپ کی روحانی تعلیم شروع کی اور پھر یہ سلسلہ یہاں تک پہنچا کہ سیدنا  حضور علیہ الصلوة والسلام نے براہ راست علم لدنی عطا فرمایا  اور آپ صلی الله علیہ وآ له وسلّم کی ہمت اور نسبت کے ساتھ بارگاہ رب العزت میں پیشی ہوئی اور اسرار و رموز کا علم حاصل ہوا -



تعلیمات کی تکمیل پر بطریق اویسیہ حضرت صلی الله علیہ وآ له وسلّم کی بارگاہ اقدس سے " حسن اخریٰ " کا خطاب عطا ہوا - قلندریت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے ملائکہ ارضی و سماوی اور حاملان عرش میں آپ  " قلندر بابا اولؒیاء " کے نام سے مشہور ہیں- آج بھی یہی عرفیت زبان زد عام ہے -   



اس زمانے میں حضور بابا صاحبؒ  نے مسلسل دس رات اور دس دن شب بیداری کی اور تہجد کی نوافل میں  کئی  کئی سو مرتبہ سورہ اخلاص پڑھی -علم  لدنی کی تعلیم  کے دوران اور اس کے بعد بھی حضور بابا صاحبؒ  ڈھائی تین گھنٹے سے زیادہ  کبھی نہیں سوۓ - نیند پر ان کو پوری طرح غلبہ اور دسترس حاصل تھی -غذا کے معاملے میں بہت زیادہ محتاط تھے  چوبیس  گھنٹے  میں  زیادہ  سے  زیادہ  دو  چپاتی اور کبھی ایک چپاتی  تناول  فرمایا  کرتے -


  


جمعہ، 27 ستمبر، 2013

شخصی خصوصیات


       حضرت محمّد  عظیمؒ  کی مختلف شخصی خصوصیات کا تذکرہ خواجہ شمس الدین عظیمی اس طرح کرتے ہیں -

    قلندربابا اولیاؒء کی طبیعت میں بہت نفاست اور نظم تھا -روزمرّہ کی چیزوں میں سے کوئی چیز جگہ سے بے جگہ ہوجاتی تو طبیعت پر گراں گزرتی -آپ حسن اخلاق کا ایک سراپا تھے -آپ کی طبیعت میں سادگی کے ساتھ ایک خاص وقار نمایاں تھا -


آپ لوگوں کی پریشانی میں ان کی دل جوئی کرتے ، دوسرے کی تکلیف کو اپنی تکلیف اور دوسرے کے درد کو اپنا درد سمجھتے اور نہ صرف سمجھتے بلکہ دوسرے شخص کی توقع سے کہیں زیادہ بڑھ کر اس کا دکھ بانٹتے - 



آپؒ کے بچپن کے ایک ساتھی جناب سید نثار علی بخاری فرماتے ہیں ......

 بچپن کے حالات میں یہ بات زیادہ اہم ہے کہ قلندر باباؒ کی کبھی کسی سے لڑائی نہیں ہوئی -دوسری بات یہ کہ ہم عمر ساتھی قلندر باباؒ کا احترام کرتے تھے کیونکہ آپ خود اپنے ہم عمر اور کم عمر ساتھیوں سے آپ جناب کے ساتھ گفتگو کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کے ساتھی بھی ادب و احترام کرتے تھے -


محمّد عظیمؒ ذہین ،حلیم الطبع ، مخلص ، وسیع المعلومات ،خلیق سخن سنج تھے -کوئی ملاقاتی یا دوست آپ کے پاس آتا تو ممکنہ حد تک خاطر مدارات کرتے -بڑے اطمینان سے اس کی بات سنتے -



اپنے حلقہ احباب میں خاص طور پر اور عام افراد میں عام طور پر نہایت عزت و وقار کے مالک مانے جاتے تھے -بہت مقبول اور ہر دلعزیز تھے -اپ جس جگہ تشریف لے جاتے لوگ آپ کی رفاقت میں خوشی محسوس کرتے -




جمعرات، 26 ستمبر، 2013

ملاقات

حضرت سید محمّد عظیم برخیاؒ سے شمس الدین انصاری 

(خواجہ صاحب )کی ملاقات 


شمس الدین انصاری (خواجہ صاحب) جب 1950ء میں کراچی 
پہنچے تو آپ کے معاشی حالات کمزور تھے -آپ کےبڑے بھائی صاحب نے ماہنامہ "آفتاب نبوت " کی  رقم کے لئے پاکستان میں آپ کا پتہ دے دیا تھا -الله تعالیٰ کے کرم سے جب بھی پیسوں کی  ضرورت ہوتی رسالہ کی رقم منی آرڈر کے ذریعے آجاتی تھی -

ایک مرتبہ رسالہ کی رقم منی آرڈر کے بجاۓ ڈرافٹ کی صورت میں آئی ،اس وقت آپ کو بینکنگ وغیرہ کا کچھ زیادہ تجربہ نہیں تھا -آپ کے ایک دوست ڈاکٹر رشید صاحب ڈان اخبار میں سرکولیشن منیجر تھے -آپ نے ان سے ڈرافٹ کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا ڈرافٹ مجھے دے دیں ،میں اکاونٹ میں ڈال دوں  گا -

آپ نے ڈرافٹ ان کو دے دیا -جب رشید صاحب تین چار دن نہیں آئے تو اپ ان سے ملنے ڈان اخبار میں چلے گئے -رشید صاحب سیٹ پر موجود نہیں تھے -
ایک صاحب نے شیریں مگر مردانہ بھاری آواز میں کہا "آئیے تشریف رکھیں کیا کام  ہے آپ نے سوال کیا ڈاکٹر رشید صاحب کہاں ہیں -انہوں نے جواب دیا ان کی طبیعت ٹھیک نہیں اور وہ   تین چار روز سے دفتر نہیں آرہے  انہوں نے آپ کے لئے چاۓ منگوائی اور پھر گفتگو کا سلسلہ چل نکلا   انہوں نے آپ کی عمر اور جذبات کی مناسبت سے دو شعر سناۓ -

خواجہ صاحب کی آنکھوں میں چمک اور خمار کے سرخ ڈورے دیکھ کر  انہوں نے دل پر نشتر رکھ دیا  "محبّت کرتے ہو ،بے وفائی کے ساتھ بے وفا بننا ،محبت کے ساتھ اس دنیا کی ریت ہے "-  خواجہ صاحب ان کی شخصیت سے بہت متاثر ہوئے -آپ نے زندگی میں پہلی مرتبہ اتنا پرسکون چہرہ دیکھا تھا -

جب آپ نے رشید صاحب سے ان صاحب کا تذکرہ کیا تو انہوں نے بتایا  اچھا بھائی عظیمؒ سے ملے ہوگے یہاں سب ایڈیٹر ہیں ،بہت اچھے اور شفیق انسان ہیں ،بہت عالم فاضل ہیں -

 یہ عظیمی صاحب کی بابا صاحبؒ سے پہلی ملاقات تھی -دوسری ملاقات چار سال بعد 1954ء میں ہوئی -عظیمی صاحب کے ایک دوست طفیل احمد چغتائی ملٹری میں لیفٹننٹ تھے ، وہ اکثر تذکرہ کیا کرتے تھے کہ میرے ایک دوست تھے محمّد عظیمؒ معلوم نہیں وہ اب کہاں ہیں-بہت تلاش کیا لیکن نہیں مل سکے - 

 ایک دن انہوں نے خواجہ صاحب کو بتایا میرے وہ دوست مل گئے ہیں اور آج کل ماہنامہ نقاد میں کام کرتے ہیں -آپ ان کے ہمراہ جب ماہنامہ نقاد کے دفتر پہنچے تو وہاں شگفتہ ،شاداب اور پرسکون چہرہ ،مردانہ وجاہت کی مکمل تصویر دیکھ کر چار سال پہلے کی ملاقات ذہن میں گھوم گئی -آپ کو دیکھتے ہی محمّد عظیم صاحب نے آپ کو سینے سے لگالیا  پیشانی پر بوسہ دیا اور آنکھوں کو چوما- آپ پہلی مرتبہ وصال کی لذت سے آشنا ہوئے -

اس ملاقات کے بعد مستقل ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا -خواجہ صاحب مصروفیات سے فارغ ہونے کے بعد روزانہ شام کو دفتری اوقات کے ختم ہونے سے کچھ منٹ پہلے ماہنامہ نقاد کے دفتر کے سامنے ان کے انتظار میں کھڑے ہوجاتے -وہاں سے دونوں رتن تالاب صدر جاتے -رتن تالاب صدر کراچی میں علم دوست حضرات جمع ہوتے تھے -روحانیت پر سیر حاصل گفتگو ہوتی اور مغرب کی نماز کے بعد آپ دونوں وہاں سے بس میں بیٹھ کر  1 ڈ ی 1 /7     ناظم آباد آجاتے تھے - 



گھریلو زندگی

   
  محمّد عظیمؒ ناگپور میں مقیم تھے کہ آپ کی والدہ کا انتقال ہوگیا -      محمّدعظیؒم  اپنے بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھے -آپ سے بڑی ایک بہن تھی -والدہ کے انتقال کے وقت آپ کے چھوٹے بہن بھائی کم عمر تھے ،اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی کفالت کی ذمہ داری حضرت محمّد عظیمؒ نے سنبھال لی -اسی دوران دہلی میں حضرت بابا تاج الدین ناگپوریؒ کے ایک عقیدت مند کی صاحبزادی بلقیس بی سے آپ کی شادی ہوئی - 

اولاد        

 حضرت محمّد  عظیمؒ   اور محترمہ بلقیس بی کے صاحبزادے اور صاحبزادیاں اپنے والد اور والدہ کو ابّا اور اماں کہہ  کر پکارتے تھے -سلسلہ عظیمیہ کے وابستگان حضرت محمّد  عظیمؒ    کو بھائی صاحب ،حضور بھائی صاحب اور بعض حضرات بابا صاحب کہا کرتے تھے -


ایک روز اماں جی نے بتایا کہ ان کے ہاں بارہ بچوں کی ولادت ہوئی تھی ان کے اسماء گرامی حسب ذیل ہیں -

محمّد اعظم -آباد احمد -آفتاب احمد -شمشاد احمد -رؤف احمد -

عالیہ خاتون -کمال خاتون -سلیمہ خاتون -تسلیمہ خاتون -نعیمہ خاتون -شمیمہ خاتون -کلیمہ خاتون -



 قدرت اپنے منتخب بندوں کو طرح طرح کے امتحانات اور آزمائشوں میں بھی مبتلا کرتی ہے -حضرت محمّد عظیمؒ کے سات بچے اپنی عمروں کے ابتدائی ماہ و سال میں ہی انتقال کر گۓ -

یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ یکے بعد دیگرے کم سن اولاد کی متواتر اموات نے حضرت محمّدعظیمؒ   اور ان کی اہلیہ کو کس درجہ دکھ اور کرب میں مبتلا کیا ہوگا -حضرت محمّد عظیمؒ اور محترمہ بلقیس بی کے پانچ بچوں نے جوانی کی دہلیز پار کی -


قدرت کو اپنے خاص بندہ محمّدعظیمؒ   کے صبر کا ابھی مزید امتحان لینا تھا -ان کے بڑے صاحبزادے آفتاب احمد عین عالم جوانی میں ستائیس برس کی عمر میں 14 اپریل 1963ء کو کراچی  سے چند میل دور گھارو ضلع ٹھٹھہ میں ایک ٹریفک حادثہ میں شدید زخمی ہوکر ٹھٹھہ کے ایک اسپتال میں جاں بحق ہوگئے -آفتاب احمد ابھی غیر شادی شدہ تھے -



ہونہار جواں سال بیٹے کی حادثاتی موت نے حضرت سید محمّد  عظیمؒ   کو شدید دکھ اور صدمہ میں مبتلا کیا لیکن آپ نے اس المناک سانحہ کو نہایت صبر سے برداشت کیا اور الله کی رضا پر راضی رہے-   حضرت سید محمّدعظیمؒ   کے بقید حیات دو صاحبزادوں اور دو صاحبزادیوں کے نام حسب ذیل ہیں -


سلیمہ خاتون -شمشاد احمد -تسلیمہ خاتون -رؤف احمد -

ہجرت

تقسیم ہند کے بعد حضرت سید محمّد عظیمؒ اپنے والد ،رفیقہ حیات ،بچوں اور اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ ہجرت کرکے پاکستان آگۓ -کراچی میں رہائش اختیار کی -ہجرت کے ابتدائی دنوں میں کراچی میں لیمارکیٹ کے علاقے میں ایک خستہ و بوسیدہ مکان کرائے پر لے لیا -

کچھ عرصے کے بعد خان بہادر عبدالطیف ،کمشنر بحالیات مقرر ہوئے جو بابا تاج الدین   ناگپوریؒ   کے عقیدت مند تھے اور حضرت محمّد  عظیمؒ   کو جانتے تھے ،انہوں نے آپ سے کہا کہ ایک درخواست لکھ کر دے دیجیۓ تاکہ آپ کے لئے کوئی اچھا سا مکان الاٹ کردیا جاۓ - 


محمّدعظیمؒ صاحب نےخان بہادرکی اس درخواست پر توجہ نہیں دی اور اسی مکان میں رہتے رہے -کچھ عرصہ بعد آپ نے عثمان آباد شو مارکیٹ کے علاقہ میں رہائش اختیار کی -60 ء کے آخری برسوں میں کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں حیدری کے مقام پر رہائش پزیر ہوۓ اس مکان میں ہی آپ کا انتقال ہوا -  





روحانی تعلیم و تربیت

       علی گڑھ میں قیام کے دوران آپ کی طبیعت میں درویشی اور تصّوف کی جانب میلان بڑھ گیا -وہاں ایک قبرستان کے قریب حجرے میں مولانا کابلیؒ نامی بزرگ رہا کرتے تھے -محمّدعظیؒم اکثر وہاں آنے جانے لگے ،اسی اثناء میں محمّد  عظیؒم  اپنے نانا بابا تاج الدین  ناگپوریؒ    کی خدمت میں حاضر ہوئے-  

Baba Tajuddin Nagpuri r.a.
نانا نے انہیں وہاں روک لیا -حضرت سید محمّد  عظیؒم  کے والد صاحب کو جب یہ پتہ چلا تو وہ ناگپور تشریف لے گۓ اور بابا تاج الدین  ناگپوریؒ     سے عرض کیا کہ اس کی تعلیم نامکمل رہ جاۓ گی ،اسے واپس علی گڑھ بھیج دیجئے -بابا صاحب نے فرمایا کہ اس کو اگر اس سے زیادہ پڑھایا گیا  جتنا یہ اب تک پڑھ چکا ہے تو یہ میرے کام کا نہیں رہے  گا- حضرت محمّدعظیؒم   کے والد صاحب نے مشفق باپ کی طرح بیٹے کو سمجھایا اور جب یہ دیکھا کہ بیٹے کا میلان طبع فقر کی طرف مائل ہے تو انہوں نے فرمایا " بیٹے ! تم خود سمجھدار ہو جس طرح سے چاہو اپنا مستقبل تعمیر کرو -"
               حضرت سید محمّدعظیؒم  اپنے نانا تاج الدین اولیا ناگپوریؒ کے پاس نو سال تک مقیم رہے -نو سال کے عرصے میں بابا تاج الدینؒ نے ان کی روحانی تربیت فرمائی -   
                حضور بابا تاج الدین  ناگپوریؒ   نے 26 محرم الحرام 1344ھ  مطابق 17 اگست 1925ء   کو وصال فرمایا -آپ کے وصال کے وقت حضرت محمّد عظیؒم   کی عمر ستائیس برس تھی -

بدھ، 25 ستمبر، 2013

حالات زندگی

  

  حضرت سید محمّد عظیم برخیؒا  کے ابتدائی حالات زندگی  


حضرت سید محمّد عظیم برخیؒا کا سن ولادت 1898ء ہے-آپ یوپی(بھارت) کے ضلع بلند شہر کے قصبہ خورجہ میں پیدا ہوئے -آپ کے والد صاحب کا نام حسین مہدی بدیع الدینشیردل  ہے اوروالدہ صاحبہ کا نام محترمہ سعیدہ ہے-محترم شیردل صاحب اورمحترمہ سعیدہ صاحبہ کی اولاد میں حضرت محمّد عظیمؒ کا نمبر دوسرا تھا -

 برصغیر پاک و ہند کےمعروف روحانی بزرگ حضرت بابا تاج الدین ناگپوریؒ ،سید محمّد عظیؒم کی والدہ سعیدہ صاحبہ کے دادا کے بھتیجے تھے -

اس لحاظ سے بابا تاج الدین ناگپوریؒ حضرت محمّد عظیمؒ کے رشتے کے نانا تھے - 




 سید محمّد عظیمؒ  نے قران پاک اور ابتدائی تعلیم اپنے محلہ کے مکتب میں حاصل کی -آپ بچپن ہی سے ذہین،باادب ،خلیق،ملنسار اور اچھے برے کا خیال رکھنے والے تھے -پڑھنے کے وقت نہایت توجہ سے پڑھتے -ساتھیوں کے ساتھ محبت اور خلوص سے پیش آتے -

         
 حضرت محمّد عظیمؒ   نے ابتدائی تعلیم خورجہ میں حاصل کرنے کے بعد ہائی اسکول تک بلند شہر میں تعلیم حاصل کی اور پھر انٹر میں داخلہ علی گڑھ کالج میں لے لیاعلی گڑھ کالج کچھ عرصے بعد( 1922ء) میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تبدیل ہوا -


Aligarh Muslim University



اسم گرامی

ابدال حق امام سلسلہ عظیمیہ حضور بابا صاحبؒ کا پورا نام ہے 

حسن اخریٰ سید محمّد عظیم برخیا    المعروف   حضور قلندر بابا اولیاؒء

حسن اخریٰ : 

     حضور بابا صاحب کا خطاب ہے -یہ خطاب بطریق اویسیہ سیدنا حضورعلیہ الصلوة والسلام کی بارگاہ اقدس سے عطا ہوا ہے اور بارگاہ رسول صلی الله علیہ وآ له وسلّم میں ان ہی مقدس کلمات سے بابا صاحب مخاطب فرماۓ جاتے ہیں -

سید محمّد عظیم :  

   حضور بابا صاحب کی پیدائش کے بعد رکھا گیا تھا -آپ نجیب الطرفین سادات ہیں اور آپ کا خاندانی سلسلہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے جاملتا ہے -

برخیا :

  حضور بابا صاحب نے اپنی شاعری میں " برخیا " کا تخلص اختیار کیا-

قلندر بابا اولیاءؒ :

 حضور بابا صاحب کا عرف ہے -مرتبہ قلندریت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے ملائکہ ارضی و سماوی اور حاملان عرش میں " قلندر بابا اولیؒاء " کے نام سے مشہور ہیں اور یہی عرفیت زبان زد عام ہے -   

Huzoor Qalandar Baba Auliya r.a


منگل، 24 ستمبر، 2013

قلندر

قبل اس کے ہم حضور قلندر بابا اولیاؒ کے حالات اور کشف و کرامات پیش کریں مناسب ہے کہ لفظ " قلندر " کی وضاحت کردی جاۓ تاکہ ان کے مقام کا اندازہ ہو جاۓ اور ان سے وقوع میں آنے والے واقعات سمجھ لینے اور ان پریقین کرلینے میں ذہن وخیال ،ارادے اور نیّت کو یکسوئی حاصل ہوجاۓ-
         
  ایسا انسان جس کے دیدۂ اعتبار اور چشم حقیقت کے سامنے ہر شے کی شیٔت آٹھ گئی ہو اور وہ مراتب وجود کو سمجھ کر ان میں عروج کرتا رہے ،یہاں تک کہ عالم تکوین سے بالا قدم رکھے اور مقام وحدانیت کے مشاہدے میں غرق رہ کر احدیت کی تفصیل میں عین وحدت کا جمال مشاہدہ کر کے مقام وحدت کی مستی اور بےکیفی میں گم رہتے ہوئے مرتبہ احدیت پر واپس آجاۓ -اس کے بعد اپنے مراتب سے جدا ہوئے بغیر احدیت کے مشاہدے میں محو رہے پھر انسانی مرتبے پر پہنچ کر عبودیت کا مقام حاصل کرے یہاں تک کہ اس کا عروج و زوال ایک ہوجاۓ -جزو میں کل اور کل میں جزو کو دیکھے -پھر ان تمام سے مستغنی ہو کہ حیرت محمودہ یعنی سرور میں رہے   تو اس کو " قلندر " کہتے ہیں-


یہ قلندر کا مقام محبوبیت کے مقام سے بھی اعلیٰ ہے کیونکہ محبوبیت کے مقام میں پھر بھی دوئی باقی رہتی ہے کہ ایک عاشق ،دوسرا معشوق ہوتا ہے لیکن قلندری کا مقام یہ ہے کہ یہاں دوئی بلکل نہیں رہتی-

                               من تو شدم تو من شدی 
کا معاملہ بن جاتا ہے -الله تعالیٰ نے کلام مجید فرقان حمید میں ہادیٔ کونین  محمّد مصطفیٰ صلی الله علیہ وآ له وسلّم کے اس مقام کی خبر دی ہے -چنانچہ ایک موقع پر ارشاد فرمایا ہے :
                     
                        ید الله فوق ایدیھم 


ان کے ہاتھوں پر الله کا ہاتھ ہے  ( سوره فتح -آیت -١٠ )



حالانکہ بیعت کے وقت صحابہ کرامؓ کے ہاتھ پر نبی صلی الله علیہ وآ له وسلّم کا ہاتھ تھا -وحدت کے لحاظ سے یعنی دوئی باقی نہ رهنے کے اعتبار سے نبی  صلی الله علیہ وآ له وسلّم کے ہاتھ کو رب ذوالجلال نے اپنا ہاتھ قرار دیا ہے -ایک اور جگہ حضرت حق جل جلالہ   فرماتے ہیں :


  ترجمہ :   اے نبی  صلی الله علیہ وآ له وسلّم ! آپ نے جب خاک اٹھا کر پھینکی تو وہ آپ نے خاک اٹھا کر نہیں پھینکی بلکہ وہ  الله نے خاک اٹھا کر پھینکی تھی -( سوره الانفال -آیت-١٧ )


یہاں پر بھی الله تعالیٰ نے نبی صلی الله علیہ وآ له وسلّم  کے فعل کو اپنا فعل قرار دیا ہے -

الله تعالیٰ اپنے جس بندے کو قلندری کا مقام عطا کرتا ہے تو وہ زمان و مکان (Time & Space) کی قید سے آزاد ہوجاتا ہے اور سارے ذی حیات اس کے ماتحت کردیے جاتے ہیں اور کائنات کا زرہ زرہ اس کے تابع فرمان ہوتا ہے لیکن الله کے یہ نیک بندے غرض ،حرص اور لالچ سے تو کب کے رخصت ہوچکے ہوتے ہیں اس لئے جب خدا کی مخلوق ان کی خدمت میں کوئی گزارش پیش کرتی ہے تو اس کو سنتے بھی ہیں اور اس کا تدارک بھی کرتے ہی کیوں کہ انہیں قدرت نے اسی کام کے لئے  مقرر کیا ہے -   
یہی وہ پاکیزہ اور قدسی نفس الله کے بندے ہیں جن کے بارے میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے :



 " میں اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہوں اور ان کے کان ،آنکھ اور زبان بن جاتا ہوں -پھر وہ میرے ذریعے سنتے  ہیں اور   میرے ذریعے   بولتے ہیں اور میرے ذریعے چیزیں پکڑتے ہیں -" (صحیح بخاری -حدیث -1422 )


پیر، 23 ستمبر، 2013

نورانی لوگ

ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء سیدنا حضور علیہ الصلوة والسلام کے آسمان علم و آگاہی میں ایک ایسا درخشندہ ستارہ ہیں جن  کے بارے میں حضور اکرم   صلی الله علیہ وآ له وسلّم کا ارشاد ہے :

  "  میں اپنے بعد الله کی کتاب اور اپنی اولاد چھوڑ کر جا رہا ہوں " 
 نورانی لوگوں کی باتیں بھی روشن اور منور ہوتی ہیں -زندگی میں ان کے ساتھ ایک لمحے کا تقرب سو سالہ طاعت بے ریا سے  افضل ہے اور عالم قدس میں چلے جانے کے بعد ان کی یاد ہزار سالہ طاعت بے ریاسے اعلیٰ اور افضل ہے کہ ایسے مقرب بارگاہ بندوں کے تذکرے سے آدمی کا انگ انگ الله تعالیٰ کی قربت کے تصّور سے رنگین ہوجاتا ہے  


ارشاد باری ہے :


اے نبی صلی الله علیہ وآ له وسلّم گزشتہ رسولوں کے واقعات اس لئے آپ  صلی الله علیہ وآ له وسلّم   کے سامنے بیان کرتے ہیں تاکہ آپ صلی الله علیہ وآ له وسلّم کے قلب کو سکون حاصل ہو اور آپ  صلی الله علیہ وآ له وسلّم  کا قلب قوی ہوجاۓ -(سورہ ھود -آیت ١٢٠ )


 لازوال ہستی اپنی قدرت کا فیضان جاری و ساری رکھنے کے لئے ایسے بندے تخلیق کرتی رہتی ہے جو دنیا کی بے ثباتی کا درس دیتے رہتے ہیں -خالق حقیقی سے تعلق قائم کرنا اور آدم زاد کو اس سے متعارف کرانا ان کا مشن ہوتا ہے -

بدھ، 18 ستمبر، 2013

پِیش لفظ


بسم الله الر حمن الر حیم  

الحمد للہ ر ب العالمین و الصلوة و السلام علی ٰ سید المر سلین محمّد و علیٰ آ له و اصحابه اجمعین  ૦

 امّابعد 

الا ان اولیا ٕ الله لا خوف علیھم و لاهم یحز نون ۃ 


ﷲ تعا لیٰ نے آدم اور حوا کو پیدا کیا   پھر نسل آدم پھیلا نے کے لۓ زمین پر بھیج دیا -اس رب زولجلال کی مرضی اور منشا کے مطابق آدمی کی تخلیق کا سلسلہ برابر جاری ہے-

 

 جیسے جیسے آبادیاں اور گروہ بڑھتے گیۓ آدمی کی ضرورتوں میں اضافہ ہوتا رہا -دن مہینے اور سال گزرتے  گزرتے صدیاں اور قرن بننے لگے-لوگوں کی ہدایت کے لئے نبیوں پر صحیفے آنے لگے -جب یہ قافلے اور قبیلے زیادہ پھیل گۓ تو توریت ،زبور ،انجیل  اور سب سے آخر  میں قرآن مجید فرقان حمید کا نزول ہوا اور خداوندی ہدایت کا سلسلہ مکمّل ہوگیا -

روایت ہے کہ دنیا میں اب تک کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آ چکے ہیں -سب سے آخری نبی حضرت محمّد مصطفیٰ صلی الله علیہ وآ له وسلّم ،دونوں جہاں کے سردار ،ہادی دین مبین صلّ الله علیہ وسلّم  کی آمد،بعثت ،خدمت ،رہبری اور تکمیل انسانیت کے عمل پر دفتر کے دفتر  لکھے جا چکے ہیں لیکن وجد اور کیفیت اور معرفت اور روحانیت کی گلیوں کے باسی اپنی زبان سے یہی کہ رہے ہیں

                 ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی است           


 یہ کیا ہے ؟

مقام ادب ہے -مقام عجز ہے -انکساری کا اظہار ہے -اپنی بندگی اور بندگی کی بےبسی کا اقرار ہے -ان لوگوں کے دلوں پر انتہاۓ محبّت کا جذبہ سوار ہے-اس راہ میں گزرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں -


عشق کی ان پیچیدہ گھاٹیوں میں جو بھی جس کو گھمادے پھرادے ،در حبیب   صلی الله علیہ وآ له وسلّم کا جلوہ دکھا دے مرشد بزرگ آثار ہے اور جو عقیدت مند اپنی ارادت کا کشکول ان کے آگے رکھ کر پھر نہ ہلے ،نہ ٹلے ،لئے بغیر نہ رہے ،چھینےبغیر سانس نہ لے ،اپنی  ہر آس کو اپنے مرشد کی ہر سانس پر تج نہ  دے ،اس کی ہر ادا اور صدا کو اپنے دل کی قبا میں ٹانک نہ لے اور یقین کی عبا میں ڈھانک نہ لے وہ کیسے باز رہ سکتا ہے -


الله تعالیٰ واحد ہے ،احد ہے ،صمد ہے ،لم یلد ہے ولم یولد ہے اس کی اسی وحدانیت کا ہر مذھب نے راگ الاپا ہے-زمین پر کسی ایسے مذھب کا وجود نہیں ہے جس نے حق تعالیٰ کی وحدانیت سے منہ موڑا ہو یا اس کے وجود سے انکار کیا ہو-

صوفیاۓکرام اور اولیاۓعظام نے اس احدیت،صمدیت ،حقانیت اور وحدانیت کو سمجھانے اور سمجھنے کے لئے مختلف راستے اور طریقے اختیار کئیے ہیں-عام فہم انداز میں توحید اورمسٔلہ توحید،شریعت ،طریقت،حقیقت اور معرفت پر مشتمل ہے -رہبر جن و انس ،ہادی کون و مکان ،سرکار دو جہاں  صلی الله علیہ وآ له وسلّم فرماتےہیں 
                 
                من عرف نفسہ فقد عرف ربه 

 جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا 


اس عرفان نفس میں خواہشات کی معرفت نہیں ہے،بدن کی معرفت نہیں ہے ،اپنے عزیز و اقارب کی پہچان نہیں ہے،اپنے ماں باپ کی پہچان نہیں ہے،ساری دنیا کے علم کی پہچان نہیں ہے بلکہ یہ پہچان کرنی اور سمجھنی ہے کہ قدرت نے تجھے کیوں پیدا کیا ؟



تیرے اندر اس نے کون سا جوہر واحد چھپا کر تجھے عدم سے وجود میں بھیجا ہے مشیت  نے اپنے ارادوں میں تیرے اندر کون کون سی ہوشمندیاں ،دانیٔاں اور پیشوائیاں سجا بنا کر رکھی ہیں -کیا تجھے محض تیری اپنی ہی اکلوتی ذات کے لئے پیدا کیا ہے ؟

اگر ایک بندہ اپنی اس حقیقت کو جان لے کہ وہ خود اپنی ذات میں کیا کچھ ہے تو یہ سمجھ لو کہ اس بندہ نے خود کو پالیا ،پہچان لیا-اس وجدان کے میسّر آتے ہی شان رب ذوالجلال پورے جاہ و جلال کے ساتھ کارفرما نظر آنے لگے گی-   جب جزو نے کل کا مقصد حکم پالیا تو وہ جزو کہاں رہا -اس مقام پر جا پہنچا جس کا اخفا م میں رکھنا بیان کر دینے سے زیادہ ارفع ہے -
وحدت ربّانی اور وحدانیت یزدانی کے بارے میں ارشاد باری ہے


ترجمہ :     اور تمہارا رب اکیلا رب ہے ،کسی کی عبادت نہیں کرنا سواۓ اس کے وہ بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے اور بندگی کسی کو نہیں مگر ایک معبود کو -  (سورہ البقرہ-آیت ١٦٣ )



اس کے سوا کسی کو بندگی نہیں ،وہ زندہ ہے اور قائم رہنے والا ہے -   (سورہ آل عمران -آیت ٢ )



 حضرت جنید بغدادؒی فرماتے ہیں کہ علم توحید اس کے وجود سے جدا ہے اور اس کا وجود علم سے الگ -یعنی رب ذوالجلال علم کی حد سے باہر ہے  اتنا وسیع ہے کہ کوئی علم اس کا احاطہ یا اندازہ نہیں کرسکتا -



حضرت ابوبکر واسطیؒ  کا قول ہے کہ راہ خلق میں حق نہیں اور راہ حق میں خلق نہیں  یعنی یہ بندے جو اس کے ادراک کا دعویٰ کرنے لگتے ہیں ،اس کی ذات بشریت کے ادراک سے زیادہ ارفع و اعلیٰ ہے جس تک پہنچنا ناممکن ہے -




ایک مومن بننے کے لئے ہادئ برحق  صلی الله علیہ وآ له وسلّم کے بعد صحابہ کرام ،تابعین ،تبع تابعین اور پھر اولیاۓ کرام ہدایت اور رہبری کا ذریعہ رہے ہیں -



حضرت اویس قرنیؓ   کے بعد    شیخ محی الدین عبدالقادر 

جیلانیؓ،    حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ،      حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ،  حضرت بابا فرید گنج شکرؒ،    حضرت نظام الدین اولیاء محبوب الہیؒ،    حضرت صابر کلیریؒ،   حضرت بو علی شاہ قلندرؒ،   حضرت شیخ احمد سرہندی فاروقی مجدد الف ثانیؒ،   حضرت حافظ عبدالرحمن جامیؒ،   ملنگ باباؒ،   حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائیؒ،   حضرت سچل سرمستؒ،   حضرت لعل شہباز قلندرؒ اور بیشمار اولیاالله  دعوت حق دیتے رہے  ہیں   -


جنوبی ایشیا میں ان اولیاۓ کرام کی دینی اور روحانی خدمات وقت کے ساتھ ساتھ اور زیادہ روشن تر ہوتی چلی جارہی ہیں -ان بزرگوں کا  روحانی مشن مذھب و ملّت اور عقیدے کی حد بندیوں سے بلند  ہے-ہر مذھب اور ملّت کے لوگ اپنی اپنی ضرورتیں لے کر حاضری دیتے ہیں اور جب تک انہیں کامیابی کا اشارہ نہ مل جاۓ وہ جانے کا نام نہیں لیتے-



ان بزرگوں کو اس دنیا سے جدا ہوئے اگرچہ کئی صدیاں گزر گئی ہیں لیکن ان کے مزارات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی دفن     بھی نہیں ہوئے ہیں -  

  قدرت اپنے پیغام کو پہنچانے کے لئے دئیے سے دیا جلاتی رہتی ہے-معرفت کی مشعل ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوتی رہتی ہے -آخر یہ قطب،غوث ،ولی ،ابدال ،صوفی ،مجذوب اور قلندر سب کیا ہیں -
یہ قدرت کے وہ ہاتھ ہیں جو روحانی روشنی کی مشعل کو لے کر چلتے رہتے ہیں -اس روشنی سے اپنی ذات کو بھی روشن رکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی روشنی کا  انعکاس دیتے ہیں -
صرف تاریخ نہیں بلکہ لوگوں کے دلوں پر ان بزرگوں کی ایسی ایسی داستانیں اور چشم دید باتیں اب تک زندہ اور محفوظ ہیں جن کی دعاؤں سے مردوں کو زندگی ،بیماروں کو شفا ،بھوکوں کو غذا،دکھیوں کو عطا ،غریبوں کو زر،بےحال لوگوں کو بال و پر ،بے سہارا اور بےکس لوگوں کو اولاد اور مال و متاع کے انعامات ملتے رہتے ہیں-
       
 قرآن پاک میں بیان کیا گیا ہے کہ الله کی سنّت میں نہ تبدیلی ہوتی ہے اور نہ تعطل واقع ہوتا ہے -اس قانون کے تحت ازل سے ابد تک الله کی سنّت کا جاری رہنا ضروری ہے -چونکہ حضور خاتم النبیین  صلی الله علیہ وآ له وسلّم پر پیغمبری ختم ہو چکی ہے ،اس لئے فیضان نبوت کو جاری و ساری رکھنے کے لئے سیدنا حضور علیہ الصلوة والسلام کے وارث اولیااللہ کا ایک سلسلہ قائم ہوا جن کے بارے میں قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد ہے 
         
    الا ان اولیا ءالله لا خوف علیھم و لا ھم یحزنون ૦      
 
  اللّہ کے دوستوں کو خوف ہوتا ہے اور نہ وہ غم آشنا زندگی سے مانوس ہوتے ہیں -(سورة یونس -آیت ٦٢ )